قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب کا قومی اسمبلی میں مکمل خطاب
29 اپریل 2024
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد
انتہائی قابل احترام جناب سردار آیاز صادق صاحب اور آپ کی وساطت سے معزز اراکین ایوان، حلف برداری کے بعد میں پہلی مرتبہ ایوان میں حاضر ہو رہا ہوں اور یہ بھی ارادہ ہے کہ کچھ معروضات آپ کی خدمت میں پیش کر سکوں، اُس سے پہلے جناب اسد قیصر صاحب جو بات کر رہے تھے ان کا جو مطالبہ تھا میرے خیال میں ان کا مطالبہ صحیح تھا اور جلسہ کرنا ان کا حق ہے اور میں ان کے اس مطالبے کی حمایت کرتا ہوں، لیکن جناب اسپیکر مسئلہ یہاں تک محدود نہیں ہے کہ ہم جلسہ کر سکتے ہیں یا نہیں کر سکتے، اس بات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے کہ ہمارا ملک آج کہاں کھڑا ہے؟ ہم نے یہ ملک جس جمہوری انداز کے ساتھ برصغیر کے مسلمانوں کی تائید سے حاصل کیا ان کی قربانیوں سے حاصل کیا اس ملک کے قائم ہونے میں نہ بیوروکریسی کا کوئی کردار ہے اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار لیکن اس بات کو سوچا جائے کہ آج عوام کہاں کھڑے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کہاں کھڑی ہے! کیا وجہ ہے کہ مسلسل ایوان پر سوال اٹھایا جا رہا ہے ہماری عوامی نمائندگی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں، کیا یہ عوام کے نمائندہ پارلیمنٹ ہے یا یہ اسٹیبلشمنٹ کا ترتیب دیا ہوا پارلیمنٹ ہے! اس سے کب نکلنا ہے ہم نے؟ یا مزید دھنستے چلے جانا ہے۔ یہ ملک جس میں حکومتی محلاتی سازشوں کی بنیاد پر بنتی تھی اور ٹوٹتی تھی، بیوروکریٹس فیصلہ کرتے تھے کہ آج وزیراعظم کون ہے تو کل وزیراعظم کون ہے۔
ایک زمانے میں ملک کے ایک صدر مملکت نے اپنے دور حکومت میں پانچ وزیراعظم تبدیل کیے، بڑی مشکل کے ساتھ عوام کی جدوجہد کے ساتھ اس ملک میں عام آدمی کو ووٹ کا حق ملا، پارلیمانی طرز حکومت پر اتفاق ہوا، الیکشن ہو گئے سن 1970 میں جسے آج ہم بطور مثال پیش کرتے ہیں لیکن انتخابات کو بطور مثال پیش کرنے کے بعد کیا اس کے نتائج پر بھی ہماری نظر ہے؟ جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہو گیا ہم پارہ پارہ ہو گئے، قائد اعظم نے جو قوم کو ماٹو دیا تھا اتحاد، تنظیم اور یقین محکم، وہ کہاں رہا! قائد اعظم کا پاکستان کہا ہے آج؟ شاید تاریخ اس کے حقائق سے پردہ اٹھائے گا، تاریخ معاف نہیں کرتی کسی کو، تھونپا گیا سیاست دانوں پر اور کردار جنرل آغا یحییٰ خان تھا، حکومت کو چلنے ہی نہیں دیا گیا، پھر مارشل لاء پھر ہم کچھ سنبھلے تو پھر مارشل لاء، سوچنا یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ہمیں جو نتائج مرتب کر کے دیں، جن کو یہاں پر بیٹھنے کے لیے فہرست میں نام شامل کرے، اس پر کب تک آپ سمجھوتے کرتے رہیں گے؟ کب تک ہم یہ سوچتے رہیں گے؟ بھیک مانگتے رہیں گے؟ ان کے دروازوں پر بیٹھ کر اور جو الیکشن ہوئے ہیں ہمیں تو 2018 کے الیکشن پر بھی اعتراض تھا آپ کو بھی اعتراض تھا پیپلز پارٹی کو بھی اعتراض تھا مسلم لیگ نون کو بھی اعتراض تھا میرے بزرگ بیٹھے ہیں ان کو بھی اعتراض تھا، اس وقت بھی تو مینڈیٹ تقریباً تقریباً وہی وہی ہے کوئی تھوڑا آگے پیچھے، اسی مینڈیٹ کے ساتھ اس وقت دھاندلی کیوں تھی اور اسی مینڈیٹ کے ساتھ آج دھاندلی کیوں نہیں ہے!
حضرت مجھے شرم آتی ہے، شاید میں کچھ اپنی گفتگو میں ایسی باتیں کہوں جو آپ سمجھیں گے کہ میں تجاوز کر رہا ہوں لیکن سیاسی آدمی اسے سے بات کرنی ہوتی ہے، سیاستدان معلومات کی بنیاد پر بات کرتا ہے پبلک میں بات کریں پارلیمنٹ میں بات کریں، خدا کرے یہ خبر غلط ہو لیکن ہماری معلومات یہ ہیں کہ اس بار تو باقاعدہ اسمبلیاں بیچی گئی ہیں اور اسمبلی خریدی گئی ہیں! کون ان اسمبلیوں کو اور ان ایوانوں کو عوام کو نمائندہ پارلیمنٹ کہے گا! کس طرح ہمارا ضمیر مطمئن ہے یہاں پر بیٹھنے میں! ہارنے والے بھی پریشان اور جیتنے والے بھی مطمئن نہیں ہیں، اس کیفیت میں حکومت میں بیٹھی ہوئی جماعتیں جو ہمارے لیے محترم بھی ہیں ہمارے ہمسفر رہے ہیں ہم ان کے ان جدوجہد کی قدر کرتے ہیں لیکن انہی کی جماعتوں کے اندر ان کے سینئر لوگ مجبور ہیں کہ وہ اپنی ہی مینڈیٹ کو مسترد کر رہے ہیں، اس پر اعتراضات اٹھا رہے ہیں، صرف اپوزیشن کی بات نہیں ہے، ہم دیکھ بھی رہے ہیں ہم سن بھی رہے ہیں۔ تو جمہوریت آج کہاں کھڑی ہے؟ یہ صرف اس لیے ہم یہاں کمزور بیٹھے ہوئے ہیں کہ ہم نے ہر مرحلے پر کمپرومائز کیا ہے، ہم نے اپنے اصول پہ سمجھوتے کئیں ہیں، ہم نے اپنی جمہوریت بیچی ہے، ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنے آقا بنائے ہیں اور جب ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے آقا بنائیں گے یہی ہوتی ہے آخرت کی نشانی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پوچھا کہ آپ قیامت کی علامات کے بارے میں بتائیں تو آپ نے پہلی بات کی کہ مائیں اپنے لیے مالکائیں جنیں گی یعنی بیٹیاں مالک بن جائے گی اور ماں کو نوکر اور گھر کی مزدور کی طرح دیکھے گی۔ اس مثال سے آپ سمجھ لیں کہ جو آپ کے ماتحت ہونے چاہیے تھی جو آپ کے حکم پر چلنے چاہیے تھے وہ آج ہمارے آقا اور ان کے حکم پر ہم چل رہے ہیں، ہم یہاں پر ایک قانون پاس نہیں کر سکتے۔
جناب اسپیکر صاحب آپ گواہ ہیں آپ گواہ ہیں آپ کی پوری جماعت گواہ ہے، ہم نے ایک اجلاس میں ایک قانون سازی پہ بات کی، اس کے لیے کمیٹی بنی وزیر قانون کے نگرانی میں، میاں شہباز شریف صاحب نگرانی کر رہے تھے اوپر سے، ہمارا اتفاق ہوا دینی مدارس، ان کے وفاق، حکومت کے درمیان اس مسودے پر اتفاق ہو گیا اتفاق رائے کے باوجود اسمبلی میں نہیں آرہا اس لیے کہ اجازت نہیں ہے، کرتے کرتے پھر آخر اسمبلی میں آیا وہ، اور آیا تو خواندگی کے دوران روک دیا گیا اور پاس نہیں ہونے دیا، ہم پارلیمنٹ ہیں ہم نے اس میں اتفاق رائے کیا اسمبلی تک میں لے آئے پیش ہو گیا پہلی خواندگی ہو گئی اور بالآخر اس کو ڈراپ کرنا پڑا اتنا ضرور ہمیں پتہ چل گیا اور میں نے شہباز شریف صاحب سے کہا کہ ہمیں اتنا پتہ چل گیا ہے کہ قصور آپ کا نہیں ہے کون رکاوٹ ہے ہمیں معلوم ہو جائے بس یہی چاہیے تھا۔ ہم قانون سازی کا بھی اختیار نہیں رکھتے، ہم اپنی مرضی سے قانون بھی نہیں بنا سکتے، اس پارلیمنٹ پر ہم فخر بھی کرتے ہیں اور ہم سوچتے ہیں کہ ہم وی آئی پی ہوتے ہیں۔
آج ذرا موازنہ تو کیجئے جناب اسپیکر! ہندوستان اور ہم ایک ہی دن میں آزاد ہوئے، 15 اگست 1947 کو صبح آٹھ بجے دہلی میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے انڈیا کے گورنر جنرل کا حلف اٹھایا اور کراچی میں قائد اعظم محمد علی جناح نے حلف اٹھایا، ایک ہی دن ہم آزاد ہوئے، آج وہ دنیا کے سپر طاقت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے اور ہم دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے بھیک مانگ رہے ہیں کہ ڈیفالٹ نہ ہو جائے ہم لوگ یہ کس کے ہاتھوں کون ذمہ دار ہے اس کا، گھومتے پھرتے پھر آئے گی بات سیاستدانوں کے اوپر حکومتوں کے اوپر، دیوار کے پیچھے جو قوتیں ہمیں کنٹرول کرتی ہیں جن کے باگ ڈور ہمارے ان کے ہاتھ میں ہیں فیصلے تو وہ کریں اور منہ ہمارا کالا کریں! عوام ہمیں گالیاں دیں! ذمہ دار ہمیں ٹھہرائیں! یہ کون سی سیاست ہے؟ ہم کہاں اس ملک کو لے آئے ہیں کہ آج آپ کا ایک ایک بچہ 25 کروڑ ابادی کا وہ دو اور تین لاکھ تک کا مقروض ہو چکا ہے، خوش ہوتے ہیں آئی ایم ایف نے نیا قسط جاری کر دیا، نیا قسط تو ایک ارب ڈیڑھ ارب کا ہوتا ہے لیکن آپ کو قرضے کتنے دینے ہیں؟ اپنی پیداوار کدھر ہے ہماری؟ اپنی صلاحیت کدھر ہیں ہماری؟ ہم نے ملک کو جمود کا شکار بنا دیا ہے اور قومیں جب جمود کا شکار ہوتی ہے تو پھر وہ گرتی ہے وہ ترقی نہیں کر سکتی پھر، ذرا حساب لگائیں جس ہندو کو ہم سارے القاب دیتے ہیں سارے برے القاب ان کے سارے اچھے القاب ہمارے لیکن نتیجے کے لحاظ سے کارکردگی کی بنیاد پر ذرا اس کا بھی تجزیہ کر لیں اپنا بھی تجزیہ کر لیں، گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں ہم لوگ ہم آپس میں بات کر رہے ہیں، کیوں ایک دوسرے سے بات چھپا رہے ہیں! یہ سارے وہ چیزیں ہیں۔
ہم نے ملک حاصل کیا اسلام کے نام پر آج پاکستان دنیا میں ایک سیکولر سٹیٹ کا روپ دھار چکا ہے، کہاں ہے لا الہ الا اللہ؟ 1973 میں ہمارا آئین بنا، 1973 میں اسلامی نظریاتی کونسل بنی، 1973 سے آج تک تمام قوانین کا جائزہ لیا گیا اگر کوئی خلاف اسلام قانون موجود ہے تو قرآن و سنت کے مطابق قانون کی سفارش کی گئی، سفارشات کی رپورٹ ایوان میں آگئی، لے کر دی گئی، کوئی آپ ایک نشاندہی بحیثیت اسپیکر کر سکتے ہیں کہ 1973 سے لے کر آج تک اس کونسل کی سفارشات پر اس پارلیمنٹ نے ایک بھی سفارش پر عملدرآمد نہیں کیا ایک بھی، اسی لیے کہ جن لوگوں کو ایوان میں لایا جاتا ہے جن لوگوں سے ایوان بھر دیے جاتے ہیں ان کو قرآن و سنت سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے پاکستان کے نظریے سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہوتی، کیسے آپ دنیا میں شناخت کرائیں گے اپنی کہ ہم ایک اسلامی مملکت ہیں! آپ کا آئین کہتا ہے کہ حاکمیت اللہ رب العالمین کی ہوگی اور ہم روئے زمین پر اللہ کی نیابت کرتے ہوئے عوام کے نمائندے روئے زمین پر اپنی مملکت میں اللہ کی نیابت کرتے ہوئے ان کی تعلیمات کے مطابق قانون سازی کریں گے، ہماری انفرادی اجتماعی زندگی قرآن و سنت کے تابع ہوگی یہ میں نہیں کہہ رہا میرا آئین کہتا ہے یہ میرا آئین کہتا ہے کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا، یہ میرا آئین کہتا ہے کہ قانون سازی قرآن و سنت کے تابع ہوگی، یہ میرا آئین کہتا ہے کہ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون سازی نہیں ہوگی، اس پر کوئی عمل درآمد! صرف کاغذی حد تک، آپ تو ان اداروں کو بھی پابند کر رہے ہیں نیست و نابود کرنا چاہتے ہیں جو ادارے آپ کے اس ملک میں کسی طرح دین و مذہب کی علامت ہیں، ان کو آپ معاشرے کا مین سٹریم ہی نہیں سمجھتے، تو جس نظریے پر ملک قائم ہوا تھا، 75 سال میں اس کا بھی ذرا حساب لگا رہے ہیں آپ کہاں کھڑے ہیں اور ممکن ہے بہت سے لوگ سمجھیں کہ مذہب نہیں ہے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے لیکن بہت سے لوگ ہیں جو جمہوریت کی بات تو کرتے ہیں مذہب کی بات بھلا نہ کریں جمہوریت کی بات تو کرتے ہیں، تو ہم سب مل کر سوچیں ذرا کہ جمہوریت کدھر ہے ہماری؟ سن 1954، 55 سے 58 تک نیم مارشل لاء تھی، 58 سے لے کر 71 تک مکمل مارشل لاء تھی، 77 سے پھر مارشل لاء، 99 سے پھر مارشل لاء اور ہم کمپرومائز کرتے رہے۔
یہاں اسی ایوان میں ہم نے قانون سازی کرنا چاہی چیختے رہے ہم لوگ کہ صاحب یہ جو کچھ آپ کر رہے ہیں قرآن و سنت کے خلاف ہے، کسی نے نہیں سنی، تو جمہوریت کہاں ہے آپ کی! الیکشن آپ کے ڈھونگ، اسمبلیوں کی کوئی قدرو قیمت نہیں، اسمبلی میں آنے والا اپنے آپ کو معزز سمجھتا ہے عوام کا نمائندہ ہے، آپ کے کاغذات پہ اس کا جو پروٹوکول ہے وہ وی آئی پی کا ہے، اس کے مراعات ہوتے ہیں لیکن کیا ہمارا ضمیر بھی مطمئن ہے اس بات پر؟ اپنی زمین سے پوچھ لو پہلے! کیا واقعی ہم مطمئن ہیں ان نتائج سے اور جناب آیاز صادق صاحب کیا واقعی آپ لاہور کے نتائج سے مطمئن ہیں؟ لیکن ہر چند کے ہے نہیں۔