ڈیرہ اسماعیل خان قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان دامت برکاتہم نے نماز عید اپنے آبائی گاؤں عبدالخیل میں ادا کی اورعید کے اجتماع سے خطاب کیا ،خطاب میں انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں پر شدید الفاظ میں مذمت کی اور اسے کھلی امریکی دہشت گردی کہا ،برما میں ہونے والے مظالم پر عالمی اداروں کی خاموشی کوانسانیت کا قتل قرار دیا ۔
نماز عید کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا نے کہا ہمیں سیاسی اورمعاشی جنگ کاشکاربنایاجارہاہے۔2001میں حکمرانوں نےملک کودلدل میں دھکیل دیا۔آج ہم امریکاکےہاتھوں غیرمحفوظ ہیں۔
اس کے علاوہ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن دامت برکاتہم کے حکم پر ملک بھر میں جمعۃ المبارک اورعید کے اجتماعات میں امریکی صدر کے بیان کے خلاف بھرپور احتجاج کیا گیا۔مساجد اور کھلے میدانوں میں احتجاجی قراردادوں میں امریکی صدر کے بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی اور امریکی صدر کے بیان کو کھلی دہشت گردی قرار دیاگیا ،لاہور میں عید کے بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مولانا محمد امجد خان نے کہا کہ پور ی قوم امریکی صدر کے بیان کے خلاف سراپا احتجاج ہے،امریکی صدر نے افغانستان کےحوالے سے جس پالیسی کا اعلان کیا ہے اس میں پاکستان کو دھمکیاں دے کرقومی غیرت اور خودمختاری کو چیلنج کیاہے ان دھمکیوںکے خلاف پوری قوم نے غیرت کا مظاہرہ کیا ہے،
مرکزی میڈیا سنٹر کے مطابق کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے،
محتلف شہروں میں پارٹی راہنماؤں حافظ حسین احمد،مولانا فضل علی حقانی،مولانا عبد القیوم،مولانا یوسف ،سید فضل آغا،محمد اسلم غوری،حاجی شمس الرحمن شمسی،مفتی ابرار احمد نے بھی خطاب کیا، قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے 8ستمبر سے لےکر15 ستمبر تک ملک بھر میں ریلیوں اور احتجاجی مظاہروں کا اعلان بھی کیا ہے،مولانا محمد امجد خان نے کہاکہ پاکستانی قوم اپنے ملک کی حفاظت کرنا جانتی ہے، پاکستانی قوم ایک بہادر اور جرات مند قوم ہے حافظ حسین احمد نے کہاکہ امریکہ کی اصلیت سامنے آچکی ہے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ امریکہ خطے میں نئی جنگ کی صف بندی کرانے میں مصروف ہے ،انہوں نے کہاکہ قوم متحد ہے دشمن کی پالیسیوں کے خلاف قوم میں کوئی اختلاف نہیں ہے ،انہوں نے کہاکہ امریکی صدر کا بیان پاکستان کی سلامتی پر حملہ ہے،جمعیت علماءاسلام کے راہنماؤں نےکہا ہےکہ ملک کی سلامتی اور استحکام کے لئے پوری قوم متحد ہے اگر کسی جارحیت کی کوشش کی گئی تو پاکستانی عوام امریکی فوج کا ہر محاذ پر مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے، اس موقع پرعلماءکرام کا کہنا تھاکہ غیرت مند قوم کسی بھی دھمکی سے خوفزدہ ہونے والی نہیں ہے
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب