لاہور :
دینی مدارس پر بلا جواز چھاپے افسوسناک اور قابل مذمت ہیں،جمعیت علماء اسلام فرقہ واریت کے خلاف کام کررہی ہے،لیکن اسکے باوجود جمعیت علماء اسلام کے ذمہ داران کے مدراس پت چھاپے سمجھ سے بالا ہیں،حضرت حسین کے ماننے والے امت میں اتحاد اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ختم کرنے کے لئے کردار ادا کرتے رہیں گے،ملک نازک دور سے گزر رہا ہے اس میں اتحاد و اتفاق کی اشد ضرورت ہے علماء یہی کردار ادا کررہے ہیں ،صحابہ کرام و اہل بیت کے نقش قدم پر چل کر ہی امت میں اتحاد کا کردار ادا کیاجاسکتاہے.مولانا امجد خان
تفصیلات کیمطابق مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا امجد خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ حضرت حسین اور شہداء اسلام کی زندگیاں امت مسلمہ کے لئے مشعل راہ ہیں،حلفاےراشدین کا نظام نافذ کرنے اور پیغام حسین پر عمل کرنے سے ہی ملک بحرانوں سے آزاد ہوسکتا ہے،
انہوں نے کہا کہ حضرت حسن و حسین کی تعلیمات پر عمل کرکے ہی نوجوان نسل کو بے راہ روی سے بچایاجاسکتا ہے،شہداء اسلام شہداء کربلا کی قربانیاں امت مسلمہ کو اسلام کے لئے ہر قربانی دینے اور منظم جدوجہد کا درس دیتی ہیں،یہ ایک حقیقت ہے کے اسلام کے عادلانہ نظام کے نفاذ کے ملک بحرانوں سے آزاد نہیں ہو سکتا اور جمعیت علماء اسلام اسی نظام کے نفاذ کے لئے پرامن جدوجہد کر رہی ہے،
مولانا محمد امجد خان نے کہا کہ دینی مدارس پر بلاجواز چھاپے حکومت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے،وزیر اعلی کی موجودگی میں طے پایا تھا کہ آئندہ مدارس کے ذمہ داران کو اعتماد میں پہلے لیاجایاگااور مدارس والے بھی قانون نافذ کرنے والوں کے ساتھ تعاون کریں گے،لیکن اس فیصلے کی کھلی خلاف ورزی کی جارہی ہے،دینی مدارس اتحاد امت کے لئے کام کررہے ہیں،شہداء اسلام کی خدمات تاریخ اسلام کا لازوال حصہ ہیں،انہوں نے کہا جمعیت علماء اسلام نے ہمیشہ ملک میں امن کے قیام اور مسالک کے درمیان ہم اہنگی ہمیشہ کردار ادا کیا ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی،اور جے یو آئی کے ذمہ داران ملک امن وامان کیلئے امن کمیٹیوں میں فعال کردار ادا کررہے ہیں
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب