شاہ زیب خانزادہ: مختلف امور پر بات کرنے کے لیے ہمارے ساتھ موجود ہیں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن صاحب موجود ہیں مولانا صاحب بہت شکریہ کہ آپ ہمارے ساتھ موجود ہیں مولانا صاحب الیکشن ہوئے آپ کی ناراضگی کی خبریں سامنے آئی میاں نواز شریف صاحب خود آپ کو منانے آئے پھر نون لیگ کے رہنماؤں نے یہ تسلیم کیا کہ جو حکومت سازی کا عمل تھا اس میں مشاورت میں ہم سے کوتاہی ہوئی ہمیں مولانا صاحب کو مشاورت کا حصہ بنانا چاہیے تھا مگر انہوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ آپ سڑکوں پر نہیں آئیں گے لیکن آپ آنے جا رہے ہیں کیا معاملات نہیں طے پائے یا معاملات طے پائے ہی نہیں رہے تھے ایسی کوئی بات نہیں تھی ؟
مولانا صاحب: دیکھیے معاملات ہیں کیا پہلے تو اس کا تعین ہونا چاہیے اس کے بعد پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ طے ہوئے یا نہیں ہوئے بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارا جو مسئلہ ہے اور جو ہمارا الزام ہے وہ واضح اور بڑا قطعی ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے تو آپ یہ بھی ذرا سوچیں اس حوالے سے کہ قطع نظر اس کے کہ حکومت میں کون ہے اور ہمارے سابق پرانے ہمارے اتحادی ہیں لیکن ہمارے مد نظر صرف وہ قوت ہوگی اس تحریک میں کہ جنہوں نے نتائج کو تبدیل کیا ہے جنہوں نے دھاندلی کی ہے جنہوں نے دھاندلی کے لیے منصوبہ بندی کی ہے طاقت استعمال کی ہے اور تمام جو ان کے وسائل موجود ہیں وہ انہوں نے اس پہ صرف کیے ہیں کہ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر سکیں تو ہماری تحریک میں یکسوئی ہوگی اور وہ سیاستدانوں کے حوالے سے ہمارا احتجاج ہے یہ تو ٹھیک ہے کہ حکومت اگر ہے اور وہ ایسے اب نتائج پر مبنی حکومت ہے جو ہمیں قابل قبول نہیں ہے تو ضمنا تو یقینا حکومت نشانے پہ آئے گی لیکن بنیادی طور پر ہم ان اداروں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور اس کے خلاف ہم ایک تحریک کی طرف جا رہے ہیں جو انہوں نے کھیل بنا رکھا ہے الیکشن کو اور عوام کی حق رائے دہی کو جس طرح کھلواڑ بنا رکھا ہے اس طرح کی اجازت ہماری طرف سے نہیں ہو سکتی ہم اپنے احتجاج کریں گے اور یہ ہمارا آئینی حق ہے۔
صحافی: یعنی حکومت گرانا آپ کا بنیادی مقصد نہیں ہے پھر حکومت گرانا اور نئے الیکشن کروانا ؟
مولانا صاحب: حکومت تو جو یہی یہ تو مسئلہ ہے کہ کیا یہ تسلیم کیا جائے گا کہ یہ دھاندلی کی حکومت ہے جب تسلیم ہو جائے گا اور عوام اپنی رائے دیں گے تو خود بخود حکومت گر جائے گی اور حکومت ایسی نہیں ہے مستحکم کہ وہ چل سکے گی ایک انتہائی کمزور حکومت ہے لیکن ایسی کمزور حکومتیں بنانے کا منصوبہ کون بناتا ہے یہ منصوبہ بندی کہاں ہوتی ہے یہ مفاد کس کا ہوتا ہے اس پر ہمیں زیادہ فوکس کرنا چاہیے اور ہمیں اس مرض کی دوا کرنی چاہیے کہ کم از کم عوام جو ایک حق رائے دہی رکھتے ہیں وہ بھی کچھ مطمئن نہیں ہیں کہ ہم نے کچھ فیصلے دیے ہے بظاہر کچھ اور ہے جو جیت گئے ہیں وہ بھی مطمئن نہیں ہے جو ہار گئے ہیں وہ بھی احتجاج کر رہے ہیں۔
صحافی: اور مشترکہ جدوجہد آپ کی اور تحریک انصاف کی ہو سکتی ہے عمران خان صاحب نے خواہش کا اظہار کیا تھا رپورٹر سے بات کرتے ہوئے کہ آپ کو دعوت دی جائے گی 23 مارچ والے جلسے میں 23 مارچ کو
مولانا صاحب: مجھ سے اس حوالے سے کوئی رابطہ نہیں ہے ۔
صحافی: اور اگر رابطہ کیا جاتا ہے تو آپ کنسیڈر کر سکتے ہیں ؟
مولانا صاحب: اگر کی بات پھر اگر پہ چھوڑ دے جی
صحافی: مگر آپ کا جو اعتراض ہے وہ سب سے زیادہ کس صوبے کے لیے ہے سندھ کے لیے بلوچستان کے لیے خیبر پختونخوا کے لیے پنجاب کے لیے ہے؟
مولانا صاحب: تمام صوبوں کے لیے ہے پنجاب کے لیے بھی ہے سندھ کے لیے بھی ہے کے پی کے لیے بھی ہے بلوچستان کے لیے بھی ہے۔
صحافی: ذاتی طور پر آپ کی زیادہ نشستیں کہاں آپ کو لگتا ہے کہ آپ زیادہ نشستیں سے لیتے ہیں اگر دھاندلی نہ ہوتی؟
مولانا صاحب: آپ چھوڑیں میری نشستوں کو، قوم کی بات کرو عوام کی بات کرو حق رائے دہی کی بات کرو یہ کیا مطلب کہ ہم ایک مسئلے کو پھر ذات کی طرف لے جاتے ہیں یا ایک پارٹی کی طرف لے جاتے ہیں کہ چونکہ فلانی پارٹی ہار گئی ہے تو اس لیے وہ احتجاج کر رہی ہے میں نے نہ دو ہزار اٹھارہ میں صرف اپنی پارٹی کے حوالے سے احتجاج کیا نہ آج اپنی پارٹی اور اپنی ذات کے حوالے سے احتجاج کر رہا ہوں ایک قومی مسئلہ ہے اور قومی مسئلے کے انداز میں اس کو ہم اٹھائیں گے۔
صحافی: اچھا جب آپ نے 2018 کے بعد آپ نے احتجاج کیا اور جو پی ڈی ایم بنی اس کے بننے کی وجہ آپ کا احتجاج تھا مگر ہوا یہ مولانا فضل الرحمن صاحب کہ آپ ظاہر ہے سڑکوں پر جو توانا آواز تھی وہ آپ ہی کی تھی اسی کی وجہ سے نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو سپورٹ بھی ملی پی ڈی ایم کا اتحاد بنا مگر مسئلے کا حل تو پارلیمنٹ کے اندر سے ہی نکلا اور وہ اسی طریقے سے آپ لوگ حکومت گرانے میں کامیاب ہوئے خود حکومت میں آنے میں کامیاب ہوئے تو اب بھی راستہ پارلیمنٹ کے اندر سے نہیں نکلے گا مولانا صاحب؟
مولانا صاحب: دیکھیے اس وقت جو صورتحال تھی بڑی معروضی قسم کی تھی اس کو زیادہ تر اب اصول کے تابع لے جائیں گے تو پھر حکمت عملی کا مسئلہ آئے گا حکمت عملی ہماری صحیح ثابت نہیں ہوئی میں ان کو پیٹتا رہا کہ آپ تحریک کے زور سے حکومت کو چلتا کریں اپ پارلیمنٹ سے اپنے استعفے دے دیں اتنے استعفے ہوں گے کہ پھر بقیہ جو سیٹیں رہیں گی وہ حکومت نہیں چلا سکیں گے دوبارہ الیکشن دینا پڑے گا لیکن جب سب دوستوں نے طے کر لیا کہ اب تو باپ پارٹی بھی ہماری طرف آگئی ہے اور ایم کیو ایم بھی ہماری طرف ہے اور وہ عدم اعتماد میں ووٹ دینے کے لیے تیار ہیں تو پھر ظاہر ہے جی کہ اتنی بڑی اتحاد کو فوراً توڑنا جبکہ یہ ٹھیک ہے کہ استعفوں کی صورت میں بہت اچھی کامیابی ہمیں ملتی لیکن جو حکمت عملی انہوں نے اپنائی ہم نے اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے اس وقت اپنی رائے قربان کی ہے اپنی ان دوستوں کے لیے لیکن آج ان کو چاہیے تھا کہ اپنی حکومت قربان کر دیتے ہماری اس رائے پر جب 2018 میں یہی مینڈیٹ مسلم لیگ کے پاس تھا جب 2018 میں یہی مینڈیٹ پیپلز پارٹی کے ساتھ تھا اسی مینڈیٹ کے ساتھ انہوں نے کہا دھاندلی ہوئی ہے اور آج بھی ان کے پاس وہی مینڈیٹ ہے تو اسی مینڈیٹ کے ساتھ آج دھاندلی کیوں نہیں ہے۔
صحافی: مولانا صاحب مگر نون لیگ یہ کہتی ہے کہ ہم تو جیسے ہی عمران خان صاحب کی حکومت گئی ہم تو الیکشن میں جانے کو تیار تھے پر زرداری صاحب اور مولانا فضل الرحمن صاحب حکومت کرنا چاہتے تھے جس کی وجہ سے ہم نے حکومت کی اور ہمیں اس کا بوجھ اٹھانا پڑا نہیں ہوتا؟
مولانا صاحب: سوال ہی پیدا نہیں ہوتا حقائق کو مسخ نہ کیا جائے میری رائے ساری پی ڈی ایم کے ایک ایک لیڈر کو معلوم ہے۔
صحافی: یعنی آپ اس کے حامی نہیں تھے عمران خان صاحب کی حکومت گر گئی آپ چاہتے تھے فوری طور پر الیکشن میں جائیں؟
مولانا صاحب: جی ہماری رائے یہی تھی۔
صحافی: مگر مولانا صاحب ابھی تو جب ایک بہت بڑا کیئر ٹیکر سیٹ اپ آیا اس کے بعد بھی جب الیکشن میں جا رہے تھے سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا آپ تو اس وقت بھی کہہ رہے تھے کہ ہمیں دہشت گردی کے خطرات ہیں الیکشن ابھی نہ کرائے جائیں؟
مولانا صاحب: نہیں نہیں وہ اس حوالے سے نہیں تھا جی خلط ملط نہ کرے جی، ایک تو آپ صحافی لوگ جب معاملات کو خلط ملط کر لیتے ہیں ایک بحث کسی پہ ہو رہی ہے دوسری بحث کسی حوالے سے ہو رہی ہے جس وقت انہوں نے ہمیں تاریخی دی اور وہ تاریخ موسم کے لحاظ سے بھی اور بعد میں جو ہمیں تھریٹ ملنے لگ گئے اور یہ تھریٹ کہاں کیوں آج نہیں آرہے اور یہ الیکشن سے پہلے کیوں آرہے تھے اور ہمیں روزانہ یہاں سے تھریٹ لیٹر بھی جاری ہوتے تھے یہ سارا سلسلہ کیوں چلا آخر، تو ظاہر ہے کہ اس وقت جس قسم کی صورتحال الیکشن کے قریب آتی ہوئے پیدا ہوئی اور روز روز جو ہے حملے اور دھماکے اور قتل خون اور یہ سارے واقعات تو ہمیں ذکر تو کرنا پڑتا تھا اس کے بغیر تو ہم نہیں رہ سکتے تھے کہ ہم کمپین نہیں چلا سکتے اور آپ نے ہمیں تاریخ دے دی کہتے ہیں آئین کا تقاضا ہے تو میں نے کہا آئین کے تقاضا اگر ہوتا تو پھر ڈیڑھ دو مہینے اور تاخیر نہ کرتے آپ
صحافی: اور اس ساری سیچویشن میں کیا اس بات کی پاسیبیلیٹی ہے حکومت کے اندر کیوں کہ یہ حکومت کمزور اتنی ہے پیپلز پارٹی اگر نکل جائے تو حکومت گر جاتی ہے کہ پیپلز پارٹی آپ تحریک انصاف کوئی مستقبل میں کوئی ایسا لائحہ عمل ہو کیونکہ سڑکوں پر آکر ہم نے دیکھ لیا ریسنٹ ہسٹری میں 2013 کے بعد عمران خان صاحب نے گرانے کی کوشش کی نہیں گری حکومت پھر آپ لوگوں نے گرانے کی کوشش کی سڑکوں کے ذریعے نہیں پارلیمنٹ کے ذریعے گری حکومت؟
مولانا صاحب: دیکھیے لفظ گرانے کا سوال نہیں ہے بنتا یہ ہے کہ عوام کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے ووٹ کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے اس پر کوئی احتجاج سیاسی دنیا میں ہوتا ہے یا نہیں ہوتا سو ہم وہ فرض پورا کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے حکومت پھر گرتی ہے یا نہیں گرتی وہ اپنا سوال ہے۔
صحافی: اچھا اور پھر اس میں ایک ایشو یہ ہے مولانا صاحب کہ 2013 کے بعد جیسے عمران خان صاحب سڑکوں پر ائے کیونکہ نون لیگ جیت گئی تھی 2018 کے بعد عمران خان صاحب جیت گئے تھے تو آپ لوگ سڑکوں پر ائے پوری پی ڈی ایم سڑکوں پر آئی اور حقیقت یہ ہے کہ 2024 میں بھی اگر عمران خان صاحب جیت جاتے ہیں تو آپ لوگ نون لیگ اور پیپلز پارٹی مل کے سڑکوں پر آئے ہوتے ہیں تو سائیکل پہ ٹوٹے گا کیسے کہ اس سائیکل کو توڑا جائے اور مسئلے کو حل کیا جائے کہ الیکشن کی ایک کریڈیبلٹی ہو ؟
مولانا صاحب: دیکھیے یہ سوالات جو آپ مجھ پہ کر رہے ہیں یہی میرے سوالات ہیں اس انتخاب پر اور الیکشنوں کے اوپر تو یہ چیزیں ساری کی ساری اگر جماعتیں مطمئن ہوتی ان نتائج سے میں تو کوئی مانے یا نہ مانے یہ اعتراف کریں یا نہ کرے پیپلز پارٹی اعتراف کرے نہ کرے مسلم لیگ اعتراف کرے نہ کرے یہ میرے دوست ہیں میرے ساتھ ان کا بڑا اچھا تعلق رہا ہے مل کر ہم نے کام کیا ہے بخدا میں دعوے سے کہتا ہوں کہ وہ بھی انتخابات کے نتائج سے مطمئن نہیں ہے۔
صحافی: مگر مولانا صاحب آپ ایک ایسی شخصیت ہے نا جس کا پارلیمانی نظام میں اور جمہوریت میں بھروسہ رکھنا اس سے نظام میں حصہ لینا اس کے یہ بہت اہمیت رکھتا ہے مولانا فضل الرحمن صاحب آپ کی جماعت کا تو یہ سلسلہ اسی طریقے سے آگے بڑھے پارلیمانی طریقے سے جمہوری طریقے سے اس کے لیے کیا ہو کہ ساری جماعتیں مل کے کچھ ڈیسائیڈ کریں یا پھر ادارے کو بٹھائیں ساتھ اور پھر ڈیسائیڈ کریں کس طریقے سے معاملہ آگے بڑھے کہ پاکستان بھی آگے بڑھے جمہوریت بھی آگے بڑھے؟
