امریکی اراکین پارلیمنٹ پاکستان کے معاملات میں مداخلت سے گریز کریں ، جس عمران خان کو امریکی لابی تحفظ دینے کے لیے پگھل رہی ہے، اسی مجرم کو ہماری عدالتیں کیوں تحفظ فراہم کر رہی ہیں، اپنے لاڈلے کے لیے عدالتیں آئین اور قانون سے کھلواڑ کر رہی ہیں، اسے رعایت دینے کے لیے نہ کوئی آئین کا احترام ہے اور نہ قانون کا احترام ہے،عمران خان کو ریلیف دینے کے حوالے سے صورتحال برقرار رہی تو اس کا مطلب ہوگا کہ عدالتیں قوم کے ساتھ اعلان جنگ کر رہی ہیں۔مولانا فضل الرحمان

اسلام اباد: قاٸد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی ملکی صورتحال پر اہم پریس کانفرنس تحریری صورت میں 18 مٸی 2023

 

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم

سب سے پہلے تو میں آپ کے سامنے وہ حقیقت رکھنا چاہتا ہوں جس کے لیے میں دس پندرہ سال سے بول رہا ہوں اور آج یہ بات طشت ازبام ہوگٸی ہے کہ ساٹھ امریکی اراکين پارليمنٹ نے امریکی وزیر خارجہ کو خط لکھا ہے کہ پاکستان میں عمران خان کے خلاف ہونے والے اقدامات پر عمران خان کو تحفظ فراہم کیا جاٸے، اِن اراکين کی اکثریت یہو د ی ہے، اب آپ خود اندازہ لگاٸیں کہ کل تک جو خط لہرا رہا تھا کہ مجھے امریکہ نے اقتدار سے اتارا ہے، آج اُس کے لابیسٹ اُدھر پر جو اِن سے تنخواہ وصول کررہے ہیں وہ بھی یہو د ی ہیں اور وہاں کی پارليمنٹ کی اتنی بڑی تعداد جو آج اُس کے حق میں خط لکھ رہی ہے جو پاکستان کے معاملات میں براہ راست مداخلت کررہی ہے اِس سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ کس کا ایجنٹ ہے اور کس ایجنڈے پہ کام کررہا ہے ۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو ایک خاص منصوبے کے تحت ریاست کو تباہ کرنے کا ایک بین الاقوامی ایجنڈہ ہے، عمران خان کو اُس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے پاکستان کی سیاست میں انجکٹ کیا گیا ہے اور اِس کے بہ ظاہر گزشتہ نو اور دس مٸی کو ملک کے طول و عرض میں آپ نے دیکھے کس طرح اداروں پر حملے کیے گٸے اور بُلواٸیوں نے جی ایچ کیو، لاہور کور کمانڈر کا گھر ہو، قلعہ بالا حصار ہو، چکدرہ کا فوجی قلعہ ہو اُس کے اندر مسجد، اُس کے اندر قرآن کریم کے نسخے جس بے دردی کے ساتھ انہوں نے جلاٸے، چوک میں بورڈ پر لکھے گٸے کلمہ طیبہ پر ڈنڈے برساٸے گٸے، تم کس سے بدلا لینا چاہتے ہو، سوال یہ ہے کہ جس عمران خان کو امریکی اور یہو د ی لابی تحفظ دینے کے لیے پگھل رہی ہے اُسی مجرم کو ہماری عدالتیں کیوں تحفظ فراہم کررہی ہے،ہے اُن کی د ہ شت گردوں کو ہماری عدالتوں سے کیوں سہولت کاری مہیا کی جارہی ہے، بیک وقت تمام مقدمات میں ضمانت، فلاں تاریخ پر فلاں تاریخ تک اگر کوٸی نیا مقدمہ درج ہوا تب بھی گرفتاری نہیں ہوسکے گی یعنی ہماری عدالت سے اُن کو سرٹیفیکٹ مل گیا اگر اِس دوران کو وہ کسی کو قتل بھی کرے گا اور اُس کے خلاف 302 کا مقدمہ بھی ہوگا تب بھی اُس کو گرفتار نہیں کیا جاسکے گا، فوجداری کیسز میں اُس کو گرفتار نہیں کیا جاسکے گا، یہاں تک معاملہ چلا گیا ہے اور اِس کے اُوپر پی ڈی ایم نے جو احتجاجی مظاہرہ کیا اور اُس مظاہرے کے بعد اگر یہی صورتحال برقرار رہتی ہے تو اِس معنی یہ ہے کہ ہماری عدالتیں براہ راست ہماری اور عوام کے ساتھ اعلان جنگ کررہی ہے ۔

کہی آپ نے دیکھا کہ کسی مجرم کو یا اُس کے جرم کو عدالتوں سے رعایتیں ملی ہو یا اُس کو تحفظ دیا گیا ہو ، اِن فیصلوں سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص کے لیے، اپنے لاڈلے کے لیے ہماری عدالتیں اپنی ملک کی آٸین اور قانون سے بھی کھلواڑ کررہی ہے اور اُس کو رعایت دینے کے لیے نہ کوٸی آٸین کا احترام ہے نہ کسی قانون کا احترام ہے ۔

پہلے سپریم کورٹ میں، لاہور ہاٸی کورٹ میں اور اب اسلام اباد ہاٸی کورٹ میں جس دھڑا دھڑ سے اُس کو ضمانتیں مہیا کی گٸی، جس طرح اُن کو رہا کیا جارہا ہے، جس طرح مجرموں کے حوصلے بڑھاٸے جارہے ہیں شاٸد ماضی میں اِس کی مثال نہیں ملتی، کیا آج تک ریمانڈ کے دوران کسی کو ضمانت ملی ہے کیا کسی مجرم کو باقاعدہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یا جج کے مرسڈیز گاڑی میں لایا گیا ہے، وی وی اٸی پی گیٹ سے آج تک کسی ملزم یا مجرم کو لایا گیا، یہ ساری چیزیں ہماری عدالت کے معزز چہرے کو داغدار کررہی ہے ۔

ہم سمجھتے ہیں کہ خاص ایجنڈے کے تحت پاکستانی سیاست میں ایک غیر ضروری عنصر کو اِس حد تک تحفظ دیا جارہا ہے جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ ہمارا ایک ادارہ یا اُن کے کچھ ججز وہ ریاست کو کمزور کررہے ہیں، جب ریاست کو کمزور ہوتے ہوٸے ہم دیکھیں گے تو پھر پاکستان کا ایک ایک بچہ ریاست کی تحفظ کے لیے میدان میں اٸے گا، پھر کوٸی یہ شکایت نہیں ہونی چاہیے عدالت محترم ہے، عدالت کی توہين ہورہی ہے، آپ ریاست کی توہین کرے، آپ پاکستان کے عوام کی توہین کرے، آپ پارليمنٹ کی توہین کرے، آپ حکومت کی توہین کرے وہ بھی ایک مجرم کے لیے اور اُس کے گھناٶنے جرم کے لیے اور ہم اِس پر خاموش رہیں، اِس طرح کی ضمانتیں اور اِس طرح کا ریلیف یہ تو بادی النظر میں ایسا لگتا ہے جیسے آپ اِس طرح کے بَلووں کو اور ریاستی اداروں کے املاک کو تباہ کرنے کا جواز آپ خود فراہم کررہے ہیں، عدالتیں یہاں اکر کھڑی ہوگٸی ہیں،ہیں اُن کی یہ ڈیوٹی رہ گٸی ہے، اب ہم اُس کے اِس کردار پر بحث کریں گے، چوراہوں پر کھڑے ہوکر بحث کریں گے، اور پھر یہ باتیں بھی سامنے اٸیں گی ہم کسی کا نام نہیں لے رہے لیکن یہ باتیں سامنے اٸیں گی کہ کون سا جج کس لابی سے براہ راست وابستہ ہے ، کون سا جج مجرم کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہے آج ہم ابھی اُن کے نام نہیں لینا چاہتے لیکن ”تنگ آمد بہ جنگ آمد“ پھر ہمیں وہ ساری چیزیں پبلک کے سامنے لانی پڑے گی، ہم کوٸی آج پاکستانی سیاست میں نوارد نہیں ہے کہ آج ہم سیکھ رہے ہیں شاٸد یہ سب ہم سے جونیٸر ہیں کم از کم مجھ سے تو سارے جونيئر ہیں ۔

اگر خواجہ طارق رحیم کو اسلام اباد ہاٸی کورٹ کا عمران خان کو ضمانت دینے والا جج معلوم تھا تو کیا دوسرے لوگوں کو معلوم نہیں ہوں گے، مجھے بھی معلوم ہے کیا، انے والے کل کے فیصلوں کے بارے میں جج کا نام بھی لیا جاتا ہے اور اُس کے فیصلوں کو بھی بتایا جاتا ہے اور وہی پھر سامنے آ بھی جاتا ہے ، تو دنیا اتنی عافل نہیں ہے نہ اتنی نابلد ہے ۔

ساٹھ امریکی نماٸندگان کے دستخط شدہ خط نے عمران خان کی بین الاقوامی پشت پناہوں اور عدالتی فیصلوں کے مقامی گٹھ جوڑ کو بے نقاب کردیا، اب جو بلووے ہوٸیں ہیں، جو نقصانات ہوٸے کہتے ہیں یہ ہمارے لوگ نہیں ہے، اگر یہ آپ کے لوگ نہیں ہے پھر اِس کا معنی یہ ہے کہ آپ کے لیے کوٸی بندہ نکلا ہی نہیں ہے، تو پھر تم اِس حوالے سے تنہا ہو، نہ تمہارے لانگ مارچ پر لوگوں نے توجہ دی ، نہ جیل بھرو تحریک پر توجہ دی اور اب بھی دس دس پندرہ پندرہ اور ُس سے زیادہ ہوسکتا ہے تو پچاس اور سو تک بَلواٸیوں نے جاکر جس طرح ملک کو جلایا ہے اُس کے بعد بھی ایسی شخصيت کو اور اُس کی جماعت کو تحفظ فراہم کیا جاٸے اور پھر اپنے آپ کو محب وطن کہا جاٸے گا، ان شاء اللّٰہ حب الوطنی کے جذبے سے ہم نے اِس صورتحال کا مقابلہ کرنا ہے اور میں عرض کروں بتادوں ہماری صبر کا امتحان نہ لیا جاٸے، عوام کے صبر اور تحمل کا امتحان نہ لیا جاٸے، یہ صورتحال حالات کو عوامی غیظ و غضب کی طرف لے جارہی ہے، تو ہماری عدالتیں اور ہماری ججز جو عمران خان کی محبت میں پگھل رہے ہیں اُس کو اپنے ملک کی مستقبل کی فکر بھی کرنی چاہیے، عوام کے جذبات کا بھی لحاظ رکھنا چاہیے، ہم اِس کو نظرانداز نہیں کرسکتے، ہم بھی سٹینڈ باٸی ہیں ان شاء اللّٰہ، اور صورتحال نہیں کہ ہم غافل ہے اور اِس صورتحال کا مقابلہ نہیں کرسکتے، ان شاء اللّٰہ صورتحال کا مقابلہ کریں گے جب تک کے ہم محسوس نہ کرے کہ عدالت غیر جانبدار ہوگٸے ہیں ۔

 

👈سلسلہ سوال و جواب👉

 

👈 صحافی کا سوال: مولانا صاحب گزارش یہ ہے کہ ادارے ٹارگٹ ہوٸیں، فوج ٹارگٹ ہوٸی پھر سیاسی جماعتیں ٹارگٹ ہوٸیں اب عدالتیں جو ہیں اُس کو گھسیٹ کے میدان میں لایا جارہا ہے اُن کا کردار سب کے سامنے ہے، آپ بتاسکتے ہیں کہ اِس تمام صورتحال کے بعد جو ایک منظر ہے وہ کیا ہوگا ؟

👈 قاٸد جمعیت کا جواب : دیکھیے اِس سے ہمیں نہ ڈرایا جاٸے ہم نے اِس تمام تر بلوٶں، بغاوتوں جو ملک میں ہوا اُس کا رد عمل بھی دکھایا ہے پُرامن، باوقار، شاٸستہ سیاست، کہیں کچھ نہیں ہوا ہے ملک کنٹرول میں ہے، امن و امان کی صورتحال بلکل ٹھیک ہے، اِن بلواٸیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے قوم تیار ہے، ہم تیار ہیں، آپ لوگ بھی تیار ہیں ان شاء اللّٰہ، لیکن اِن باتوں سے نہ قوم گبھراٸے گی نہ ہم پر کوٸی اثر پڑے گا ۔

 

👈 صحافی کا سوال: مولانا صاحب یہ بتائے گا کہ سول ایکٹ لگانے کی باتیں ہورہی ہے، آرمی عدالتوں کی باتیں ہورہی ہے کیوں کہ آپ نے جمہوریت کی بات ہے تو کیا آپ اِس کے لیے تیار ہے دوسری بات پاکستان تحریک انصاف کے جو رہنما ہیں اُن کی گھروں کے خواتین کو بھی اٹھایا جارہا ہے، اِس حوالے سے کیا کہیں گے ؟

👈 قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے میں تو اِس حوالے سے کسی کے جیل جانے یا اٹھاٸے جانے پر خوش نہیں کہ سیاستدانوں کی گرفتاریوں پر خوشیاں محسوس کرسکوں، بات بنیادی یہ ہے کہ قانون کی بالادستی ہو، جو قانون میرے لیے ہو، جو نواز شریف کے لیے ہو، جو شہباز شریف، مریم نواز، زرداری، فریال اور اپوزیشن کے لوگوں کے لیے ہو، اب آج وہ قانون یہاں پر کیوں معطل ہوگیا ہے، بات ہے قانون کی بالادستی کی، جہاں تک آرمی ایکٹ کا تعلق ہے جب سویلین عدالتوں کا یہ حال ہو اور حملے آرمی کے مراکز پہ ہورہے ہو تو آپ بتاٸے پھر اُن کا اپنا ایکٹ حرکت میں نہیں اٸے گا تو کدھر جاٸیں گے، مجبور کیا جارہا ہے، وہ آرمی ایکٹ کے تحت کارواٸی کریں گے ہم عوامی عدالت کے تحت کارواٸی کریں گے ۔

 

👈 صحافی کا سوال: مولانا صاحب آپ نے قانون کی بالادستی کی بات کی لیکن اسی قانون اور آٸین کے دفعہ 144 کو واٸلیٹ کیا گیا جب آپ کا چاہے وہ پُرامن احتجاج ہو لیکن جس طرح واٸلیٹ کیا گیا آپ ہمیشہ سے قانون کی بات کرتے ہیں ۔

 👈 قاٸد جمعیت کا جواب: آپ جاٸے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں پوچھے کیا ہماری درخواست وہاں موجود ہے کہ نہیں، اطلاع ہی دی جاتی ہے اگر اُن کی طرف سے کوٸی رد عمل اتا تو کہتے نامنظور، جب نامنظور نہیں تھا تو ٹھیک ہے، اور آپ کو پتہ ہے 8 اگست 2018 کو اُس وقت بھی ہم نے یہی پر مظاہرہ کیا تھا ۔

 

👈 صحافی کا سوال: مولانا صاحب جو توڑ پھوڑ ہوٸی اُن لوگوں کے خلاف ایف اٸی ارز درج بھی ہوٸیں اور ہورہی ہیں، جو لوگ فوت ہوٸے یا زخمی ہوٸے کیا اُن کے لیے آپ انصاف کا مطالبہ کریں گے کیا اُن کو انصاف ملنا چاہیے ؟

👈 قاٸد جمعیت کا جواب : میں اِس کا جواب اور طرح سے دینا چاہتا ہوں ہمیں اِن سے کوٸی تعلق نہیں ہمار ے لوگ نہیں ہے اور غاٸبانہ نماز جنازہ بھی پڑھایا جارہا ہے، یہ تضادات ہیں اور اِس حوالے سے ہم تو اِن پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں لیکن قانون اُس کی گرفت میں تو کوٸی بھی اسکتا ہے میں بھی مستثنیٰ نہیں ہوں آپ بھی نہیں ہے تو پھر یہ کیوں مستثنیٰ ہوگٸے ۔

 

👈 صحافی کا سوال: مولانا صاحب قومی سلامتی کمیٹی نے جو اعلامیہ جاری کیا ہے اُس میں دو چیزیں اہم ہے ایک یہ تھا کہ اپس میں بات چیت کرکے جو بھی ہے استحکام لایا جاٸے، دوسری یہ کہ آرمی ایکٹ کے تحت سویلین کورٹ ٹراٸل کیا جاٸے کیا آپ اِن دونوں کی حمایت کرتے ہیں یا مخالفت ؟ 

👈 قاٸد جمعیت کا جواب: میں تو مذاکرات کی حمایت نہیں کروں گا کس سے بات کریں، ساری پارٹیاں حکومت میں ہے اور ساری پارٹیاں ایک بندے کو راضی کریں یہ کون سا تُک ہے، اگر مذاکرات ہوٸے تھے تو ایک ذوالفقار علی بھٹو اور اُس کی پارٹی کی حکومت تھی اور وہ پوری بی این اے کو جو تمام پارٹيوں کا اتحاد تھا اور چھوٹی چھوٹی تنظیمیں اُن کے ساتھ تحریک میں وابستہ تھیں اُن کو امادہ کرنا تھا یہاں پر ساری پارٹیاں ایک طرف ہیں ایک بندے کو راضی کرنے والی بات ہے تو اُس سے اِس پر قیاس نہیں کیا جاسکتا، دوسری بات یہ کہ سویلین اگر فوجی مراکز پر حملہ کریں گے تو پھر فوج کیا کرے گی، جب اِدھر سے عدالتیں اُن کو چھوڑ رہی ہیں تو وہ کیا کریں گے ۔

 

👈 صحافی کا سوال: مولانا صاحب امریکی ادارے نے مذہبی آزادی کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کیا ہے اِس میں پی ڈی ایم کی گورنمنٹ اور آپ کا بھی ذکر ہے کہ آپ عمران خان کے خلاف توہین مذہب کا کارڈ استعمال کررہے ہیں، دوسری بات کہ جب آپ اپوزیشن میں عمران خان کے خلاف سیاسی لڑاٸی لڑ رہے تھے اُس وقت فوج اُن کے ساتھ تھی اور آپ اُن کو شکست دینے میں ناکام تھے، آج جو کریک ڈاون ہے اُن کے خلاف ملٹری ایکٹ کی تحت ملٹری عدالتوں میں کارواٸیاں ہورہی ہے کیا آپ نہیں سمجھتے کہ سیاسی لڑاٸی کی بجائے آپ اُسی چیز پر پوائنٹ سکورنگ کررہے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کو کریک ڈاون کرسکے ؟

 👈 قاٸد جمعیت کا جواب: میں آپ کو واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ ساروں کی اکھٹ کے باوجود وہ ہمارے تحریک کو نہیں دبا سکے اور اُس کا نتيجہ یہ نکلا کہ بلآخر اُس کو جانا پڑا، تو اخر میں اسباب کیا شکل اختیار کرتے ہیں لیکن ایک تحریک تھی جس کے لیے اُن کے فیور میں تمام جو جنرلز تھے وہ سب اکھٹے تھے اور ہم نے اُس طلسم کو توڑا اور استقامت کے ساتھ توڑا اور ایک لمحہ کے لیے ہم نے غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا ہے، تو یہ چیزیں جو ہیں آج وہ شخص اکیلا ایک جھوٹ پہ مبنی بیانیے کے ساتھ چل رہا ہے، جہاں تک مذہب کارڈ کی بات ہے مذہب ایک حقیقت ہے، دین اسلام قرآن و سنت کا نام ہے اگر قرآن و سنت وہ ہو جو چودہ سو سال سے تواتر اور تامل کے ساتھ ہم تک پہنچ رہا ہے وہ تو قبول نہیں ہے لیکن اگر اُس کی کوٸی غلط تشریح و تعبیر کرتا ہے، نت نٸے تعبیرات کرتا ہے چاہے وہ کسی صورت میں ہو احمدیوں کے، قا د یا نیو ں کے، جس صورت میں بھی ہو وہ مذہب اُن کو کیوں قبول ہے، مذہب کی غلط تشریح، اُس کا چہرہ بگاڑنا اُس صورت میں تو وہ اُن کو قبول ہے لیکن مذہب اگر اپنے حقیقی معنی اور تعبیر کے ساتھ ہو تو وہ اُن کو قابل قبول نہیں ہے، میں اُن کو بتانا چاہتا ہوں امریکیوں ہم مذہب کا کارڈ استعمال نہیں کررہے ہم ببانگ دہل آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ مذہب ہمارا کاز ہے اور اُس کے لیے ہم لڑیں گے ۔

 

👈 صحافی کا سوال: مولانا صاحب یہ بتاٸے کہ بہت سے تحریک انصاف کے جو مرکزی رہنما ہے اُنہوں نے بھی نو مٸی کی واقعات کی مذمت کرنا شروع کی ہے جیسے فواد چوہدری ہے اور کچھ لوگوں نے پی ٹی اٸی چھوڑ دی ہے کیا اُن کے سافٹ ویٸر اپڈیٹ ہوٸے ہیں یا وہ اپنی ضمیر کی اواز پے پی ٹی اٸی چھوڑ رہے ہیں ؟

👈 قاٸد جمعیت کا جواب : تو ”وان تابو واصلحو“ کے زمرے میں اجاٸیں گے ۔

 

👈 صحافی کا سوال: مولانا صاحب یہ بتائے کہ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ مولانا صاحب نے سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دیا پہلے تیرا دن رہے تھے پھر کچھ دن، اِس دفعہ ہفتے کا لوگ سمجھ بیٹھے تھے پھر کیا ہوا دھرنا فوراً ختم کیوں کیا گیا، لوگ یہ سوالات پوچھ رہے ہیں ؟

👈 قاٸد جمعیت کا جواب: میرے خیال میں بڑے مختصر نوٹس پہ لوگ اٸے تھے اور اُنہوں نے اپنا مقصد ایک ہی دن میں حاصل کرلیا جب عدالت نے ایک ہفتے کے لیے اپنا کیس ملتوی کردیا اور صورتحال ایک بہتر سمت میں لوگوں کو نظر اٸی تو پھر خواہ مخواہ لوگوں کو بٹھاٸے رکھنے کا معنی نہیں بنتا، کاز کے لیے ہوتا ہے ایک مقصد کے لیے ہوتا ہے اب وہ دس دن میں حاصل ہو مہینے میں حاصل ہو یا دس گھنٹوں میں حاصل ہو، ہم نے بہت سی مقاصد ایک ہی دن میں حاصل کرلیے اور ایک ایسی کردار کے ساتھ کہ دنیا میں اُس کی مثال نہیں مل سکتی مذہب کارڈ اور مذہب کارڈ، یہ چیزیں جو ہے ہم سے سیکھو مذہب کتنا پُرامن، منظم ہے وہ سوسائٹی کو کیا تحفظ دیتا ہے کیا نظم و ضبط دیتا ہے ، بس اگر کوٸی دو چار آدمی باٸیس کروڑ میں سے وہ بندوق اٹھالے اُس کی دنیا میں پہچان کراٸی جاتی ہے اور جو ایک تواتر کے ساتھ ایک کردار کے ساتھ دنیا کے سامنے ہیں وہ اُن کے لیے قابل قبول نہیں، نہ ہمارا اِس وقت دنیا کے ساتھ جنگ ہے نہ ہم انتہا پسند ہیں، ہمارے آپ نے چودہ ملین مارچ بھی دیکھے ہمارا آزادی مارچ بھی دیکھا، اُس کا نظم و ضبط بھی دیکھا، اُس کا امن و امان بھی دیکھا کس طرح ہم نے انسانوں کی ہی نہیں بلکہ درختوں کا بھی تحفظ کیا، گملوں کا بھی تحفظ کیا، کل ہم نے کورٹ کے کیاریوں کا بھی تحفظ کیا، تو اِس طرح کے لوگ آپ کو نہیں ملیں گے ۔

بہت بہت شکریہ

 

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

 

Facebook Comments