الیکشن کمیشن کے اختیارات پر کورٹ کا قبضہ ہےپاک افغان بارڈر پر صورتحال کشیدہ ہے، چمن میں 8 ماہ سے لوگ دھرنہ دئے بیٹھے ہیں ،وہاں کے لوگ زیوارت اور گھروں کاسامان بیچنے پر مجبور ہیں ، اب تک ریاست ان کے لئے کوئی متبادل انتظام کئے بغیر ان پر دباؤ ڈال رہی ہے،ہم نے فاٹا اور سوات میں آپریشن کی حکمت عملی پراس وقت بھی اعتراض کیا تھا ،آج 2024ء میں ہماری فوج ، ایجنسیاں اور جرنیل اپنی بنائی حکمت عملی کے نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ دہشت گردی ختم ہونے کے بجائے کئی گُنا بڑھ گئی ہے، بلوچستان اور خیبرپختونخوا ہ کی صورتحال کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ وہاں ریاستی رٹ ختم ہوچکی اور عوام مسلح جتھوں کے رحم و کرم پر ہے۔

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا اہم پریس کانفرنس

11 جون 2024

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم

میں انتہائی شکر گزار ہوں آپ سب میڈیا کے دوستوں کا اور واقعی کافی عرصہ ہوا ہے آپ حضرات سے ملاقات نہیں ہو سکی، چونکہ جمعیت علماء اسلام ہر پانچ سال کے بعد ملک بھر میں عوامی سطح پر رکن سازی کرتی ہے اور آج پورے ملک میں جو ہمارے نظماء انتخاب ہیں جس میں مرکزی ناظم انتخاب مولانا عطاء الحق درویش صاحب ہے، عطاء الحق درویش صاحب جو ہمارے صوبہ خیبر پختونخواہ جمعیت کے سیکرٹری جنرل بھی ہے، تو انہوں نے آج یہاں پر تمام نظماء انتخاب اور ان کے معاونین کا اجلاس بلایا تھا اور اگلے دو ماہ تک یونین کونسل سطح سے لے کے مرکزی سطح تک باقاعدہ تنظیم سازی ہوگی اور ادارے بنیں گے تو یہ جمعیت علماء کی ایسی تاریخ ہے کہ اس عمل میں کبھی کوئی وقفہ نہیں آیا ہے، اور جمہوری معیار پر اگر کسی جماعت کی تنظیم سازی پوری اترتی ہے تو میرا دعوی یہ ہے کہ کوئی جماعت جمعیت علماء اسلام کا مقابلہ نہیں کر سکتی، ان شاءاللہ پورے دلجمعی کے ساتھ ایک اچھے جذبے کے ساتھ ہم قوم کو دعوت دیں گے ہر فرد کو دعوت دیں گے کہ وہ جمعیت علماء اسلام کے قافلے میں شریک ہوں، اور ملک کی بہتری کے لیے اس کی سلامتی کے لیے اس کی بقا کے لیے اس کی تقویت کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

آپ جانتے ہیں ہم اس ملک میں ایک مثبت جمہوری جدوجہد پہ یقین رکھتے ہیں، پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہی راستہ اختیار کرتے ہیں جو راستہ ہمیں ملک کا آئین دیتا ہے، ہم پارلیمانی نظام سے وابستہ ہیں اور وابستہ رہیں گے ان شاءاللہ، ہم نے امن کا راستہ اختیار کیا ہے اور امن کے اس راستے پر استقامت کے ساتھ آگے بڑھیں گے، پاکستان کے خلاف اگر کوئی سازش ہوتی ہے ہم ہر سازش کا مقابلہ کریں گے اور عالمی قوتیں جس طرح پاکستان پر اثر انداز ہوتی ہے، پاکستان کی سیاست پہ اثر انداز ہوتی ہے، پاکستان کی معیشت پہ اثر انداز ہوتی ہیں، اسے اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کرتی ہے، ہم عالمی قوتوں کی ان سازشوں کا مقابلہ کریں گے، ہم نے ہمیشہ کیا بھی ہے اور آئندہ کے لیے بھی پاکستان کی آزادی، پاکستان کی خود مختاری، پاکستان کے استقلال کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم دنیا کے ساتھ دوستی رکھیں اور کسی کی ہم غلامی قبول نہ کریں، غلامی قابل قبول نہیں ہے۔ بدقسمتی سے جب الیکشن کا وقت آتا ہے تو ہمارے جاسوسی ادارے حرکت میں آجاتے ہیں، پوری انتخابی نظام کو اپنے کنٹرول میں لے لیتی ہے یہاں تک کہ پولنگ اسٹیشنوں کی سطح پر جا کر وہ انتخابات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، نتائج تبدیل کیے جاتے ہیں، 2018 کا الیکشن ہوا ہم نے اسی بنیاد پر اس کو مسترد کیا اور آج 2024 کے الیکشن کو بھی جمعیت علماء اسلام نے اسی بنیاد پر مسترد کیا ہے۔ ہم نے رد عمل میں اپنا موقف پوری دنیا کو متعارف کرانے کے لیے چاروں صوبوں میں عوامی اسمبلیاں منعقد کئیں، بلوچستان میں سندھ میں خیبر پختون خواہ میں اور پنجاب میں ابھی حال ہی میں ہم نے مظفرگڑھ میں جو عوامی اسمبلی کی یہ تاریخ کے بہت بڑے جلسے تھے جی، عوام نے جس طرح پذیرائی بخشی عوام نے ہمارے سر فخر سے بلند کئیں ہیں، عوام کی اس شمولیت نے 8 فروری 2024 کے انتخابات کی حقیقت کو بے نقاب کر دیا اور واضح طور پر دنیا کو بتایا ہے کہ یہ ہماری رائے نہیں تھی، ہماری رائے کو تبدیل کیا گیا ہے، چاروں صوبوں کے عوام کی رائے لینے کے بعد جمعیت علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوری اور اس کے عاملہ عید الاضحی کے بعد پھر بیٹھے گی اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔

ہم خوب جانتے ہیں کہ ہمارے ہی ہم سفر انہوں نے آج اس الیکشن کے نتائج کو تسلیم کر لیا اور اقتدار میں جا کر بیٹھ گئے کہ ہم نے اپنا اصول نہیں بدلا، اور ہم آج سے اعلان کرتے ہیں کہ اگر آئندہ بھی پاکستان کے اسمبلیوں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈالنے کی کوشش کی گئی نتائج تبدیل کئیں گئیں تو پھر یہ جنگ جاری رہے گی ہم سر تسلیم خم نہیں کریں گے، ہم سرینڈر نہیں ہوں گے جو قوتیں ایسا کرتی ہیں ان کو عوام کے سامنے سرینڈر ہونا پڑے گا، پھر یہ جنگ ہے پھر یہ جنگ جاری رہے گی اور جو بھی نتائج ہوں ہم ان نتائج کو قبول کرنے کے لیے بھگتنے کے لیے تیار ہیں ان شاءاللہ العزیز، اللہ ہمیں استقامت نصیب فرمائے۔

اس وقت حالات کیا ہیں؟ ہم نے کہا تھا کہ جو اپریشن آپ فاٹا میں کر رہے ہیں سوات سے شروع کر رہے ہیں ہم نے اس وقت بھی اس حکمت عملی پہ اعتراض کیا تھا آج 2024 میں آپ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ہماری فوج، ہماری ایجنسیوں، جنرلز، ان کی بنائی ہوئی حکمت عملی اس کے نتائج اپنے آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کیا دہشت گردی ختم ہوئی یا اس سے کئی گناہ اور زیادہ بڑھ گئی ہیں! اور مجھے تکلیف ہوتی ہے یہ کہتے ہوئے کہ صوبہ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں ریاستی رٹ ختم ہو چکی ہے، عوام مسلح تنظیموں کے رحم و کرم پر ہے، کوئی شخص اپنے ماحول میں محفوظ نہیں اور یہ معلوم نہیں ہو سکا آج تک کہ ہمارے ادارے واقعی دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں یا دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر وہ قبائلی علاقوں کے مادی ذخائر پہ قبضہ کر رہے ہیں، وہاں تک رسائی کے لیے اپنا جواز تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اپنا اعتماد بھی کھو بیٹھے، اب لوگ نہ فوج کو اپریشن کرنے کی اجازت دے رہے ہیں نہ اس پر وہ اعتماد کر رہے ہیں، اگر ہمارے اداروں پر اور ہماری فوج پر عام آدمی کا اعتماد ختم ہو جائے گا آپ بتائیں کہ امید کی آخری جگہ کیا رہ جائے گی ہماری! ہم اس کے لیے فکر مند ہیں، نہ ہم فوج کو کمزور دیکھنا چاہتے ہیں نہ ہم ملک کی دفاع کو کمزور دیکھنا چاہتے ہیں ان کو طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ان کی پالیسیوں کے رخ کو تبدیل کرنا چاہتا ہے، وہ گھمنڈ میں ہے کہ ہم جو کر رہے ہیں ٹھیک کر رہے ہیں، خدا جانے کس کے لیے کر رہے ہیں اور خدا جانے عالمی کون سی قوتیں ہیں جو ان کی حکمت عملی پر مطمئن ہیں لیکن پاکستان کا عوام مکمل نہیں ہے، اس کا اپنا بھائی اور اپنا گھر مطمئن نہیں ہے، ان کے اپنے مائیں اور بہنیں مطمئن نہیں ہیں، ہمیں کس طرح اعتماد میں آپ لیں گے؟ ہم آپ کو طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں اور ہمیں پتہ ہے کہ آپ ہمیں کمزور دیکھنا چاہتے ہیں یہ بھی معلوم ہمیں، آپ سیاست کو کمزور دیکھنا چاہتے ہیں، آپ پارلیمنٹ کو کمزور دیکھنا چاہتے ہیں، آپ ان کو اپنے گھر کی لونڈی بنا کر رکھنا چاہتے ہیں، سب کچھ معلوم ہمیں، ہماری نیتیں بھی آپ کو معلوم ہے اور آپ کا کردار بھی ہمیں معلوم ہے، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ان حالات سے ہم نکلے، باعزت راستہ اس کے لیے نکالیں، اس کی ذمہ داری جتنی ہمارے اوپر ہے کہیں زیادہ ان کے اوپر ہیں۔

