قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب کی میڈیا سے گفتگو 22 اگست 2024
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اج سپریم کورٹ نے قا د یانی مبارک ثانی مقدمے کے حتمی فیصلے کو اناؤنس کیا ہے اور انہوں نے گزشتہ فیصلے جو چھ فروری کو اور پھر چوبیس جولائی کو ہوئے تھے ان کے تمام قابل اعتراض حصوں کو حذف کر دیا ہے میں اس بہت بڑی کامیابی پر پوری قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں امت مسلمہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں تمام دینی جماعتوں کو ان کے کارکنوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اج سپریم کورٹ میں تمام مکاتب فکر کے جو علماء کرام شریک ہوئے اور انہوں نے جس یکجہتی کے ساتھ کورٹ کے سامنے اپنا موقف دیا اور سپریم کورٹ کو اپنے موقف کے حوالے سے قائل کیا کہ سب قابل احترام ہیں اور مبارکباد کے مستحق ہیں اور انہوں نے امت پر احسان کیا ہے اس سلسلے میں اعلان کرتا ہوں کہ کل پورے ملک میں یوم جمعہ کو بطور یوم تشکر منایا جائے گا۔ سات ستمبر 1974 کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ قرارداد کے ذریعے متفقہ ترمیم کے ذریعے قاد یا نیوں کو اور لاہوریوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا اور اج جب پوری قوم سات ستمبر 2024 کو مینار پاکستان لاہور پر 50 سالہ گولڈن جوبلی منا رہی ہے اور جس دن کو یوم الفتح کے طور پر منایا جائے گا اج کے اس فیصلے نے گولڈن جوبلی کی اہمیت کو اور دوبالا کر دیا ہے اور اب پاکستان کے عوام ایک الگ جذبے کے ساتھ اور ایک تازہ ترین فاتحانہ تصور کے ساتھ اس میں شریک ہوں گے اور ان شاءاللہ العزیز عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے سات ستمبر یوم الفتح سنگ میل ثابت ہوگا اور دنیا کی کوئی طاقت اس عقیدے کے خلاف نہ کوئی سازش کر سکے گی نہ ان کی سازش چل سکے گی۔ یہ امت کی اواز ہے یہ پوری قوم کی اواز ہے یہ متفقہ اواز ہے ہم ان کے انسانی حقوق کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے ائین اور ائین کے فیصلے کو تسلیم کریں اگر کوئی اور شہری دنیا کے کسی حصے میں بھی اپنے ملک کے ائین سے بغاوت کرتا ہے اپنے ملک کے ائین کو تسلیم نہیں کرتا تو اس کے شہری حقوق ختم ہو جاتے ہیں انسانی حقوق ختم ہو جاتے ہیں یہ عجیب لوگ ہیں کہ اپنے اپ کو اقلیت بھی تسلیم نہیں کرتے ائین کے فیصلے کو بھی تسلیم نہیں کرتے قانون کو بھی تسلیم نہیں کرتے اور اس کے باوجود دنیا میں پیٹ رہے ہیں کہ ہم تو ہمارے تو انسانی حقوق نہیں ہیں تعجب کی بات یہ ہے کہ ان کا رونا دھونا یہ بھی ہے کہ ہمیں غیر مسلم کیوں کہا جا رہا ہے کوئی ان سے بھی تو پوچھیں کہ مٹھی بھر لوگو تم نے پوری دنیا کی امت مسلمہ کو ک اف ر کہا ہے اور غلام احمد قا دیا نی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جو مجھ پر ایمان نہیں لائے گا وہ کا ف ر ہوگا اور دائرہ اسلام سے خارج ہوگا ۔
ساری چیزیں حقائق ہیں ریکارڈ پر موجود ہیں تو اس ساری صورتحال میں امت مسلمہ نے بھی پاکستانی قوم نے بھی ہمیشہ یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے اج بھی یکجہتی کا مظاہرہ ہوا ہے اور یہ فتح اس یکجہتی کی ہے اللہ تعالی ہمیشہ قائم و دائم رکھے میں ایک بار پھر سپریم کورٹ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں میں پارلیمنٹ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس موضوع پر جو پارلیمنٹ میں بات ہوئی تو ساری پارلیمنٹ ایک طرف ایک پیج پر تھی حکومت بھی اور حزب اختلاف بھی اور اس پر سے پر کوئی اختلاف رائے نہیں تھا دینی جماعتیں ہمیشہ اس پر ہمیشہ یکجہتی کا اظہار کرتی چلی ائی ہے اور اج بھی انہوں نے وہی مظاہرہ کیا تو الحمدللہ اس حوالے سے ایک زندگی ملک کے اندر موجود ہے ایک شعور موجود ہے ایک احساس موجود ہے اور ان شاءاللہ یہ شعور و احساس اور قوم کے اندر یہ زندگی ان شاءاللہ برقرار رہے گی اور قوم ایک زندہ قوم کی ثبوت پیش کرے گی۔
