اسلام آباد:
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان دامت برکاتہم نے حا ل ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کی گئی پاکستان سے متعلق تقریر پر چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے جرات مندانہ بیان کا خیر مقدم کیا ہے، وقت آ گیا ہے کہ خارجہ دفاع اور قومی سلامتی کے معاملات پر پارلیمنٹ کی اہمیت اور حیثیت کو تسلیم کیا جائے،وقت آ گیا ہے کہ امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خدمات سے دستبردار ہو جائیں اور پاکستان عالمی اتحاد سے باہر نکل آئے، پارلیمنٹ، عدلیہ اور فوج کے درمیان مکالمہ کی تجویز کی حمایت کرتا ہوں، واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ 62,63کی منسوخی یا اس میں ردوبدل سرے سے ہی حکومتی ایجنڈے پر نہیں ہے،یہ میڈیا کا پیدا کردہ ایشو ہے،62,63کے غلط استعمال کو روکنے کے قانونی اقدامات کی تجویز ضرور زیر غور ہے، پاکستان دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ سے باہر نکل آئے،عالمی اتحاد کو چھوڑ دے، روس اور چین کے حوصلہ افزاء بیانات کے تناظر میں آگے بڑھنے کے راستے موجود ہیں، یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ پہلے ہی سے صلیبی جنگ کا اعلان کر چکا ہے،پاکستان کے سیاسی بحران کو دیکھتے ہوئے امریکی صدر نے وار کر دیاہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج جمعہ کو پارلیمنٹ ہائوس کی جامع مسجد کےباہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمارے ماضی بعید کے موقف کو دیکھ لیں، جنرل پرویز مشرف 2001 میں نام نہاد دہشت گردی کے نام پر امریکی جنگ کا اتحادی بنا اور پاکستانی سر زمین کے اڈے، فضائی حدود اور امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ دی گئی تو ہم نے واضح طور پر اس پالیسی کو پاکستان کے مستقبل کیلئے خوفناک اور تباہ کن قرار دیا تھا، بروقت غلطی کی نشاندہی کر دی تھی، اور کہا تھا کہ پاکستان دلدل میں پھنس جائے گا مگر اب امریکہ کا اصل چہرہ بے نقاب ہو گیا ہے تو اب تو اداروں کو اپنی غلطیوں کا احساس کرلینا چاہیے،جو سیاہ و سفید کے مالک ہیں اور فیصلوں کا اختیار رکھتے ہیں انہوں نے کیوں نہیں سوچا کہ قوم کو فروخت کیوں کیا، پاکستان میں جان بوجھ کر سیاسی بحران پیدا کیا گیا، انتشار کا فائدہ اٹھانے کیلئے وقت کا انتظار کیا گیا اور جب جے آئی ٹی کی رپورٹ وزیراعظم کے بارے میں آئی تو ہم نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ مسئلہ کرپشن کا نہیں ہے بلکہ داخلی ہے اورعدم استحکام کسی کے مفاد میں نہیں ہو گا اور یہ قضیہ کسی بھی طور پر ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہو گا، عالمی ایجنڈے کے تناظر میں اس مسئلے کو دیکھنا ہو گا، مگر ہماری بات پر توجہ نہ دی گئی ، ملک میں سیاسی تقسیم ہو گئی، سول و ملٹری کے تعلقات میں تنائو کا تاثر پیدا ہوا، سیاسی قوتیں مختلف محاذ پر ڈٹ گئیں اور ان مواقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹرمپ نے پاکستان پر وار کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں چاہیے کہ ہم پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر رکھیں، کوئی پڑوسی دوسرے پڑوسی کو کمزور کر کے طاقتور نہیں بن سکتا، بھارت اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان کو کمزور کر کے خود فائدے میں رہے گا تو یہ اس کی بھول ہے، پاکستان کی کمزوری اس کیلئے سودمند نہیں ہو گی، اسی طرح میں ایران اور افغانستان کے حوالے سے بھی یہی بات کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری کسی پڑوسی ملک کو زیر نگیں رکھنے کی سوچ نہیں ہونی چاہیے، ایران سے بھی یہی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے نظریے کو سرحد پار پھیلانے کی سوچ کو ترک کر دے، اسی وجہ سے اس کے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بحران پیدا ہوا، ساری دنیا اب بھی پراکسی کی بنیاد پر جنگ لڑ رہی ہے، کسی کو حقائق کا ادراک نہیں ہے۔
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سینیٹ سے امریکی صدر کے خلاف جو رد عمل سامنے آیا ہے انتہائی اہم ہے،پاکستانی معیشت کو ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا الگ نقصان ہوا، اداروں کو اب دور اندیشی سے کام لینا ہو گا، فیصلے وہی دیرپا ثابت ہوتے ہیں جو دور رس نتائج کے حامل ہوں،2001میں جو فیصلے کئے گئے ایڈہاک ازم کی بنیاد پر ملک و قوم کے مفاد کو دائو پر لگا دیا گیا جبکہ اس وقت فیصلوں کے حوالے سے آئندہ کے بیس سالوں کی ممکنہ تبدیلیوں کو دیکھنا چاہیے تھا، مگر ہماری نظر ناک سے آگے نہیں گئی، ریاستوں کے فیصلے معروضی صورتحال کو دیکھتے ہوئے نہیں کئے جاتے، اب بھی واضح کر رہا ہوں کہ آئندہ دس یا پندرہ سالوں تک پاکستان کے پاس ناخن برابر بھی غلطی کی گنجائش نہیں ہے، عبوری دور سے گزر رہے ہیں، پاکستانی معیشت مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہی ہے اور پاکستان پاک چین اقتصادی راہداری کا پہلا زینہ ہے، اسی وجہ سے پاکستان کو نشانہ بنایا گیا، اس کی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی اور جب ہم نے سیاسی بحران کی اس سے کڑیاں ملائیں تو کچھ حلقوں نے ہم پر ناراضگی کا اظہار کیا، پاکستان کے سیاسی بحران کی وجہ سے امریکی صدر کو اس قسم کے بیان کی ضرورت ہوئی اور ہم امریکی منصوبہ بندی کا شکار ہوئے ہیں، امریکہ ترقی پذیر ممالک کی جغرافیائی تقسیم چاہتا ہے، اپنے مفادات کی عینک سے ان ممالک کو دیکھ رہا ہے اور جغرافیائی نقشے میں تقسیم کی بنیاد اس ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے، یک محوری قوت کے طور پر امریکی طاقت کا اثر زائل ہو رہا ہے، اقتصادی طور پر چین نے امریکہ کو چیلنج کیا ہے،ہم میں کم از کم اتنی تو اخلاقی جرات ہونی چاہیے کہ ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف ہی کرلیں۔
ایک سوال کے جواب میںقائد جمعیت مولانا فضل الرحمان نے امریکی صدر کی پاکستان مخالف تقریر کے حوالے سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے بیان کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ قوم اسی قسم کے جراتمندانہ بیان کی توقع کر رہی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گالیاں دینا کوئی پارٹی منشور نہیں ہوتا، تمام سیاسی جماعتیں 2018 کے انتخابات کی تیاری میں ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ خارجہ، دفاع اور قومی سلامتی کی پالیسیوں کے حوالے سے جو غلطیاں ہوئی ہیں ان کا احساس کرنا چاہیے، ماضی میں پارلیمنٹ نے چیف آف آرمی سٹاف کی موجودگی میں اور ان کی رائے کو مد نظر رکھتے ہوئے متفقہ قرار داد کی منظوری دی، رہنما اصولوں کیلئے 62نکات مرتب کئے مگر ان پر عملدرآمد نہ ہو سکا، جو قوت پارلیمنٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد میں رکاوٹ ہے، اس پر تنقید کیوں نہیں ہوتی۔
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان نے واضح کیا کہ 62,63کی منسوخی یا ترامیم حکومتی ایجنڈے پر نہیں ہے،مذہبی قوتوں کو پاکستان مسلم لیگ (ن) سے دور کرنے کیلئے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے جبکہ حکومت میں اس حوالے سے کوئی بات نہیں ہو رہی ہے، 62,63کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے قانون سازی کی تجویز ضرور ہے، کہ قانون سازی کے ذریعے نا اہلیت کی مدت کا تعین کر دیا جائے، اس طرح صادق امین،پارسا کی قانونی طور پر تشریح کر دی جائے اور 62,63کی حدود کا تعین ہو جائے،صرف یہ بات ہو رہی ہے کہ وہ قانون سازی کیا ہو سکتی ہے جس کے تحت 62,63کا غلط استعمال نہ ہو سکے۔
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اب تو وقت آ گیا ہے کہ امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خدمات سے دستبردار ہو جائیں اور پاکستان عالمی اتحاد سے باہر نکل آئے۔
حکومت ایک بار پھر اینٹی ٹیررزم ایکٹ 1997 میں ترمیم کرنے جا رہی ہے جس سے دفاعی اداروں کو بے پناہ اختیارات ملیں گے جو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر ہیں۔ پہلے نیب کے اختیارات پر اعتراض تھا اور ان میں کمی کی گئی تھی، لیکن اب دفاعی ادارے کو کسی کو شک کی بنیاد پر 90 دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار دیا جا رہا ہے جو سراسر غیر جمہوری عمل ہے،ملک میں سول مارشل لاء کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ، جو جمہوریت اور “ووٹ کو عزت دو” کی بات کرتے ہیں، آج اپنے ہی ہاتھوں جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ 26ویں ترمیم میں کچھ شقیں واپس لینے پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی، لیکن یہ نیا ایکٹ اسی ترمیم کی روح کے خلاف ہے۔ یہ آئین اور پارلیمنٹ کی توہین ہے کہ ایک دن آپ ایک فیصلہ کریں اور اگلے دن اسے نظر انداز کر دیں۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان
فیصلے اجلاس مرکزی مجلس شوری جے یو آئی پاکستان
میں اداروں کا احترام کرتا ہوں لیکن میری نظرمیں بھی ان کی پالیسیاں سیدھی نظرآئیں، میں نے بھی چالیس سال صحراؤں میں گذارے ہیں، آنکھیں بند کر کے بات نہیں کر رہا بلکہ مشاہدات کے ساتھ بات کرتا ہوں،اگر ہم یہ بات نہیں کریں گے تو قوم کے ساتھ خیانت ہوگی،آپ اپنا قبلہ درست کریں ہم آپ کو سر کا تاج بنا لیں گے۔قوم کی قدر کریں، آپ کے کرنل اور میرے عام کارکن کے پاس ایک ہی شناخت ہے، دونوں کے لئے ایک ہی آئین ہے۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا ڈی آئی خان میں ورکرز کنونشن سے خطاب
43ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر سے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا خطاب
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا چھبیسویں آئینی ترمیم پر قومی اسمبلی میں تاریخی خطاب