*پشاور مفتی محمود مرکز میں قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کی اہم پریس کانفرنس*29 ستمبر 2024Full Unicode بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ و صلی اللہ علی النبی الکریم وعلی الہ وصحبہ وبارک وسلم جمیعۃ علماء اسلام پاکستان ہر پانچ سال کے بعد پورے ملک میں عوامی سطح پر رکن سازی کرتی ہے اور رکن سازی کے لیے باقاعدہ ہم چار پانچ مہینے دیتے ہیں، اس دفعہ تو ہم نے بہت کم وقت دیا کوئی ڈھائی مہینے ہم نے دیے، ہمارے چیف الیکشن کمشنر ہے مولانا عطاء الحق درویش صاحب جی، اس کے بعد پھر تنظیم سازی شروع ہوئی اور آج اس تنظیم سازی کا آخری مرحلہ تھا مرکزی سطح کے انتخابات ہوئے یہاں پر بھی جو فیصلے ہوئے وہ بلا مقابلہ ہوئے اور امیر اور جنرل سیکرٹری جو ہے ان کا انتخاب بلا مقابلہ ہو گیا جی، تو نئی ذمہ داریوں کے ساتھ ہم پہلی مرتبہ پشاور کے صحافی ساتھیوں کے ساتھ باہم گفتگو ہیں۔ جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے عرب ممالک کو اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ اسرائیل عرب دنیا اور پورے خلیج تک اپنی جنگ کو وسعت دینا چاہتا ہے، اب مسئلہ صرف فلسطینیوں کا نہیں رہا، اس وقت اگر عرب دنیا خاموش رہتی ہے اور وہ عملی طور پر ایک مشترکہ دفاعی نظام نہیں بناتی تو یہ آگ پورے عرب دنیا کو لپیٹ میں لے سکتی ہے، اس لیے سب کو ہوشیار رہنا چاہیے الرٹ ہو جانا چاہیے باہمی رابطوں کی طرف ہمیں جانا چاہیے اور اس حوالے سے اقوام متحدہ میں جو پرائم منسٹر نے تقریر کی ہے میرے خیال میں پہلی مرتبہ پاکستان نے کچھ اس حوالے سے اپنی زندگی کا ثبوت دیا ہے کہ ہم بھی زندہ ہیں اور بات کر سکتے ہیں، تو اچھا ہے کہ ہم اسلامی دنیا میں اس حوالے سے میں سوچتا ہوں کہ اس کی قیادت جو ہے پاکستان، سعودی عرب، ملائشیا، انڈونیشیا اور مصر یہ پانچ ممالک جو ہیں اس پوزیشن میں ہیں کہ اگر ان کا گروپ بن جائے اور اسلامی دنیا کو وہ اکٹھا کریں تو ہم ایک کمانڈ کے تحت جو اسلامی دنیا کا عرب دنیا کا دفاع کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے سب کو منظم ہونا ہوگا حسن نصر اللہ جو ہے یہ ایک دوسری بڑی قربانی ہے اسماعیل ہنیہ کے بعد اور ایک بہت بڑا ایک ٹارگٹ ہے جو اسرائیل نے اِچیو کیا ہے اور جس سے یقیناً اعصابی طور پر ان کے حوصلے بلند ہو سکتے ہیں، تو ہمیں اپنے حوصلے ہارنے نہیں چاہیے اللہ پر ہمیں توکل کرنا ہے جہاد جاری رہے گا اور مسجد اقصیٰ کی آزادی تک ان شاءاللہ العزیز یہ جہاد جاری رہے گا۔*سوال و جواب*یہ آپ کے صحافتی دنیا کی کمزوری ہے آپ یرغمال ہو جاتے ہیں ہمیشہ سیاست میں دو پارٹیوں کے بیچ میں، تھوڑا آپ ذرا ان دو پارٹیوں اور دو طرف کے یرغمالی سے باہر نکلیں اور ذرا سوچیں کہ پاکستان میں کوئی اور بھی ہے، تو جمعیۃ علماء نے واضح کر دیا ہے کہ تم ہزار دھاندلی کر کے ہمارے مینڈیٹ کو چراؤ لیکن پبلک میں ہم ہیں اور تھوڑی عدد کے ساتھ ہم نے بتا دیا ہے کہ جمعیۃ کو ہلکا مت لیا کرو اور آئندہ بھی ہمارے اعصاب مضبوط ہیں اگر دھاندلی کی گئی تو ہم پھر میدان میں ہوں گے اور ہمارا کارکن اس حوالے سے زندہ ہے اور زندگی کا ثبوت دیا ہے انہوں نے، شاید اسٹیبلشمنٹ کا یہ خیال تھا یا ان کے ایک جرنیل کا یہ خیال تھا جو ہمیں معلوم ہے وہ کون تھا جس نے ہمارے صوبے میں ہلڑ بازی کی ہے تو بلوچستان میں ہلڑ بازی کی ہے تو ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ 2018 میں جس طرح ہمارے حوصلے بلند تھے 2024 میں بھی ہمارے حوصلے کم نہیں ہوئے اور ہم نے چاروں صوبوں میں ملین مارچ کر کے بتا دیا ہے کہ کارکن ہمارا زندہ ہے اور وہ اپنے ساتھ نا انصافی کو کسی قیمت میں برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ اب رہی بات پارلیمان کی تو یہ پارلیمان تو اتنے بڑے ترمیم کا حقدار نہیں ہے اس پارلیمان کا وہ مینڈیٹ نہیں ہے کہ وہ اتنا بڑا کام کر سکے، ہم سمجھتے ہیں کہ الیکشن ہوں حقیقی معنوں میں عوام کے صحیح نمائندے میدان میں آئے پارلیمنٹ پر عوام کا اعتماد ہونا چاہیے اس جعلی قسم کے پارلیمنٹ سے اتنی بڑی آئینی ترمیم کرانا یہ بذات خود ایک ناانصافی ہے تاہم ہم نے ایک بات کی ہے کہ ہم پارلیمانی کردار جاری رکھیں گے تو ہم نے ضرور پارلیمنٹ میں کچھ تجاویز دی ہیں اور ہم نے ان سے یہ کہا کہ آپ یہ کیا شخصیات کے بیچ میں پھنس گئے ہیں ہمیں یہ جج قبول ہے اور ہمیں یہ جج قبول نہیں ہے اور ججوں کو اس لیے مدت ملازمت میں اضافہ دینا چاہیے اور اس لیے۔۔۔، ہمارے ان کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہیے، یہ تو پھر سیاسی مقاصد کے لیے آپ اتنی بڑی ترمیم کی طرف جا رہے ہیں کوئی سیاسی مقاصد کسی پارٹی کے نہیں ہونی چاہیے، آپ عدلیہ میں اصلاحات لائیں اور آپ ایک کانسٹیٹیوشنل کورٹ کی طرف جائیں جو ہمارے سی او ڈی کا حصہ ہے یعنی یہ 2006 کا ایک عہد و پیمان ہے جس پر ہم قائم ہیں جی لیکن اگر اس کے ذیل میں جب آپ قانون سازی کرتے ہیں یا آپ آئینی ترمیم لاتے ہیں اس میں آپ بنیادی حقوق کو بھی ڈبو لیتے ہیں اور اس میں آپ ملٹری کو اتنا مضبوط کریں کہ ہر سطح پر فوج ہی فوج نظر آئے تو پھر مارشل لاء اور اس ترمیم میں کیا فرق ہے جی، یہ تو دوسرے معنی میں آپ مارشل لاء لگا رہے تھے تو اس میں ہم نے بالکل سپورٹ نہیں کیا اور وہ اجلاس نہیں ہو سکا سو ایک مرحلہ تو گزر گیا ہے اب اگلے مرحلے میں دیکھتے ہیں گورنمنٹ کیا مسودہ لاتی ہے، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے درمیان میں بات ہوئی ہے وہ بھی ایک مسودہ بنا رہے ہیں ہم بھی اور ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کریں گے، پی ٹی آئی بھی ایک مسودہ بنا رہی ہے اور ہم بھی بنا رہے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ شیئر کریں گے اس طریقے سے ہم چاہیں گے کہ ایک اتفاق رائے کے ساتھ ایک ترمیم لائی جائے تاکہ یہ ملک کے اندر کسی سیاسی ہنگامے کا ذریعہ نہ بنے بلکہ واقعی اس کا ہاتھ کا ذریعہ بنے۔کیا مطلب آپ کا؟! تو ظاہر ہے ہمیں تو حکومت کے ہاتھ سے ملتا ہے حکومت کہیں کا ایک۔۔۔ اگر آپ کو کوئی اور معلومات ہو تو بتا دیں۔ہمارے پاس تو (مسودہ) حکومت کی طرف سے آتا ہے تو ہم تو حکومت کا ہی کام سمجھیں گے۔بالکل مشاہدات ہوئے ہیں اور اسی کو دیکھ کر تو ہم نے مسترد کر دیا کہ یہ قابل قبول نہیں ہے۔حضرت جو بنیادی حقوق آپ دیتے ہیں قوم کو عام آدمی کو اس میں کچھ استثنائیات ہیں جس میں ملٹری کے حوالے سے ہیں بہت مختصر سے تو اس چھوٹے سے استثناء کو وسعت دی گئی اور جو بنیادی حقوق کا دائرہ ہے اسے تنگ کر دیا گیا اور اس کے آگے کورٹ کے نظام میں ایسی تبدیلی لانا کہ کورٹ کے نظام کو خراب کرنے کا باعث بن رہی تھی لیکن اس میں اصلاح کا سبب نہیں بن رہا تھا تو بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جس میں ہم سمجھتے ہیں کہ پارلیمان جو ہے وہ خود مختار رہے اس کے خود مختاری پر اور اس کی بالادستی اور سپریمیسی پر کوئی کمپرومائز نہیں ہونا چاہیے اور ترمیم بھی لائیں تو ایسی ترمیم کہ جس سے پبلک رلیف ملے جمہوریت مستحکم ہو اور ہر پارٹی کو اپنا منشور جو ہے وہ پارلیمنٹ میں لانے کی صلاحیت ہو لیکن یہ ہے کہ اب پارلیمنٹ ہمیں اللہ نے ایسی نصیب کی ہے کہ ہم اس کو عوام کے مینڈیٹ نہیں سمجھتے۔آپ نے بہت اچھا سوال کیا اور میں آپ کا شکر گزار ہوں ہمیں اس طرف ضرور متوجہ ہونا چاہیے کہ ہمارا صوبہ اس وقت آگ میں جل رہا ہے۔ یعنی اس وقت تک میرے پاس جنوبی وزیرستان چاہے وزیر قبیلے سے تعلق ہو چاہے محسود قبیلے سے تعلق ہو ان کے فون میرے پاس آئے ہیں، شمالی وزیرستان کے اتمانزئی قبیلے کے لوگ میرے پاس آئے ہیں کرم ایجنسی کے لوگ میرے پاس آئے ہیں اب بھی وہاں پر جنگ شروع ہے لوگ ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں اور ریاست خاموش ہیں۔ یہ ہمارے خیبر ایجنسی کے کوکے خیل قبیلے کے لوگ آئے ہیں ہمارے پاس افریدی لوگ تو کوئی ایسا ایجنسی نہیں ہے کہ جن کے وفود کم از کم میرے پاس براہ راست نہ آئے ہو، اور یہ سب تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کسی کو گھروں کے معاوضے نہیں مل رہے تو غریب لوگ ہیں گھر تباہ ہو گئے ان کے دوبارہ بنانے کے قابل نہیں ہیں، کچھ لوگ ہیں کہ اتنے طویل اپنے ملک میں ہجرت کا دور مکمل کر کے بھی ابھی گھروں کو واپس نہیں جا سکتے اور فوج ان کو واپس نہیں جانے دے رہی، تو اس سارے صورتحال میں ہمارے قبائل جو ہیں میرے خیال میں انظمام سے پہلے کی حالت میں اچھے تھے انظمام کے بعد میں جو ہے وہ زیادہ پریشان ہے جی اور زیادہ قسم کی مشکلات سے گزر رہے ہیں، اب نہ فاٹا رہا نہ سیٹل رہا اس بیچ میں کیا چیز ہے سمجھ میں نہیں آرہی، اس وقت فاٹا کا عوام مظلوم ہے مظلوم ہے اور یہی صورتحال حضرت بلوچستان کی بھی ہے ہمارے ہاں بھی لاپتہ لوگ ہیں بے تحاشہ لوگ ہیں اسی طرح لاپتہ لوگ بلوچستان میں ہیں وہ بھی اپنے پیاروں کے لیے رو رہے ہیں اور یہی ان کی سب سے بڑی پرائرٹی ہے اور یہ چیزیں جو ہیں اس وقت بدامنی کی صورتحال ہے مسلح گروہ ہر جگہ آزاد ہیں، کنٹرول ان کا ہے، سٹیٹ کی رِٹ ختم ہو چکی ہے، ہم کن جھگڑوں میں پڑے ہوئے ہیں اور ملک کدھر جا رہا ہے، پرائرٹی کو طے کرنا چاہیے ترجیحات کیا ہیں ہماری، اس پر حکومت نہیں سوچ رہی جی۔خاقان عباسی صاحب میرے گھر تشریف لائے تھے، اس موضوع پر بڑی تفصیلی گفتگو ہوئی اور وہ سارا پس منظر ان کو معلوم تھا، خاقان عباسی صاحب میرے گھر تشریف لائے تھے اس وقت جب یہ ترمیم ابھی نہیں ہوئی تھی تو 25 مطالبات میں سے چار مطالبات جو ہمارے تھے جس پر ہمیں اختلاف تھا اس سے وہ وڈرا ہو گئے تھے وڈرا ہونے کے بعد کہاں سے حکم آیا ظاہر ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ امریکی افسر کون تھا جو آیا اور اس نے کہا کہ فاٹا مرجر از مسٹ (FATA Merger is Must) یہ الفاظ وہ ہیں جو میرے سامنے کہے گئے ہیں، پھر جناب باجوا صاحب آرمی چیف تھے جنرل نوید مختار صاحب وہ آئی ایس آئی کے چیف تھے پارلیمنٹ کی بلڈنگ میں پرائم منسٹر کے چیمبر میں مجھے ملے اور میرے ساتھ یہ مسئلہ ڈسکس کیا اور میں نے ان سے کہا کہ آپ بے وقت فیصلہ کر رہے ہیں ابھی فاٹا مرجر جو ہے اس کے لیے فاٹا کے حالات موافق نہیں ہیں، ہم نے بہت تجویزیں دی لیکن وہ بذد تھے کہ یہ امریکہ کا دباؤ ہے یہ امریکہ کا دباؤ ہے، تو اگر ہم ملک کے اندر خود مختار نہیں ہیں اور ہم نے ملک کے اندر کے فیصلے اور تبدیلیاں امریکہ کے دباؤ پہ لانی ہیں تو آپ مجھے بتائیں کہ ہم کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ایک آزاد قوم ہے اور ہم ایک آزاد مملکت میں رہ رہے ہیں، تو یہ ایک بڑا سنجیدہ سوال ہے ہمارے ملک کے لیے، فاٹا کے عوام کے ساتھ انضمام کی صورت میں جو ظلم ہوا ہے آج تک اس کی تلافی نہیں ہو سکتی، اس وقت تک ان کو 800 ارب روپے ملنے چاہیے تھے 800 ارب اور ابھی ایک سو ارب بمشکل سے ان کو پورے نہیں ہوئے ہیں آٹھ سال کے بعد، ہر سال ان کو 100 ارب ملنے چاہیے، تو اس فاٹا کے عوام نے کیا جرم کیا ہے، فاٹا کے عوام نے تو ملک کا دفاع کیا ہے، وہ آپ کا ایک سرحدی دفاعی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں، اس لیے ان اجتماعات سے اور سیمیناروں سے کچھ نہیں ہوگا، اپنی غلطی کا اعتراف کریں کہیں کہ ہم نے فاٹا کے عوام کے ساتھ ظلم کیا تھا ہم نے جبر کیا تھا اور میں چیلنج کرتا ہوں آج بھی سٹیٹ کو بھی چیلنج کرتا ہوں گورنمنٹ کو بھی چیلنج کرتا ہوں کہ پھر فاٹا کے اندر لائیں ریفرنڈم کو عوام سے پوچھے کہ عوام کیا چاہتے ہیں، زبردستی ہم دنیا میں قوموں پہ جبر کر رہے ہیں اور زبردستی کر رہے ہیں، تو یہ جو فیصلے ہوئے ہیں حضرت پہلے سوچنا چاہیے اب بعد از مرگ واویلا کی کیا ضرورت ہے جی۔میں تو حضرت میں تو اس بیان کو اس قابل بھی نہیں سمجھتا کہ اس کا جواب دوں، میں اپنی توہین سمجھتا ہوں ایسے لوگوں کی اور ایسے لوگوں کے بیانات کی، میرے نزدیک ایسے بیان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، یہ ایسی ایک بڑ بولا ہے، تو اس کی کیا ضرورت ہے ایسی بیان دینے کی کہ آپ سٹیٹ کے اندر صوبوں کے اندر جنگ کے کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں، جلسے ہیں تو جلسوں کے اپنے ذمہ داران موجود ہیں، صوبوں کی پارٹیاں موجود ہیں، صوبے کی پارٹی رد عمل دے سکتی ہے جس صوبے میں ہوتا ہے، آپ اگر طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں تو اپنے صوبے میں کریں لیکن اگر دوسرے صوبے میں آپ کرتے ہیں اور وہاں کی گورنمنٹ آپ کو اجازت نہیں دے رہی ہے تو پھر اس میں صوبہ کو اور گورنمنٹ کو کیوں تصادم کا حصہ بننا چاہیے پارٹی ہے نا پارٹی کو اپنا حق حاصل ہے کہ وہ جلسے میں بھی جائے وہ احتجاج بھی کرے یعنی میں ذاتی طور پر جلسے کو روکنا اس کو غیر جمہوری عمل سمجھتا ہوں، حکومت کو تنگ نظری نہیں دکھانی چاہیے جلسے کی اجازت پی ٹی آئی کو ملنی چاہیے جو نہیں دی گئی اس کو میں زیادتی سمجھتا ہوں جمہوری عمل کے خلاف سمجھتا ہوں لیکن صوبے کے ایک وزیر اعلیٰ کی طرف سے اس طرح کا بیان جو ہے وہ بھی ملک کے لیے بہتر نہیں ہے، یہ بچپنا ہے یہ نا تجربہ کاری ہے اور اس قسم کی مخلوق سے ہمارا واسطہ ہے تو ہمارے صوبے میں ہمارا ووٹ اور ہمارا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے اور ان کو دیا گیا ہے اس بات کا نوٹس کیوں نہیں لے رہے وہ لوگ۔