قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا عام انتخابات 2024 کے حوالے سے اہم پریس کانفرنس

14Th Feb 2024

جمیعت علمائے اسلام پاکستان کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس جمیعت مرکزی سیکرٹریٹ اسلام آباد میں دو روز جاری رہا، مرکزی مجلس عاملہ نے 8 فروری 2024 کے انتخابی نتائج کو مجموعی طور پر مسترد کر دیا ہے۔ انتخابی دھاندلی نے 2018 کے انتخابات کے دھاندلی کا ریکارڈ بھی توڑ ڈالا ہے۔ الیکشن کمیشن اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں یرغمال رہا ہے، جمیعت علماء اسلام الیکشن کمیشن کے اس بیان کو مسترد کرتی ہے جس میں انہوں نے الیکشن کو شفاف قرار دیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام کی نظر میں پارلیمنٹ اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے اور جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہا ہے، لگتا ہے اب فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے، جمعیت علماء اسلام پارلیمانی کردار ادا کرے گی تاہم اسمبلیوں میں شرکت تحفظات کے ساتھ ہوگی، مرکزی مجلس عاملہ نے جمیعت علمائے اسلام کی مرکزی مجلس عمومی کو سفارش کی ہے کہ وہ جمیعت کی پارلیمانی سیاست کے بارے میں فیصلہ کرے کہ جمعیت مستقل طور پر پارلیمانی سیاست سے دستبردار ہو اور عوامی جدوجہد کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے پاک ماحول میں عوام کی حقیقی نمائندگی کی حامل اسمبلیوں کے انتخاب کو ممکن بنایا جا سکے، اس سلسلے میں چاروں صوبائی مجالس عمومی کے اجلاس صوبوں کے مرکزی مقامات میں بلائے جائیں گے تاکہ مرکزی عاملہ کے فیصلوں کے بارے میں صوبوں کو بھی اعتماد میں لیا جا سکے، جمعیت علماء اسلام کو دھاندلی کے ذریعے شکست سے دوچار کرنے کی منصوبہ بندی اسلام دشمن عالمی قوتوں کے دباؤ سے ہوئی ہے، ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم نے افغانستان میں امارت اسلامیہ کے استحکام اور پاکستان افغانستان کے پرامن تعلقات کے حوالے سے کردار ادا کیا ہے جو امریکہ اور مغربی دنیا کے لیے قابل قبول نہیں ہے، ہمارا جرم یہ ہے کہ جمیعت علمائے اسلام نے اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف فلسطینیوں اور حماس کے موقف کی حمایت کی ہے لیکن جمعیت علمائے اسلام ایک نظریاتی قوت ہے ملک کے داخلی نظام اور بین الاقوامی مسائل پر کسی مصلحت یا سمجھوتے کا شکار نہیں ہوگی اور وسیع مشاورت کے بعد ملک میں اپنے عظیم تر مقاصد کے لیے تحریک چلائیں گے۔ کارکن اپنی تاریخ کو اپنی قربانیوں سے تابندہ رکھنے کی عزم کے ساتھ تحریک میں اترنے کے لیے تیار رہے۔

اگر اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ الیکشن شفاف ہوئے ہیں تو پھر اس کا معنی یہ ہے کہ فوج کا 9 مئی کا بیانیہ دفن ہو چکا ہے اور پھر قوم نے جیسے کہیں غداروں کو مینڈیٹ دیا ہے۔ الیکشن کے نتائج اس بات کا بھی واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ کامیاب یا شکست خوردہ امیدواروں سے بڑی بڑی رشوتیں لی گئی ہیں اور بعض کو تو پیسے کے بدلے میں پوری کی پوری اسمبلیاں عطاء کی گئی ہے، اسی لیے میں مسلم لیگ نواز شریف کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ آئیں اور ہم مل کر اپوزیشن میں بیٹھے۔ 

الیکشن کمیشن آف پاکستان کا روز اول سے کردار مشکوک رہا ہے اور اب بھی اسلام آباد میں الیکشن کمیشن ہمارے امیدواروں کی درخواستوں کی سماعت سے انکار کر رہا ہے اور نوٹس جاری کیے بغیر درخواستوں کو خارج کر رہا ہے۔

 ہم 22 فروری کو یہاں اسلام آباد میں یہاں کی جنرل کونسل کے ساتھ میٹنگ کریں گے۔ 25 فروری کو ہم بلوچستان میں اپنی صوبائی جنرل کونسل کے ساتھ میٹنگ کریں گے۔ 27 کو ہم خیبر پختونخوا بشمول فاٹا کے پشاور میں جنرل کونسل سے میٹنگ کریں گے۔ 3 مارچ کو ہم کراچی میں صوبہ سندھ کی جنرل کونسل کے ساتھ میٹنگ کریں گے اور 5 مارچ کو ہم پنجاب کی صوبائی مجلس عمومی کے ساتھ لاہور میں میٹنگ کریں گے۔

سوال وجواب

صحافی: آپ نے جیسے کہا کہ ہم اس الیکشن کو مسترد کرتے ہیں تو اس کے بعد کیا جے یو آئی کے جو ارکان قومی اسمبلی ہیں یا پھر صوبائی اسمبلی ہیں کیا وہ پھر پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کریں گے حلف نہیں اٹھائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ کیا اگر مسلم لیگ ن جس سے آپ مطالبہ کر رہے ہیں۔

مولانا صاحب: دیکھیے وہ پہلے بھی آپ کو معلوم ہے اس سوال خواہ مخواہ آپ کر رہے ہیں شوق ہے آپ کو، پہلے بھی آپ کو معلوم ہے ہم اسمبلی میں تو رہیں لیکن باہر تحریک بھی چلتی رہی اور اپنے موقف بھی ہم دنیا کو دیتے رہے ہیں تو اس میں کوئی تضاد نہیں ہے اور مسلم لیگ جس امیدوں کے ساتھ میاں صاحب کو لے کر آئی تھی اور امید پاکستان کے نام سے ان کو جو ہجم عطا کیا گیا ہے وہ بھی ذرا ان کو حوالہ کرنا چاہیے۔

صحافی: مولانا صاحب جس طرح آپ نے تحفظات کا اظہار کیا ایسے ہی تحفظات کا اظہار پاکستان تحریک انصاف نے کیا ہے وہ بھی اپوزیشن میں جا رہے ہیں اور کل عمران خان نے جو تین جماعتوں سے کہا ہے بات نہیں کرنی ایم کیو ایم نون لیگ اور پیپلز پارٹی اس میں آپ لوگوں کے لیے ایک اچھی ونڈو ملی ہے کہ آپ لوگ کیا عمران خان کے ساتھ مل کر اس حوالے سے اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے جو انہوں نے کہا ہے اپنے جو رؤف حسن وغیرہ کو کہ آپ لوگوں سے بات کی جائے تو آپ بات کرنا پسند کریں گے؟

مولانا صاحب: دیکھیے پی ٹی آئی کے ساتھ ہمارے اختلافات رہے ہیں کوئی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن ایوان تو سب کا ہوتا ہے ہمیں ان کے جسموں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے ان کے دماغوں سے ذرا جھگڑا ہے وہ ٹھیک ہو جائے گا خدا کرے خدا کرے کہ ٹھیک ہو۔

صحافی: بہت ساری دھاندلی ہوئی بہت سارے حلقوں میں اور آپ نے بلوچستان کا بھی حوالہ دیا اور الیکشن کمیشن آپ کی ایپلیکیشنز کو انٹرٹین نہیں کر رہا تو کچھ ایک تو حلقے بتائیں گے کہ کیا ان میں دھاندلی ہوئی اور کیا ہے کیونکہ یہاں لوگوں کو تو نہیں پتا اس چیز کا

مولانا صاحب: سب کچھ پتہ ہے میں پہلے بھی کہتا رہا ہوں 2018 کے الیکشن میں جو ہم سے پوچھا جاتا آپ کے پاس کیا دلیل ہے تو میں کہتا ہوں کہ دن میں جو سورج چمک رہا ہے تو آپ مجھ سے پوچھتے ہیں دن کیسے ثابت کرو یہی صورتحال آج ہے حضرت مسلم لیگ کا وہ امیدوار جو محمود خان اچکزی کے مقابلے میں دستبردار ہو چکا تھا اور وہ دستبرداری کی حالت میں گھر میں سویا ہوا تھا اس کو کہا آپ جیت گئے ہیں۔

صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیے گا کہ دو ماڈل جو اس وقت سامنے ہیں ایک آیا پاکستان پیپلز پارٹی کا ماڈل کہ ہم حکومتی بنچوں پہ بیٹھیں گے لیکن شہباز شریف کو ووٹ دیں گے وزارتیں وغیرہ نہیں لیں گے آپ نے کون سا راستہ اختیار کیا؟

مولانا صاحب: ہم نے یہ راستہ اختیار کیا ہے جو ہم نے بتا دیا ہم کوئی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا کسی کے تابعدار نہیں ہے ہم اپنا موقف آپ کو دے رہے ہیں یہ ہمارا موقف ہے جو آج ہم نے آپ کو دیا۔ آپ میری مہربانی سنیں میں نے جو بیان دیا ہے یہ مرکزی مجلس عاملہ کا بیان ہے فضل الرحمن سے بیان نہ لیا جائے۔ مجھ سے بیان نہ لیا جائے۔ مجھ سے وہ بیان لیا جائے جو میں نے آج مجلس عاملہ کا دیا ہے۔

صحافی: ن لیگ کا بیانیہ تھا کہ ہماری بات کل ہو گئی ہے کیا آپ کو بھی اس طرح کی کوئی جو ہے آپ سے بات نہیں تھی اسی لیے آپ نے میٹنگ میں بندوں سے پوچھا۔

مولانا صاحب: ہم نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ہم پارلیمنٹ میں تحفظات کے ساتھ جائیں گے، اپنی حیثیت میں جائیں گے جو ہماری پارلیمانی حیثیت ہوگی اپنی آواز وہاں پر ہم بیان کریں گے، ہم کسی بھی پارٹی کے ساتھ کوئی اتحادی نہیں ہیں۔

صحافی: مولانا صاحب اگر آپ پارلیمنٹ میں جاتے ہیں اور حکومتی اتحاد کا حصہ پہلے بھی رہے ہیں آپ کے تعلقات بھی سب کے ساتھ رہے ہیں اگر پھر وہ آتے ہیں تو کیا آپ نظر ثانی کریں گے؟

مولانا صاحب: نظر ثانی کی کوئی گنجائش جماعت نے نہیں رکھی ہے۔

صحافی: حضرت مولانا صاحب یہ بتائیں کہ الیکشن کے دوران آپ بار بار مطالبات بھی کرتے رہے کہ الیکشن تبدیل کیے جائیں حالات سازگار نہیں ہیں اس وقت یہ جو جماعتیں آپ کی اتحادی تھیں انہوں نے آپ کا ساتھ نہیں دیا کیا سمجھتے ہیں کہ آپ کے خلاف اس وقت سے سازش چل رہی ہے کہ آپ ان الیکشن میں آپ کو ہرایا گیا ہے؟

مولانا صاحب: بھائی میں پارٹیوں کے حوالے سے ماضی میں نہیں جانا چاہتا پھر وہ بہت بڑی بحث ہے اس حوالے سے لیکن جو میں نے کہا ہم پہ وہ گزری ہیں صرف کہا نہیں ہم پہ گزری ہیں ہمیں جو میسج ملتے رہے سرکار کی طرف سے بھی ایجنسیوں کی طرف سے بھی اور جو مسلح گروپ ہے ان کی طرف سے بھی، ہم علاقوں میں نہیں جا سکتے تھے اور جہاں پر ان کا ہولڈ تھا وہاں پولنگ سٹیشنوں سے پولیس کو اٹھا لیا گیا چار پانچ دیہاتوں سے پولیس کو اٹھایا گیا، تین روز تک یرغمال رکھا گیا وہاں الیکشن کمیشن کا کوئی بندہ نہ آسکا۔ دھمکیاں یہ تھی کہ جمعیت کے آدمیوں کو ہم قتل کریں گے اگر وہ آئے پولنگ سٹیشنوں کے اوپر یا ہم نے ان کا جھنڈا دیکھا تو اس قسم کے حالات میں ہم نے الیکشن میں حصہ لیا ہے اور انہوں نے کوئی بات ہماری نہیں سنی سو آج ہم بھی ان کی کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔

صحافی: آپ کی تحریک کس شکل میں ہو گی؟

مولانا صاحب: یہ ذرا ہم پہ چھوڑیں یہ ذرا ہم پہ چھوڑیں۔

صحافی: الیکشن تو طے شدہ ہیں نتائج طے شدہ ہیں آپ کے تحفظات بھی ہیں تو آپ نے کہا اور پھر یہ حکومت بھی طے شدہ ہے بن چکی ہے ہوں گے کیا جے یو آئی جس طرح آپ نے فرمایا کہ اب فیصلہ میدان میں ایسا لگتا ہے ہوں گے کیا میدان میں آئیں گے جو حکومت قائم ہوگی؟

مولانا صاحب: بالکل آئیں گے ان شاءاللہ، ہم نے ذرا کچھ اور تیور کے ساتھ فیصلے کیے ہیں آپ نارمل سوالات کر رہے ہیں۔

ابھی ہم نے کوئی اور بات نہیں کی میں نے آپ سے کہا کہ میں نے اپنی مجلس عاملہ کے فیصلے سنائے ہیں میں ابھی کوئی بیان دوسرا نہیں دے رہا آپ کو

صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیے گا کہ آپ کی بلوچستان میں اچھی خاصی سیٹیں آئی ہیں تو آپ وہاں پہ فارمیشن کریں گے حکومت کی یا وہاں بھی اپوزیشن میں بیٹھیں گے؟

مولانا صاحب: میں جاؤں گا بلوچستان وہاں پر میں نے آپ سے کہا کہ ہم وہاں جائیں گے وہاں پر اپنے لوگوں سے، ہماری جماعت نے کوئی حکومت سازی کی اجازت ابھی تک نہیں دی بات کریں گے ان کے ساتھ ان کو جماعتی موقف سے آگاہ کریں گے۔

صحافی: یہ بتائیں اس میں آپ نے سٹیٹمنٹ دی ہے کہ آپ افغانستان میں اسلامی امارات کا جو ہے وہ استحکام چاہتے ہیں یہ آپ کا قصور ہے آپ نے ایک بڑا اچھا دورہ بھی کیا تو آپ کو لگتا ہے کہ وہ دورہ صحیح ثابت نہیں ہوا یا وہی آپ کے اگینسٹ چلا گیا؟

مولانا صاحب: تبصرے یہی آرہے ہیں کہ وہ ہمارے خلاف گیا ہے بین الاقوامی طور پر اس کو جرم قرار دیا گیا ہے۔

صحافی: مولانا صاحب یہ فرمائیں ماضی میں پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ کیا تھا پیپلز پارٹی آج بھی کہتی ہے کہ وہ ہماری غلطی تھی کیونکہ ایک نئی سیاسی سورس ابھر کر آئی گئی آپ ابھی بائیکاٹ کر رہے ہیں فرض کرے آپ اسمبلیاں چھوڑ رہے ہیں تو آپ نہیں سمجھتے۔

مولانا صاحب: ہم نے کوئی ایسی بات نہیں کہی کہ ہم اسمبلیاں چھوڑ رہے ہیں۔

صحافی: نہیں جی آپ نے کہا اپوزیشن میں دعوت دے رہے ہیں شہباز شریف کو

مولانا صاحب: اپوزیشن اسمبلی کے اندر نا، اسمبلی کے اندر کی بات کر رہا ہوں باہر کی بات تو نہیں کر رہا ہوں۔

صحافی: مولانا شہباز شریف کو ووٹ دیں گے یا نہیں؟

مولانا صاحب: ہم حکومت کے اتحادی نہیں ہیں۔

صحافی: الیکشن سے پہلے آپ کو ایک لیول فلینگ فیلڈ نہیں دیا گیا تھا کہ آپ کے امیدوار باہر نکل سکیں کمپین کر سکیں گولی چلتی تھی جا کے کی گاڑیوں کے اوپر فائر ہوئے باقی جو آپ کا جو ایک اصولی موقف رہا ہے اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کے کردار کے حوالے سے وہ بھی سب کے سامنے سے ہے ہم نے الیکشن کے نتائج میں دیکھا کہ مسلم لیگ نون کا جو ونگ سیاسی بالادستی کی بات کرتا تھا اس کو بھی الیکشن میں کاٹ دیا گیا اور اس کے جو لیڈر جو مرکزی لیڈر جو جن سے توقع ہوتی تھی کہ یہ سویلین بالا دستی کا مقدمہ ہمارا لڑیں گے وہ بھی دستبردار ہو گئے پارلیمانی سیاست سے کل، تو اب جو پاکستان کے جمہور پرست ہیں جو سیاسی ان کو تو اس بات کا افسوس ہے لیکن آپ ایک ایسے وقت میں عوامی تحریک چلانے کی بات کر رہے ہیں جب آپ کے لیے پبلک میں جانا جو ہے وہ جان کو ہتھیلی پہ لے کے جانے کے مترادف ہے اور دوسری طرف آپ کی جو میڈیا ٹیم ہے جس سے پریس کانفرنس کے لیے اگر پوچھیں تو دو دو دن جواب نہیں دیتے تو آپ عوامی تحریک اس میڈیا ٹیم کے ساتھ کیسے چلائیں گے؟

