قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا ملک کی موجودہ صورتحال پر اہم پریس کانفرنس

11 اکتوبر 2024

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم

پشتون تحفظ مومنٹ اور اس کی قیادت نے جو پشتون جرگہ بلایا اور پھر اس پر جو تشدد کیا گیا اور ان کے کارکنوں کو شہید کیا گیا کچھ زخمی ہیں ہم اس پرتشدد کاروائی کے پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، جب وہ مسلح بھی نہیں ہے جب وہ ایک پرامن جلسہ کرنا چاہتے تھے تو ملک کی آئین کے تحت بھی کوئی ایسی رکاوٹ نہیں تھی اور ہمیں تو ابھی تک سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس تحریک کو غیر قانونی کیوں قرار دیا گیا، کلعدم کیوں قرار دیا گیا، نہ اس بارے میں اب تک حکومت اپنی پوزیشن واضح کر سکی ہے سوائے کچھ بیان بازیوں سے زیادہ آگے نہیں جا سکی ہے، یہ چیزیں غیر جمہوری عمل ہے ملک کے اندر اور کسی طرح بھی اس طرح کے اجتماعات پر تشدد کرنا اور گولیاں چلانا، اس کی حمایت تو دور کی بات ہے ہم اس کی پرزور الفاظ مذمت کرتے ہیں اور جو لوگ شہید ہوئے ہیں ان کے ورثاء کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں جو زخمی ہیں ہم ان سے بھی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی جلد صحت یابی کی ہم دعا کرتے ہیں۔

جمیعۃ علماء اسلام اس جرگے کے حوالے سے اس بات کو واضح کرنا چاہتی ہے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے لوگ ہوں یا ملک میں جو بھی پشتون برادری سے تعلق رکھتے ہوں اور ان کا تعلق اگر جمیعۃ علماء اسلام کے ساتھ ہیں تو ان کو اس میں شرکت کی پوری اجازت ہے کوئی کسی قسم کی پابندی نہیں ہوگی جو لوگ اس میں شریک ہونا چاہتے ہیں اور جمیعۃ علماء اسلام اپنے کچھ سینئرز پر مشتمل وفد وہ بھیجے گی نمائندگی کے لیے تاکہ اس میں شرکت ہو سکے اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جا سکے۔ مسئلے دو ہیں ایک یہ کہ بدامنی ہے ہمارے صوبے میں خاص طور پہ اور ملک میں عام طور پر بلکہ دو صوبے تو اس کے لپیٹ میں ہیں اور دوسرا یہ کہ ہمارے جو حقوق ہیں ہمارے جو وسائل پر اپنا حق ہے ہمیں اپنے وسائل پر ہم اپنا حق دیا جائے، اس کے لیے جمعیۃ علماء اسلام پہلے سے بھی آواز بلند کرتی رہی ہے اور ہمارے آواز میں کوئی بھی آواز شریک ہوگی تو ہم ان کو خیر مقدم کہیں گے اور اپنی طرف سے بھی ہم ایک تحریک اٹھانے کے لیے مشاورت کر رہے ہیں تاکہ ہم بھرپور طور پر محروم لوگوں کے حقوق کے لیے اور صوبوں کے عوام کے حقوق کے لیے پورے ملک بھر میں تحریک کا آغاز کریں اور اس پر ہم آگے بڑھیں لیکن چونکہ جمعیۃ علماء اسلام کی تنظیم سازی اب نئی ہوئی ہے تو اس کی جب ہم مجلس عاملہ اور مجلس شوریٰ مکمل ہو جائے گی تو ان کی مشاورت سے ہم یہ چاہیں گے اور یہ میری تجویز ہوگی کہ ہم پورے ملک میں اس کے لیے تحریک کا آغاز کریں اور عوام کو براہ راست اپنی اس جدوجہد میں شریک کریں۔

ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ جو لوگ شہید ہوئے ہیں حکومت فوری طور پر اس کی دیت ادا کریں اور جو زخمی ہے ان زخمیوں کا سرکاری طور پر علاج ہونا چاہیے اور حکومت اپنی طرف سے ان کی مدد کرے اخراجات وہ برداشت کرے۔ اس سلسلے میں ہم نے صوبہ خیبر پختونخواہ کی جمعیۃ علماء اسلام کے جو سیکرٹری جنرل ہے مولانا عطاء الحق درویش صاحب ان کی قیادت میں جمعیۃ کے زعماء کا ایک وفد خیر سگالی کے طور پر اور یکجہتی کے لیے ان کے جرگے میں شریک ہوگا۔

سوال و جواب

سوال: سینیئر وفد جو آپ کہہ رہے ہیں اس میں اس کی تعداد کتنی ہوگی کتنے لوگ شریک ہوں گے؟

جواب: ان شاءاللہ کوئی 10 تک لوگ ہونگے۔

سوال: مولانا صاحب یہ تو ٹھیک ہے ابھی کا سیریس ایشو ہے آئینی ترمیم پہ لوگ سننا چاہ رہے ہیں کہ مسودہ ملا آپ کو، پیپلز پارٹی کو بلاول صاحب بھی آئے تھے۔

جواب: یہ سوال اچھا کیا آپ نے لیکن جو بات میں نے آپ سے کہی ہے اس کو کہیں آپ اپنے سوال کی وجہ سے ثانوی حیثیت نہ دے دیں اس کو اپنی حیثیت میں بھی رکھیں آپ لوگ، آئینی ترمیم کی باتیں تو چلتی رہیں گی اور اب روزمرہ کے حساب سے چلتی رہیں گی۔ اس میں حضرت پیش رفت ہوئی ہے اور ایک تعجب کی بات ہے کہ آج جب پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوا اور ہم وہاں گئے تو آج کچھ حکومت کی طرف سے کاپیاں تقسیم کی گئی جو ان کا مسودے کے بارے میں تصور ہے یا جو ان کی تجویز ہے اور جیسے آج ہم اس پر بات چیت کا آغاز کر رہے ہیں اس سے قبل محرک بھی حکومت ہے اور مسودہ بھی نہیں تھا اب تک، آج ہی اراکین کمیٹی کو انہوں نے کاپیاں تقسیم کی ہیں تو ظاہر ہے کہ ہمارے وکلاء اس کو دیکھیں گے اور ہم نے تجویز یہ دیا ہے کہ چونکہ بلاول صاحب اس سے پہلے بھی ایک دو مرتبہ آچکے ہیں آج بھی وہ تشریف لائے ہیں اور ہم نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ جمیعۃ علماء اسلام اور پاکستان پیپلز پارٹی وہ ایک متفقہ مسودے کی طرف آگے بڑھیں اور اس کے بعد ظاہر ہے کہ حکومت کی دوسری جو اتحادی ہیں ان کو بھی اس مسودے کے بارے میں اعتماد میں لیا جائے اور اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کو بھی ہم سب مل کر تو ایک اتفاق رائے کی طرف ہم جانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ہماری طرف سے تو ایک اطمینان دیا گیا ہے کہ ہم ایک بہت ہی مناسب مسودے پہ اتفاق کر سکتے ہیں بشرط یہ کہ وہ ہماری تجاویز کو قبول کریں، حکومت نے جو ابتدا میں ہمیں ایک مسودہ یہاں کالے تھیلے میں بھیجا تھا اور جو ہم نے اس کا مطالعہ کیا تھا تو وہ نہ آئین کا تقاضا پورا کر رہا تھا نہ جمہوریت کا اور نہ آئینی اور جمہوری اداروں کا نہ عدلیہ کا تو ہم نے مسترد کر دیا تھا اور ہم ابھی بھی اپنے موقف پہ قائم ہیں اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جو قابل اعتراض مواد ہے اس کے اندر اس کو مکمل طور پر صاف کیا جائے اور جس پر اتفاق رائے ہو سکے کہ جس سے آئین میں اصلاحات آئے عدلیہ میں اصلاحات آئے نہ یہ کے ہم بگاڑ پیدا کریں، ہم نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے سے بھی ماضی کے جتنے بگاڑ تھے آئین کے اندر ان کو صاف کیا تھا لیکن اس کے باوجود انیسویں ترمیم کے ذریعے سے عدالتی اصلاحات میں جو پارلیمان کا کردار تھا اس کو ختم کر دیا گیا، ہم یہ بھی تجویز کر رہے ہیں کہ 19ویں ترمیم کو ختم کیا جائے اور واپس اٹھارویں ترمیم کو بحال کیا جائے جس میں کہ ججوں کی تقرر سینیارٹی کی بنیاد پر ہو کارکردگی کی بنیاد پر ہو صحت مندی کی بنیاد پر ہو تو جہاں کمیشن کا ایک کردار ہوگا عدلیہ کی کمیشن کا وہاں پارلیمان کا بھی ایک کردار اس پہ آجائے گا اور اس طرح نظام میں ایک اعتدال اور توازن پیدا کیا جا سکے گا۔

سوال: مولانا صاحب آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اور پیپلز پارٹی جے یو آئی پیپلز پارٹی کا جو مسودہ قانون ہے اور وہ جو آپ اختلاف کرتے ہیں آپ نے حکومتی مسودہ مسترد کیا تو حکومت آپ کی ان ترامیم کے اوپر آمادہ ہو جائے گی؟

جواب: پیش رفت اسی طرف ہوئی ہے اور ہو جائے گی ہماری امید ہے لیکن اس پر ضرور حکومت کو اندازہ لگ جانا چاہیے کہ ہمارے موقف کو عوام میں پذیرائی ملی ہے اور عام طور پر ملک کے اندر جو تاثرات ہیں حکومت بھی اس سے آگاہ ہے کہ پبلک نے بھی حکومت کی مسودے کا جو تصور ہے حالانکہ ان کے سامنے تو مسودہ موجود نہیں ہے لیکن اس تصور ہی کو مسترد کر دیا اور جو ہم نے موقف دیا اور جس حد تک بھی دیا ہم نے تو اس کو عوام نے پذیرائی بخشی ہے میں سمجھتا ہوں کہ جب پارلیمنٹ عوام کے نمائندہ ہے تو عوام کے مزاج کو عوام کے نبض کو انہوں نے پڑھ لیا ہوگا سمجھ لیا ہوگا اور ہمیں عوام کے خواہشات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے نہ ہم اس کے متحمل ہے۔

سوال: مولانا صاحب یہ بتائیں کہ پشتون تحفظ مومنٹ کے حوالے سے آپ نے بات کی تو پہلے جب یہ مسئلہ ہو رہا تھا ان کو شہید کرنے سے پہلے کیا پہلے مذاکرات نہیں ہو سکتے تھے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف جب آپ کے ساتھ بیٹھتی ہے اور آپ کے ساتھ بات کررہی ہے مسلسل تو اگر ان کو کچھ اعتراضات ہیں اس مسودہ کے بارے میں تو اس کے ساتھ کس طرح سے لیں گے؟

جواب: یہ تو دونوں باتیں کہہ دی ہے میں نے آپ سے البتہ یہ بات آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے اس سے پہلے پی ٹی ایم کے جلسے کے حوالے سے، تو آپ جانتے ہیں کہ وہ مکمل طور پر جلسے پر پابندی لگ گئی تھی اور صرف یہ نہیں کہ حکومت نے فیصلہ کیا بلکہ صوبے کا نمائندہ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل اس نے صوبائی حکومت کے نمائندگی کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ میں بیان دیا کہ جلسہ نہیں ہونا چاہیے اور کورٹ نے بھی فیصلہ دے دیا کہ جلسہ نہیں ہوگا اور کہیں بھی نہیں کر سکیں گے، تو وہ فیصلہ بھی ابھی تک اپنی جگہ پر برقرار ہے اور دوسری طرف ان کو اجازت بھی دے دی گئی ہے، تو اجازت دینے پر تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن کیوں اتنے تضادات کا شکار ہے صوبائی حکومت کہ نہ ہیوں میں نہ شیوں میں، اس طریقے سے تو نہیں ہونا چاہیے۔

سوال: تاریخ بڑی اہمیت کی حامل ہے چونکہ چیف جسٹس ریٹائرڈ ہو رہے ہیں تو کیا اس سے پہلے پہلے اتفاق رائے ہو سکتا ہے 25 اکتوبر سے پہلے کیا آئینی ترمیم آسکتی ہے اور منظور ہو سکتی ہے؟

جواب: دیکھیے ایک چیز بنیادی طور پر ذہن میں ہونی چاہیے کہ یہ جو ہم نے ایک جج کو ریٹائرڈ ہونا یا اس کو توسیع دینا، کوئی ایک جج سے ڈرتا ہے تو کوئی دوسرے جج سے ڈرتا ہے، عدلیہ کو خدا کے لیے سیاست میں تقسیم نہ کرو سیاسی جماعتوں میں تقسیم نہ کرو جج جج ہوتا ہے اور اس کو جج رہنے دیا جائے، اور ہمارے ججز بھی اپنے کارکردگی اپنے رویوں سے پبلک کو مطمئن کریں کہ وہ غیر جانبدار ہو کر آئین اور قانون کے حوالے سے ہی فیصلہ دیں گے اور دیتے رہیں گے، لہٰذا 25 اکتوبر اور 25 اکتوبر کی باتیں ریٹائرمنٹ کی تو ہے تو ٹھیک ہے ریٹائرڈ ہو جائیں گے لیکن یہ ہے کہ نظام تو چلنا چاہیے اور نظام میں توازن پیدا کرنا ہے ہم نے بھی عدلیہ کا اعتماد بحال کرنا ہے اور عدلیہ نے بھی قوم کا اعتماد بحال کرنا ہے۔

سوال: مولانا صاحب آپ نے آج کا کہا کہ پہلی مرتبہ حکومت نے کچھ کاپیاں تقسیم کی، کیا وہ حکومت کی طرف سے وہ ایک کمپلیٹ مسودہ تھا جیسے پاکستان پیپلز پارٹی نے پیش کیا اور دوسرا جے یو آئی کا جو موقف ہے خاص طور پہ وہ آئینی بینچ کا ہے یا آئینی عدالت کا ہے اس وقت لیٹس سچویشن کیا ہے؟

جواب: ابھی میں اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا لیکن خدا کے لیے آئینی عدالت ہو یا آئینی بینچ ہو یہ دونوں ایک دوسرے کے متبادل ہو سکتے ہیں اور اس پہ اگر ہمارا تنازعہ ختم ہو سکتا ہے تو یہ اتنا بڑا ایشو نہیں ہے چاہے بینچ کی صورت میں معاملہ طے ہو یا عدالت کی صورت میں طے ہو بات اصولوں کی ہے کہ ہمیں عدلیہ سے وہ کام لینا ہے کہ جو ہمارے آئینی معاملات ہیں سیاسی معاملات ہیں ان کو ایک طرف کیا جائے تاکہ عدالتیں فارغ ہوں اور وہ لوگوں کے جو وہ کیسز وہاں پینڈنگ پڑے ہیں ان کو فارغ کر سکیں ان کے فیصلے دے سکیں جی۔

سوال: مولانا صاحب ایک تو یہ ہے کہ جو پیپلز پارٹی نے مسودہ آپ کو دیا ہے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس میں کتنا وہ سقم باقی ہے یا کیا آپ اس کے ساتھ وہ کتنا اتفاق وہ کر سکتے ہیں دوسرا کیا پاکستان تحریک انصاف بھی آپ کو اپنا ڈرافٹ دے گی اس کے بعد آپ وہ تینوں مشترکہ کر کے حکومت کو دیں گے؟

جواب: کوشش یہی ہے کہ پہلے پیپلز پارٹی اور ہم اتفاق رائے کریں، پھر ہم وہ پی ٹی آئی کے سامنے پیش کریں اور وہ پیپلز پارٹی اپنے حکومتی اتحادیوں کے سامنے پیش کریں، ترتیب تقریباً یہی طے ہوئی ہے اور اسی پہ ہم کام آگے بڑھا رہے ہیں۔

سوال: کتنا ٹائم لگے گا مولانا اس میں اندازاً؟

جواب: تو جس وقت بھی یہ بات طے ہو جائے گا تو ایسا تو نہیں ہے کہ ہم کوئی تاخیر کے شوقین نہیں ہیں لیکن اگر ہم نے اٹھارویں ترمیم میں نو مہینے لگائے تھے تو کم از کم اس کے لیے نو دن تو دیے جائیں نا۔

سوال: مولانا صاحب کچھ خبریں ایسی بھی ہیں کہ آپ کی قانونی ٹیم نے بھی کوئی مسودہ تیار کیا ہوا ہے کیا کہیں گے؟

جواب: تو اس میں کیا آپ کو ہم اتنا بڑا کام کر رہے ہوں گے ہمارے پاس کوئی چیز نہیں ہوگی لیکن جن لوگوں کو ہم نے سٹیک ہولڈرز جو ہیں جن کو ہم نے مطمئن کرنا ہے جن کو ہم نے اپنے موقف پہ آمادہ کرنا ہے انہی کے سامنے پیش کیا جائے گا فالحال تو ہم اس کی تشہیر نہیں کر سکتے۔

سوال: مولانا صاحب یہ بتائیے گا یہ حکومت جو اتنی زیادہ سرگرمیاں دکھا رہی ہے مسودے کو اور آئینی ترمیم کو لے کے یہ کیا وجہ ہے کہ وہ 25 سے پہلے پہلے سارا کچھ کرنا چاہتے ہیں؟

جواب: یہ پھر آپ ان سے پوچھے میرے نظر میں یہ نہ میرا سوال ہے نہ میں اس کا جواب دینا چاہتا ہوں۔

سوال: پاکستان میں اسلام آباد بھی شنگھائی تعاون تنظیم ہونے جا رہی ہے جس میں آپ کے دوست ممالک آرہے ہیں اس کا آپ کیسے خیر مقدم کرینگے؟

جواب: ہم دل و جان سے ان کا خیر مقدم کریں گے وہ ہمارے مہمان ہوں گے پاکستان کے سرزمین ان کا استقبال کرے گی اور اس موقع پر میں نے اسی لیے اپیل کی تھی کہ جب وہ سربراہان یہاں پر موجود ہوں یہاں پر وہ کانفرنس کریں تو ہمیں قومی سطح پر ایک یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے کیونکہ جو اعتماد ماضی میں ان کا متاثر ہوا ہے اور اس کو نقصان پہنچا ہے اس اعتماد کو ہم بحال کرنے میں کردار ادا کریں، تو ہم نے یہ بات ضرور اپوزیشن سے بھی کی ہے کہ وہ ان ایام میں کوئی مظاہرے نہ کریں اور اس کے بعد بھی ہمیں موقع مل سکتے ہیں کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہم اس وقت میں جب کہ سیکیورٹی کے معاملات بھی ان کے ہیں، حکومت بھی وہاں پر ان کی میزبانی یہ مصروف ہوگی اور اس دوران میں ہم مظاہرے کریں گے تو اس کا اچھا میسج نہیں جائے گا۔

سوال: حضرت یہ فرمائے کہ یہ جو اعظم نظیر تارڑ صاحب نے کہا ہے کہ ہمارے پاس نمبر گیم پوری ہے وہ آپ کو شامل کر کے کہہ رہے ہیں یا ارکان کو منحرف کریں گے ضمیر کا ووٹ دیں گے؟

جواب: سیدھی بات ہے حضرت کہ ہم نے اگر ووٹ دینا ہوتا تو ہم آج تک دے چکے ہوتے ہیں، یہ معاملہ اسی دن ختم ہو جانا چاہیے تھا، ہم جو اب تک رکے ہوئے ہیں اور کسی قسم کا ہم ان کو ووٹ دینے پہ آمادہ نہیں ہو رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں جو حکومت کا تصور ہے ترمیم کا وہ قابل قبول نہیں ہے سو ہم اپنے تجاویز لا رہے ہیں اس پر ان کو اعتماد میں لے رہے ہیں اور ان کو آمادہ کر رہے ہیں جب ہماری تجاویز پر آمادگی ہو جائے گی تو اس کے بعد پھر ہم اس قابل ہوں گے کہ ہم ووٹ بھی دے سکیں لیکن اگر ہمارے نظریے کے مطابق نہیں ہوتی تو پھر یہ باتیں کہنا ہے کہ نمبر پورے ہیں نمبر پورے ہو جائیں گے دیکھیے یہ ایک سیاسی بداخلاقی بھی ہے اور اس سے آئین کو متنازع بنانے کی بھی ایک بنیاد پڑ جائے گی اور ایک متنازعہ ترمیم آئین میں لانے کی بجائے کیوں نہ ہم اتفاق رائے کی طرف چلیں اور ہمارے اس نظریے کو کہ اتفاق رائے سے معاملات حل ہو جائیں ہر سمت سے اس کا خیر مقدم ہونا چاہیے اور ہر سمت پر آمادگی ہونی چاہیے۔

سوال: وفاقی حکومت نے ایک صوبے کے ہاؤس کو جو ہے وہ سیل کیا تھا جسے آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے آرڈر پر ڈی سیل کر دیا گیا ہے، آپ وفاقی حکومت کے اس اقدام کو کیسے دیکھتے ہیں؟

جواب: تو جو کورٹ نے کر دیا ٹھیک کیا بس۔

سوال: مولانا صاحب یہ فرمائیے گا آپ نے صوبے کے حقوق کے حوالے سے تحریک کی بات کی تو اب کیا قوم کسی ایک نئی تحریک کے لیے تیار رہے؟

جواب: حضرت ہم تحریک میں ہیں ہم نے کبھی بھی اپنے آپ کو تحریک سے الگ نہیں کیا، ہم اپوزیشن ہیں اور ہم نے بطور اپوزیشن ملک میں سیاسی کردار ادا کرنا ہے اور ہم اگر حکومت میں نہیں ہیں کہ ہمارے نظام تک رسائی ہو تو پھر عوام کے ساتھ رونے کے لیے تو ہم کم از کم اس کا ساتھ تو دے سکتے ہیں نا، عوام کی مشکل میں تو ہم ان کے ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں تو ان شاءاللہ جمعیۃ علماء اسلام ملک بھر میں نکلے گی عوام کو اپنے ساتھ شریک کرے گی اور ہم ایک پرامن تحریک ہیں ہم نے ثابت کیا ہے کہ جمیعۃ علماء قوم کی وہ پرامن قوت ہے کہ جس کو ہر سطح پر ہمیشہ سراہا گیا ہے اور ہم ہمیشہ امن کے حوالے سے ملک اور قوم کے اور بلکہ بین الاقوامی برادری کے اعتماد پر بھی پورے اترے ہیں۔ بہت شکریہ آپ حضرات کا۔

ضبط تحریر: #محمدریاض

Facebook Comments