میں اداروں کا احترام کرتا ہوں لیکن میری نظرمیں بھی ان کی پالیسیاں سیدھی نظرآئیں، میں نے بھی چالیس سال صحراؤں میں گذارے ہیں، آنکھیں بند کر کے بات نہیں کر رہا بلکہ مشاہدات کے ساتھ بات کرتا ہوں،اگر ہم یہ بات نہیں کریں گے تو قوم کے ساتھ خیانت ہوگی،آپ اپنا قبلہ درست کریں ہم آپ کو سر کا تاج بنا لیں گے۔قوم کی قدر کریں، آپ کے کرنل اور میرے عام کارکن کے پاس ایک ہی شناخت ہے، دونوں کے لئے ایک ہی آئین ہے۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا ڈی آئی خان میں ورکرز کنونشن سے خطاب

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا ڈیرہ اسماعیل خان میں ورکرز کنونشن سے خطاب

30 اکتوبر 2024

الحمدلله رب العالمین والصلوۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین وعلی آله وصحبه ومن تبعهم بإحسان إلی یوم الدین اما بعد

جناب صدر، علماء کرام، مشائخ عظام، میرے بزرگوں، میرے دوستو، بھائیو اور میرے ضلع کے انتہائی قابل قدر دانشور حضرات، میں جمعیۃ علماء اسلام ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کا شکر گزار ہوں کہ اس تقریب کا اہتمام کر کے میری عزت افزائی کی گئی، مجھے حوصلہ افزائی سے نوازا اور اس میں شک نہیں ہے کہ جمعیۃ علماء اسلام کوئی ایک وقتی تنظیم نہیں ہے نہ کسی معروضی مسئلے کی بنیاد پر وجود میں آئی ہے بلکہ اپنی پشت پر 100 سال سے زیادہ کی تاریخ رکھتی ہے، اس جماعت نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نظریہ دیا، ایک نصب العین سے انہیں روشناس کیا، انہیں مقصد زندگی بتلایا اور ایک عالمگیر اور آفاقی نظریہ ان کو عطاء کیا، آج ہم اسی کا تسلسل ہیں اور آپ کے تعاؤن، آپ کی جدوجہد اور آپ کی قربانیوں کے تسلسل سے ان شاءاللہ ہم اپنی منزل ان شاءاللہ حاصل کر کے رہیں گے، اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو۔

میرے محترم دوستو! ہم نے یہ ملک بنایا ملک بناتے وقت یہ طے ہوا تھا کہ دو سال کے اندر اندر ہندوستان نے بھی اپنا آئین بنانا ہے اور پاکستان نے بھی اپنا آئین بنانا ہے، ہندوستان نے اپنا آئین بنا لیا اور پاکستان کی سرزمین ایک طویل عرصے تک بے آئین رہی، سن 56 کا آئین آیا لیکن اس کو پوری قوم کا متفقہ آئین نہیں کہا گیا، سن 62 کا آئین آیا ایک آمر کا آئین تھا اسے عوام کی مرضی کا آئین نہیں کہا گیا، بالآخر سن 1973 میں پاکستان کی قیادت نے بیٹھ کر باوجود تمام تر اختلاف رائے کی اس قوم کو آئین دیا اس سرزمین کو آئین سے نوازا اور آج بھی اس آئین کا متفقہ آئین کا ٹائٹل زندہ ہے برقرار ہے، ہر چند کہ اس میں ترامیم آئیں ہیں اور ترامیم متنازعہ بھی ہیں لیکن پارلیمنٹ کی خود مختاری سے کبھی انکار نہیں کیا گیا، ہمارے اس آئین کے چار بنیادیں ہیں جسے آئین کا بنیادی ڈھانچہ کہا جاتا ہے اور ہمارا آئین خود اس کا تعین کرتا ہے۔

ہمارے آئین کی بنیاد اسلام پر ہے، آئین کہتا ہے اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا، آئین کہتا ہے تمام قوانین قرآن و سنت کے تابع ہوں گے، آئین کہتا ہے قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا، اور اسلامی نظریاتی کونسل وہ قرآن و سنت کی روشنی میں سفارشات مرتب کرے گی اور بعد میں ان سفارشات کے روشنی میں قانون سازی کرے گی، یعنی یہ ملک سیکولر ملک نہیں ہے، لامذہب ملک نہیں ہے یہ مذہبی ہے اور اس کا مذہب اسلام ہے۔

دوسری بات جمہوریت ہے، کہ جس کا مقصد واضح ہے کہ نظام مملکت میں عوام کی شراکت داری کو تسلیم کیا گیا ہے، آمریت نہیں ہوگی، عوام کی مرضی کے خلاف زبردستی ان پر کوئی مسلط نہیں ہوگا، حق حکمرانی اور عوام کے منتخب لوگوں کو حاصل ہوگا لیکن جمہوریت کو بھی اس آئین میں واضح کیا گیا ہے کہ جمہوری نظام میں پارلیمنٹ بھی قرآن و سنت کے منافی قانون سازی نہیں کر سکے گا۔ آج تک اسلامی نظریاتی کونسل کے سفارشات مرتب ہوتی رہی، پارلیمنٹ میں آتی رہی اور پارلیمنٹ میں پیش ہونے کے بعد پتہ نہیں کس کمرے میں ڈمپ ہوتی رہی، کوئی پابند نہیں ہے پارلیمنٹ کی ان پر بحث کرے یا قانون سازی کرے، اس بار 26ویں ترمیم کے تحت پارلیمنٹ کو پابند کیا گیا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات محض وہاں پیش نہیں ہوں گی بلکہ اس پر باقاعدہ بحث ہوگی ڈیبیٹ ہوگی اور بالآخر اس کا نتیجہ قانون سازی پر ہوگا، یہ ایک بڑی پیشرفت ہے اس حوالے سے، پارلیمنٹ میں جب کوئی نیا مسئلہ پیش آتا اور کوئی ممبر یہ مسئلہ اٹھاتا کہ اسے قانون سازی کے لیے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجا جائے تاکہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں پہلے پرکھے یہ قانون قرآن و سنت کے مطابق ہے یا نہیں، تو ایوان کی 40 فیصد اراکین کی حمایت حاصل کرنا ضروری تھا، جب تک ایوان کا چالیس فیصد یہ نہ کہہ دے کہ یہ مسئلہ اسلامی نظریاتی کونسل میں جائے گا اس وقت تک اسلامی نظریاتی کونسل میں مسئلہ نہیں جا سکتا تھا، اس ترمیم میں 40 فیصد کی تعداد 25 فیصد پہ لائی گئی ہے یعنی مسئلے کو آسان بنا دیا گیا ہے کہ پہلے 100 میں 40 اراکین کہتے تھے اب 100 میں 25 اراکین کہہ دیں کہ اس کو اسلامی نظریاتی کونسل میں جانا چاہیے تو پھر لازم ہوگا کہ مسئلہ وہاں جائے اور قرآن و سنت کی روشنی میں اس کو پرکھا جائے۔ میرے محترم دوستو، جمہوریت بھی اگر ہے تو جمہوریت بھی قرآن و سنت کی پابند ہے یہ اور بات ہے کہ ہمارے حکمران اس پر عمل نہیں کرتے، ہماری منتخب ایوان، الیکشن تو ہو جاتے ہیں لیکن نتائج وہ کوئی اور مرتب کرتا ہے، منیجمنٹ کسی اور کی ہوتی ہے اور میرے مشاہدے میں ہے کتنی اسمبلیاں آئیں اور ایسی ایسی قانون سازیاں ہوئیں کہ جس نے نظام مملکت پر عوام اور عوامی اداروں کی گرفت مضبوط کرنے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کی گرفت کو مضبوط کرایا، عالمی منصوبہ تو یہی تھا کہ مزید پیشرفت کی جائے، مزید جمہوری نظام کو اسٹیبلشمنٹ کے پنجے میں دیا جائے اور ان کے پنجے اور گرفت کو مضبوط کیا جائے لیکن الحمدللہ ایک مہینے کی مشقت تو ہم نے ضرور برداشت کر لی لیکن ہم نے ان کی گرفت کو مضبوط نہیں ہونے دیا اور ان کو اپنے دائرہ کار تک محدود رکھنے کے لیے کہا، یہ آئین کے مطابق سوچ تھی۔

