قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا قومی اسمبلی میں خطاب4 ستمبر 2024بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریمجناب اسپیکر! بہت شکریہ آپ کا، جو صورتحال امن و امان کے حوالے سے اس وقت ملک میں ہے یا پھر بے روزگاری کے حوالے سے جو صورتحال ملک کے اندر ہے میں اس پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا اس سے پہلے بھی میں اس ایوان میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بد امنی کی وجہ سے حکومتی رٹ ختم ہو چکی ہے اور مسلح قوتیں وہاں حکومت کر رہی ہے وہاں پر ٹیکس وصول کر رہے ہیں روڈ کے اوپر پلازوں پر ٹولز وصول کر رہے ہیں اور راکٹ لانچرز کے ساتھ اور انتہائی اعلیٰ ترین اسلحے کے ساتھ لیس گاؤں گاؤں پھر رہے ہیں سڑکوں پہ وہ پہرے دے رہے ہیں اور ابھی جو حال ہی میں بلوچستان میں ایک ہی دن میں چار پانچ مقامات پر ریاستی اداروں پہ حملے ہوئے ہماری مسلح افواج کے جوانوں پہ حملے ہوئے یہ سب چیزیں وہ ہیں کہ اگر ایوان اس پر غور نہیں کرے گا پھر کون غور کرے گا! ہم کبھی بھی ایسے معاملات کو سنجیدہ نہیں لے رہے چنانچہ دونوں طرف صورتحال جذباتی ہو جاتی ہے ایک فریق اس حد تک چلا جاتا ہے کہ پھر وہ علیحدگی کی باتیں شروع کر دیتا ہے دوسری طرف بھی ہم طاقت کے ساتھ ان سے نمٹنے اور ہم مکمل طور پر ریاست کے تحفظ کے لیے آخری حد تک جانے کے لیے تیار ہیں اس قسم کے بیانات صورتحال کو اور جذباتی بناتے ہیں اور دونوں طرف سے ایک انتہا میں چلے جانے کا عمل وہ پاکستان کی سلامتی کے لیے آج ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔جناب اسپیکر! ان سارے معاملات کو سیاسی لوگوں ہی طے کر سکتے ہیں آج سیاسی لوگوں کی اہمیت ختم کی جا رہی ہے جہاں معروف، معاملہ فہم، تجربہ کار اور سینیئر سیاسی قیادت ہے ان کو سائڈ لائن کیا جا رہا ہے ظاہر ہے کہ اس کی جگہ نئے نوجوان لیں گے وہ تجربہ بھی نہیں رکھتے معاملہ فہمی سے بھی محروم ہوتے ہیں جذباتی بھی ہوتے ہیں اور اس سے معاملات اس قدر الجھ جاتے ہیں کہ پھر اس گھتی کو سلجھانا ریاست کے لیے بھی مشکل ہو جاتا ہے۔سیاست دانوں کو با اختیار بناؤ سیاست دانوں کو معاملات حوالے کریں سب چیزیں اپنے اندر سمیٹنا اور سارے معاملات کے لیے فیصل آباد کا گھنٹہ گھر بن جانا ہر چیز کے لیے خود امرت دھارا بن جانا یہ شاید ایک خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن یہ کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا میں آج بھی سوچتا ہوں کہ کیا ہماری حکومت کے پاس یہ صلاحیت ہے کیا ان کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ خود فیصلہ کر سکیں یا اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر پارلیمان خود اس کے لیے کوئی اقدام کرے مذاکرات کرے بات چیت کرے اور ملک کے اندر اس اضطراب کو ختم کریں ہم پراکسی جنگ لڑ رہے ہیں یہ ہمارے اپنے مفاد کی جگہ نہیں ہے بلکہ عالمی قوتیں دخیل ہو رہی ہیں اور عالمی قوتیں اس صورتحال کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔جناب اسپیکر! یہ بات آپ سے بھی مخفی نہیں ہے کہ اس وقت خطہ پاکستان اس پراکسی وار کا ایک میدان جنگ بنا ہوا ہے، امریکہ چائنہ سی پیک اور گوادر یہ سارے وہ معاملات ہیں کہ جہاں پر ایک سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے جس کے ساتھ آپ نے معاہدات کئیں ہوئے ہیں لیکن آج ان میگا پروجیکٹس کے سامنے رکاوٹیں کھڑی ہو گئی ہیں۔ ہمارے ڈیرہ اسماعیل خان لکی مروت سے لے کر آپ پورے بلوچستان کی طرف جائیں یہ سی پیک ایریا اس وقت ان کے قبضے میں ہے اور وہاں پر کوئی ترقیاتی کام اب ممکن نہیں ہے اس وقت، بلوچستان میں یہی ادارے ہیں کہ چین نکل جائے پاکستان نکل جائے حالات یہاں تک چلے گئے ہیں۔ سنگینی کی صورتحال کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ کچھ ایریاز میں آج سکولوں کے اندر کالجوں کے اندر پاکستان کا ترانہ نہیں پڑھا جا سکتا، ان کے اندر پاکستان کا جھنڈا نہیں لہرایا جا سکتا، ان کے کلاسوں میں پاکستان کا معاشرتی علوم نہیں پڑھایا جا سکتا یہاں تک صورتحال چلی گئی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں، آنکھیں بند کر کے کہ شکاری مجھے نہیں دیکھ رہا اس تمام تر نازک صورت حال میں ہمیں قدم اٹھانا چاہیے، بڑی خود اعتمادی کے ساتھ ہمیں قدم اٹھانا چاہیے، حکومت کو بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے، ہم لڑیں گے اختلاف رائے کریں گے تنقید کریں گے اپوزیشن میں بیٹھے ہیں تو اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے لیکن اگر ملک کو ہماری ضرورت پڑتی ہے تو اپنے وطن عزیز کی چپے چپے کے لیے ہماری خدمات حاضر ہیں۔پارلیمنٹ کو سیاسی جماعتوں کو سیاسی قائدین کو ملک کے لیے غیر ضروری سمجھنا اس سے بڑی حماقت دنیا میں اور نہیں ہو سکتی یہ سنجیدہ صورتحال ہے ہم ان علاقوں میں رہتے ہیں شاید سندھ میں وہاں پہ ڈاکووں کا راج ہے آپ کو وہاں کچے کی صورتحال سے وابستگی ہے وہ پریشان ہے لیکن یہاں ہمارے ہاں سٹیٹ کو باقاعدہ چیلنج کیا جا رہا ہے اور صورتحال انتہائی مخدوش ہو چکی ہے۔تو اس سارے صورتحال میں ہمارا کردار کیا ہو سکتا ہے، میں اب بھی یقین رکھتا ہوں کہ اگر پارلیمنٹ سے درخواست کی جائے کہ وہ آگے بڑھیں بلوچستان میں جا کر بات کریں لوگوں کے ساتھ، گفتگو کریں کے پی میں آئیں وہاں کے لوگوں سے بات چیت کریں گفتگو کریں تو صورتحال کو دوبارہ واپس اپنے حالت میں لایا جا سکتا ہے لیکن اس انداز سے صورتحال مزید خراب ہوتی چلی جا رہی ہے اور میں چوں کہ تجربہ رکھتا ہوں حضرت 2006 سے اس ساری صورتحال میں جب ریاست ناکام ہو جاتی ہے تو وہاں ہم جاتے ہیں اور صورتحال کو کنڑول کرتے ہیں، میں ابھی الیکشن سے پہلے افغانستان گیا ایک ہفتہ میں نے گزارا پاکستان افغانستان کے تمام شعبوں میں باہمی تعاون، سرحدات کا معاملہ، مسلح گروپوں کا معاملہ، مہاجرین کا معاملہ، باہمی تجارت کا معاملہ ان سب پر تفصیلی گفتگو کے بعد میں مکمل کامیاب واپس آیا اور میں نے وزارت خارجہ اور پاکستان کی ذمہ داروں کو اس سے آگاہ کیا اور وہ مطمئن ہوئے ایپریشیٹ کیا اور کہا میکنزم کیا ہوگا، میں نے کہا وہ تو ریاست کا معاملہ ہے میرا ذاتی معاملہ تو نہیں ہے میں تو اپنی مرضی سے نہیں گیا تھا ان کی دعوت پر گیا تھا تو یہ کوئی مشکل چیزیں نہیں ہیں لیکن اگر ہم سنجیدگی کے ساتھ بیٹھ کر تسلی سے بات چیت کر سکتے ہیں، یہاں پر سوال اٹھائے جاتے ہیں حملہ ہو گیا کہ شام میں حملہ ہوا یقینا بری بات ہے ہمیں اقدام کرنا چاہیے ان کے خلاف، سیدھا الزام آجاتا ہے کہ یہ تو افغانستان کے لوگ ہیں تو افغانستان کے لوگ مجرم ہیں لیکن وہ ایک یا دو چوکیوں کو عبور کر کے کوئٹے پہنچتے ہیں اور کوئٹہ سے لے کر بشام اور کوہستان تک ڈھائی سو چوکیاں ہیں ان کو عبور کرنا کیا وہ بھی افغانستان کے ذمہ داری ہے؟ ہم کہاں تھے! وہاں سرحدات پر ہماری فوج ہے! ان کے پاس تو اتنی فوج ہی نہیں ہے کہ وہ سرحدات کو کنٹرول کر سکے لیکن اس سارے صورتحال میں صرف اس سے کام نہیں بنے گا کہ ہم ذمہ داریاں کسی اور پہ ڈال دیں ہمیں خود اپنی ذمہ داری کی طرف بھی متوجہ ہونا ہوگا۔دوسری بات میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں یہ چیز اس میں ہے کہ ترجیحات دیکھنی چاہیے اس وقت یقینا یہ ایک اہم مسئلہ ہے کہ جو مسنگ پرسنز ہیں یہ بڑا ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے ہم لوگوں کا، ان کے پیارے جو ہے وہ دس دس سال بیس بیس سال سے غائب ہے ان کو نہیں بتایا جا رہا ہے کہ وہ مر چکے ہیں وہ زندہ ہیں وہ جیل میں ہے بھاگ گئے ہیں جہاں بھی ہوں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے خاندان کو بتائے کہ تمہارا بچہ کدھر ہے ہم نے تو وہ چیزیں بھی دیکھی کہ اگر آرمی پبلک سکول کا واقعہ ہوتا ہے آرمی پبلک سکول کے واقعے سے ایک سال پہلے ایک نوجوان پکڑا جاتا ہے ایک سال پہلے اور پھر جب پھانسیاں دی جاتی ہیں تو اس سکول پر حملے کی پاداشت میں اس ایک سال پہلے قیدی کو بھی ڈال دیا جاتا ہے یہ بھی قاتل ہے اور اس کو پھانسی دی گئی، اس قسم کی چیزیں لوگوں میں بداعتمادی پیدا کرتی ہے، اس قسم کی چیزیں لوگوں میں نفرت پیدا کرتی ہے، میں چاہتا ہوں کہ قوم فوج پر اعتماد کرے لیکن ان اقدامات سے اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے، نفرتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور مجھے نہیں خیال یہ نفرت ہم آئندہ چند نسلوں میں بھی ختم کر سکیں گے! لہٰذا ان مسائل کو ترجیح دے دینی چاہیے وسائل ہیں اور بلوچستان کے وسائل ہیں خیبر پختونخواہ کے وسائل ہیں سندھ کے وسائل ہیں پنجاب کے وسائل ہیں ان وسائل پر وہاں کے عوام کا حق ہے وہاں کے لوگوں کے آئندہ نسلوں کا حق ہے ان کو اطمینان دلا دیا جائے کہ آئین پر عمل ہوگا اور اٹھارویں ترمیم کے تحت یہ چیزیں آپ کی ملکیت ہیں ریاست کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ جا کر وہاں پر قبضہ کرے، یہی وجہ ہے کہ عام مجالس میں یہ سوال اٹھائے جاتے ہیں مثال کے جو سارے دہشت گردی دہشت گردی کے خلاف جنگ فوج کا حرکت میں آنا اور قبائلی علاقوں میں چلے جانا یہ درحقیقت ان وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے ایک وسیلہ ہے جو اس کے لیے استعمال ہو رہا ہے جس کا لوگ کہیں ادراک رکھتے ہیں اور اس کو سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔دوسری بات یہ ہے جی کہ بے روزگاری کا معاملہ ہے ہم لوگوں کو روزگار نہیں دے پا رہے مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے گرتی ہوئی معیشت کو ہم دوبارہ نہیں اٹھا پا رہے ابھی، بڑی ایک طویل جنگ ہمیں لڑنی پڑے گی اور بڑے احتیاط کے ساتھ لیکن ایک طرف بے روزگاری ہے ہم لوگوں کو نوکریاں نہیں دے سکتے لوگوں کو روزگار فراہم نہیں کر سکتے دوسری طرف ہم محکموں کو ختم کر رہے ہیں پی ڈبلیو ڈی کو ہم ختم کر رہے ہیں یوٹیلٹی اسٹور کو ہم ختم کر رہے ہیں، سات سات ہزار دس دس ہزار ملازمین بیک وقت فارغ ہو جائیں گے، اس قسم کا کوئی قانون لانا کوئی بل لانا کوئی ترمیم لانا یہ پاکستان کے ان ملازمین کے ساتھ ان کے خاندانوں کے ساتھ ان کے بچوں کے ساتھ دشمنی ہوگی اور کسی قیمت پر اس قسم کی ترامیم کو ایوان میں قبول نہیں کیا جائے یہی وجہ تو ہے کہ ہم مایوس ہو چکے ہیں ہم کدھر جائیں کوئی رول نہیں رہا ہے پارلیمنٹ کا، ممبران کا کوئی رول نہیں رہا ہے تبھی تو اختر مینگل صاحب نے استعفیٰ دے دیا تو پھر ایسے ایوانوں میں کیسے بیٹھوں اور یہ ان کے جذبات و احساسات نہیں ہیں، جس طرح کے الیکشن ہوئے جس طرح کے نتائج سامنے آئے جس طرح کا پارلیمنٹ وجود میں آیا یہ احساسات ہم سب کے ہیں یہ اور بات ہے کہ پارٹیوں کا معاملہ ہے کسی پارٹی نے فیصلہ کر لیا کوئی ابھی ایوان میں کردار ادا کرنا چاہتے ہیں لیکن اس طرح چلے گا نہیں، معاملات کو خراب نہ کیجیۓ آپ اس وقت چیئر کر رہے ہیں قومی اسمبلی کے اجلاس کو، آپ کی طرف سے واضح ہدایات جانی چاہیے کہ ایوان مضطرب ہے ملک کے لیے پریشان ہے اور ایوان پر اعتماد کیا جائے ہم جیسے کیسے بھی ہیں فارم سینتالیس کے ہیں یا پینتالیس کے ہیں لیکن اب اس ایوان میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں اور انہی سے آپ نے کام لینا ہوگا ان کو اپنا ملازم سمجھ کر یہ صرف اس لیے بیٹھے ہیں کہ جب ریاست چاہے گی کہ ترمیم کر لیں تو انہی سے ترمیم کرائیں گے ہم اپنے مفاد کے لیے قانون بنانا چاہیں تو انہیں سے قانون بنائیں گے انہیں کوئی استعمال کیا جائے گا ہم اداروں کے استعمال کے لیے یہاں نہیں بیٹھے ہوئے ہم آزادی سے ملک اور قوم کی خدمت کے لیے بیٹھے ہیں۔یہ ساری صورتحال ہے میں آپ کا ممنون ہوں کہ مجھے آپ نے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع دیا اور اس کو سنجیدگی سے لیا جائے اس کو خوامخواہ ایک تقریر اور خطاب نہ سمجھا جائے میں ان حالات کی وجہ سے انتہائی مضطرب ہوں انتہائی پریشان ہوں اور مایوس ہوں کہ ہمارے پارلیمنٹ کے پاس کردار ادا کرنے کا کوئی موقع موجود نہیں ہے اللہ تعالیٰ ہم پر اپنا فضل فرمائے۔ضبط تحریر: محمدریاض
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں مسائل پر بات چیت کے لئے پارلیمانی وفود بھیجنے کا مطالبہ کردیا،سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کو ملک کے لیے غیر ضروری سمجھنے سے زیادہ بڑی حماقت کوئی نہیں ہوسکتی ، لاپتہ افراد کے معاملے کی وجہ سے ملک میں عوامی نفرت بڑھ رہی ہے، اداروں پر اعتمادختم ہورہا ہے ، صوبوں کے وسائل پر قابض ہونے کی بجائے ان کے حقوق کوتسلیم کریں قبائلی اضلاع میں قیمتی معدنیات اور وسائل پر قبضہ کے لئے قبائل پر جنگ مسلط کی گئی ہے پارلیمینٹ میں تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت ہونی چاہئے،سیاستدانوں کوسائیڈ لائن کرنا ترک کردیں، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے معاملات ان کے حوالے کردیں حل نکل آئے گا تمام معاملات میں خود کو فیصل آباد کا گھنٹہ گھر یا امرت دھار سمجھ لینا خواہش ہوسکتی ہے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ۔
Facebook Comments