صحافی: مولانا صاحب یہ فرمائے کہ جس طرح ساری جماعتوں نے اس مسئلے پر اتحاد کا مظاہرہ کیا اس سے پہلے جب ووٹر فارم سے ختم نبوت نامہ نکالا گیا تھا اس وقت بھی اسی طرح کا رد عمل ایا اور اس کو واپس لینا پڑا اور بھی متعدد مواقع بھی اس طرح سے ہوا کیا وجہ ہے کہ سود پہ بھی تمام مسالک جو ہے وہ متفق ہیں عدالتی فیصلے موجود ہیں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اور اس پر قانون سازی موجود ہے کیا وجہ ہے کہ دینی جماعتیں اس ایک بڑا بھاری پتھر جو ہے اس کو اٹھانے میں کامیاب کیوں نہیں ہو رہی اور کیا اس اتحاد کو ان مقاصد کے لیے بھی اگے بڑھایا جائے گا ؟
مولانا صاحب: ہاں یہ بات اپ کی بالکل بجا ہے کہ سود کے مسئلے پر بھی پوری قوم متفق ہے علماء متفق ہیں تمام مکاتب فکر متفق ہیں لیکن یہاں پر حکومت کو انکار نہیں تھا حکومت کو اس حوالے سے کسی قسم کی قانون میں تبدیلی یا ترمیم کا بھی انکار نہیں تھا بلکہ اس فیصلے کے خلاف خود بینک چلے گئے کورٹ میں اور بینکوں نے اس حوالے سے سٹے لیا ہوا ہے تو یہ معاملہ جو ہے وہ اس طرح نوعیت کا نہیں ہے تھوڑی سی اس کی قانونی و ائینی حیثیت ذرا مختلف ہے ۔
صحافی: یہ بتائیں اج کے اس معاملے میں اپ کی کسی سے بھی ملاقات ہوئی ہے مشاورت ہوئی ہے اور پھر ایک اپنی فیصلے کو چیف جسٹس نے متنازہ قرار دیا اور اس کو ختم کر دیا گیا اس تمام عمل میں اپ کو چیف جسٹس کا جو عمل تھا معاملہ تھا کیسے نظر ائے؟
مولانا صاحب: میرے خیال میں انہوں نے بہت ہی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے اور بہرحال بحث تو ہوئی کیوں ہوا کیسے ہوا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ائندہ بھی نہیں ہونا چاہیے ساری چیزیں ڈسکس ہوئی ہیں لیکن بہرحال اج انہوں نے جس مثبت رویے کا اظہار کیا ہمیں اس پر ان کو داد دینی چاہیے ان کو خراج تحسین پیش کرنی چاہیے ۔
صحافی: جو پہلے فیصلہ کیا گیا تھا کیا وہ حسن اتفاق تھا یا
مولانا صاحب: مجھے اس کا علم نہیں ہے میں کسی کی میں کسی مقدمے میں پیش نہیں ہوا ہوں آج پیش ہوا ہوں۔
صحافی: اپ تمام سماعت میں وہاں پر موجود رہے ہیں اپ ماشاءاللہ بہت سارے حوالے ماضی کے بھی اتے رہے اج مختلف اپ کو بار بار دیکھا اپ نماز کے لیے صرف گئے اور اس کے بعد جج صاحب نے جب اپ کو کہا کہ اپ مکمل سماعت سن کے جائیے گا تو پھر اپ وہاں پر موجود بھی رہے کیسا دیکھتے ہیں کہ کیا یہ اس طرح سے بار بار ریویو پٹیشن اور پھر اگے جو معاملات اب چلے گے کیا اعتبار کیا جا سکتا ہے میرے سوال کا تناظر یہ ہے کہ عام جو کارکنان ہیں جو عام لوگ ہیں وہ ریاست پر اس طرح اعتبار نہیں کرتے قا د یا نیوں کے بارے میں
مولانا صاحب: نہیں میرے خیال میں بات یہ ہے کہ قا د یا نیت کے حوالے سے سوچ ایک ہی ہے باقی جب ایک شخص اتنے بڑے منصب پر فائض ہو کر علی العلان کہتا ہے کہ ہم انسان ہیں ہم سے غلطی ہو سکتی ہے اور ہم اس کی ازالے کے لیے تیار ہیں اتنا کافی ہے۔
صحافی: مولانا صاحب حکومت بھی اس معاملے میں اپ کے ساتھ ہی رہی تو حکومت کے لیے بھی کچھ کہیں۔
مولانا صاحب: میں نے کہہ دیا میں نے کہا چونکہ حکومت اور اپوزیشن ایوان کے اندر بھی ایک پیج پہ تھی اس مسئلے پر سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔
صحافی: مولانا صاحب پیر کے دن بھی ایک احتجاجی مظاہرہ ہوا کسی فیصلے کے خلاف جو جمعیت علماء اسلام کے ورکرز تھے وہ سپریم کورٹ کے باہر بھی گئے تھے تو اگر حکومت کے خلاف مقدمہ درج ہوتا ہے تو اپ کیا کریں گے ؟
مولانا صاحب: میرے خیال میں یہ جمہوریت میں یہ ساری چیزیں چلتی رہتی ہیں ہر مسئلے پر احتجاج بھی کرنا پڑتا ہے تاکہ ریاستی ادارے متوجہ ہو اس طرف کی پبلک کیا چاہتی ہے اگر اپ پبلک میں نہیں جائیں گے اپ احتجاج نہیں کریں گے اپ کی اواز کوئی سنے گا ہی نہیں تو اس طریقے سے تو پھر وہ مسئلہ ہی دب جاتا ہے تو مسئلے کو زندہ کرنے کے لیے نکلنا بھی پڑتا ہے احتجاج بھی کرنا پڑتا ہے مقدمے بھی درج ہوتے رہتے ہیں اور یہ ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے۔
صحافی: کبھی کبھی عالمی طاقتیں بھی سازشوں میں شامل ہوتی ہیں یا اپ کو ایسا کچھ نظر ایا ایسا اگر ہے تو پھر ان کے لیے کیا پیغام ہے ؟
مولانا صاحب: دیکھیں ہم تو ان کو بھی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ غیر ائینی عمل کو سپورٹ نہ کریں اور یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ دیکھیے تحریک بھی چلی ہے 1953 میں ہزاروں لوگ شہید ہو گئے اس میں، کامیاب نہیں ہوا جی لیکن اب پارلیمنٹ کا فیصلہ اگیا تو دنیا جو جمہوریت کی بات کرتی ہے اداروں کی بات کرتی ہے اور اداروں کے فیصلوں کو احترام دیتی ہے پاکستان کے قومی اسمبلی کے فیصلے کو قبول کیوں نہیں کیا جا رہا نمبر ایک، دوسری بات یہ ہے کہ جنوبی افریقہ کی عدالت نے بھی تو ان کے خلاف فیصلہ دیا ہے اخر انہوں نے اسلام کی بنیادی اصول اور بنیادی سٹرکچر جو ہے اس کا مطالعہ کیا ہوگا اس کو پوری طرح پڑھنے کے بعد پہنچے گا کہ پھر اگر یہ عقیدہ ان کا ہے تو مسلمان نہیں ہے مقدمہ بہاولپور ایک مشہور مقدمہ ہے وہ عدالت تھی اور عدالت کے سامنے دونوں فریق پیش ہوئے حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ باقاعدہ دیوبند سے ائے اور انہوں نے وہاں پر بڑی لمبی بحث کی اور بالاخر ان کو قائل کر دیا اور انہوں نے فیصلہ دے دیا تو عالمی فورم پر بھی ان کے خلاف فیصلے ائے ہیں اور جو لوگ ان کو جیسے مثال کے طور پر مرزا غلام احمد ق ا د یانی خود لکھتا ہے کتاب میں کہ میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہوں تو اج یہ جماعت جو ہے یہ مغرب کا خود کاشتہ پودا ہے تو اس کو سپورٹ کر رہے ہیں جس طرح ا سرا ئیل ان کے لیے بس ناجائز بھی ہے تو ان کا بچہ ہے اور ناجائز بچے کو بھی وہ قبول کر رہے ہیں 40 ہزار 50 ہزار تک انسانوں کو انہوں نے خون پی لیا ہے اور وہ دفن ہو چکے ہیں یہ کوئی انسانی حق نہیں ہے کہ امریکہ اتنی بڑی زیادہ خون کو اور عام ادمی کے خون کو بہتے ہوئے دیکھ رہا ہے اور پھر بھی صحت کو سپورٹ کر رہا ہے کس منہ سے امریکہ اج کے بعد ان سارے حقوق کی بات کرتا ہے جو اس نے افغانستان میں کیا جو اس نے عراق میں کیا جو اس نے لیبیا میں کیا جو اس نے شام میں کیا اور ابھی تک کر رہا ہے اور اج فلسطین میں کر رہا ہے تو ان اس دنیا کو ہم یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ یا تو اپ بنیادی بین الاقوامی مسلمہ اصولوں کو تسلیم کریں اور اکثریت کو سپورٹ کریں اصول کو سپورٹ کریں کانسٹیٹیوشن کو سپورٹ کریں۔
بہت بہت شکریہ
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب