قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پشاور میں تاجر کنونشن سے خطاب تحریری صورت میں
11 اگست 2024
الحمدلله رب العالمین والصلوۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین وعلی آله وصحبه ومن تبعهم بإحسان إلی یوم الدین اما بعد فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمن الرحیم
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً قَرْيَةً كَانَتْ آَمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَداً مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ۔ صدق الله العظيم
جناب صدر محترم، سٹیج پر موجود میرے انتہائی محترم جناب حاجی الیاس بلور صاحب، جناب حاجی غلام علی صاحب، پرویز خٹک صاحب، صوبے کے اور صوبے کے تمام اضلاع کے چیمبرز کے نمائندگان جو آج یہاں تشریف لائے ہیں میں دل کی گہرائیوں سے آپ کی اس تشریف آوری کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔
کل ہم نے مردان میں کسان کنونشن منعقد کیا تھا، میں نے وہاں کسانوں کے کنونشن سے خطاب کیا اور آج یہاں تاجر کنونشن جس میں صنعت و تجارت کے انتہائی ذمہ دار حضرات یہاں تشریف فرما ہیں، جمعیت علماء اسلام زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ لوگوں کی بات کرتی ہے اس حوالے سے آپ سے رابطہ کرنا ملکی معیشت کے حوالے سے اپنی آواز کو مربوط کرنا میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی اس طرح کی تشریف آوری ذمہ دارانہ تشریف آوری ہمارے مقصد کے حصول کا ذریعہ بنے گی اور ہم اپنے اس وطن عزیز کی معیشت کو بہتر بنانے میں ایک کردار ادا کر سکیں گے، ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو آج متحرک کرنا ضروری ہے کیونکہ ملک انتہائی نازک حالات سے گزر رہا ہے۔
میرے محترم دوستو! ملک کی معروضی معیشت اس میں تاجر طبقے کا کردار، تاجر طبقے کے مسائل، تاجر طبقے کی مشکلات اور اس کی جزئیات پر تو آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں میں نے آپ کو کیا سکھانا ہے میں تو خود آپ سے کچھ سیکھنے کے لیے آتا ہوں لیکن قرآن و حدیث کے طالب علم کی حیثیت سے اسلام مملکتی زندگی میں جو اپنی ترجیحات رکھتا ہے، ایمان عقیدہ ہر ایک کا اپنا، عبادات آپ کی انفرادی زندگی کا حصہ لیکن مملکتی زندگی میں اسلام کی ترجیح کیا ہے؟ دو باتیں ہیں، ایک امن اور دوسری معیشت۔ امن تین حروف کا ایک چھوٹا سا لفظ ہے لیکن یہ تمام تر انسانی حقوق کو محیط ہے، تمام انسانی حقوق کا احاطہ کرتا ہے، اور انسانی حق تین چیزوں کے گرد گھومتا ہے جان کا حق، مال کا حق اور عزت و آبرو کا حق۔ پوری دنیا میں جب قانون سازی ہوتی ہے تو ان تین چیزوں کے گرد آپ کی پوری قانون سازی گھومتی ہے، کسی کی جان کا تحفظ کیسے کرنا ہے، کسی کے مال کا تحفظ کیسے کرنا ہے، کسی کی عزت و آبرو کا تحفظ کیسے کرنا ہے اور اگر کوئی کسی کے حق کو مارے تو پھر اس کے حق کی تلافی کیسے کی جائے اس پر ساری قانون سازی ہوا کرتی ہے۔
دوسری چیز کہ خوشحال معیشت۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب امامت کبریٰ عطاء کی گئی
وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا امتحان لیا گیا جس طرح ہمارے ہاں ایک منصب پر کسی کو فائز کرنے کے لیے اس کا انٹرویو لیا جاتا ہے، تمام امتحانات میں وہ کامیاب ہو گئے تو اللہ رب العزت نے آپ کو امامت کبریٰ کا منصب عطا کر دیا پوری انسانیت کا امام بنا دیا آپ کو، اب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں جب ہم پڑھتے ہیں آپ نے بتوں کو توڑا، آپ نے شرک کو توڑا، آپ نے کہا اگر یہ چاند میرا خدا ہے تو ڈوب گیا ڈوبنے والا خدا نہیں ہوا کرتا، اگر سورج میرا خدا ہے تو اب ڈوب گیا ڈوبنے والا خدا نہیں ہوا کرتا، بتوں کو توڑا آگ میں جھونک دیے گئے، اللہ نے وہ آگ بھی آپ کے اوپر گل گلزار بنا دیا، یہ سارے امتحانات جو آپ شرک کے خلاف لڑتے رہے بندے کا تعلق اپنے رب کے ساتھ قائم کرتے رہے تمام زندگی اس میں گزار دی لیکن جب آپ کو خلافت مل گئی انسان کی خلافت امامت کبریٰ آپ کو عطاء ہوئی آپ کا لب و لہجہ تبدیل ہو گیا، اب وہی شخصیت جو توحید کا پرچار کرتی تھی وہی شخصیت جو شرک کے بتوں کو توڑا کرتی تھی اب اللہ کے سامنے گویا ہوتے ہیں
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا
یا اللہ میرے شہر کو امن کا گہوارہ بنا دے۔
وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ
اور اس کے شہر والوں کو آپ پھل فروٹ عطا فرمائے دال ساگ کی بات نہیں کی پھل فروٹ کی بات کی، کوئی کہتے ہیں ثمر کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ نتیجہ خیز ہو ثمر آور ہو اچھے نتائج اس پر مرتب ہوں ایسا نظام عطاء کر دو لیکن آپ نے قید لگا دی
مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ
ہمیں پھل فروٹ کا نظام اور رزق عطاء کر اس شخص کے لیے جو اللہ اور آخرت پر ایمان لاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں
قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ
اس دنیا میں تو اگر کوئی مجھے نہیں مانے گا اور ایمان نہیں لائے گا اس کو بھی دیا کرونگا، یہ ہے وہ دین اسلام کہ کس طرح وہ پوری انسانیت کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے، اس کے خوشحال معیشت کی بات کرتا ہے اس کو امن عطاء کرتا ہے اور پیغمبر جب اپنے ایمان والے بھائیوں کا ذکر کرتا ہے تو اللہ کہتا ہے نہیں میں تو غیر مسلموں کو بھی دوں گا جب تک کہ وہ دنیا میں ہے۔ یہ وہ نظام ہے جو اللہ رب العزت انسانیت کو عطاء کرتا ہے اور جب انسان ناشکری کرتا ہے اللہ کی نعمتوں کا تو پھر سزا کس بات کی دیتا ہے وہاں بھی آپ ان دونوں چیزوں کو مد نظر رکھیں امن اور معیشت کا۔ اللہ تعالیٰ مثال پیش کرتے ہیں ایسی آبادی کا
وَضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ ءَامِنَةً مُّطْمَئِنَّةً
ایک ایسی آبادی کا کہ جس میں امن بھی تھا اور جس میں لوگ پوری اطمینان کے ساتھ زندگی گزارتے تھے اور اس امن اور اطمینان کی علت کیا تھی اس کی وجہ کیا تھی
يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍۢ
ہر طرف سے روزی ان کے پاس کِھچ کِھچ کے آرہی تھی وہ ہے خوشحال معیشت اس خوشحال معیشت میں امن بھی تھا اس پہ اطمینان بھی تھا لیکن
فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ ٱللَّهِ
جب اس بستی والوں نے اللہ کی ان نعمتوں کا انکار کیا کفران نعمت کیا تو پھر اللہ نے جو سزا دی وہ دو باتوں کی تھی ایک بھوک کی سزا اور ایک بدامنی کی سزا
فَأَذَٰقَهَا ٱللَّهُ لِبَاسَ ٱلْجُوعِ وَٱلْخَوْفِ
ذرا اپنے حالات دیکھ لیجئے نا، اپنے وطن پہ ذرا نظر ڈال لیجیے، ہمارے اس وطن میں کیا امن ہے؟ کیا ہمارے ملک میں معیشت ہے؟ جس لا الہ الا اللہ کے نعرے پر ہم نے یہ وطن عزیز بنایا برصغیر کے مسلمانوں کو جس کلمے کے نام پر ہم نے دعوت دی ہم نے 75 سال 76 سال اور اب 77 سال پورے کر رہے ہیں ہم نے لا الہ الا اللہ کے ساتھ دغا کی ہے بغاوت کی ہے۔ تو اللہ تو موجود ہے میرے نعرے پر میرے نام پر تم انسانیت کو دھوکے دیتے ہو پھر خوشحالی کہاں سے آئے گی! اللہ سے ہم بغاوت بھی کریں تو اللہ نے تو بتا دیا اس بستی کی مثال بھی آپ کو دے دی کہ امن بھی تھا معیشت بھی تھا اطمینان بھی تھا سکون بھی تھا لیکن جب کفرانِ نعمت کیا تو پھر سزا بھی دے دی اور وہ کیا؟ بھوک کی سزا بدامنی کی سزا۔ آج ہم وہی چیز رو رہے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی من حیث القوم چاہے وہ حکمران ہو چاہے وہ عوام ہو اس پہلو پہ نظر کیا ہے؟ لمحے لمحے ہم اللہ سے بغاوت کر رہے ہیں کبھی ہم کسی کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں کبھی ہم کسی کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں اگر معاشی لحاظ سے کوئی ڈوب رہا ہے خطے میں اگر کوئی ملک معاشی لحاظ سے ڈوب رہا ہے تو ایک تنہا پاکستان ہے۔ کیا ہم نے کبھی اس کے علاج دیکھیں؟ ہمارے نظام میں خامیاں ہیں! ہماری اسمبلیاں ہماری پارلیمنٹ عوام کے نمائندگان کی پارلیمنٹ اس میں لوگ ضرور بیٹھے ہیں عوام کی نمائندگی کے نام پر لیکن میں علی الاعلان یہ بات کہتا ہوں اور کہہ چکا ہوں کہ اس میں جعلی قسم کے نمائندے بیٹھے ہیں عوام کے حقیقی نمائندے نہیں بیٹھے اور جس ایوان پر عوام کا اعتماد نہیں ہوگا وہ کبھی عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتے۔ میں نے تو پارلیمنٹ میں بھی یہ بات کی ہے کہ آپ ٹیکسز کی بات کرتے ہیں کہ لوگ ٹیکس نہیں دیا کرتے ہیں یہ تو ہمیں ورثے میں ملا ہے، جب انگریز کی حکومت تھی تو لوگ انگریز کو ٹیکس ادا نہیں کرتے تھے وہ چوری کرتے جان بوجھ کر نہیں دیا کرتے ان کو پتہ ہوتا تھا کہ جس انگریز کو میں نے پیسے دینے ہیں اور خزانے میں جو میرے پیسے جمع ہونے ہیں وہ میرے فلاح و بہبود پر خرچ نہیں ہوں گے وہ انگریز کی اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کیا جائے گا، ہماری غلامی میں اور زیادہ اس کی تاریخ لمبی ہوتی چلی جائے گی وہ چلا گیا ہم نے پاکستان حاصل کیا، کیا پاکستان میں ہمارے طور طریقے بدلے ہیں؟ 77 سال میں آج تک پبلک کا ابھی تک آپ پر اعتماد نہیں رہا، ابھی بھی آپ کو ٹیکس نہیں دے رہی اور آپ ہیں کہ روز روز ایک ظالمانہ ٹیکس اس کے اوپر دوسرا ظالمانہ ٹیکس پھر ظالمانہ ٹیکس، کیوں ادا کریں آپ کو، جب لوگوں کو پتہ ہے کہ جب ٹیکس کے پیسے میں ادا کروں گا تو یہ باہر کے قرضوں میں جائیں گے میرے فلاح و بہبود کو خرچ نہیں ہونگے۔ یہ آئی ایم ایف کے شرائط کی نظر ہونگے۔ میرے مفاد کے لیے استعمال نہیں ہوں گے، یہ ایف اے ٹی ایف کے شرائط کے تابع ہوں گے میرے مفاد کے لیے میرا پیسہ استعمال نہیں ہوگا، پہلے قوم کو اعتماد تو دلاؤ کہ یہ پیسہ قوم کا ہے اور یہ قوم کے مفاد اور اس کی فلاح میں استعمال ہوگا، جب ہماری حکومتیں ایسی ہوں گی کہ پہلے اپنی بد اعمالی کی وجہ سے غلط پالیسیوں کی وجہ سے اور غلط پالیسیاں کیا ہیں؟ جب حکومت ہی معلوم نہ ہو تو لوگوں کو کیا ملے گا! فرنٹ پر کوئی اور لوگ ہیں اور ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور ان کا ڈور پھر پیچھے اور کسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے تو صرف گالیوں کے لیے رہ جاتے ہیں باقی تو کچھ بھی ہمارے پاس نہیں رہتا، نظام ہی غلط ہے، ہم نے اس پہلو پہ دیکھا ہی نہیں ہے۔ ہم نے ہمیشہ ان لوگوں پر اعتماد کیا ہے کہ جو خوبصورت نعرے تو دے دیتے ہیں لیکن ان کے پاس کارکردگی کے لیے کوئی نظام موجود نہیں ہوتا۔ میں نے خود جناب شہباز شریف صاحب سے کہا جلسے عام میں یہ باتیں میں نے کی کہ ملک کی معیشت اس قدر گر چکی ہے زمین بوس ہو چکی ہے کہ اب اس معیشت کو دوبارہ اٹھانا یہ کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ میاں صاحب نے فرمایا میں نے چیلنج بن کر قبول کیا ہے اب چیلنج کا یہ حال ہے۔ ہمیں ذرا طویل مدت پالیسی کی طرف جانا ہوگا، فوری طور پر۔۔۔ لوگوں سے صرف سانس لینے کا میرے خیال میں ٹیکس نہیں ہے چاہیے کہ بھئی جتنے سانس آپ دن میں لیں گے ان کا بھی ٹیکس دینا پڑے گا۔ یہاں موت پر ٹیکس نہیں ہے اگر تم مر گئے تو آپ کو اتنا ٹیکس دینا پڑے گا یہی بچ گیا۔ اس طرح ملک نہیں چلا کرتے! ملک کو سیاستدان چلاتے ہیں جنہیں عوام کی مشکلات کا ادراک ہوتا ہے وہ ملک کی ضرورت کو بھی سمجھتے ہیں اور لوگوں کی مشکلات کا ان کو ادراک ہوتا ہے وہ بیچ کا راستہ نکالتے ہیں۔ ہمارے ملک میں خزانے کا قلمدان ایسے لوگوں کو دیا جاتا ہے جو باہر سے درآمد کیے جاتے ہیں جس کو نہ پبلک کا پتہ ہوتا ہے نہ وہ پبلک کے سامنے جواب دہ ہوا کرتے ہیں۔ کبھی معین قریشی آجاتا ہے کچھ معلوم نہیں ہمارے ملک کا وزیراعظم رہا کہاں سے آیا تھا اور کہاں چلا گیا، آپ مجھے بتا دیں کوئی اور کسی کو معلوم ہے کہ ایک ملک کا وزیراعظم کہاں سے آیا تھا اور کہاں چلا گیا؟ پھر ہمارے ملک میں ایک وزیر خزانہ آیا بعد میں وزیراعظم بن گیا ہمیں آج بھی پتہ نہیں آیا کہاں سے اور گیا کہاں؟ جو پبلک کے سامنے جواب دہ ہی نہ ہو اس کو کیا پڑی، اس نے تو اسی کے لیے کام کرنا ہے جس کے بل بوتے پر یہاں آیا ہے، جنہوں نے یہاں بھیجا ہے وہ تو اسی کو جواب دہ ہے جنہوں نے ان کو قبول کیا ہے، عوام کو تو اس کا نہ شجرہ معلوم ہے اور نہ اس کا گھر معلوم ہے نہ اس کا خاندان معلوم ہے کہ کہاں کا ہے۔ تو اپنے وطن میں رہو اپنی قوم میں رہو اپنے عوام میں رہو ہمارے تو سیاست دانوں نے بھی باہر اپنے لیے انتظامات کیے ہوئے ہیں مشکل آگئی تو کہیں چلے جائیں گے۔ آج ہمیں اپنے مسائل کی طرف بھی دیکھنا ہوگا، جس طرح کسانوں پر ٹیکس لگائے گئے جو چیزیں ان کو ہمیں مراعات دینی چاہیے تھی ہم نے ان سے مراعات بھی چھین لی ہے ان پر بوجھ بھی بڑھا دیا ہے۔ ہمارے پاس گندم کے سٹاک پڑے تھے نئی فصل آنے والی تھی اس دوران میں باہر سے گندم اور غیر معیاری گندم کیوں امپورٹ کیا گیا؟ آج میرے کسان کے گھر غلے سے بھرے ہوئے ہیں خریدنے والا کوئی نہیں ہے، آئندہ کے فصل کا کیا بنے گا؟ تاجر کے لیے آسانیاں پیدا کرو، کارخانے کا یونٹ بناتا ہے اس کے لیے آسانی پیدا کرو، محلے کا چھوٹا تاجر ہے بازار کا چھوٹا تاجر ہے اس کے لیے آسانی پیدا کرو، سیدھی بات ہے جب اس کے لیے آسانی پیدا ہوگی اس کا کاروبار بڑھے گا اور پیسے کی گردش سے پیسہ بڑھتا ہے بڑھوتری گردش سے ہوا کرتی ہے، اگر آپ نے پیسے کی گردش روک دی تو پھر بڑھوتری نہیں ہوگی لہٰذا جو آپ کے ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے آپ اس وقت جو بیٹھے ہیں یہ ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے اگر ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے اور اس میں سکت نہیں ہے کھڑے ہونے کی جسم کیسے کھڑا ہوگا، ملک کا جسم کیسے کھڑا ہوگا؟ تو اس حوالے سے ہم آپ کے پاس آئے ہیں تاکہ ہم سمجھیں مسائل کو۔
یہاں تو اس وطن عزیز کی آئینی شناخت، مذہبی شناخت، دینی شناخت، اس کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور جب آپ کسی کی شناخت کو ختم کریں گے تو رد عمل پیدا ہو گا یا نہیں ہوگا؟ میں ایک پشتون ہوں بحیثیت پشتون اگر آپ میری شناخت کو ختم کریں گے تو رد عمل آئے گا، میں ایک مسلمان ہوں اگر بحیثیت مسلمان آپ میری شناخت ختم کریں گے تو پھر رد عمل آئے گا، میرا صوبہ معدنیات سے بھرا ہوا، میرا قبائل، میرا فاٹا اللہ کی نعمتوں سے بھرا ہوا ہے، 77 سال تک ہمیں اپنے وسائل سے کیوں محروم رکھا گیا اور کس نے محروم رکھا؟ تو آج جب دنیا کا نظام کروٹ بدل رہا ہے، نائن الیون کے بعد تصور یہ تھا کہ شاید اب دنیا پر سرمایہ داریت کی اجارہ داری ہوگی اور امریکہ پوری دنیا کا یک محوری قوت ہوگی اور اب سارے نظام اس کے تابع چلے گے لیکن آج 20 ، 25 سال کے بعد ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کا نظام کروٹ لے رہا ہے، امریکہ اور روس کی ایک تیز جنگ جس نے افغانستان کو اپنے لپیٹ میں لے لیا تھا اور جس کے نتیجے میں سوویت یونین ٹوٹ گیا تھا، آج دوبارہ چین ایک معاشی قوت کے طور پر ابھر رہا ہے اور ایک نئی سرد جنگ شروع ہو چکی ہے اگر اس جنگ کی آماجگاہ افغانستان تھا تو اس جنگ کی آماجگاہ پاکستان ہے۔ اس سے پاکستان کو نچوڑا جا رہا ہے اور ہم ہیں کہ نہ ادھر کے نہ ادھر! ایک کو تسلی دے رہے ہیں کہ سی پیک نہیں بنے گا اس کے لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں مسلح گروہ اس نے سی پیک کے علاقے کو بھی اپنے زیر اثر لے لیا ہے اور اس کو مطمئن کیا جا رہا ہے کہ چین کو معاشی راستوں سے متاثر ہوتا ہے۔ چین کو کہا جا رہا ہے کہ آپ بے فکر رہیں آپ ہمیں سیکورٹی کا نظام حوالہ کریں اور اس کے لیے آپ ہمیں پیسے دیا کریں ادھر سے سیکورٹی کے نام پر مغرب سے اور امریکہ سے کولیشن سپورٹ فنڈ کے پیسے لیے جا رہے ہیں اور ادھر سے اب دوسری طرف ایک نئی سیکیورٹی کے نام پر پیسے لینے کی حیلے ڈھونڈے جارہے ہیں۔ ہم کدھر پھنسے ہوئے ہیں ہمارا تو ایک رخ ہی نہیں ہے ہم تو دنیا میں ناقابل اعتماد قوم بن چکے ہیں کون ہم پہ اعتماد کرے گا! ہمارے پرائم منسٹر اور ہمارے آرمی چیف دونوں قابل احترام شخصیتیں چلی گئی چائنہ وہاں ان کو آمادہ کیا کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرے لیکن خالی ہاتھ لوٹے ایک ہی بات تھی کہ جو پاکستان میں پہلے تو سیاسی طور پر عدم استحکام ہے اور دوسری طرف آپ کے سیکورٹی قابل اعتماد نہیں ہے ہم کس طرح وہاں سرمایہ کاری کریں! ہم نے یہ بات پارلیمنٹ میں ان کے سامنے کہی یہ نہیں کہ میں یہاں کہہ رہا ہوں، پھر اس کے بعد چائنہ کے منسٹر نے ہمارے دو بڑوں کی دورہ چین کی پیروی میں پاکستان تشریف لائے یہاں تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان سے انہوں نے ملاقات کی اور اس میں بھی انہوں نے یہی دو باتیں دہرائی کہ آپ کا سیاسی استحکام نہیں ہے آپ کی سیکیورٹی ٹھیک نہیں، ہم اس صورتحال میں کس طرح یہاں انویسٹمنٹ کریں گے! ایسی صورتحال میں ہم تو پہلے سے ہی گھبرائے ہوئے لوگ ہیں کہ امریکہ اور مغربی دنیا کا ایجنڈا تبدیل ہو گیا ہے اور اس ایجنڈے میں سب سے پہلے نشانے پر آپ کا ایمان اور آپ کا اسلام ہے۔ دینی مدارس ان کے نشانے پر۔ہیں، کیوں ملک کے اندر مدرسے قائم ہیں کیوں علماء جو ہیں وہ قران و حدیث کی خدمت کر رہے ہیں، کیوں ان علوم کو تحفظ مل رہا ہے اور صرف علوم کو تحفظ نہیں مل رہا جہاں اسلام اپنے حقیقی معنی اور مفہوم کے حوالے سے زندہ و تابندہ رہتا ہے وہاں آپ کی سوسائٹی میں بھی اثر انداز ہے یہاں اسلامی قومی اور وطن و تہذیب کو تحفظ ملتا ہے جب کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بال بچے اور نئی نسلیں وہ بھی مغربی رنگ میں رنگ جائیں ان کی تہذیب میں رنگ جائیں یہی ان کا ایجنڈا ہے۔ ہم نے یہ تشویش ظاہر کی تھی کہ عقیدہ ختم نبوت پر پھر ایک شب خون مارا جا رہا ہے اگر حکمران ناکام ہو گئے تو آج وہی کام اداروں سے لیا جا رہا ہے، اور وہ بھی ہمارے سپریم کورٹ سے لیکن ہم نے مقابلہ کرنا ہے ہم نے اس ملک کی شناخت کو زندہ رکھنا ہے، جس طرح میں پشتون شناخت کو زندہ رکھنے کے لیے سنجیدہ ہوں میں اسی طرح اس سے بڑھ کر مذہبی شناخت کے لیے بھی سنجیدہ ہوں، نہ میں مدرسے کو مٹنے دوں گا نہ میں اس کے اندر قرآن و حدیث کے علوم کو، ان شاءاللہ اس ملک میں نہ ختم نبوت کے عقیدے کو ختم ہونے دوں گا نہ قادیانیوں کو دوبارہ مسلمان کی حیثیت سے اس کو ڈکلیئر کرنے کی اجازت دی جائے گی اس کے خلاف ہر قیمت پر طاقتور جنگ لڑیں گے۔