ہم نے افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا اور میں بڑے اعتماد کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں پوری قوم کے سامنے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم کامیاب ہو کر واپس لوٹے تھے، ہم نے دو ملکوں کے درمیان تمام شعبوں میں تعاون کے راست کھول دیے تھے، آج اس پر پانی پھیرا جا رہا ہے کیوں کس کی خوشنودی کے لیے؟ پاکستان کے مفاد میں؟ قطعاً نہیں! پاک افغان بارڈر پر رہنے والے پاکستانی جس میں زیادہ تر پشتون لوگ ہیں، آج چمن کے کیا حالات ہیں، آٹھ مہینوں سے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ان کے روزگار ختم ہو چکے ہیں اور میں بتانا چاہتا ہوں درد دل کے ساتھ بتانا چاہتا ہوں کہ ان کے گھروں میں جو خواتین کے زیورات تھے وہ بھی انہوں نے بیچ ڈالے ہیں وہ بھی ختم ہو چکے ہیں اپنے گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں بیچ رہے ہیں اور صبح شام کے روٹی کے لیے انتظام کر رہے ہیں اور ریاست ہے کہ کوئی متبادل روزگار کا انتظام کیے بغیر ان پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ جو ہم کہتے ہیں ماننا پڑے گا، جبکہ یہ چیزیں چلنے والی نہیں ہے، اندور اڈہ کے لوگ جو جنوبی وزیرستان کا آخری شہر ہے بارڈر کا گاؤں ہے کسی زمانے میں گیا ہوں وہاں اور مجھے یاد ہے میری رات افغانستان میں تھی اور جلسہ پاکستان میں تھا، ڈیورنڈ لائن ایک ایسی لکیر ہے کہ جس نے نہیں دیکھا کہ گھر کے کمرے جو ہیں افغانستان میں ہیں صحن پاکستان میں، گھر کا صحن افغانستان میں ہے اور کمرے پاکستان میں، جنہوں نے نہیں دیکھا کہ مسجد کا محراب افغانستان میں ہے اور اس کا صحن پاکستان میں ہے، امام افغانستان میں کھڑا ہوتا ہے اور مقتدی پاکستان میں کھڑے ہوتے ہیں، کیوں اس بات کا ادراک نہیں ہے ان لوگوں کو! تمام قبائل کو دیکھیں باجوڑ سے لے کر جنوبی وزیرستان اور جائے افغانستان تک چمن تک قوم ادھر رہ رہی ہے زمینیں ادھر ہیں قوم ادھر ہے زمینیں ادھر ہے، یہ انگریز کی لکیر تھی، انگریز کی لکیروں پر آپ ملکوں کو اور ملکوں کے عوام کو کس طرح تقسیم کرتے ہیں، انہوں نے اپنے روزگار کے لیے وہاں لوکل سطح پر پورا انتظام کرنا ہوتا ہے آپ ان کے وہ مواقع جو ان سے غصب کر رہے ہیں ان سے چھین رہے ہیں اور عنوان دیتے ہیں پاکستانی مفاد! خدا نہ کرے خد نہ کرے کل کوئی کہنے والا کہہ جائے گا کہ عوام کو تو کہا جا رہا ہے کہ تم سمگلنگ کر رہے ہو جبکہ عوام سمگلنگ نہیں کر رہے عوام اپنے روزگار کے لیے دن رات کی محنت کر رہے ہیں اگر سمگلنگ کرتے ہیں تو بڑی سمگلنگ کے بڑے مچھیرے بھی تو آپ لوگ ہیں، آپ کی ناک کے نیچے لوگ کرپشن کرتے ہیں، تو لوگوں پر کیا ظلم کیا جا رہا ہے کیوں کیا جا رہا ہے، تورخم اور باجوڑ سے لے کر سرحد کے اوپر رہنے والے لوگوں پر زندگی عذاب کر دی گئی ہے، تو ملک کا کیا بنے گا، کیا پھر ایک نیا شیخ مجیب الرحمن تیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ پھر کسی کے سر ملک کو توڑنے کا الزام تھوپنے کے لیے بندے تلاش کیے جا رہے ہیں، مسئلے کو حل کرنا ہوگا اور جمعیت علماء اسلام سوچتی رہی سوچتی رہی کہ شاید ہمارا ملک ہماری اسٹیبلشمنٹ ہماری بیوروکریسی اپنے عقل و خرد کی بنیاد پر ان عام لوگوں کی مشکلات کو حل کر دیں گے، لیکن اگر وہ جبر کا راستہ لے گی تو پھر جبر کے مقالے میں ہم اپنے عوام کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے، معاملے کو معقولیت کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کی جائے، تعاون کے لیے ماحول بنایا جائے، ہم ملک کے لوگ ہیں اس ملک کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ نے ہر اس ماحول پہ آگ لگائی ہے جس ماحول میں تعاون کیا جا سکتا ہے، اس ماحول سے نفرتوں اور شکایتوں کے شعلے بھڑک رہے ہیں، کہاں کھڑا کر دیا پاکستان کو اور ناز ہے اپنے عقل و خرد پر، آپ کے پاس عقل و خرد نہیں ہے، آپ کے پاس صرف طاقت اور طاقت کا نشہ ہے، تو اس بنیاد پر ہمیں جو سوچنا چاہیے۔

 فلسطین میں کیا ہو رہا ہے، 40 ہزار سے زیادہ لوگ بے گناہ شہری، اکثریت چھوٹے بچوں کی خواتین کی، اس وقت اللہ کے ہاں جا چکے ہیں، شہادت کے مرتبے کو فائض ہو چکے ہیں، ایک گھر نہیں بچا جو گرا نہ ہو، ملبوں کے نیچے ابھی تک لوگ پڑے ہوئے ہیں اور جب وہ کیمپوں میں جاتے ہیں تو کیمپوں پر بھی بمباری ہو جاتی ہے، جب ان کی طرف امدادی سامان جاتا ہے اس پر بھی بمباری ہو جاتی ہے، جنگی جرائم کے یہ مرتکب چاہے اسرائیل خود ہو چاہے امریکہ ہو چاہے مغربی ممالک ہو جو انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں آج خود انسانی حقوق کا قتل کر رہے ہیں، مسلمان دنیا سے تو جنوبی افریقہ بہتر ہے کہ عالمی عدالت انصاف میں گیا اور عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کی جبر کو جبر کہا، ان کے حملوں کو روکنے کا حکم دیا، آئے نا امریکہ اس کو امپلیمنٹ کروائے عمل درآمد کروائیں، آئے نا مغربی دنیا، کہاں گئے انسانی حقوق کی تنظیمیں، کہاں گیا ایمونسٹی انٹرنیشنل، کہاں گیا ہے ہیومن رائٹس واچ، انسانی حقوق کی تنظیمیں ایسے وقت میں گنگ ہو جاتی ہیں، یہ انسانی حقوق کی تنظیمیں نہیں ہیں یہ انسانی حقوق کے نام پر پر طاقتور دنیا امریکہ اور عالمی قوتوں کی بالادستی کو تحفظ دینے والی تنظیمیں ہیں، ورنہ آئے پھر آج ذرا دیکھیں کہ انسانیت کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، افغانستان میں انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں ان کو بچیوں کی تعلیم کی فکر ہو گئی ہے، ہزاروں بچیاں بارود کی آگ میں بزم ہو چکے ہیں، روئے روئ سے ہمارے مسلمان بھائیوں کا خون ٹپک رہا ہے، تم پھر بھی انسان حقوق کی بات کرتے ہو شرم نہیں آتی ان لوگوں کو، تو آج وہ امداد کے مستحق ہے، میں ایک بار پھر آپ کی اس کانفرنس کے وساطت سے قوم سے اپیل کروں گا امت مسلمہ سے اپیل کروں گا حکمرانوں کے انتظار میں مت رہیے، ان کی مالی مدد کے لیے آگے بڑھیں انہوں نے کانفرنس بھی کی ہے اپیل بھی کی ہے کہ ہمارے پاس اخراجات ختم ہو رہے ہیں اپنی مدد آگے بڑھائیں، مظلوم مسلمان برما کے مسلمان ہو چاہے جہاں کی بھی ہو ان کی مدد کے لیے دنیا کو آگے بڑھنا چاہیے، اس وقت فلسطین کے مسلمان انتہائی ظلم اور بربریت کا مقابلہ کر رہے ہیں اور ان شاءاللہ العزیز نقصان تو ہو گیا لیکن 7 اکتوبر کے واقعے نے دنیا میں آزادی فلسطین کا ایک احساس پیدا کر دیا اور سب سے پہلے سعودی عرب نے ریاست فلسطین کو تسلیم کیا اور آج یورپ کے ممالک بھی ان کو تسلیم کرنے پہ امادہ ہو گئے ہیں، یہ آزادی کی طرف ایک سبب بن رہا ہے بہت بڑی قربانی کے باوجود، تو قربانیاں دینی پڑتی ہیں لیکن بے گناہ مسلمانوں کو قتل نہیں کیا جاتا جنگوں میں، شہری آبادیوں پر بمباریاں نہیں کی جاتی، جس طرح اسرائیل نے کیا ہے یہ ایک بزدل قوم کرتی ہیں، تو اس اعتبار سے ہمیں اس ملک کے اندر بھی آواز بلند کرنی ہے یہاں پر بھی اپریشنوں کے نام پر جو مظالم ہو رہے ہیں جس طرح بے گناہ شہریوں کو اٹھایا جا رہا ہے، لاپتہ لوگ تحریکیں چلا رہے ہیں، ان کے پیارے ان کا انتظار کر رہے ہیں 20 ، 20 سالوں سے، نہ ان کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ زندہ ہے یا نہیں ہے، کیا گزر رہی ہوگی ان لوگوں کے اوپر! بتا تو دیا جائے، اگر ایک شخص لاپتہ ہے اور دس بیس سال سے لا پتا ہے یہ معلوم نہیں کہ وہ شہید ہو چکا ہے یا وہ زندہ ہے، آپ بتائیں کہ اس کی بیوی کدھر جائے گی، کیا وہ بیوہ ہے یا بیوی ہے، اس کی وراثت کا کیا بنے گا، خاوند کی وفات کے بعد اس کے حقوق ہیں اس کا کیا بنے گا، اس کے اولاد کا کیا بنے گا، ان کی جائیداد کا کیا بنے گا، کوئی پرواہ نہیں ہے اور ہے اسلامی ریاست، قرآن و سنت کی بات کرنے والے ہم لوگ۔ دینی مدارس اُن پر دباؤ ہے اس ایک اسلامی ریاست کے اندر، دینی مدارس کے لیے رجسٹریشن بند، ان کی بینک اکاؤنٹ بند اور جب ہم نے اسمبلی میں اتفاق رائے کیا قانون سازی پر اور قانون سازی اسمبلی میں آئی لیکن منظوری سے پہلے کس نے روکی؟ وہ بھی ہمیں معلوم ہے! وہ سیاست دان نہیں ہے، وہ اسٹیبلشمنٹ کے لوگ ہیں جنہوں نے کمزور سیاستدان کو مجبور کر دیا کہ وہ ان قانون سازی کو روک دے، ہم فیصلے نہیں کر سکتے، ہم قانون سازی تک نہیں کر سکتے، ہم نے اپنے ملک کے اندر دینی علوم کو دباؤ میں رکھا ہوا ہے، اس بنیاد پر کہ یہاں سے دہشت گردی کا خطرہ ہے، تو ایسے لوگ تو ہر جگہ پیدا ہوتے ہیں، کالج میں بھی پیدا ہوتے ہیں، یونیورسٹی بھی پیدا ہوتے ہیں وہاں وہ دباؤ نہیں ہے جو ہمارے مدارس کے اوپر دباؤ ہے، ہمارا تعلیمی معیار آپ سے بہتر ہے، ہمارا امتحانی معیار آپ سے بہتر ہے، ہم نے ایک بہت بڑا حصہ پاکستانی آبادی کا اس کو پڑھا لکھا بنا رہے ہیں لیکن ایک اسلامی مملکت میں اس کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، اس کو خطرہ تصور کیا جاتا ہے، علماء کرام مساجد کے آئمہ فورتھ شیڈول میں، فورتھ شیڈول تو بدمعاشوں کے لیے تھا، علماء کرام کے لیے تو نہیں تھا، ملک کے شریف طبقے کے لیے تو نہیں تھا اور آج اس قانون کو کس طرح استعمال کیا جا رہا ہے، تو یہ سارے وہ چیزیں ہیں کہ جس پر جمعیت علماء اسلام کا موقف بالکل واضح ہے اور ہم نے عوام کی طاقت سے آگے جانا ہے اللہ رب العزت کی مدد چاہیے، اللہ ہماری اخلاص کو قبول فرمائے اور عوام نے جو اس حوالے سے ہمیں سپورٹ کیا ہے ہم ان کے شکر گزار بھی ہیں اور ان شاءاللہ رکن سازی میں بھی وہ مکمل سپورٹ کریں گے اور ایک بات کہنا چاہتا ہوں آخری کے 7 ستمبر 1974 کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تھا اور عقیدے ختم نبوت کا تحفظ کیا گیا تھا، 2024 کے 7 ستمبر کو اس کے 50 سال پورے ہو رہے ہیں یہ دن ہم پورے ملک میں یوم الفتح کے طور پر منائیں گے اور اس کی گولڈن جوبلی مینار پاکستان لاہور میں منائی جائی گی ان شاءاللہ العزیز

ضبط تحریر: #محمدریاض

Facebook Comments