ایوان صدر میں یکجہتی فلسطین کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس سے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا خطاب

7 اکتوبر 2024

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد

جناب صدر، ہمارے انتہائی قابل احترام جناب میاں نواز شریف صاحب، جناب وزیراعظم، قومی زعماء، قائدین، آپ سب کی اجازت کے ساتھ آج کی اس آل پارٹیز کانفرنس کے موضوع پر کچھ گذارشات عرض کرنا چاہوں گا۔

اسرائیل کے ناسور کا سب سے اولین فیصلہ 1917 میں برطانیہ کے وزیر خارجہ دال فور کے جبری معاہدے کے تحت ہوا اور اس وقت سے فلسطین کی سرزمین پر بستیاں قائم کرنے کا یہودیوں کا سلسلہ شروع ہوا، ہمیں پاکستان کی پوزیشن معلوم کرنی چاہیے، پاکستان نے 1940 کی قرارداد میں جس میں پاکستان کی قرارداد پاس ہوئی تھی اسی کا حصہ ہے کہ انہوں نے فلسطینیوں کی سرزمین پر یہودی بستیوں سے اختلاف کا اظہار کیا ہے اور فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کا اعلان اسی اعلانِ پاکستان کے اندر موجود ہے۔ جب اسرائیل قائم ہوا تو قائد اعظم محمد علی جناح نے اس کو ناجائز بچہ کہا، پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی نوعیت کا ذرا اندازہ ہمیں لگانا چاہیے کہ بانی پاکستان نے اسرائیل کے حوالے سے سب سے پہلا تبصرہ کیا کیا اور اسرائیل کے صدر نے سب سے پہلا بیان جو خارجہ پالیسی کے حوالے سے دیا کہ اسرائیل کی خارجہ پالیسی کی بنیادوں میں سب سے اولین بنیاد یہ ہوگی کہ دنیا کے نقشے پر ایک نو زائدہ اسلامی ملک کا خاتمہ ہمارا مقصد ہوگا، سو اسرائیل کا نقطہ نظر بھی معلوم ہونا چاہیے اور پاکستان کا نقطہ نظر بھی معلوم ہونا چاہیے اور پھر اس حوالے سے ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم نے کس بنیاد پر پاکستان کے اندر کچھ لوگوں کو یہ مواقع فراہم کیے کہ وہ ٹیلی ویژن پر آکر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ترغیب دیں اور اس کے لیے لابنگ کریں۔

آج صورتحال تبدیل ہو گئی ہے، وہ جو دنیا میں ایک بحث چل رہی تھی کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے نہ کیا جائے، ہمیں اس وقت بھی تعجب تھا کہ جہاں فلسطین کو تسلیم کرنے اور فلسطینی حکومت کو جائز قرار دینے کے قراردادیں دنیا میں آنی چاہیے وہاں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں شروع ہوئی لیکن 7 اکتوبر پچھلے سال حماس کے مجاہدین نے جس انداز سے حملہ کیا وہ حملے پر لوگ تبصرہ کر سکتے ہیں ہر ایک کی اپنی مرضی ہے لیکن اس نے فلسطین کے مسئلے کی نوعیت تبدیل کر دی اور دوبارہ کسی کی زبان پر یہ نہیں آیا کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے یا نہیں، آج یا فلسطینی ریاست کے قیام کی بات ہو رہی ہے یا اس مسئلے کے حل کے لیے دو ریاستی حل جو ہماری پارٹی اس کو سپورٹ نہیں کر رہی ہم اس پورے سرزمین کو عرب کی سرزمین کہتے ہیں فلسطین کی سرزمین کہتے ہیں اور یہ عرب کی وہ سرزمین ہے جس پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
أخرجوا الیھود من جزيرة العرب
تمام جزیرہ عرب سے یہودیوں کو باہر کر دو، چنانچہ اس کے تحت اس خطے میں یہودیوں کی آبادی، بستی، یہودیوں کی مملکت اس کا کوئی جواز موجود نہیں ہے، نہ ازروئے شریعت اور نہ سیاسی لحاظ سے اور نہ ہی جغرافیائی لحاظ سے۔

چنانچہ 7 اکتوبر کو آج ہم اس لیے بیٹھے ہیں کہ ہم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا دن منائیں، باوجود اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یکجہتی کا مظاہرہ کرے، ہمارے درمیان اختلاف رائے موجود ہے، سیاسی معاملات پر اختلاف رائے ہے، الیکشن کے معاملات پر اختلاف رائے ہے، بہت سی چیزوں پر ہمارا اختلاف رائے ہیں لیکن اگر آج شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان میں ہو رہا ہے اور پاکستان اس کو ہوسٹ کر رہا ہے تو اس موقع پر بھی بہرحال ایک سمٹ ہے ایک سربراہی اجلاس ہے اور ہمیں اس کے احترام میں بھی یکجہتی دکھانی چاہیے اگر ہم نے معیشت کے حوالے سے دنیا کا اعتماد حاصل کرنا ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کرے تو اس کے لیے داخلی یکجہتی ضروری ہے تاکہ ہم ان کے اعتماد کو بحال کر سکیں۔

تاہم اس وقت تک 50 ہزار غزہ اور خان یونس کے مسلمان شہید ہو چکے ہیں، اکثریت چھوٹے بچوں کی ہیں، خواتین کی ہیں، بوڑھوں کی ہیں، بے گناہ شہری غیر مسلح اور یہ جن کے جنازے پڑے گئے ہیں یہ وہ تعداد ہے، مجھے بتایا گیا کہ کوئی 10 ہزار کے قریب لوگ اب بھی ملبوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں جن کو جنازہ بھی نصیب نہیں ہو سکا ہے، ہزاروں کی تعداد میں وہ شیر خوار بچے کہ اگر کل وہ بڑے ہو گئے تو شاید ان کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ ہم کس کی اولاد تھے ہمارا باپ کون تھا ہماری ماں کون تھی۔ اس قسم کی ایک صورتحال دنیا میں جا رہی ہے ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے

مَثَلُ المُؤْمِنينَ في تَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهمْ وتَرَاحُمهمْ كمَثَلُ الجَسَدِ الواحد إذ اشْتَكَى عَيْنُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ وإذ اشْتَكَى رَأْسُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ وإِذَا اشْتَكَى عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الجَسَدِ بِالسَّهَرِ والحُمَّ

کہ ایمان والوں کی مثال ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کرنے میں ایک دوسرے پر مہربان ہونے میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی دکھانے میں ایسا ہے جیسے ایک جسم کہ اگر جسم کے سر میں درد ہو تو پورا جسم بے قرار اگر اس کی آنکھ میں درد ہو تو پورا جسم بے قرار ہو جسم کی کسی حصے میں اگر درد مچل رہا ہے تو ساری رات جاگ کے گزرتی ہے اور بخار کی حالت میں گزرتی ہے۔ کیا آج ہم فلسطینیوں کے درد کو اس انداز سے محسوس کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے دل اس انداز سے تڑپ رہے ہیں ان کے لیے؟ امت مسلمہ نے اس ایک سال میں جس غفلت کا مظاہرہ کیا ہے یہ اللہ کی نظر میں جرم ہے جرم! اور ہم پاکستانی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں ہم نے اپنے بھائیوں کے ساتھ اس حالت میں وہ ہمدردی نہیں دکھائی جس کے وہ محتاج ہیں جس کے لیے وہ پکار رہے ہیں ہماری مدد کو پکار رہے ہیں چیخ رہے ہیں اور جب ان کے والدین کے سامنے اس کا بچہ شہید ہو رہا ہے تو والد اس کو کہتا ہے کہ جب آپ آگے چلے جائیں گے تو رسول اللہ سے گلہ کرنا کہ مسلمان بھائیوں نے ہماری مدد نہیں کی! کیا ہمیں اس بات کا احساس ہے؟ دردناک کیفیت ہے! کچھ چیزیں ہمیں دعوت دے رہی ہیں ان حالات میں بھی کہ ہم نے کیا کرنا ہے، ہم سے تو جنوبی افریقہ اچھا ہوا کہ جس نے عالمی عدالت انصاف میں جا کر کیس دائر کیا اور عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کے خلاف فیصلہ دیا اور کہا جنگ بند کرو پیچھے ہٹ جاؤ لیکن اسرائیل ہے کہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتا ہے، اقوام متحدہ نے قرارداد پاس کی ان کے خلاف، اسرائیل اتنا جرات مند ہے کہ اس نے سیکرٹری جنرل کو اسرائیل میں آنے سے روک دیا جی۔ یہ ساری صورتحال ہمارے لیے سیاسی طور پر لمحہ فکریہ ہے، سوچ کی دعوت دیتا ہے ہمیں کہ ہم نے کس زاویے سے سوچنا ہے، ایک کانفرنس کر کے ایک قرارداد پاس کر کے ایک اعلامیہ جاری کر کے شاید ہم فلسطینی بھائیوں کا اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم پر ان کا حق ادا نہیں کر سکتے جی۔

پوری اسلامی دنیا ہو یا پاکستان ہو ہم سب مصلحتوں کا شکار ہیں کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے، ارادے باندھتا ہوں توڑ دیتا ہوں، اس کیفیت سے ہم سب لوگ مبتلا ہیں ہمیں اس کیفیت سے نکلنا ہوگا اگر ہم واقعی سمجھتے ہیں کہ ہم نے ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا ہے، فلسطینی بھائی محض زبانی یکجہتی کے طلبگار نہیں ہیں وہ کچھ عملی طور پر آپ سے چاہتے ہیں اور جب میں دوحہ گیا تھا پچھلے سال تو مجھے انہوں نے اس وقت جہاں ایک عبوری حکومت تھی یا حکومت تھی بھی یا نہیں ایسی صورتحال تھی وہ خط مجھے دیا گیا قلم سے لکھ کر دیا گیا کوئی ٹائپ بھی نہیں کیا گیا جس میں انہوں نے پاکستان سے کیا طلب کیا تھا، ذرا اس کا مطالعہ کیجئے ذرا معلوم کیجئے کہ انہوں نے پاکستان سے کیا مانگا تھا؟ پچھلے سال 14 اکتوبر کو پشاور میں بہت بڑا جلسہ تھا ہمارا مفتی محمود کانفرنس کے نام سے تھا ملین مارچ تھا لیکن ہم نے ان کو طوفان اقصیٰ کے عنوان سے تبدیل کر دیا تھا اور اس میں ایک فلسطینی رہنما نے شرکت بھی کی، پھر کوئٹہ میں کانفرنس ہوئی، پھر کراچی میں کانفرنس ہوئی، ملین مارچ ہوئیں لیکن اس میں فلسطینی نمائندے نے برابر شرکت کی اور اس مسئلے کو اٹھایا گیا، یہاں ایک سوال پیدا ہوا اور مجھے یہ شکایت پہنچائی گئی کہ فلسطین کی حکومت کہتی ہے کہ یہ تو ایک تنظیم ہے اور آپ اس کو اتنا اٹھا رہے ہیں تو میں نے کہا جی یہاں ریاست ہے وہاں بھی ریاست ہے، ریاست ریاست کے ساتھ معاملات کرے لیکن ہم تنظیم ہیں حماس تنظیم ہے ہم ایک تنظیم کو سپورٹ کر رہے ہیں بطور تنظیم کے اور کھل کر سپورٹ کر رہے ہیں ہر چند کے لوگ کہتے ہیں وہ تو بین الاقوامی طور پر دہشت گرد تنظیم ہے اور فلاں ہے فلاں ہیں، دہشت گرد ہوگا امریکہ کی نظر میں ہوگا یورپ کی نظر میں ہوگا مسلمانوں کے دشمنوں کی نظر میں ہوگا اسلام دشمنوں کی نظر میں ہوگا ہماری نظر میں وہ اسلام کے مجاہدین ہیں اور وہ اپنے حق کی جنگ لڑ رہے ہیں! ہم کھل کر اعلان کرتے ہیں اس بات کا جی، ہم نے کسی ایک لمحے کے لیے بھی یہ پوزیشن نہیں لی کہ دفاعی پوزیشن میں آکر ہم فیصلے کرتے رہیں گے، امریکہ ہمیں دہشت گرد کہے گا تو ہم اس کو دہشت کہتے ہیں امریکہ ہمیں پرامن ہونے کی سرٹیفیکیٹ دے گا تو ہم کہیں گے کہ یہ بہترین سرٹیفیکیٹ ہے ہمیں مل گیا جی، جو خوش ہوتے ہیں ہزار دفعہ خوش ہوں لیکن ہم اپنی نظریاتی پوزیشن اور نظریاتی حیثیت کو ہمیشہ واضح رکھنا چاہتے ہیں۔

ہماری تجویز ہوگی کہ یہ کانفرنس ہماری حکومت سے کہے کہ بڑے مسلم ممالک کا ایک گروپ بنے جس میں پاکستان ہو، سعودی عرب ہو، ترکی ہو، مصر ہو، انڈونیشیا ہو، ملائشیا ہو ان کا گروپ بن کر پوری اسلامی دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرے اور ایک مشترکہ حکمت عملی بنائیں یہاں تک کہ مشترکہ دفاعی حکمت عملی بنائے، اس طرح تو آج جنگ پھیل رہی ہے لبنان میں داخل ہو چکی ہے، ایران میں داخل ہو چکی ہے، دوسری اسلامی دنیا ان کی نشانے پر ہے یمن تک پھیل چکی ہے، سارے عرب دنیا آج اس جنگ کی لپیٹ میں آرہی ہے ایک چھوٹا سا جغرافیائی ہے حیثیت میں چھوٹا سا ملک آج اس نے پورے عرب دنیا کو دوبارہ اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے اور ہم یہاں پر صرف یکجہتی کی حد تک منا رہے ہیں دن کو اور ایک میٹنگ کر رہے ہیں، نہیں! یہ میٹنگ ہماری معنی خیز ہونی چاہیے یہ میننگ فل ہونی چاہیے اور اس پر ہمیں ایک واضح طور پر اسلامی دنیا کے ساتھ رابطہ کرنا چاہیے، بڑے ممالک موجود ہیں ہمارے اچھے تعلقات ہیں ان کے ساتھ سب کے ساتھ ہمارے بہترین تعلقات ہیں پاکستان لیڈ کریں سعودی عرب لیڈ کرے جو بھی لیڈ کرے لیکن ایک ان ممالک کا ممکن ہے آپ کی نظر میں کوئی اور بھی ایسا ملک ہو کہ جو ہمارا دوست بھی ہو اور ہمارے کہنے پر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں اور مل کر وہ اسلامی دنیا کے بارے میں سوچیں۔

میں یہ بھی سمجھتا ہوں اگر ہمیں ایس ای او کرنا ہے سمٹ ہے سربراہی اجلاس ہوگا ہر چند کہ اس کا موضوع اقتصادی ہے لیکن اس فورم پر بھی پاکستان کو یہ مسئلہ اٹھانا چاہیے اور اس سے ایک عالمی فورم جو ہے اس کو متوجہ کرنے کی ہمیں موقع ملے گا اور ہم اس حوالے سے اپنا موقف ان کے سامنے پیش کریں گے اور کوشش کریں گے کہ ہم اس پر اگر وہ متفقہ کوئی قرارداد نہ بھی پاس کرے ہماری طرف سے ایک دعوت ہو جائے گی ایک ان کو متوجہ کرنے کا ایک عمل سامنے آجائے گا، اس وقت انڈیا نے جو پوزیشن لی ہوئی ہے وہ بالکل پاکستان کے برعکس ہے اس نے کھل کر اسرائیل کی حمایت کی ہے اور ہم کھل کر فلسطین کی حمایت ابھی تک نہیں کر پا رہے، ہمیں اسٹیٹ کے طور پر اپنا ایک واضح موقف لے لینا چاہیے جو موقف 1947 سے پہلے ہمارا تھا جو سن 1947 میں ہمارا تھا سن 48 میں ہمارا تھا اور جو آج تک ہمارا ہے اس پر ہمیں کلیئر ہو جانا چاہیے تاکہ ہم ایک مضبوط قسم کا پیغام پاکستان کی اس پلیٹ فارم سے پوری دنیا کو دے سکیں۔ میں انتہائی شکر گزار ہوں جناب صدر آپ کا اور اپنے دوستوں کا بھی شکر گزار ہوں میں نے کچھ وقت آپ کا زیادہ لے لیا ہے لیکن میری خواہش ہے کہ ان خطوط پر ہم کچھ آگے قدم اٹھائیں اور یہیں تک ہم محدود نہ رہیں۔

واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

ضبط تحریر: #محمدریاض

Facebook Comments