ملک بھر میں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کے حکم پر امریکی دھمکیوں اور برما میں جاری مظالم کے خلاف بھرپور انداز میں احتجاج کیا گیا
پورے ملک میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔
مرکزی میڈیا سنٹر سے جاری ویڈیو پیغام میں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان نے پوری قوم کا شکریہ ادا کیا اور آئندہ کیلئے اپنے لائحہ عمل کا بھی اعلان کیا۔
اس موقع پر قائد جمعیت کا کہنا تھا ( ویڈیو پیغام )
میں پوری قوم کا شکرگزار ہوں آج پورے ملک کے طول وعرض میں برما کے روہنگیا مظلوم مسلمانوں کے ساتھ پوری قوم نے یکجہتی منائی اور اس حوالے سے جمعیت علماءاسلام کےکارکنوں کا اور ہر شطح سے اپنی تنظیموں کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں اور انہیں مبارکباد بھی دیتا ہوں کہ ان کی محنت اور کوشش سے پورے ملک کے طول وعرض میں یکجہتی کے اس اظہار کیلئے آپ نے ماحول بنایالوگوں میں بیداری پیدا کی اور ان کو آپ نے مظاہروں میں شریک کیا۔
اسی طریقے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو افغان پالیسی دی ہے اور اس میں پاکستان کو دھمکیاں دی ہیں یہ ابتدائیہ تھا ہمارے ان مظاہروں کا قومی سطح پر ہماری وحدت کا۔مولانا کا کہنا تھا کہ میں نے عید الاضحی سے قبل قوم سے اپیل کی تھی کہ 8 ستمبر سے پورا ہفتہ قومی یکجہتی کے طور پر مناکر امریکہ اور اس کے صدر پر واضح کردیاجائے کہ پاکستانی قوم ایک ہے اور امریکہ کا چہرہ نے نقاب ہوچکا ہے ہم نے بات 2001 میں کہی تھی کہ امریکا کاا تحاد پاکستان کیلئے کبھی بھی مفید ثابت نہیں ہوگاپورے عالم اسلام کیلئے مفید ثابت نہیں ہوگا آج وقت نے ثابت کیا کہ خود پاکستان بھی اس کے نتائج افغانستان کی صورت میںبھگت رہا ہے عراق کی صورت میں لیبیا کی صورت میں،شام کی صورت میں،یمن کی صورت میں،صومالیہ کی صورت میں،مالی کی صورت میںجہاں جہاں مسلمان آباد ہیں اور جس کو عالم اسلام کہا جاتا ہے وہاں آگ بھڑکی ہوئی ہے جنگ نےہماری زندگی کو اجیرن کردیا ہے ایندھن بنے ہوئے ہیں مسلمان۔ یہ سب امریکی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو دنیا میں جنگ اور دہشت گردی کو فروغ دینے کا سبب بنا ہے اس اعتبار سے ضروری ہے کہ پوری امت مسلمہ ایک بار پھر اپنی پالیسی اور حکمت عملی پر غور کرے۔پاکستان کے کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے اور اس اتحاد سے باہر آئے اور یہ جو پاکستان کی امداد بند کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی اقتصادی اور معاشی امور کا انحصار امریکہ کے مالیاتی اداروں سے ختم کریں اپنے وسائل اور اس کے متبادل ہم وسائل تلاش کریں پاکستان کے ایک نئے روشن مستقبل کی بنیاد ڈالیں سی پیک کا معاہدہ جو چین کے ساتھ ہوا ہے وہ جہاں چین کے پورے دنیا میں ایک نئے اقتصادی نظریئے اور وژن کے فروغ کا مظاہرہ ہے اسی طریقے سے سی پیک کی صورت میں پاکستان کے نئے اور روشن اقتصادی مستقبل کی بھی علامت بن گیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان پر دباؤ بڑھایا جارہا ہے
کبھی انڈیا کی جانب سے دباؤ بڑھ رہا ہے،کبھی افغانستان کی طرف سے دباؤ بڑھایا جارہاہے،کبھی ایران کی طرف سے دباؤ بڑھایا جاتا ہے۔
میں پورے عالم اسلام سے او پڑوس کی دنیا سے بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہہ ہم آپس میں ایک پرامن پڑوسی کی طرح زندہ رہیں ایک دوسرے کی خودمختاری کو تسلیم کریں داخلی اقتدار اعلی کو تسلیم کریں۔
ایک دوسرے کو فتح کرنے کی خواہش کے بجائے باہم ایک دوسرے کو طاقتور اور خودمختار بنائیں
تاکہ ہمارا یہ خطہ اپنے وسائل پر انحصار کرسکے اور اپنے وسائل سے اپنے غریب قوم کی غربت کو دور کرے
ان کی جہالت کو دور کرے اور ان کو زندگی کی سہولتیں مہیا کرے۔
تو اس اعتبار سے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اب یہ سلسلہ رکنا نہیں ہے اس نے برقرار رہنا ہے اس جذبہ کے ساتھ ہم نے پورا ہفتہ مظاہرے کرنے ہیں اور ان شاءاللہ العزیز یہ سلسلہ ہرسطح پر جاری رہے گا۔ اور پوری قوم اس میں شریک ہوگی۔
اس موقع پر جمعیت علماءاسلام کے تمام ساتھیوں کو پیغام دیتے ہوئے مولانا کا کہنا تھا کہ تمام کارکنان اس سلسلہ کو جاری رکھیں قوم کو ایک پلیٹ فارم پر بلانے کا سلسلہ برقرار رکھا جائے گا۔اور جب تک ہم پوری دنیا کی سیاست کو تبدیل کرلیں اور برما کی حکومت کو یہ احساس دلالیں کہ وہ مسلمانوں پر ظلم کے سلسلے کو جاری نہیں رکھ سکے گا اس کو یہ سلسلے بند کرنے پڑھیں گے تب تک ہم اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ تا کہ پوری پاکستانی قوم کی آواز امت مسلمہ کی آواز بن جائے اور مظلوم مسلمانوں کے حقوق کی ضمانت دے سکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو پیغام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب