ہم نے مدرسہ کو آئین کے ساتھ کھڑا رکھنے کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں، لیکن آج ریاست مدرسہ کو انتہا پسندی اور شدت پسندی کی طرف لے جانے پر مجبور کر رہی ہے، اور ہمارا چہرہ بدنما بنا کر پیش کرنے کے منصوبہ بنائے جارہے ہیں،ریاست نے خود مدارس کے خلاف محاذ کھڑا کیا ہے لیکن ہم مدارس کے بقاء کی جنگ لڑتے رہیں گے۔ انشاءاللہ

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جامعہ عثمانیہ میں تقریب سے خطاب

7 دسمبر 2024

الحمدلله رب العالمین والصلوۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین وعلی آله وصحبه ومن تبعهم بإحسان إلی یوم الدین اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ۔ صدق الله العظیم

برادر مکرم حضرت مفتی غلام الرحمن صاحب دامت برکاتہم، ان کے رفقا، معتمدین جامعہ، حضرات علمائے کرام، بزرگان ملت، طلبائے عزیز، میرے لیے انتہائی سعادت کی بات ہے کہ جامعہ عثمانیہ کے اس احاطے میں علماء اور طلباء کے اس پر وقار مجلس میں آپ کے ساتھ شریک ہو رہا ہوں، اللہ رب العزت ہماری اس مجلس کو اور اس نشست کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور اسے دین متین کی تقویت اور اس کی فتح کا ذریعہ بنائے۔ میں انتہائی شکر گزار بھی ہوں کہ جس انداز میں ہمیں خوش آمدید کہا گیا جس نظم و ضبط کے ساتھ استقبال کیا گیا میں اس عزت افزائی پر بھی جامعہ کا جامعہ کے تمام کارپردازگان کا اور حضرت مفتی صاحب کا تہہ دل کے ساتھ ممنون ہوں۔ ہر چند کہ میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا اور آپ حضرات کی موجودگی میں میں اپنے آپ کو ایک طالب علم محسوس کر رہا ہوں، میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے آپ جیسے حضرات علماء کرام کی رہنمائی حاصل ہے، میرے لیے یہ کافی ہے کہ مجھے آپ جیسے حضرات کا اعتماد حاصل ہے۔

دو قسم کے فتنے امت پر حملہ اور ہوتے ہیں، چاہے برصغیر میں انگریز کی حکومت تھی یا آج اس وقت مغرب کی دنیا ہے، ایک فتنہ الحاد کا ہے کہ اس دین اسلام کی حقیقی تصویر کو مسخ کر دیا جائے اور جدیدیت کے نام پر اسلام کے مسخ چہرے کو امت مسلمہ کے لیے قابل قبول بنایا جائے، اس سے بڑھ کر دوسرا فتنہ ارتداد کا ہے کہ دین اسلام سے لوگ منہ پھیر لیں اس کا انکار کر دیں اس کا بغاوت کر دیں، اس الحاد کو روکنا اور فتنہ ارتداد کو روکنا آج کل یہ عظیم الشان ذمہ داری ہمارے دینی مدارس ادا کر رہے ہیں۔ ہمارے علماء کرام اپنے ذہن سے اور اپنے شخصی فکر کے ساتھ قرآن کریم کی تشریح اس کی توضیح اور تبیین نہیں کرتے بلکہ قرآن کریم کی تشریح و تبیین وہی کرتے ہیں جو ان کو سند سے ملی ہیں اور جس کی سند جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہے، ان مدارس میں حدیث پڑھائی جاتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احادیث کی تشریح کی جاتی ہے اکابر کی تشریحات کی روشنی میں جو تشریح ان کو سند سے ملی ہے وہ امت کے حوالے کرتے ہیں اس سے وہ امت کی رہنمائی کرتے ہیں اور ایک زمانے سے یہاں ایک نئے نظریے نے اور نئی فکر نے جنم لیا کہ یہ تو ایک دقیانوسی اسلام پیش کرتے ہیں، قدیم اسلام ہے اور یہ تو قرآن کریم کے پرانے قصے بیان کرتے ہیں، یہ تو اساطیر الاولین ہیں، اور اپنے من میں ایسی ایسی تشریحات جو ان کے اپنی ذہنی تخلیق ہوا کرتی ہیں وہ تصویر وہ تشریح وہ اسلام وہ دین جو مغرب کے لیے قابل قبول ہو وہ نوجوانوں کے دل و دماغ میں ڈالتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت تمام دینی مدارس کو دباؤ میں رکھا گیا ہے تاکہ ان کو مجبور کیا جائے، مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہم عصری علوم کے قائل نہیں بلکہ اگر مجھ سے پوچھا جائے تو میں تو علم کی اس تقسیم کے بھی خلاف ہوں یہ دینی تعلیم ہے اور یہ عصری تعلیم ہے یہ قدیم تعلیم ہے اور یہ جدید تعلیم ہے، علم علم ہے اور علم وہی جو اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کو عطا کیا وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء كُلَّهَا اللہ نے حضرت ادم کو سب چیزوں کے نام بتلا دیے اور نام محض نام نہیں بلکہ ہر چیز کو اس کے نام کے ساتھ جو مشخص کیا، اس کے صفات کے ساتھ بھی مشخص کیا، کس اعتبار سے یہ چیز کارآمد ہے، کس اعتبار سے یہ چیز نقصان دہ ہے، ان کے منافع کو کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے، اکتساب منافع کس طرح کیا جائے گا اور اس کے نقصانات سے اور نقصانات کے پہلوؤں سے ہم کس طرح اپنے آپ کو بچا سکیں گے، یہ تمام چیزیں حضرت آدم کو عطا کی گئی اور جب تمام چیزیں چاہے اس کا تعلق فلکیات کے ساتھ ہو، چاہے اس کا تعلق ارضیات کے ساتھ ہو، چاہے اس کا تعلق علویات کے ساتھ ہو، چاہے اس کا تعلق سفلیات کے ساتھ ہو، ہمہ قسم کے علوم ذرہ ذرہ کے حضرت آدم کو عطا کئیں اور حضرت آدم علیہ السلام کو جب سب چیزوں کا علم دے دیا گیا تو اس کا معنی یہ ہے کہ بنی آدم کے اندر سب چیزوں کا علم حاصل کرنے کا استعداد عطا کر دیا گیا، اب انسان آگے بڑھتا جائے گا اور ایجادات، انکشافات، تخلیقات کا عمل چلتا رہے گا اور ہزار سال پہلے انسان کہاں کھڑا تھا آج انسان کہاں کھڑا ہے، کیا ایک مسلمان پھر دین اسلام کا عالم قرآن و حدیث پڑھانے والا کیا ان جدید علوم، سائنسی علوم، نئی ایجادات، نئی تخلیقات ان کا انکار کر سکتا ہے؟ یہ تو انبیاء کے علوم ہیں، حضرت نوح علیہ السلام کو اللہ تعالی نے لکڑیوں کا علم عطا کیا آپ نے کشتی بنائی اگر یہ علم آپ کے پاس نہ ہوتا آپ اتنا بڑا جہاز کیسے بناتے، حضرت داوٗد علیہ السلام کو لوہا بنانا زرہ بنانا لوہے کے آلات بنانا اس کا علم عطا کیا، حضرت سلیمان کو اللہ نے بادشاہ گری نظام اقتدار ہر چیز پر تسخیر یہ قوت آپ کو عطا کی، حضرت یوسف علیہ السلام کو حساب اور ریاضی کا علم عطا کیا اور اپنی خدمات خود پیش کی کہ مصر کی معیشت میرے حوالے کی جائے، آج ہم اس کو جدید علوم کہتے ہیں کیا یہ انبیاء کے علوم نہیں ہے، اور پھر میں چیلنج کرتا ہوں ان جدید دور کے لوگوں کو کہ آئیں میرے مدرسے کا طالب علم کالج یونیورسٹی کے نصاب کا امتحان دیتا ہے اس کی شرح بھی نکالی جائے کہ ہمارا کتنا فیصد نوجوان عصری علوم حاصل کر رہا ہے اور تم بھی لاؤ اپنا حساب کہ تمہارے بچے کتنی تعداد کے ساتھ دینی علوم حاصل کر رہے ہیں، ہماری شرح بہت زیادہ ہے اور یہ عقل کا بھی تقاضہ ہے کہ اگر میں اپنے بیٹے کے لیے انگریزی پڑھانا سائنس پڑھانا معاشرتی علوم پڑھانا جغرافیائی پڑھانا مفید سمجھتا ہوں تو امت کے بچوں کے لیے کیوں مفید نہیں سمجھوں گا، کیا دارالعلوم دیوبند نے ان عصری علوم کا انکار کیا یا علی گڑھ نے دینی علوم کا انکار کیا ہے؟ تاریخ بھی تو پڑھیے نا مدرسہ کیوں وجود میں آیا؟ اور جو مدرسہ برصغیر میں ہیں یہ خود 1857 سے پہلے برصغیر میں کیوں نہ تھا؟ اور جو مدرسہ برصغیر میں ہے یہ مدرسہ برصغیر سے باہر کیوں نہیں ہے؟ اس پر بھی سوچنا چاہیے اسلام تو ہر جگہ ہے علماء تو ہر جگہ ہے۔ میں آج بھی کہنا چاہتا ہوں کہ میری بیوروکریسی میری اسٹیبلشمنٹ جتنی بھی خوشنما خوبصورت اور معصوم الفاظ میں میرے ساتھ ہمدردی کے الفاظ استعمال کریں ہمدردی کے جملے میرے سامنے رکھیں ہم تو مدارس کو مین سٹریم میں لانا چاہتے ہیں ہم تو دینی مدارس کے فضلاء کو مختلف شعبوں میں کھپانا چاہتے ہیں ہم تو دینی مدارس کے فضلاء کو باروزگار بنانا چاہتے ہیں یہ گڑ میں وہ زہر ہے جو دے کر آپ درحقیقت ہمارا قتل عام کا انتظام کر رہے ہیں، ہمیں آپ پر کوئی اعتماد نہیں ہے۔ یہ پشاور شہر ہے جس میں ہم بیٹھے ہیں یہاں پر اسلامیہ کالج ہے جب اس کا قیام ہوا تھا تو اس کا نام دار العلوم الاسلامیہ تھا لیکن سرکار نے اس کا کیا حال کر دیا یہ سرکاری مدرسہ تھا پھر اسلامیہ کالج بن گیا، آج دوسری کالجز اور اس کالج میں کوئی فرق ہے؟ بہاولپور میں نواب بہاولپور نے جس جامعہ کی بنیاد رکھی تھی اور جس میں حضرت مولانا شمس الحق افغانی رحمت اللہ علیہ کے درجے کے علماء درس دیا کرتے تھے جب سرکار نے اس پر قبضہ کیا آج ذرا پوچھو تو سہی وہاں دینی علم کا کوئی نام و نشان ہے؟ تمہارے ہاتھوں تو اب تک جو دینی مدارس آپ کے ہاتھ میں آئے ہیں آپ نے وہاں کی دینی علم کا خاتمہ کر دیا ہے، مزید ہم اپنے مدرسے آپ کے حوالے کر دیں، ہم دینی مدارس کو حکومت کے اثر و نفوس سے آزاد رکھنا چاہتے ہیں یہ بنیادی اصول ہے لیکن ریاست سے تصادم نہیں چاہتے، ہم کہتے ہیں ہمارے رجسٹریشن کراؤ اور آپ کہتے ہیں نہیں ہم آپ کے رجسٹریشن نہیں کریں گے، ہم کہتے ہیں ہمارے بینک اکاؤنٹس کھولو آپ ہمارے بینک اکاؤنٹس بند کرتے ہیں، اب آپ مجھے بتائیں کہ جب ادارہ رجسٹرڈ ہوگا وہ ریاست کے لیے مفید ہوگا یا اگر وہ رجسٹر نہیں ہے تو پھر ریاست کے لیے مفید ہوگا؟ ہم تو مملکت کے نظام میں ہیں رہنا چاہتے ہیں، بندوق ہے جب اس کا لائسنس ہوگا تو پھر اس صورت میں اس کے نقصانات کے کا پہلو بہت مختصر ہو جاتا ہے اور اگر بغیر لائسنس کے اسلحہ ہو تو خطرات کا پہلو زیادہ غالب آجاتا ہے، آپ کو کہنا چاہتا ہوں حکمرانوں کو کہنا چاہتا ہوں اسٹیبلشمنٹ کو کہنا چاہتا ہوں بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کو کہنا چاہتا ہوں بیوروکریسی کو کہنا چاہتا ہوں کہ آپ میرے مدرسے کو شدت کی طرف دھکیل رہے ہیں، آپ میرے مدرسے کو انتہا پسندی کی طرف ڈھکیل رہے ہیں، یہ تو ہم ہیں جو قابو ہیں اور طے کرتے ہیں کہ نہیں ہم نے آئین اور قانون کے تحت چلنا ہے اور ہم نے پاکستان کی ریاست کے ساتھ چلنا ہے۔ الٹی باتیں کرتے ہو الزامات لگاتے ہو، ہمارے خوبصورت چہرے کو آپ بدنما انداز سے پیش کرتے ہو، کوئی ایسا فورم نہیں ہے جہاں اس بات پر بھی بحث کی جائے کہ دہشتگردی آپ پیدا کر رہے ہیں یا دہشت گردی ہم پیدا کر رہے ہیں؟ بس میڈیا ہے اور زور زبردستی سے اصطلاحات ہیں گھڑے جا رہے ہیں اور ہم پر مسلط کیا جا رہے ہیں، تو میرے بھائیو یہ ایک جنگ ہے اگر آپ نے الحاد کے راستے روکنے ہیں جدیدیت کے نام پر الحاد کا راستہ روکنا ہے جدیدیت کے نام پر ارتداد کا راستہ روکنا ہے تو پھر مدرسے کی بقا اس کے لیے لازم ہے اور حتمی لازم ہے، پھر اس مدرسے کی بقا کی ہم جنگ لڑ رہے ہیں، ہم نے آپ کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا آپ نے ہمارے خلاف اعلان جنگ کیا ہے، ہم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی اطاعت کرتے ہیں
سَلُوا اللَّهَ العَافِيَةَ، ولا تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاثبِتُوا
اللہ سے عافیت مانگا کرو، دشمن کا سامنا کرنے کی خواہش نہ کیا کرو اور اگر سامنا ہو جائے تو پھر ڈٹ جایا کرو سو اب سامنا ہو چکا ہے سو ہم ڈٹے ہوئے ہیں ان شاء اللہ العزیز اور آپ سمجھتے ہیں ہم تھک جائیں گے وہ تم نے یہ سبق نہیں پڑھا یہ سبق ہم نے پڑھا ہے حدیث کی کتابوں میں یہ درس ہم نے پڑھا ہے کہ
اَلْجِهَادُ مَاضٍ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
تو ہم تو قیامت تک دین اسلام کے لیے جدوجہد کرنے کے قائل ہیں ہم تھکیں گے کب اور کیوں تھکیں گے، اسی راستے سے تو ہم نے جنت میں پہنچنا ہے تو مایوسی کی کوئی بات نہیں۔

میرے محترم دوستو! یہ جن باتوں کا یہاں ذکر کیا گیا الیکشن سے پہلے پی ڈی ایم کی حکومت بنی پاکستان پیپلز پارٹی اس میں شامل تھی میاں شہباز شریف صاحب وزیراعظم تھے ہم نے ان کے سامنے مسئلہ رکھا اس پر بات چیت کا آغاز ہوا حکومت میں شامل پارٹی سربراہان کا اجلاس ہوا اور طویل بحث کے بعد اس بات پر اتفاق ہوا اس بات پر کہ مدارس کو اختیار ہوگا وہ جس وفاق میں چاہیں اپنا رجسٹریشن کرائیں کیونکہ انہوں نے وفاق توڑے تھے نا اور یہ جو کچھ سرکاری وفاق بنے تھے ہم نے ان پر بھی انکار نہیں کیا ہم نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے جو مدارس مدارس کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے ذمہ دار بنے تھے اور کہیں سے فیض یاب ہوئے تھے ہم نے ان کو بھی قبول کر لیا اور ہم نے کہا آئیے وہ جہاں چاہیں کریں، پھر ڈرافٹ بنا اور 1860 کی سوسائٹی ایکٹ کے تحت ہم نے اس میں ایک شق نمبر 21 کا اضافہ کیا اور اس اضافے کے ساتھ ہم نے ڈرافٹ تیار نہیں کیا حکومت نے تیار کیا اور پھر وہ ہمارے پاس بھیجا گیا تمام تنظیمات مدارس دینیہ نے جس مکتب فکر سے بھی متعلق ہے ہم سب نے قبول کر لیا اس کو اور ایک اتفاق رائے کے ساتھ وہ اسمبلی میں آیا بل کی صورت میں پاکستان پیپلز پارٹی اس میں شامل تھی اور پاکستان پیپلز پارٹی بھی وہ جو پارلیمنٹیرین کہلاتی ہے وہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کہ جس کے چیئرمین بنفس نفیس آصف علی زرداری صاحب ہیں بلاول بھٹو نہیں ہے اس کے صدر وہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری ہیں ان کی اتفاق رائے کے ساتھ ڈرافٹ تیار ہوا پھر وہ اسمبلی میں پیش ہوا پہلی خواندگی ہو گئی دوسری خواندگی میں رک گئی کسی نے روک دیا ہم نے کہا چھوڑ دیجیے، ابھی جب 26 ویں ترمیم پر بات ہو رہی تھی تو ہم نے کہا جی وہ ایک ڈرافٹ ہے جس پر اتفاق رائے ہے ہم بغیر کسی ترمیم کے اس متفقہ ڈرافٹ کی بنیاد پر چاہتے ہیں کہ قانون سازی ہو اور وہ بل ایکٹ بن جائے، سو اب بھی ہمارے مذاکرات حکومت سے ہوتے رہے اب بھی وزیراعظم میاں شہباز شریف صاحب ہے اب بھی پاکستان پیپلز پارٹی اس حکومت میں ہے دونوں نے ایک فریق بن کر ہمارے ساتھ مذاکرات کیے، ایک مہینے تک انہوں نے اسلام آباد میں مجھے انگیج رکھا، ایک سفر میں نے کیا کراچی میں بلاول ہاؤس میں بلاول بھٹو صاحب اور ان کی ٹیم کے ساتھ پانچ گھنٹے مذاکرات ہوئے اور پانچ گھنٹے مذاکرات کے بعد یہ بل اس پر بھی بات ہوئی اور اتفاق رائے ہوا، اگلے ہی دن ہم لاہور آئے رائیونڈ میں میاں نواز شریف صاحب کے گھر پر میٹنگ ہوئی پانچ گھنٹے کی میٹنگ تھی وہاں اتفاق رائے ہوا، اس سے اگلے دن میں نے پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی پارٹی کو بلایا ان کو پوری تفصیل کے ساتھ اس سے آگاہ کیا انہوں نے بھی کہا کہ کوئی اعتراض نہیں لیکن وہ ووٹ دینے کے موڈ میں نہیں تھی ٹھیک ہے وہ خاموش اپنا ووٹ سائیڈ پہ رکھنا چاہتے تھے اپنے خاص حالات کی وجہ سے فکری حوالے سے نہیں بلکہ میرا بھی مشورہ ان کو یہی تھا کہ ان حالات میں آپ ووٹ نہیں کر سکتے آپ نہ کریں، پہلے سینٹ میں آیا سینٹ میں بل آیا اب آپ پوچھیں گے کہ 26 ویں ترمیم میں آپ نے کیا حاصل کیا میں ایک جملے میں اس کا خلاصہ بیان کرتا ہوں کہ 56 شقوں پر مشتمل وہ مسودہ جو 26 ویں ترمیم کی صورت میں پیش کیا گیا تھا ایک مہینے کے مذاکرات کے نتیجے میں ہم نے ان کو 34 شقوں سے دستبردار کیا اور 56 سے ہم ان کو 22 پر لے آئے، پھر ہم نے اپنے 5 نکات ان میں شامل کیے جس میں سود کا مسئلہ تھا، جس میں وفاقی شری عدالت کا مسئلہ تھا، جس میں اسلامی نظریاتی کونسل کا مسئلہ تھا جس کا ذکر مولانا حسین نے بھی کیا وہ جا کر 27 کر دیا اور پھر ہماری موجودگی میں ایوان کے تمام فریق موجود تھے دینی مدارس کا بل آیا سینیٹ میں بھی پاس ہو گیا اور قومی اسمبلی میں بھی پاس ہو گیا اور پیپلز پارٹی نے ووٹ دیا اور وہاں بھی دیا اور ادھر بھی دیا اور دونوں ایوانوں میں جو تعریف پاکستان پیپلز پارٹی نے ہماری کی اور ہمارے کردار کی کی شاید اس طرح کے الفاظ کسی پارلیمنٹیرین نے نہیں کہے ہوں گے، یہ سب کچھ ہو گیا بل پاس ہو گیا اب ایوان صدر سے اعتراضات آپ مجھے بتائیں کہ اتفاق رائے کی ان تمام مرحلوں میں پاکستان پیپلز پارٹی آصف علی زرداری لاہور کے اجلاس میں میاں صاحب کے گھر پر آصف علی زرداری بذات خود موجود تھے یہ نہیں کہ وہ کسی اور