میں مہر الٰہی صاحب کی باتیں سن رہا تھا مجھے بالکل وہ منظر یاد ہے جب ہم ایک بہت بڑے اجتماع میں بات کر رہے تھے اور آپ نے ہمیں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا تھا، ان شاءاللہ وہ عقیدہ اب بھی ہے وہ جذبہ اب بھی ہے وہ خون اب بھی ہے اور اپنے دین و وطن کے لیے اب بھی وہ گرمایا جائے گا اور دفاع کیا جائے گا اس کی اجازت نہیں دی جائے گی ان شاءاللہ۔
آج ہماری آزادیاں ہم سے چھینی جا رہی ہیں! آپ جانتے ہیں یہاں اس ملک میں ایک لہر چل پڑی تھی آپ کی ٹی وی پہ مختلف چینلز پہ ایسے ایسے لوگ آرہے تھے جو کہتے تھے اسرائیل کو تسلیم کیا جائے، اوہ اللہ کے بندو مسئلہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا نہیں ہے مسئلہ فلسطین کو تسلیم کرنے کا ہے، قبضہ فلسطین کی سرزمین پہ ہوا ہے، قبضہ آپ کے قبلے اول پہ ہوا ہے، مسجد اقصیٰ پہ ہوا ہے اس کو آزاد کرنے کی بات ہونی چاہیے، فلسطین کو آزاد کرنے کی بات ہونی چاہیے، اسرائیل کی دہشت گردی اور اس کی طرف سے جو قبضہ کیا گیا ہے اس قبضے سے اپنی سرزمین چھڑانے کی بات ہونی چاہیے، یہ عجیب بات ہے کہ میں یہاں پر اپنی پشتون سرزمین پر کسی کی بالادستی تسلیم نہیں کرتا اپنے وسائل پر کسی کو قابل ہونے نہیں دیتا لیکن میں قبلہ اول کو اسرائیل کے حوالے کرنے پر آمادہ ہوں! میں فلسطینی مسلمانوں کی زمینوں کو اسرائیل کے حوالے کرنے پر آمادہ ہوں، کیا ہمیں اپنی تاریخ بھول گئی ہے؟ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں ہم بڑا یاد کرتے ہیں قرارداد پاکستان، 1940 کی قرارداد پاکستان، قرارداد پاکستان، قرارداد پاکستان کا حصہ ہے جب بانی پاکستان محمد علی جناح نے قرارداد پاکستان پیش کی اس کا حصہ ہے یہ کہ فلسطینی زمینوں پر یہودی بستیاں قائم کرنا غلط ہے اور ہم فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، یہ اس قرارداد کا حصہ ہے! آپ کے ملک کی بنیاد اور اساس میں فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی اور ہم آہنگی اور ان کے موقف کی حمایت آپ کی گٹھی میں شامل ہے! اور جب اسرائیل بنا تو پانی پاکستان نے فرمایا کہ یہ اسرائیل مغرب کا اور برطانیہ کا ناجائز بچہ ہے، آپ تو سارے سبق بھول گئے اگر انہوں نے یہ کہا تھا کہ کشمیر ہمارا شہ رگ ہے اگر یہ صحیح ہے تو کیا آج آپ نے کشمیر کو سودا نہیں کیا! 75 سال آپ نے کشمیریوں کے خون پر سیاست کی، اس کے خون کو دنیا میں بیچا، ان کی عورتوں کی عصمتوں کو آپ نے دنیا میں بیچا، ان کی مظلومیت کو آپ نے بیچا اور آج بڑی آسانی کے ساتھ آپ نے سودا کر لیا! اس لیے ہم نے کہا ہے کہ اب پانچ اگست کو بھی پورے ملک میں ان شاءاللہ کشمیریوں کے حق میں یوم سیاہ منایا جائے گا۔ یہ وہ دن ہے جب انڈیا نے اقدامات کیے اور ہم نے اس وقت بھی کہا تھا میں نے یہ بات کہی تھی۔ ہاں میں ایک بات پوری کر لوں کہ جب اسرائیل کی حکومت بنی تو اسرائیل کے پہلے وزیراعظم نے جو پہلا خارجہ پالیسی کا بیان دیا اس خارجہ پالیسی کے بیان کا حصہ ہے یہ جب انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی خارجہ پالیسی کا اساس یہ ہوگا کہ دنیا کے نقشے پر ایک نوزائیدہ مسلم ملک کا خاتمہ یہ اسرائیل کے مقاصد میں شامل ہوگا۔ تو آپ کی رائے ان کے بارے میں اور پھر ان کی رائے آپ کے بارے میں پہلے دن کی رائے اس سے اندازہ لگائیں کہ ان کے ذہن میں پاکستان کے لیے کیا ہے اور آپ کے ذہن میں ان کے لیے کیا تھا۔ آج ہم سب چیزوں سے دستبردار ہو رہے ہیں ہم کشمیر سے دستبردار ہو گئے ہم فلسطین سے دستبردار ہو گئے ہم بیت المقدس سے دستبردار ہو گئے مسجد اقصیٰ سے دستبردار ہو گئے، اگر مسجد اقصیٰ ہمارا نہیں تو عمر بن خطاب کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ گئے اور قبضہ کر دیا فتح کیا اس کو، اگر ہم اس کے حقدار نہیں ہیں تو پھر صلاح الدین ایوبی کو کیا پڑی تھی کہ وہ فوج لے کر اس سے بیت المقدس کی چابیاں اپنے ہاتھ میں لے، یہ مسلمانوں کا حق ہے اور مسلمانوں کے ہاتھ میں رہا ہے، آج سب کچھ آپ کے ہاتھوں سے چھینا جا رہا ہے اور ہم آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ کبوتر آنکھیں بند کر کے سمجھتا ہے کہ شکاری مجھے نہیں دیکھ رہا، ہم جس غفلت کی سیاست کر رہے ہیں ہم اپنی جس قومی ذمہ داری سے دستبردار ہو رہے ہیں یہ مجرمانہ عمل ہے! ابھی جو فلسطین میں جنگ جاری ہے اس وقت تک 40 ہزار ، 40 ہزار عام شہری شہید ہو چکے ہیں! عام سے شہری جو جنگ کا حصہ نہیں ہے زیادہ تر تعداد بچوں کی ہے خواتین کی ہے بوڑھوں کی ہے جوانوں کی ہے اور اسماعیل ہنیہ نے پورا خاندان قربان کر دیا، کیا ان قربانیوں کو مسلمان نظر انداز کر سکتا ہے؟ اور کس طرح عالم اسلام نے نظر انداز کیا ہوا ہے، اور کس طرح دنیائے اسلام کے حکمران آج خاموشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، کہاں چلی گئی ان کی اسلامی حمیت؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مسلمان کو ایک امت کہا ہے فرمایا
المسلمُ أخو المسلمِ لا يظلِمُه ولا يُسلِمُه
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ خود اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ کسی دوسرے کے ظلم کے حوالے کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا
مَثَلُ المُؤْمِنينَ في تَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهمْ وتَرَاحُمِهمْ كمَثَلُ الجَسَدِ الواحد إذ اشْتَكَى عَيْنُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ وإذ اشْتَكَى رَأْسُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ
ایمان والوں کی ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کرنے میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرنے میں ایک دوسرے پر مہربان ہونے میں ایسی مثال ہے جیسے ایک جسم اگر جسم کے آنکھ میں درد ہے تو پورا جسم بے قرار اگر جسم کے سر میں درد ہے پورا جسم بے قرار ہوتا ہے، کہاں گئی آج ہماری وہ بے قراری! مطلب یہ ہے کہ ہم جسد واحد ہے، شاید ہم امت مسلمہ تو ہوں لیکن امت مؤمنہ نہیں رہے، ایمان کا رشتہ کمزور ہو گیا ہے اس کو دوبارہ جگانا ہے اور میں آج اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، ہم نے کبھی اپنی جماعت کے لیے آپ کے دروازوں پر دامن نہیں بچھایا کہ ہمیں چند دو لیکن میں فلسطین کے لیے ان کے 40 ہزار شہداء کے ورثاء کے لیے آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اس موقع پر ان کے لیے مالی امداد و عطیات کا اعلان کریں۔ وہ آپ کی جنگ لڑ رہے آپ کے قبلہ اول کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہمیں تو راستے رکاوٹ ہے، حکومتیں اجازت نہیں دے رہی ورنہ فلسطین کی آزادی کے لیے مجھے یاد ہے جب 1967 میں میرے والد مرحوم نے اعلان کیا تھا کہ ہم پاکستان سے مجاہدین لڑنے کے لیے بھیجیں گے اور مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جمعیت کے مرکز میں نوجوانوں کو جنگی تربیت دی گئی تھی لیکن پھر اجازت نہیں ہوئی، ہم آج بھی تیار ہیں کہ ہم اپنے فلسطینیوں کے شانہ بشانہ جنگ کے لیے وہاں جائیں، اگر جنگ نہیں کر سکتے تو کم از کم مالی امداد تو کر سکتے ہیں ہمدردی میں ایک آواز تو بلند کر سکتے ہیں یہ ان کا حق ہے ہمارے اوپر اور میں آپ سے اپیل کرتا ہوں میں آپ سے کسی مدرسے کی بات نہیں کر رہا میں آپ سے کسی اپنی پارٹی کی بات نہیں کر رہا ہوں میں ان مسلمانوں کی بات کر رہا ہوں جہاں 40 ہزار شہداء کا خون آپ کو پکار رہا ہے کن حالات سے ہم گزر رہے ہیں، کن مشکلات سے ہم گزر رہے ہیں، تو اس اعتبار سے بنیادی چیز وہی ہے کہ اگر ہم نے ملک میں امن و امان قائم کیا، آج آپ کے صوبے میں کہاں ہے امن و امان! آپ تاجروں کو پتہ ہے کس کس کے پاس کیا کیا فونیں آتی ہیں کیا کیا پیغامات آتے ہیں اور کتنے کتنے مطالبے ان سے کیے جاتے ہیں، کیا کیا بتّے آپ سے مانگے جاتے ہیں اور اگر آپ نہیں دیتے تو پھر گھر سے آپ کا نکلنا ناممکن ہو جاتا ہے، آپ کے بچے گھر سے سکول جاتے ہیں آپ کو واپسی کی امید نہیں ہوتی، آپ خود گھر سے باہر جاتے ہیں شام کو واپس آنے کی امید نہیں ہوتی، یہ ہے امن و امان! آج میرے صوبے کے تھانے اکثر اضلاع میں مغرب کے بعد بند ہو جاتے ہیں، پولیس تھانے کے اندر سمٹ جاتی ہے اور مسلح گروہوں کے حوالے ہوتا ہے پورا علاقہ، کہاں ہے آپ کے رٹ؟ کہاں ہے آپ کی حکومت؟ پھر کون ہے پالیسی بنانے والا؟ اور اگر ہم قیام امن کے لیے کام کرتے ہیں گفتگو کرتے ہیں کردار ادا کرتے ہیں ہمارے کردار کو ایک لات سے تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے، اس طرح نہیں چلتا، ہم نے اس ملک کو بچانا ہے ہم نے اپنے صوبے کے اور اپنے صوبے کے بچوں کے آنے والے بچوں کے حقوق کی جنگ لڑنی ہے، بلوچستان کے وسائل پر بلوچستان کے بچوں کا حق ہے، سندھ کے وسائل پر سندھ کے بچوں کا حق ہے، پنجاب کے وسائل پر پنجاب کے بچوں کا حق ہے اور پختونخواہ کے وسائل پر پختونخواہ کے بچوں کا حق ہے۔ اور اپنے حقوق کے لیے فرنٹ لائن پہ جا کے ہمیں لڑنا ہوگا پورے ملک میں لڑنا ہوگا لیکن ملک کی وحدت کو برقرار رکھتے ہوئے ، ملک کی سلامتی کو برقرار رکھتے ہوئے، ملک کی وحدت پر کوئی سودا نہیں ہو سکتا کوئی سمجھوتا نہیں ملک کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا یہ ملک ہمارا ہے اس ملک میں اپنے حق کے لیے جنگ لڑنا یہ ہمارا حق ہے، ہم ملک کے وفادار ہیں اور میں سمجھتا ہوں ہم سے بڑھ کر وفادار کوئی نہیں ہے، کوئی یہ مت سمجھے کہ بس ملک ہمارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں، ملک کی محافظ اس ملک کا ہر سپوت ہے ہر بچہ ہے ہر جوان ہے۔ ان چیزوں کو ذرا ہمیں مد نظر رکھنا چاہیے۔
آپ اپنے مطالبات کو جو بنیادی اور اہم مطالبات ہیں جو ترجیحی باتیں ہیں ان کو مرتب کرے ان کے لیے آواز اٹھائیں ان کے لیے سیمینارز کرے اس کے لیے تحریک چلائیں ان شاءاللہ صرف جمعیت علماء اسلام کا کارکن نہیں اس پورے صوبے کا اور ملک کا عوام آپ کے ساتھ ہے اور ان شاءاللہ یہ جنگ ہم جیتیں گے ان شاءاللہ العزیز۔ تو آج ہم یہ عہد کریں آج ہم یہ عہد کریں کہ ہم ایک ہیں ایک صف ہیں اس ملک کے لیے ایک ہیں اس صوبے کے لیے ایک ہیں اپنے حق کے لیے ایک ہیں اپنی معیشت کے لیے ایک ہیں اپنی ترقی کے لیے ایک ہیں اس ملک کے لیے ایک ہیں اللہ تعالیٰ ہماری اس وحدت کو قبول فرمائے اور ہمیں اس کی حقیقی مفہوم بنانے کی ہمیں توفیق عطاء فرمائے۔
واٰخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین
ضبط تحریر: #محمدریاض