مولانا صاحب: اس کی ہم اصلاح کر لیں گے ہاں یہ شکایت آپ شکایت کر رہے ہیں میں گزارش کرنا چاہتا ہوں آپ سے، دیکھیے ہم نے کوئی تاریخ نہیں دی ہے ہم نے کچھ سفارشات کی ہیں اپنی جنرل کونسل سے ان کا جب اجلاس ہوگا اور اس سے پہلے ہم صوبوں کے جو جنرل کونسل ہیں ان کو اعتماد میں لینے کے لیے جا رہے ہیں یہ تو پھر طریقہ کار اس کی ترتیب اس کا شیڈول جب سارا آئے گا تو پہلے بھی یکدم تو ہم نہیں آئے میدان میں ہم نے تو کچھ تو تیاری کی اس کے لیے نظم بنایا سو اب بھی ہم ظاہر ہے کہ آنکھیں بند کر کے میں نے لفظ استعمال کیا ہے کہ اپنی جماعت کی وسیع مشاورت کے بعد تو جب ہم نے ایک دفعہ آپ کو واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ہم اپنی جماعت کے مشاورت کے ساتھ اگلی تحریک کا شیڈول اور طریقہ کار اناؤنس کریں گے لیکن موقف ہمارا اس اسمبلیوں کے بارے میں اس کے انتخابی نتائج کے بارے میں واضح طور پر آگیا ہے اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔

صحافی: سوال یہ لیجیے گا شیر افضل مروت کا ایک ٹویٹ وائرل ہوا اس کے فیک اکاؤنٹ سے جس میں کچھ توہین امیز بیانات تھے سوشل میڈیا پر ان کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور جب ان سے سوال کیا گیا کہ مروت صاحب بتائیں آپ نے یہ ٹویٹ کیا تو انہوں نے آپ کو الزام آپ پر جو ہے وہ لگایا کہ مولانا صاحب اس کے ذمہ دار ہے کیا کہیں گے اس پر آپ؟

مولانا صاحب: اس کا تو میں ایسا مجھے مجبور کر رہا ہوں جیسے میں کسی آپ کی بات کا جواب دے دوں جس طرح میں کسی آپ کی جواب کا خود کو مناسب نہیں سمجھتا آپ کے برابر اس کو سمجھتا ہوں۔

صحافی: مولانا صاحب یہ بتا دے کہ آپ کی جو شکست ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کی وجہ سے ہے تو آپ کیا سمجھتے ہیں جو آپ کے سابقہ اتحادی تھے ان کی فتح اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ دوستی کی وجہ سے ہے؟

مولانا صاحب: میں کسی پہ بھی تبصرہ نہیں کر رہا میں الیکشن کی مجموعی فیصلے کی بات کر رہا ہوں کوئی سمجھتا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے تو جس طرح پہلے ساتھ آئے تھے آجائیں کوئی سمجھتا ہے نہیں ہوئی بیٹھے رہیں عیاشی کریں ہم نے اپنا فرض ادا کرنا ہے۔

صحافی: آپ نے الیکشن میں دھاندلی کی بات کی آپ ڈی آئی خان سے ہار گئے بلوچستان کے آپ جیت گئے تو کیا وہاں پر الیکشن شفاف تھے کیا آپ احتجاجا وہ سیٹ چھوڑیں گے یا مختلف اپشن زیر غور ہے؟

مولانا صاحب: میری گفتگو کوئی ایک سیٹ یا دو سیٹوں کے حوالے سے نہیں ہے میں نے مجموعی طور پر ملک کے انتخابات کی بات کی ہے میں اس لیول پر آپ کے سوالات کا جوابات دوں گا کسی ایک ایک نشست پہ میں کیا باتیں کروں گا۔

صحافی: مولانا صاحب بلوچستان میں ایک ایم این اے اور ایک ایم پی اے جو افغانی ہے وہاں سے ان کو منتخب کیا گیا ہے اس پر آپ کیا کہیں گے؟

مولانا صاحب: یہ بھی ہے اور ہمارے پشاور میں چوتھے پانچویں نمبر کا ایک خالص افغانی باشندہ اس کا نیشنل اس کو جتوا دیا گیا ہے۔

صحافی: آپ کی جماعت کہہ رہی ہے دھاندلی ہوئی ہے پی ٹی آئی والے کہہ رہے ہیں دھاندلی ہوئی ہے کیا آپ دونوں مل کے اس جدوجہد میں مشترکہ چلیں گے؟

مولانا صاحب: اگر ہم کہتے ہیں کہ اللہ ایک ہے اور وہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ ایک ہے تو پھر اکھٹے چلیں گے۔

صحافی: مولانا صاحب آپ ایک بار پھر بڑا احتجاج کرنے جا رہے ہیں؟

مولانا صاحب: اسٹبلشمنٹ سیاست سے دستبردار ہو جائے ہمارے سر آنکھوں پہ، ہمارے سر کا تاج، سیاست کریں گے تو جواب سیاست سے دیں گے۔

بہت شکریہ بڑی مہربانی

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب #محمدریاض

Facebook Comments