جگہ میں بیٹھے ہوئے تھے بلاول صاحب خود موجود تھے، اب اس کے بعد اعتراضات لگانا سیدھی بات نہیں ہے کہ بدنیتی ہے! کس طرح کہا جائے کہ واقعی یہ اعتراضات قابل غور ہیں، میں آپ کے ان علماء کرام کے اجتماع سے واضح طور پر ان کو پیغام بھیجنا چاہتا ہوں کہ تمہارے اعتراضات پر غور و فکر کرنا تو بہت دور کی بات ہے میں ان کو چمٹے سے پکڑنے کی بھی قابل نہیں سمجھتا! حد ہوتی ہے کوئی بات کی، کس حد تک آپ ہمارے برداشت کا امتحان لے رہے ہیں، کہاں تک آپ ہمارے تحمل کا امتحان لے رہے ہیں، اسی لیے میں نے جو پہلے جملہ عرض کیا کہ یہ لوگ دینی مدارس کو علماء کو شدت کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں، تو پھر اصل شدت پسند تو وہ ہوئے نا پھر تخریب کار تو وہ ہوئے نا پھر ملک کو فساد کی طرف دھکیلنا تو ان کا مسئلہ بن گیا ہم تو پرامن طریقے سے معاملات طے کرنے والے ہم نے تو مذاکرات کیے ہیں ہم نے کوئی بندوق تو نہیں اٹھائی ہم نے کوئی ڈنڈا تو نہیں اٹھایا دلائل سے معاملات طے کیے ہیں، تم نے 26 ویں ترمیم کے اپنے مسودہ سے 34 دفعہ سے دستبردار ہونے کے باوجود اس پر اعتراض نہیں اٹھایا، اس کے بعد کچھ اور ایکٹ پاس ہوئے جو متنازعہ ہیں تمہیں اس پر کوئی اعتراض نظر نہیں آرہا جو چیز متفقہ طے ہوئی ہے اور بار بار طے ہوئی ہے اس پر آج آپ کو ایک اعتراضات نظر آرہے ہیں، تو بہرحال بات چیت ہے چلتی رہے گی ان شاءاللہ ہمیں مذاکرات سے اب بھی انکار نہیں ہے لیکن اگر ہم مایوس ہو گئے کہ یہ لوگ بضد ہیں کہ دینی مدارس کو دباؤ میں رکھنا ہے پھر ان کو ہم بتائیں گے کہ آپ کا دباؤ چلتا ہے یا ہمارا دباؤ چلتا ہے اور کل ان شاءاللہ العزیز ہم اسرائیل مردہ باد کے عظیم الشان اجتماع میں اگر یہ سیدھے نہیں ہوتے تو پھر ان کا مردہ باد بھی کریں گے، تو اللہ رب العزت ہمارے ان مدارس کی جامعات کی حفاظت فرمائے ان کا ایک عظیم الشان کردار ہے تاریخی کردار ہے اور اس عظیم الشان تاریخی کردار نے آج ایک ادارے کی شکل اختیار کر لی ہے، معاشرے میں وہ رچ بس گئی ہے اور ہماری سوسائٹی کا جز لاینفک بن چکا ہے مدرسہ اس کو ختم کرنا معاشرے سے اس کو کاٹنا اس کو سوچنا یہ سوائے حماقت کے اور کچھ نہیں ہے یہ کوئی احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں جو اس طرح کی سوچتے ہیں۔ تو ان شاءاللہ العزیز ہم تنظیمات مدارس دینیہ کے ساتھ بھی رابطے میں ہے حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کے ساتھ بھی میں رابطے میں ہوں ہم ان کا بھی اجلاس بلانا چاہتے ہیں تجویز ہم نے دی ہے کہ سب ایک اجتماعی اجلاس کر کے اور اس پر ایک متفقہ رائے پیش کریں تاکہ ہم آگے چلیں تو پورے باہمی اعتماد کے ساتھ اور پوری یکجہتی کے ساتھ ہم آگے بڑھیں گے، اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو اور اللہ تعالی دینی مدارس اور علوم دینیہ کی حفاظت فرمائے، میں ایک بار پھر آپ کا انتہائی دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں۔ و اٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

ضبط تحریر: #محمدریاض

Facebook Comments