سیاسی کارکن ہیں جہاں سے جائیں جا سکتے ہیں اپنے جلسے میں شرکت کے لیے جا سکتے ہیں ہمیں اس کے اوپر کوئی اعتراض نہیں ہے، اس کو روکنا میں نے اس کی آپ کے سامنے مذمت کیا کہ ایسے مناسب نہیں ہے یہ غیر جمہوری رویے ہیں لیکن صوبے کو صوبے سے لڑانا اس قسم کی گفتگو کرنا اس منصب پر فائز ہو کر میرے خیال میں یہ اس کے شایان نشان نہیں ہے، پارٹی چیئرمین موجود ہے پارٹی لیڈرز موجود ہیں سیاسی جس کے پاس کوئی سرکاری منصب نہیں ہے وہ بات کر سکتے ہیں جب وہ بات کر سکتے ہیں تو حکومتی منصب پر فائز کو ایسی بات کرنے کی کیا ضرورت ہے، سیاسی اختلافات ہو سکتے ہیں آپ اختلاف رائے کریں مرکز کے ساتھ اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن یہ لب و لہجہ یہ سوائے بچپن کے اور کوئی چیز نہیں۔میں تو جا رہا ہوں پورے ملک میں جلسے کئیں، ہمارے سے بڑے جلسے کس نے کیے ہیں؟ ہمارے سے بڑے مظاہرے کس نے کیے ہیں؟ بلوچستان کا جلسہ تھا یا کراچی کا جلسہ تھا، پشاور کا جلسہ تھا، مظفرگڑھ کا جلسہ تھا اور اب ہم مینار پاکستان کو آپ نے دیکھا کہ پورے لاہور کی تاریخ میں اتنا بڑا اجتماع نہیں ہوا پورے لاہور کی تاریخ میں اس سے بڑا اجتماع نہیں ہوا آج تک، تو جتنے عوامی سطح پر ہم بات کر رہے ہیں آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کر رہے ہیں یہی پیروی اگر دوسرے لوگ بھی کریں اسی انداز کے ساتھ لیکن اگر آپ سٹیٹ پہ دھمکیاں دیں گے اور پھر اس کے بعد جلسے کا اعلان کریں گے، تو میں جمہوری عمل کے حق میں ہوں اور جمہوری عمل کو روکنا اگر کوئی بھی حکومت کرے پنجاب کی حکومت کرے سندھ کی حکومت کرے میں اس کے خلاف بات کروں گا لیکن اس قسم کے بیانات کو سپورٹ نہیں کر سکتا جو دو صوبوں کو آپس میں لڑائیں یا ایک صوبے کو سٹیٹ کے ساتھ لڑائیں۔میں نے اسمبلی میں بات کی ہے اس سے زیادہ ذمہ دار فورم تو اور نہیں ہو سکتا نا کہ ہم اپوزیشن میں ہیں اور اپوزیشن میں رہیں گے اس کے بعد پھر اس سوال کا کیا معنی!حضرت آپ کا سٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے ہاتھ میں ہے آپ کا بجٹ آئی ایم ایف تیار کر کے دے رہا ہے اس قسم کی بات سیاسی بیان تو ہو سکتے ہیں لیکن انہی لوگوں کی پالیسیوں نے تو ہمیں غلام بنا رکھا ہے معاشی طور پر۔میں کل کی بات آج نہیں بتا سکتا، ہر چیز آپ کی پالیسی میٹر کرتی ہیں پالیسی تدریجی طور پر آپ کو مشکل سے نکالتی ہیں، یہ نہیں کہ آپ کی حکومت آئی تو ایک ہی دن میں تعلیم مفت ہو گئی اور آپ کی حکومت آئی تو ایک ہی دن میں صحت جو ہے مفت ہو گئی اور آپ کی حکومت آئی تو ایک ہی دن میں آپ آئی ایم ایف سے۔۔۔۔۔ ہر چیز کی ایک پالیسی ہوتی ہے ہم نے جس طرح اپنے صوبے میں پرائمری سے شروع کیا اور ایف اے، ایف ایس سی تک کتاب مفت مہیا کئیں لوگوں کو، ہم نے ایک ضلع سے شروع کیا اور 12 اضلاع میں اے لیول کے ہاسپٹل ہم نے بنائے تھے، ہم نے تعلیم میں کتنی ترقی کی اور کہاں تک ہم پہنچے یہ ساری چیزیں تدریجی طور پر ہوتی ہیں بشرط یہ کہ آپ کی پالیسی تو ہو۔ تو جب ہماری پالیسی آئی ایم ایف کی نجات کی ہوگی تو تدریج طور پر یقیناً ہم ان سے آزادی حاصل کرنے کی طرف جائیں گے۔میرے خیال میں وہ گفتگو مناسب تھی جی وہ مناسب گفتگو تھی۔فدا بھائی میں الیکشن سے پہلے (افغانستان) جا چکا ہوں میں نے ایک ہفتہ وہاں گزارا ہے، میں نے تمام شعبوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے راستے نکالے ہیں، میں نے مسلح گروہوں کا حل بھی نکالا ہے ان کو رپورٹ کیا ہے انہوں نے اپریشییٹ کیا ہے لیکن اس کے بعد اگر وہ نہیں اس کو آگے بڑھا سکتا تو میں کیا کر سکتا ہوں جی۔ پھر ہمارے ساتھ جو ہوا جنہوں نے سٹیٹ کے لیے اتنا کچھ کیا ان کے ساتھ جو ہوا اس صوبے میں اور بلوچستان میں، کس قیمت پر ہوا، کیوں ایسا ہوا، تو یہ ساری چیزیں اپنی جگہ پر ہیں ہم اتنی بھی کمزور اپنے آپ کو نہیں سمجھتے کہ آپ ہمیں اسمبلی سے باہر رکھیں گے، ہم ان اسمبلیوں کو پھر اہمیت ہی نہیں دیں گے، ہم مکمل سڑکوں پہ آئیں گے اور مکمل سڑکوں پہ آکر پھر شاید ہم ان کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے، ہم اتنی بھی کمزور نہیں ہیں کہ ہم سرنڈر ہو رہے ہیں، سرنڈر نہیں ہیں ہم باقاعدہ میدان میں ہیں لڑ رہے ہیں لیکن ہمارا انداز بالکل آئین اور قانون کے دائرے کے اندر جمہوری انداز ہے سیاسی انداز ہے ہم ایسے ماحول پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ سوال سارے ان سے ہیں سٹیٹ سے ہیں کہ جس دہشتگردی کے خلاف آپ 2010 سے لڑ رہے ہیں سوات سے لے کر پورے پختونخواہ کو آپ نے بے گھر کر دیا ہماری عزتیں گھروں سے نکل گئیں دربدر ہو گئی آج تک مہاجر ہیں اپنے ملک کے اندر اور آج اس سے کئی گنا زیادہ مسلح گروہ اس وقت ہمارے ہاں ڈیرہ اسماعیل خان میں لکی مروت میں ٹانک میں بنوں میں وزیرستان میں اس وقت جب ہم اور آپ بیٹھے ہیں تو تھانے بند ہو جاتے ہیں اور سڑکیں ان کے حوالے ہوتی ہیں دیہاتیں ان کے حوالے ہوتی ہیں اب اس حوالے سے اب آپ مجھے بتائیں کہ ہم کیسے زندگی گزار رہے ہیں وہاں پر اور کیسے ہمارے حالات گزر رہے ہیں ان کو ہم ہی جانتے ہیں نا جو لوگ بھگت رہے ہیں، لاہور میں بیٹھا ہوا آدمی تو شاید اس کا احساس نہ کر سکے وہ تو ابھی وہاں اللہ تعالی ان کو محفوظ رکھے لیکن ہمارے ہاں جو حالات ہیں ان کے شاید وہ ادرار نہیں کر پا رہے ہونگے۔ابھی تو ہم گورنر راج کی طرف نہیں جانا چاہتے اور اگر امیر مقام جانا چاہتے ہیں تو پھر فیڈرل گورنمنٹ ان کی ہے وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں کیا نہیں کرتے لیکن یہ ضرور کہنا چاہتے ہیں کہ نہ مرکز میں عوام کی حکومت ہے نہ صوبے میں عوام کی حکومت ہے، مینڈیٹ دونوں
جو ہے نا وہ جعلی قسم کے ہیں۔ مہربانی
تحریر: محمد ریاض