رحیم یار خان
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ امریکہ دہشتگردی کے ذریعے ترقی پذیر ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتاہے لیکن اس موقع پر ہمیں سوچ سمجھ کر اپنی خارجہ پالیسی ترتیب دینی چاہیے تاکہ پاکستان کسی بھی طرح اندرونی و بیرونی طور پر کمزور نہ ہو سکے ۔
رحیم یار خان میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ کی نئی افغان پالیسی کا اصلی نشانہ پاکستان ہے کیونکہ امریکہ کو سی پیک کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اقتدار سے علیحدگی دراصل امریکہ کی جنوبی ایشیاء اور افغانستان بارے اس نئی پالیسی کا حصہ ہے جس کے ذریعے وہ پاکستان کو معاشی اور سیاسی طور پر کمزور کر کے دراصل دنیا بھر میں خاص طور پر پاکستان میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو روکنا چاہتاہے تا کہ وہ دنیا بھر میں اپنی اجارہ داری برقرار رکھ سکے ۔انہوں نے کہا کہ اگر 2001ء میں ہمارے حکمران ہوش کے ناخن لیتے اور اعصابی طور پر جنگ نہ ہارتے تو آج دنیا میں امریکہ کا اثرو رسوخ بہت کم ہو چکا ہوتا ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے بعض سیاستدانوں نے امریکی اتحاد میں شامل ہونے کو صلح حدیبیہ سے تشبیہ دی تھی جس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ چین کی شکل میں کسی بھی ملک نے امریکہ کو للکارا ہے جس کے نتیجے میں امریکہ کو اپنا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے جس کے باعث وہ مختلف ممالک کے درمیان جنگ چھیڑ کر اپنا اسلحہ فروخت کر کے معاشی طور پر مضبوط ہونے کے خواب دیکھ رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ کافی عرصہ قبل کے جی بی جو افغان پالیسی روس کیلئے ترتیب دے رہا تھا آج وہی افغان پالیسیاں پینٹاگون صدر ٹرمپ کیلئے ترتیب دے رہا ہے اس لیے توقع ہے کہ صدر ٹرمپ امریکی گورباچوف ثابت ہو گا ۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کی افغانستان کے بارے میں نئی پالیسی کے بعد پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت جس طرح ایک پیج پر اکٹھی ہوئی ہے اس سے امریکہ کو ایک واضح پیغام گیا ہے جس سے توقع ہے کہ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی امریکی کوششیں ناکام ثابت ہونگی ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت امریکہ ایران کو سعودی عرب سے ،پاکستان کو افغانستان سے اور انڈیا کو چین سے لڑانے کی سازش کر رہا ہے تاکہ وہ اپنا زیادہ سے زیادہ اسلحہ فروخت کر سکے ۔اس موقع پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو مشورہ بھی دیا کہ وہ نیب میں اپنے مقدمات ختم کرنے کیلئے آصف علی زرداری کی شاگردی اختیار کریں کیونکہ آصف علی زرداری اپنی بہترین حکمت عملی کے ذریعہ نیب سے پاک ہو چکے ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ جماعت اسلامی کی خیبرپختونخواہ کی حکومت سے علیحدگی کے واضح اعلان کے بعد ہی وہ کے پی کے میں حکومت سازی کےبارے میں فیصلہ کریں گے ۔اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ وہ آئین کی دفعات 62اور 63 کے مکمل خاتمے کی حمایت نہیں کرتے تاہم ان دفعات میں بعض سقم ختم کرنے کی حمایت کریں گے جس میں خاص طور پر نااہلی کی مدت کا تعین شامل ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ جمعیت علماءاسلام لسانی اور علاقائیت کی بنیاد پر نئے صوبوں کے قیام کی حمایت نہیں کرتی تاہم انتظامی بنیادوں پر وہ نئے صوبوں کے قیام کی حامی ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ عام انتخابات میں ان کی جماعت بھرپور حصہ لے گی اور ایم ایم اے کی بحالی کے بارے انہوں نے ایک کمیٹی قائم کر رکھی ہے جس کی روشنی میں ایم ایم اے کی بحالی کے متعلق کوئی فیصلہ کیا جائے گا ۔اس موقع پر جمعیت علماءاسلام کے مرکزی نائب امیر مولانا محمد یوسف ،ضلعی امیر مولانا عبدالرئوف ربانی ،مولانا رشید احمد لدھیانوی ،مولانا فتح اللہ و دیگر بھی موجود تھے ۔بعدازاں مولانا فضل الرحمان معروف روحانی شخصیت مولانا مولانا مسعود دین پوری سے ان کے صاحبزادے کی وفات پر تعزیت کیلئے دین پور شریف بھی گئے اور ان مرحوم کیلئے دعائے مغفرت فرمائی ۔
حکومت ایک بار پھر اینٹی ٹیررزم ایکٹ 1997 میں ترمیم کرنے جا رہی ہے جس سے دفاعی اداروں کو بے پناہ اختیارات ملیں گے جو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر ہیں۔ پہلے نیب کے اختیارات پر اعتراض تھا اور ان میں کمی کی گئی تھی، لیکن اب دفاعی ادارے کو کسی کو شک کی بنیاد پر 90 دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار دیا جا رہا ہے جو سراسر غیر جمہوری عمل ہے،ملک میں سول مارشل لاء کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ، جو جمہوریت اور “ووٹ کو عزت دو” کی بات کرتے ہیں، آج اپنے ہی ہاتھوں جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ 26ویں ترمیم میں کچھ شقیں واپس لینے پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی، لیکن یہ نیا ایکٹ اسی ترمیم کی روح کے خلاف ہے۔ یہ آئین اور پارلیمنٹ کی توہین ہے کہ ایک دن آپ ایک فیصلہ کریں اور اگلے دن اسے نظر انداز کر دیں۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان
فیصلے اجلاس مرکزی مجلس شوری جے یو آئی پاکستان
میں اداروں کا احترام کرتا ہوں لیکن میری نظرمیں بھی ان کی پالیسیاں سیدھی نظرآئیں، میں نے بھی چالیس سال صحراؤں میں گذارے ہیں، آنکھیں بند کر کے بات نہیں کر رہا بلکہ مشاہدات کے ساتھ بات کرتا ہوں،اگر ہم یہ بات نہیں کریں گے تو قوم کے ساتھ خیانت ہوگی،آپ اپنا قبلہ درست کریں ہم آپ کو سر کا تاج بنا لیں گے۔قوم کی قدر کریں، آپ کے کرنل اور میرے عام کارکن کے پاس ایک ہی شناخت ہے، دونوں کے لئے ایک ہی آئین ہے۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا ڈی آئی خان میں ورکرز کنونشن سے خطاب
43ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر سے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا خطاب
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا چھبیسویں آئینی ترمیم پر قومی اسمبلی میں تاریخی خطاب