ہماری اسمبلیوں کو ایسے لوگوں سے بھر دیا جاتا ہے جن کے اندر دو صفات ہونی چاہیے، ایک ان کو قرآن و سنت کے حوالے سے دلچسپی نہیں ہونی چاہیے اور دوسرا یہ کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں کو دیکھتے رہے اور جس طرح کا اشارہ آتا جائے وہ قبول کرتے جائیں، ہم سن 73 کے بعد اپنی پارلیمان کو اس صورت میں دیکھتے چلے آرہے ہیں، تو کچھ ہمیں ذرا آگے بڑھنا ہوگا، ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں، کوئی ادارہ اسے بد خواہی کیوں سمجھتا ہے، پاکستان تب مستحکم ہوگا اگر ہر ادارہ اپنے دائرہ کار کے اندر دائر اختیار کے اندر کام کرتا رہے گا، ہمارے پاس مسائل ہیں ہم نے ان مسائل سے نمٹنا ہے، عام آدمی کو امن و امان نصیب نہیں ہے، ملک کی معیشت مستحکم ہوتی ہے جب لوگ کاروبار کرتے ہیں، تجارت کرتے ہیں، کماتے ہیں، ملک کی پیسے میں اضافہ کرتے ہیں، ملک کو ٹیکس دیتے ہیں، اپنے ٹیکسوں سے ملک کا خزانہ بھرتے ہیں اور تب جا کر ملک چلتا ہے۔ کتنا عرصہ ہو گیا کتنی دہائیاں گزر گئی ہم امن و امان سے محروم ہیں اور ہمیں لولی پاپ دیا جاتا ہے کہ صاحب یہ مسئلہ ابھی حل ہو جائے گا تو کل حل ہو جائے گا تو رات حل ہو جائے گا اور ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے اور یہ رکھیں گے اور وہ رکھیں گے، اس لولی پاپ سے امن نہیں آیا کرتا۔ میرا تجربہ یہ بتلاتا ہے کہ ہمارے پاس دہشت گردی کے خلاف کوئی مؤثر پالیسی نہیں ہے اور ہم ملک کے اندر دہشتگردی کو بھی اپنے عوام کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، کچھ ادارے ہوتے ہیں جو جرم کے خاتمے کے لیے ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں کچھ ادارے وہ بھی ہوتے ہیں کہ جو جرم کو استعمال کرنے کے لیے ہوتے ہیں، آج جرم کو استعمال کیا جا رہا ہے جرم کا خاتمہ نہیں کیا جا رہا، ہاں خاتمے کے نام پر قوم کو بلیک میل ضرور کیا جا رہا ہے، کوئی اللہ کا خوف نہیں ہے، کوئی اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتا، ان کم بختوں نے کبھی مرنا بھی نہیں ہے اور کبھی اللہ کے سامنے پیش بھی نہیں ہونا! اور پھر یا صاف بتا دیا جائے کہ اس ملک کے خاتمے کا فیصلہ کر دیا گیا ہے، ہم امریکی پالیسیوں اور ان کے اشارات کو اگر سمجھتے ہیں تو اس سے یہی اندازہ لگتا ہے کہ شاید اب پاکستان کرہ ارض کو ان کی ضرورت نہیں رہی، صوبوں کے درمیان نفرتیں کے پیدا کی جا رہی ہیں، ایک صوبہ دوسرے صوبے پر یلغار کی باتیں کر رہا ہے اس سے بڑھ کر بھی کوئی حماقت اور ہو سکتی ہے، اختلاف ہوتے ہیں اختلاف کے حدود بھی ہوتے ہیں، بلا حدود اختلاف کا تصور تو جاہلیت ہے۔

تو اس ساری صورتحال میں ہمارے پاس آئینی طور پر ایک تیسرا ستون ہے اور وہ ستون ہے ہمارا وفاقی نظام، ایک وفاق کے ماتحت چار وحدتیں ہیں چار صوبے ہیں اور صوبوں کے حقوق آئین کی رو سے متعین ہیں، ہم آئین کی رو سے اپنے وسائل کے مالک ہیں، ہمارے وسائل پر کسی کو قبضہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے، بلوچستان کے وسائل پر بلوچستان کے عوام اور ان کے بچوں کا حق ہے، سندھ کے وسائل پر وہاں کی عوام ان کے بچوں کا حق ہے، پنجاب کے وسائل پر ان کا حق ہے اور کوئی ان کے حق کو چیلنج نہیں کر سکتا آئین پاکستان کی رو سے لیکن کیا وجہ ہے کہ اس کے باوجود ہم اپنے وسائل کے مالک نہیں ہیں اور اگر ہم اپنے حق کی بات کرتے ہیں اپنے وسائل کو اپنے استعمال میں لانے کی بات کرتے ہیں تو پھر ہمیں غدار کہا جاتا ہے، یہ غداری نہیں ہے یہ آئین کا تقاضا ہے، اور آئین ہمارے ملک اور قوم کے ہر فرد کے درمیان میثاق ملی کی حیثیت رکھتا ہے، ہم اپنے حقوق سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں، تم جنگ چھیڑ دو، قومیں لڑتی رہیں خون بہتا رہے اور طاقتور ادارے امن کے نام پر ہر جگہ پہنچتے رہیں ہمیں کہتے ہیں ہم امن کے لیے آئے ہیں اور میں کہتا ہوں آپ ہمارے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے آئے ہیں۔ آج ہمارے لوگ دیہاتوں میں غیر محفوظ ہیں، مسلح گروہ انہوں نے ہمارے نظام پر قبضہ کیا ہوا ہے حکومتی رٹ نہیں ہے سب کچھ ان کے قبضے میں ہیں اور اب تو ہمارے ڈپٹی کمشنر صاحب نے حکم بھی دے دیا ہے کہ کوئی بھی افسر جو ہے وہ اپنے گھر سے نہ نکلے، کیا اس حد تک ہم چلے گئے۔

سی پیک جو پورے ملک کی ترقی کا ایک دروازہ ہے، آج ہم امن و امان کے نام پر چین کو بھی بلیک میل کر رہے ہیں اور امریکہ کو بھی بلیک میل کر رہے ہیں، ڈالر کمانے کے طریقے ہیں لیکن اگر ہم یہ باتیں کرتے ہیں آپ تو ہماری نیک نیتی پہ شک کر رہے ہیں آپ تو ہمارے خلوص پر شک کر رہے ہیں آپ تو ملک کے ساتھ ہماری وفاداری پر شک کر رہے ہیں آپ تو ہماری قربانیوں پہ شک کر رہے ہیں، میں قدر کرتا ہوں اداروں کی لیکن میری نظر میں بھی کم از کم آپ کی پالیسیاں سیدھی تو نظر آئے نا، میں نے بھی تو ان صحراؤں میں 40 سال سے زیادہ صحرا گردی کی ہے، میں نے تو ان غلام گردشوں کا 40 سال سے ایک آوارہ گرد رہا ہوں، آنکھیں بند کر کے بات نہیں کر رہا ہوں مشاہدات کی بنیاد پر بات کر رہا ہوں اور اگر میں یہ باتیں نہ کروں تو میں ملک اور قوم کا خائن کہلاؤں گا، اپنا رخ سیدھا کر لیجیے اپنی قبلہ درست کر لیجیے اور آپ ہمارے سروں کے تاج، کہتے ہیں کہ آنکھوں کے پلکیں یہ آنکھوں کے محافظ ہوتی ہیں، آنکھوں کے سرحدات کی حفاظت کرتی ہیں آنکھ پر بوجھ نہیں ہوتی لیکن اگر پلکوں کا ایک بال بھی آنکھ کے اندر گرتا ہے تو آپ بتائیں کہ آنکھ احتجاج کرتا ہے یا نہیں؟ اشک بہاتا ہے یا نہیں؟ تو یا تو کبھی وہ بال جو اپنے حدود سے تجاوز کر کے آنکھ کے اندر آگیا اپنی حفاظتی ذمہ داری سے دستبردار ہو کر آنکھ کے اندر آگیا یا تو اشک بہاتے بہاتے وہ آنکھ سے نکل جائے گا ورنہ پھر اسے نکالنا پڑتا ہے، آپ ہمارے آنکھوں کے پلکیں ہیں ہم آپ کی قدر کرتے ہیں آپ ہم پر بوجھ نہیں ہیں لیکن ہمارے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کریں! یہ ملک ہم سب کا ہے، ملک کا بہت بڑا جرنیل کیوں نہ ہو اور میرا یہ غریب کارکن کیوں نہ ہو دونوں کے پاس پاکستان کا یکساں شناختی کارڈ ہے جس شناختی کارڈ پر میرا جرنیل پاکستانی کہلاتا ہے میرا یہ عام کارکن بھی اسی شناختی کارڈ کی بنیاد پر اپنے آپ کو پاکستانی کہلاتا ہے۔ قوم کی قدر کرو، ہماری زندگی اجیرن ہو گئی، ہم گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے، سڑکوں پر آمدورفت ختم ہو گئی ہے اور یہ ہمارا جو موٹروے ہے زیارت کے پاس پُل کے نیچے مسلح لوگ ہیں پُل کے اوپر فوج ہے، بلاوجہ نہیں کہہ رہا یہ مشاہدے کے گئے ہیں! یہ ہے ہماری دہشت گردی کے خلاف جنگ۔

ہمارا جو چوتھا ستون ہے آئین کا وہ ہمارا پارلیمانی طرز حکومت ہے، دو ایوان مقننہ ہیں عوام کے ووٹوں سے منتخب ادارے، یہاں لوگ بکسے میں ڈالتے کچھ ہیں تو بکسے سے نکلتا کچھ ہیں، تو اس طرح کے الیکشن پھر قبول نہیں کیں جا سکتے، اور یاد رکھو ہم وہ لوگ ہیں اللہ کے فضل و کرم سے اور اس کی نصرت کے ساتھ کہ تمہارا جبر ہمیں تمہارے جبر پر آمادہ بھی نہیں کر سکتا نہ اس کی حمایت کرنے پر مجبور کر سکتا ہے، ہم نے پہلے دن کہا تھا کہ یہ الیکشن دھاندلی ہے آج بھی کہتے ہیں یہ الیکشن دھاندلی ہے، چاہے ہمارے صوبے کا ہو چاہے اور صوبوں کا ہو، کیسے ملک چلے گا! جو عوام کا نمائندہ ہی نہیں وہ عوام کا ان مشکل میں کیسے مقابلہ کرے گا، جب شہر پر مشکل آتی ہے تو ہمارا منتخب نمائندہ علاقہ چھوڑ جاتا ہے بھاگ جاتا ہے قوم کے سامنے آنے کی جرات نہیں کر سکتا لوگوں سے بات کرنے کی ہمت نہیں رکھتا، تو میرے محترم دوستو اس کے ساتھ ساتھ ہم نے پھر بھی اختلافات کے حدود کو سمجھا ہے، شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان میں ہوا، پاکستان کو میزبانی کا شرف ملا یہ ہمارے لیے اعزاز ہے قوم کے لیے اعزاز ہے، ہمیں ادراک ہے اس بات کا کہ ہمارے ملک کی معیشت کمزور ہے، معیشت کی بہتری کے لیے اگر کوئی اقدامات ہوتے ہیں ہم نے اس کا راستہ نہیں روکا، آپ جانتے ہیں میں نے خود اپیل کی کہ حزب اختلاف کو بھی ان دنوں میں مظاہرے نہیں کرنے چاہیے اور اقتدار کو بھی ترمیمی بل پر ان دنوں میں بات نہیں کرنی چاہیے تاکہ یکجہتی کا پیغام جائے تاکہ پاکستان کا اعتماد بحال ہو ہم پاکستان کے مفاد کو سمجھتے ہیں الحمدللہ، اختلاف کی حدود کو بھی سمجھتے ہیں، ملک کو بھی سمجھتے ہیں اور ملک کی مفاد کو بھی اللہ کے فضل و کرم سے سمجھتے ہیں، اب دیکھتے ہیں کہ ہمیں اس سے کتنا فائدہ ملتا ہے، ہمارے حکمرانوں میں کتنی صلاحیت ہے کہ وہ ملک کی معیشت کو بہتری کی طرف لے جائے، امن و امان کیسے بحال کریں، ملک کی معیشت کیسے بحال کریں، ملک کے اندر کے سرمایہ کار اور ملک کے باہر کے سرمایہ کار ان کا اعتماد کیسے بحال کریں، دوست ممالک کا اعتماد ہم کیسے بحال کریں اور پھر ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے سامنے مسجد اقصیٰ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے جو آج صہیونیوں کے قبضے میں ہے اور ان کے قبضے سے آزاد کرنا مسلمانوں کا فرض ہے، آج غزہ کے مسلمان قربانیاں دے رہے ہیں 50 سے 60 ہزار لوگ اس وقت تک شہید ہو چکے ہیں جو جنگ نہیں لڑ رہے بچے ہیں خواتین ہیں بوڑھے ہیں غیر مسلح ہیں پرامن شہری ہیں اور ایک وحشی ملک ریاستی دہشت گردی کر کے ہمارے مسلمان بھائیوں کا قتل عام کر رہا ہے، امریکہ اس کی سپورٹ دے رہا ہے مغربی دنیا اس کو سپورٹ دے رہا ہے اور یہ وہ ملک ہے جب 1948 میں وجود میں آیا تو قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا کہ یہ ایک ناجائز اولاد ہے مغرب کا، فلسطینیوں کے ساتھ ہمارا تعلق اور ہمارا رشتہ جس طرح 1940 کی قرارداد کو ہم قرارداد پاکستان کہتے ہیں اسی سن 1940 کی قرارداد میں فلسطینیوں کی حمایت کا ذکر ہے اور فلسطینی سرزمین پر نئی بستیوں کے قیام کی مخالفت کی گئی ہے، اسرائیل کے پہلے صدر نے اپنی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کے بنیادی خارجہ پالیسی کے اصول میں اساسی اصول یہ ہے کہ ہم دنیا کے نقشے پر ابھرنے والے ایک نوزائدہ مسلم ریاست کا خاتمہ کریں گے، سو ہماری رائے ان کے بارے میں معلوم اور ان کی رائے بھی ہمیں معلوم، پھر کس بنیاد پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں! تاکہ ایک بار پھر ہم دوسری قسط کشمیر کو بیچنے کے لیے جواز پیدا کر سکے! کشمیریوں کے خون پر ہم نے 77 سال سے سیاست کی ہے ان کی عزتوں پہ سیاست کی ہے آج ہم نے ان کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے لیکن پاکستان کے عوام ان کو تنہا نہیں چھوڑیں گے ان شاءاللہ العزیز۔

میرے محترم دوستو! گزشتہ سال 7 اکتوبر کو جنگ شروع ہوئی، 14 اکتوبر کو پشاور میں مفتی محمود کانفرنس تھی اور اس کو ہم نے طوفان اقصیٰ کانفرنس میں تبدیل کر دیا تھا، ابھی 7 اکتوبر کو کراچی میں جلسہ ہوا تمام مذہبی جماعتوں پر مشتمل جلسہ تھا لیکن جمعیۃ کے کارکنوں نے اس جلسے کو ایک منظر عطاء کیا تھا، آج ایک بار پھر 8 دسمبر کو پشاور میں اسرائیل مردہ باد کانفرنس ہوگی اور بہت بڑی عوامی سطح پہ ہوگی ان شاءاللہ العزیز، ہم کشمیریوں کے ساتھ بھی کھڑے ہیں، ہم فلسطینیوں کے ساتھ بھی کھڑے ہیں، مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے دی جانے والی قربانیوں میں ہم اپنا خون شامل کرنا چاہتے ہیں لیکن اسلامی دنیا ہے کہ وہ خرگوش کے نیند سوئی ہوئی ہے، ہم ان کو بھی احساس دلانا چاہتے ہیں کہ صرف بیانات سے کام نہیں چلے گا، قراردادوں سے بات نہیں چلی گی، ایک عملی طور پر آپ کو اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ اسرائیل کو پسپائی پہ مجبور کیا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے، پاکستان کی حفاظت فرمائے اور پاکستان کے ہر شخص کو اللہ تعالیٰ امن و سلامتی نصیب فرمائے، پاکستان معاشی لحاظ سے رب العالمین مستحکم فرمائے اور دین اسلام کی حاکمیت اللہ رب العزت ہمیں نصیب فرمائے۔

واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

ضبط تحریر: #محمدریاض

 

Facebook Comments