مولانا صاحب: ہم آج بھی پارلیمانی نظام کے ساتھ کھڑے ہیں ہم نے ابھی تک پارلیمانی نظام سے لا تعلق ہونے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہم پارلیمانی کردار کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کر چکے ہیں ہم آج بھی آئین کے ساتھ کھڑے ہیں ہم آج بھی قانون کے ساتھ کھڑے ہیں ہم آج بھی پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن اس نظام میں اگر کوئی خرابی پیدا کرتا ہے اور اس کی توہین کرتا ہے اس کی بے عزتی کرتا ہے تو پھر اس کی اصلاح کے لیے بھی تو کوئی اواز ہونی چاہیے نا آپ اس آواز کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں کیا؟
صحافی: وہ آواز بالکل ہونی چاہیے مولانا صاحب مگر میں یہی جاننا چاہ رہا ہوں کہ چیزیں امپروو بھی ہوں 2013 سے 2018 کے بعد بھی آپ لوگ نکلے مگر چیزیں پیچھے چلی گئی بجائے اس کے کہ آگے جاتی ہے اور نظام میں بہتری آتی ہے تو نظام میں بہتری آئے کیسے؟
مولانا صاحب: پھر آپ 2013 سے شروع کریں پھر اس سے پہلے سے بھی تو یہی حالت ہے۔
صحافی: اور مولانا صاحب کیا حکومت کی طرف سے آپ سے رابطہ کیا گیا ہے کسی بھی طریقہ سے ابھی؟
مولانا صاحب: رابطے تو بہت ہوئے ہیں ایک رابطہ تو نہیں ہے لیکن ہمیں اب تک کسی طریقے سے بھی کوئی اطمینان نہیں دلا سکتا نہ ہمارے موقف کی کوئی تردید کر سکتا ہے نہ ہمارے موقف کو غلط کہہ سکتا ہے اب صرف یہ کہنا کہ جی آپ چھوڑ دیں آپ ایسا نہ کریں اور جو کچھ ہو چکا ہے بس ٹھیک ہے اب چلنا ہے تو اس قیمت پر ہم اپنے موقف واپس دینے کے لیے امادہ نہیں ہو رہے۔
مولانا صاحب: اور جو آپ کی نواز شریف صاحب سے ملاقات ہوئی تھی اس میں کیا بات ہوئی کیا طے پایا تھا؟
مولانا صاحب: میاں نواز شریف صاحب تشریف لائے تھے میرے لیے انتہائی قابل احترام ہے کل بھی تھے آج بھی ہے اور یہ اعتماد اور ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کا جو تعلق ہے وہ ہمارا تو اب ایسا ہے کہ جیسے ذاتی ایک تعلق ڈیویلپ ہو گیا تو وہ تشریف ضرور لائے تھے اور مجھے ان کے جذبات اور احساسات کا پورا علم ہے میں بھی جانتا ہوں کہ وہ کس حد تک گرویدہ ہیں اس صورتحال میں اور کتنے وہ پریشان ہیں اس ساری صورتحال کے لیے تو ظاہر ہے جی کہ جو پوزیشن ان کی پارٹی نے لے لی ہے تو اب وہ ہمارے لیے دعا کر سکتے ہیں ہم ان کے لیے دعا کر سکتے ہیں۔
صحافی: اچھا تو آپ نے انہیں بتایا کہ آپ اب انہیں نیا لاڈلا سمجھتے ہیں؟
مولانا صاحب: جی میں نے بتایا میں نے تو کبھی اپنا موقف کسی پہ مخفی نہیں رکھا
صحافی: پھر کیا کہا میاں صاحب نے کیا جواب دیا جب آپ نے انہیں بتایا؟
مولانا صاحب: تو میاں صاحب انہوں نے کیا جواب دینا تھا جی بس وہ بھی میں نے کہا جس طرح میں رو رہا تھا اس اس طرح انہوں نے بھی اپنے ایک دوسرے کے ساتھ غم شریک کیا ہے۔
صحافی: اور مولانا صاحب آپ کو یہ حکومت چلتی نظر آتی ہے یا مشکل لگتا ہے اس کا چلنا؟
مولانا صاحب: حضرت مجھے نہیں نظر آرہا کہ یہ ڈلیور کر سکیں گے یہ حکومت مکمل اسٹیبلشمنٹ کے قبضے میں ہوگی فیصلے وہی کریں گے انہی کے فیصلوں کے ساتھ پالیسیاں بنیں گی انہی کے فیصلوں کے تحت قانون سازیاں ہوں گی پارلیمنٹ ایک ربڑ سٹیمپ ہوگا چیلنجز بہت زیادہ ہیں ان چیلنجز کا وہ مقابلہ نہیں کر سکیں گے اور بالآخر تمام تر ناکامیوں کی ذمہ داری سیاستدان اپنے سروں پہ لے لیں گے میں تو اس بات پہ پریشان ہوں کہ جرم کوئی اور کرتا ہے سیاستدان اس کو اپنے سر پہ لے لیتے ہیں انہی کی غلطیوں کے نتیجے میں سیاستدان ذمہ داریاں قبول کر لیتے ہیں اور پھر آگے جا کر جو گالیاں ملتی ہیں عوام کی طرف سے جو ناراضگی ہوتی ہیں وہ سارے حکومت پہ تھونپ دیتے ہیں۔
صحافی: اس وقت مولانا صاحب اکیلے ہی آپ آگے اپنی مہم چلائیں گے اپنے سڑکوں پر آئیں گے یا کوئی ہے کہ آپ الائنس بنائیں گے پی ٹی آئی کے ساتھ آگے بڑھیں گے؟
مولانا صاحب: نہیں دیکھیے پی ٹی آئی کے حوالے سے بھی ہمیں اپنے صوبے کے نتائج پر اعتراض ہے اور ان کے اور ہمارے درمیان اس وقت تک کوئی رابطہ نہیں ہے سوائے اسی ابتدائی رابطوں کے، تو اگر کوئی رابطہ ہوتا ہے یا رابطے کے ذریعے کچھ معاملات آگے بڑھتے ہیں کچھ افہام و تفہیم ہوتا ہے تو ہم نے تو یہ بات ان سے کہی ہے کہ فوری طور پر تو نہ آپ کی پوزیشن تبدیل ہو سکتی ہے ہمارے حوالے سے نہ ہماری پوزیشن تبدیل ہو سکتی ہے آپ کے حوالے سے جو تحفظات تھے وہ کوئی الیکشن کے حوالے سے یا کوئی سیٹیں جیتنے یا ہارنے کے حوالے سے تو نہیں تھے وہ تو ایک خاص نظریاتی حوالے سے کچھ باتیں تھی اگر ان کے لیے ماحول بن سکتا ہے تو ہم خیر مقدم کریں گے تاکہ ہمارے درمیان اگر کوئی تحفظات تھے جو آج تک نہیں حل ہو سکے اور اس کے بعد اس کے لیے اگر ماحول بنتا ہے تو سیاسی لوگ نہ مذاکرات سے انکار کرتے ہیں نہ مذاکرات کے لیے ماحول بنانے سے انکار کرتے ہیں نہ سیاسی لوگ جو ہے مسئلے کا حل نکالنے سے انکار کرتے ہیں تو اگر ایسی کوئی صورتحال بنتی ہے تو مستقبل میں ہم اس کو خیر مقدم کہیں گے لیکن یہ ہے کہ سر دست اس حوالے سے جماعت نے کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا کہ ہم ان کے ساتھ مل کر کوئی تحریک چلا رہے ہیں؟
صحافی: آپ کو رویے میں تبدیلی نظر آتی ہے اس طرف سے، اچکزئی صاحب کو صدارتی امیدوار بنانا آپ کے لیے بات کرنا کہ جی آپ سے بات کی جائے گی آپ کو دعوت دی جائے گی پھر آکے آپ سے ملاقات بھی کرنا ہے ایک رویے میں تبدیلی نظر آرہی ہے؟
مولانا صاحب: جی رویے میں تو تبدیلی نظر آرہی ہے اور اچھی بات ہے تو سیاست میں ایک مثبت اور صحت مند رویہ ہے اگر اس طرح ہم آگے بڑھتے ہیں تو کوئی مضائقہ تو اس میں نہیں ہے۔
صحافی: بہت شکریہ مولانا صاحب
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب