گرامی قدر جناب امیر حیدر خان ہوتی، میاں افتخار صاحب، جناب ایمل ولی صاحب اور اے این پی کے تمام زعماء کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے آل پارٹیز کانفرنس کی صورت میں اج اِس محفل کا اہتمام کیا اور یہ اچھی بات ہوتی ہے جب ہم سب ملتے ہیں تو ہر ایک دوسرے کے خیالات سے بھی اگاہ ہو جاتا ہے اور ایسا ماحول انسان کے اندر دوسرے کی بات کو سننے اُس کو برداشت کرنے کی تربیت بھی دیا کرتا ہے ۔
ہر جماعت کے اور اُس کے نمائندے نے اپنے سوچ اور اپنے بساط کے مطابق گفتگو کی ہے، آل پارٹیز کا بنیادی مقصد جو ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کی حالات کے حوالے سے ہم غور و فکر کریں، ہرچند کے اعلامیہ اچکا ہے اور جن نکات پر ہم سب کا اتفاق ہے اُن نکات کو ترتيب دیا گیا اور ایسے ہی ہوا کرتا ہے لیکن مملکتی نظام میں کسی ملک کو مستحکم بنانے میں، ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں کچھ بنیادی عوامل ہوا کرتے ہیں لیکن ایک مستحکم اور مضبوط ملک کی بنیادی اساس وہ آپ کی مستحکم معشیت ہوا کرتی ہے، معشیت مضبوط ہو تو قوم مطمئن بھی ہوتی ہے، ملک کے اندر ایک سکون کا ماحول بن جاتا ہے، ملک کے ہر خطے میں بسنے والے لوگ، قومیں، قومیتیں، صوبے، علاقے وہ اطمینان محسوس کرتے ہیں اور محرومیوں کے احساسات ختم ہو جاتے ہیں اور یہی معاشی استحکام جب داخلی امن کی ضمانت دیتا ہے وہاں ایک کامیاب خارجہ پالیسی کی اساس بھی بن جاتا ہے اور پھر کامیاب خارجہ پالیسی کوٸی جامد چیز نہیں ہے کہ جس کو کہا جاٸے کہ وہ اِن حدود کے اندر بس محصور رہے گی اِس ایک ہی اصول کی وہ پابند رہے گی اگر وہ ایک اصول ہے جس کے گرد ہماری خارجہ پالیسی گھومتی ہے وہ اپنے ملک کے مفادات ہیں، اگر ہم گزشتہ ستر سالوں کا پچھتر سالوں کا حساب لگاٸیں اور اپنے خارجہ پالیسی پر ذرا نظر ڈالیں ہماری خارجہ پالیسی کا محور ہمارے مفادات رہے ہیں یا بین الاقوامی قوتوں کے مفادات رہے ہیں، ہم نے اپنی پالیسیوں کے نتیجے میں اپنی قوم کی خدمت کی ہے یا ہم نے بین الاقوامی اقاوں کی خدمت کی ہے ، ایک ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے پاکستان دنیا کے طاقتور ملکوں کی فہرست میں اتا ہے اور ایک طاقتور ملک کا علامت دو چیزیں ہوتی ہے ایک ملک کا رقبہ اور ایک ملک کی آبادی، ہمارے ملک کا رقبہ بھی دنیا کے ممالک کی فہرست میں ایک طاقتور ملک کی علامت ہے اور ہمارے ملک کی آبادی بھی دنیا کے طاقتور ملکوں کی فہرست میں ایک طاقتور ملک کی علامت بنتی ہے، لیکن اسی طرح کے ترقی پذیر ملک کو کے جو آبادی اور رقبے کے لحاظ سے طاقتور تصور کیا جاتا ہے اُس کو کمزور کرنا یہ بین الاقوامی قوتوں کے نشانے پر ہوتا ہے اُن کے ہدف پر ہوتا ہے ۔
ہمیں کس طرح غلام بنایا گیا، نو آبادیاتی نظام کا سلسلہ ختم ہوچکا، جنگ عظیم دوٸم کے بعد وہ ختم ہوچکا ہے اب ہمیں بین الاقوامی اداروں اور بین الاقوامی معاہدوں کے تحت کنٹرول کیا جارہا ہے، سیاسی طور پر آپ کو اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، انسانی حقوق کے کمیشن کنٹرل کرتے ہیں، آپ کو مالیاتی لحاظ سے کون کنٹرول کرتا ہے آپ کو ورلڈ بینک، ایشین بینک، اٸی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف، آپ کو پیرس اور لندن کے جو ہمارے قرضہ دینے والے گروپس ہیں وہ کنٹرول کرتے ہیں، اور میں ایک لفظ سے تعبیر کروں گا کہ ہماری ملک کی حیثیت وہ کہ جس ملک کے اندر جب بین الاقوامی اداروں سے کوٸی فیصلہ اجاٸے، وہاں سے قرارداد اجاٸے تو ہمارے اپنے ملک میں ہمارا اپنا اٸین اور ہمارا اپنا قانون غیر موثر ہوجاتا ہے، یہ غلامی کی وہ علامات کہ جو دنیا ایک نٸی شکل میں متعارف کراتی ہے اور متعارف کراچکی ہے اور آج تک ہم اُس میں پھنسے ہوٸے ہیں، اِس سے کب نکلنا ہے ۔
تو اِس حوالے سے اگر ہم ایک قوم ہے تو ہم ایک قوم کیوں ہے ؟ کیسے ہے ؟ یہاں تو قومیتیں ہیں، صوبے ہیں، صوبوں کی خودمختاری کے لیے ہم نے جنگیں لڑی ہیں، ون یونٹ کی ہم نے مخالفت کی ہے ہم جیلوں میں گٸے ہیں، تو مختلف صوبوں کے اندر مختلف قومیتیں آباد وہ اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں ، ایک اٸین پاکستان ہے جس کو میثاق ملی کی حیثیت حاصل ہے اور اگر وہ ہمارے ملک کے اندر موجود ہیں سالم ہے محفوظ ہے تو پھر قوم کو اکھٹا رکھا جاسکتا ہے اور ایک قوم بنایا جاسکتا ہے، اور ہمارے ملک کی اٸین کی کیا حشر ہوتی ہے آج، سن 73 میں ہم نے اٸین بنایا سن 77 میں گیا، پھر اُس کے حلیے بگاڑے گٸے پھر 1999 میں پھر گیا، اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ہم نے دوبارہ اُس کی اصلاح کی کوشش کی اور اُس میں کسی حد تک ہم کامیاب ہوٸے، لیکن ہم نے اِس اٸین کا تحفظ کرنا ہے اگر یہ محفوظ ہے تو ہم ملک کے اندر محفوظ ہیں، ہم نے اٸین کے بنیادی اور اساسی ڈھانچے کا تحفظ کرنا ہے اور میرے نزدیک ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اٸین کے بنیادی ڈھانچے کے عناصر چار ہیں اسلام، جمہوریت، پارلیمانی طرز حکومت اور وفاقی نظام، اگر کوٸی بھی ستون گرتا ہے تو اٸین ختم ہوتا ہے اور جمہوریت کا جہاں تک تعلق ہے جمہوریت سیاسی رویوں کا نام ہے، دنیا میں کوٸی ایک تعریف اُس کی نہیں ہے اگر اُس کا خلاصہ نکالا جاٸے تو حکمرانوں کے انتخاب میں یا نظام مملکت کے تعین میں عوام کی شراکت، اب عوام کی شراکت کی شکل کیا ہونی چاہیے امریکہ میں مختلف ہے برطانیہ میں مختلف ہے، انڈ یا میں مختلف، بنگلہ دیش میں مختلف اور ہمارے ہاں مختلف ہے، ہم بھی اُن رویوں کے قاٸل ہے لیکن میں اِس حوالے سے آپ کی توجہ چاہتا ہوں آپ مجھے کوٸی جواب نہ دے میرے ذہن میں ایک بات اگٸی آج جس چیز کو ہم د ہشت گ ر دی کہتے ہیں یہ د ہشت گ ر دی یہ لفظ یہ اصطلاح یہ پاکستان کی اداروں یا حکومت کی ایجاد کردہ نہیں ہے، ابھی تک تو بین الاقوامی انسان حقوق کی اداروں نے ٹیرر ازم کا معنی ہی متعین نہیں کیا اور اِس نام پر جس کو چاہا کاٹ کر رکھ دیا، امریکہ کی خارجہ پالیسی اُس کی بنیاد میں دو چیزیں ہیں ایک انسانی حق کا نعرہ لگاٸے گا اور انسانی حق اُس کو یہ حق دے گا اگر اُس نے یہ طے کیا کہ فلاں ملک میں انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں تو اپنی فوجیں ڈاٸریکٹ بھیج دے اور دوسرا جغرافيائی تقسیم اپنی مرضی سے چھوٹے ممالک کا وجود جہاں ایک ایک کو الگ الگ کنٹرول کرنا اور اُس کے مفادات پر قبضہ کرنا اُس کے لیے اسان ہو، اب اگر یہ اُن کے خارجہ پالیسی کے تصورات ہیں تو پھر آپ کے پاکستان کا مستقبل اُن کی نظروں میں کیا ہوگا ؟
ہم کہاں کھڑے ہیں ، ہم نے ناٸن الیون کے بعد دہش ت گر دی کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا نوجوانوں نے یہاں بندوق اٹھالیا، روس ایا تو اُس کے خلاف لڑے، امریکہ کے خلاف لڑے، روس ایا تو اُس کے خلاف ج ہ ا د، امریکہ کے خلاف لڑنا د ہ ش ت گردی، اِس تقسیم کو نوجوانوں کے ایک طبقے نے قبول نہیں کیا لیکن پاکستان کے طول و عرض میں جہاں علماء کھڑے ہیں، جہاں مدارس کھڑے ہیں، جہاں مذہبی جماعتیں کھڑی ہیں، تنظیمیں کھڑی ہیں وہ ملک کے اٸین کے ساتھ کھڑی ہیں اور وہ جمہوریت کا مقدمہ لڑرہے ہیں، اگر بندوق کے راستے سے شریعت کی بات کرنا جرم ہے تو پارليمنٹ کے راستے سے تو ہونا چاہیے ، تو اگر پارليمنٹ کے راستے سے بھی ہمیں بیس باٸیس سال کے بعد ایک بھی قانون سازی بطور مثال نہیں ملتی تو کیا مجھے یہ شکایت کرنے کا حق حاصل نہیں کہ پارلیمنٹ نے اور ہمارے ملک کے سیاستدانوں نے ہم جیسے لوگوں کی جمہوریت کے مقدمے کو اُن کی نظروں میں کمزور کردیا ہے پھر وہ یہی کہیں گے کہ جمہوریت کفر ہے، حاکمیت تو اللّٰہ کی ہے، عوام کی حاکمیت کا کیا مطلب، وہ تو میرا اٸین پڑھ، میرا اٸین کہتا ہے کہ حاکمیت تو اللّٰہ تعالیٰ رب العالمین کی ہے، فیصلے قرآن و سنت کے تابع ہوں گے، اُس کے خلاف نہیں ہوں گے، پارليمنٹ پابند ہے کہ اُس کی اکثریت بھی قرآن و سنت کی پابند ہے لیکن ایسا نہیں ہوا تو ہمارا مقدمہ وہاں کیوں کمزور کیا گیا، یہ جنگ آج تک ہم لڑ رہے ہیں اور اِس وقت تک یہ جاری ہے، سو کیا صرف بندوق کے ذریعے سے آپریشن کرکے قتل کرنا اور مارنا اور بمباریاں کرنا کیا یہ مسٸلے کا حل ہے، اُس کے نظریاتی پہلوؤں کو دیکھے کیا ہمیں بیٹھ کر اِس کے علاوہ کوٸی حکمت عملی نہیں بنانی، صرف ایک ہی حل کہ بمباریاں کرو اور مارو اور ٹکڑے ٹکڑے کردو اور ختم کردو، دو ہزار دو سے اب تک دس آپریشنز ہوچکے ہیں ضرب عضب اور راہ نجات ہوچکی، اب جاکر فاٹا میں دیکھے تو کیا اہداف حاصل ہوگٸے، آپ نے مرجر بھی کیا، جن خوبصورت اور شاٸستہ تصورات اور مستقبل کے ساتھ فاٹا کے عوام کو آپ نے پاکستان کے جغرافيائی حصے میں باقاعدہ داخل کیا ایک مقصد آج تک پورا ہوا ؟ تم نے ہر سال سو ارب اُن کو دینے کا وعدہ کیا وہ بھی ہر سال آج سات سال گزرنے کے بعد کیا سو ارب بھی پورے ہوٸے سو ارب، جب تک آپ نے سات سو ارب پورے کرنے تھے، یہ ساری چیزیں وہ ہیں جس پر ہر ایک کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے اور اپنی اپنی راٸے ہے، اِن چیزوں پر ہمیں اتفاق راٸے رکھنی چاہیے جو ملک ، ملک کے نظریے اور ملک کے اٸین کے لیے ضروری ہے اور یہی چیزیں آپ کے حقوق کا تحفظ کرے گی، جب تک ہم اِن بنیادی چیزوں پر اور اٸین کی اساس پر اور اُس کی بنیادی ڈھانچے پر نظر نہیں ڈالیں گے اور اُس کے بنیادی مقاصد کی طرف ہم متوجہ نہیں ہوں گے یہ رونا پیٹنا اور اسی رونے پیٹنے پر سیاست کرنا اور اسی پر اپنی سیاسی اڑان اڑانا بہت اسان کام ہے اور یہ سب نے کیا ہے ہم نے بھی کیا ہے، یہاں سینٸر سینٸر لوگ موجود ہیں لیکن میرے تو اِن خاردار وادی میں سیاست کی گلی کوچوں میں تریالیس سال ہورہے ہیں۔
تو یہ ساری چیزیں وہ ہیں جس سے ہم گزر چکے ہیں ہمارے تجربات ہیں اور ہمیں اپنی بزرگوں کی اِس پر آراء چاہیے، رہنمائی چاہیے، افتاب خان شیرپاو یہاں موجود ہے، نیٸر بخاری صاحب یہاں پر موجود ہے، امیر مقام صاحب موجود ہے، آج ہم کہاں پھنسے ہوٸے ہیں میں ایک بات آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں ذاتی طور پر جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاء سے امریت کے خلاف جنگ لڑ رہا ہوں میں اُس کے زمانے میں بھی جیل میں تھا اور میرے والد صاحب کی وفات کے بعد شاٸد ایک مہینے کے بعد بلوچستان سے پہلی میری منصوبہ بندی ہوگٸی اور پھر مسلسل ہوتی رہی کراچی سے ہوتی رہی، جہازوں میں زبردستی ہمیں اٹھاکر پھینکا گیا اور دوسرے صوبوں میں پہنچایا گیا، مشرف کے خلاف ساری چیزیں چلتی رہی، سب بیٹھے ہیں آپ حضرات سب مسلسل، اور پھر ایوب خان کے خلاف جو لڑے ہیں وہ تو شاٸد اکثر دنیا میں بھی نہیں ہے ہمارے ہی اکابرین تھے، اِس پورے تسلسل میں آج آپ نے نتیجہ اخذ کرنا ہے سیاستدانوں، جمہوریت کے علمبرداروں، انتہائی احترام کے ساتھ یہ نتيجہ اخذ کرنا ہے کہ نتیجے میں آج جمہوریت طاقتور ہے یا امریت طاقتور ہے، کیا جمہوریت طاقتور ہوٸی یا کمزور ہوٸی کیوں کہ ہم نے مسلسل مفاہمت کے راستے اختیار کیے، کمپروماٸز پہ کمپروماٸز کرتے رہے ، اب وہ کیوں کرتے رہے حالات کے مصلحتوں کا تقاضا تھا ہم نے کیے ہیں، لیکن اِن چیزوں کو بھی ہم نے مدنظر رکھنا ہوگا جو بنیادی اور اثاثی چیزیں ہیں اُن کو ہم کس طرح لے کر چلیں گے ۔
اِس کے علاوہ ابھی ہمیں ایک سال ہوا ہے کچھ باتیں ہمارے دوستو نے کی ہے لیکن ایک سال کے اندر جہاں ہماری سوٸی پھنسی ہوٸی ہے وہ ہے مہنگائی، کہ عام ادمی تک اپنی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے ثمرات نہیں پہنچا سکے اور اِس میں کوٸی شک نہیں، ہمارا بجٹ بھی اٸی ایم ایف کے رحم و کرم پر ہے اور رہے گا، روپے کی قدر کا بڑھنا اور نیچے انا، سٹیٹ بینک جو آپ کے اختیار سے نکل چکا ہے وہ آزاد ہے، معشیت کی جو بنیادی کولیگ ہوتی ہے وہ آج آپ کے پاس نہیں ہے اور اِس حالت میں آپ ایک جنگ لڑ رہے ہیں، ہمیں اِس بات کو ضرور دیکھنا ہے کہ اِس دلدل میں ہمیں پھنسانے کے بعد حالات کو اپنی جگہ پر واپس لانے کا جو سفر ہے اگر اُس میں دو چار قدم پیش رفت ہوٸی ہے ہمیں اِس کا اعتراف کرنا ہوگا کیوں کہ وہ چاٸنیز کا ایک قول ہے ایک ہزار میل بھی چلنا ہو تو ابتدا پہلے قدم سے ہوگی، جمپ سے کوٸی وہاں نہیں پر پہنچ سکتا ۔
تو اِس حوالے سے بھی 22 جون 2022 سے 22 جون 2023 تک چوبیس ارب ڈالر کی ادائيگیاں ہمارے اوپر لاگو ہے، پچھلی حکومت میں جہاں قرضے لیے گٸے تو پاکستان کی پوری تاریخ کے قرضے ایک طرف اور تین سال کے قرضے اُس سے زیادہ ہے، آج اِس وقت اگر ہم کچھ پیش رفت نہ کرتے، اُن سے حکومت نہ چھینتے، اُن کے خلاف پارليمنٹ فیصلہ نہ کرتی تو اِس وقت تک ملک کرپٹ ہوچکا ہوتا، مالی لحاظ سے دیوالیہ بن چکا ہوتا، ہمیں سیاسی افراتفری بھی ملی ہے ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام، دیوالیہ پن کی لٹکتی ہوٸی تلوار جو اٸی ایم ایف کی طرف سے ہم پر سوار تھی اب جب ہمارا مالی سال پورا ہورہا ہے تو ہم نے اب تک گیارہ ہزار ارب ڈالر کا قرضہ واپس کیا ہے، چھ ارب ڈالر کا قرض ری شیڈول ہوچکا ہے اور تین ارب ڈالر کی قرض کی ری شیڈولنگ کے بات چیت چل رہی ہے جہاں ہم قرضے لے رہے تھے وہاں ہم نے ایک سال میں ادائيگياں کی ہے، اب اِن ادائيگيوں سے ملک کی معشیت کو اتنا استحکام نہیں ملتا کہ آپ لوگوں کی ضروریات زندگی جو فوری طور پر ہوتی ہے آپ اُس کو پورا کرسکیں، لیکن بڑی سنجیدگی کے ساتھ جب نتیجہ نکلے گا تو پبلک مطمئن ہوگی تب تک تو اضطراب رہے گا، اور اِس کے لیے میرے خیال میں تین ارب ڈالر کا بندوبست بھی ہورہا ہے شاٸد، بجٹ تک اُن کی ادائيگی کا بندوبست بھی ہو جاٸے گا ۔
اب کچھ قوتوں کو پریشانی یہ ہے کہ اب تک ملک دیوالیہ کیوں نہیں ہوچکا اور ایسے لیڈر جو صبح کو اٹھتے ہیں تو سب سے پہلے یہ سوال کرتے ہیں کہ پاکستان دیوالیہ ہوا یا نہیں ہوا، اِس انتظار میں رہتے ہیں، لیکن ابھی سفر ہے تعمیری کام شروع ہوچکے ہیں، سی پیک پر کام شروع ہوچکا ہے ، ہر علاقے میں نٸی منصوبہ بندی ہوچکی ہے اور اُس کے لیے فنڈز اکھٹے کیے جارہے ہیں، اور جون کے بعد بہت کچھ نظر اٸے گا، ہم نے ایک گزارش کی تھی ایک تجویز دی کہ اگر ہم فوری طور پر لوگوں کو ریلیف نہیں دے سکتے تو کاروبار کے مواقع تو مہیا کرو، غریب لوگ مزدوری تو کرے، مہنگی چیز خریدتا ہے لیکن اُن کے جیب میں پیسے تو ہو اور اُس حوالے سے کافی پیش رفت ہوٸی ہے متبادل کی صورت میں بھی، چنانچہ امپورٹ ایکسپورٹ کے فیصلے بھی ہوٸے ہیں، روس سے تیل کے معاہدے ہوٸے، ترکمانتستان شفمنٹ کا حوالہ دیا گیا تو یہ ساری چیزیں چل پڑی ہے، چاٸنہ کے ساتھ معاملات اگے بڑھ رہے ہیں، سعودی عرب کا اعتماد بحال ہوا ہے، امارات کا اعتماد بحال ہوا ہے، اور ایک عجیب بات لطیفے والی بات ہے ایک سال تک انہوں نے پیسہ کیوں روکا بیچ میں ہمارے جوانوں کی مقبوليت میں تھوڑا اضافہ ہوگیا تو باہر ایک خطرہ پیدا ہوگیا تو انہوں نے ہاتھ روک لیے اور کہتے رہے کہ اگر اٸندہ بھی انہوں نے انا ہے تو ہم نے پیسے نہیں دینے، تعجب کی بات ہے کہ چوروں کو پیسے دینے کے لیے وہ تیار ہیں لیکن صادق اور امین کو پیسے دینے کے لیے تیار نہیں، یہ ہے ہمارے ڈمی قسم کے صادق امین، اِن ساری چیزوں کو میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اِس کے اوپر ڈیبیٹ کرنا چاہیے، ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنا چاہیے ممکن ہے میری باتیں میں بہت سی کمزوریاں ہوں جو آپ نوٹ کررہے ہو میری ذہن میں نہیں ہے یہ ساری چیزیں ایک دوسرے کے سامنے اجاتی ہے اور ہم ایک نتیجے پر پہنچ کر اپنے ملک کی خدمت بھی کرسکیں گے اُس کو مستحکم بھی کرسکیں گے، اداروں سے لڑائی کبھی مقصود نہیں، میری حکومت ہوگی آپ کی حکومت ہوگی یہی ادارے ہوں گے، اِن کو طاقتور بھی ہونا چاہیے کیوں کہ اپنی طاقت کو اِس ملک کے لیے انوسٹ کریں گے، ہماری دفاع کو مضبوط ہونا چاہیے، ہماری معشیت کو مضبوط ہونا چاہیے، متمدن دنیا ہے اور متمدن دنیا میں معشیت ہی مستحکم ہوا کرتی ہے، اِس خطوط کے اوپر ہم جاٸیں گے تو میرے خیال پھر یہ اچھی کاوشیں ہیں، آج اے این پی نے یہ کاوش کی ہے، ہم اور بھی اِس طرح کے فورم پر اکھٹے ہوسکتے ہیں، یہ چلتی رہے گی اور ہم کچھ ایک دوسرے کو سمجھانے کی پوزیشن میں اجاٸیں گے، اِس وقت ایک قومی یکجہتی چاہیے اور جو قومی یکجہتی کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں اُن کے ساتھ ایک جنگ ہے آپ نے ہم نے اُن کو ناکام بنانا ہے اور اپنی کوششوں کو غالب کرنا ہے اُس کے لیے اچھی سٹریٹجی اچھی حکمت عملی ہونی چاہیے، اگر ہم نے ملک میں امن و امان لانا ہے تو امن و امان بھی معاشی استحکام کے ساتھ ہوسکے گا ، اللّٰہ رب العزت فرماتے ہیں ”قرآنی آیت“ اللّٰہ تعالیٰ ایک ایسی آبادی کی مثال دیتا ہے کہ جہاں پر امن بھی ہے اطمینان بھی، اور اِس کی جو بنیادی علت اللّٰہ نے بیان کی ہر طرف سے رزق کچ کچ کے ارہا تھا تو ایک معاشی حب بن گیا تھا لیکن جب اُس نے اللّٰہ کی اِن نعمتوں کی ناشکری کی تو پھر اللّٰہ تعالیٰ نے اُن پر دو سزاٸیں مسلط کی ایک بھوک اور ایک بدامنی، یہ دونوں چیزیں آج ہم پر قومی حیثیت سے موجود ہیں، ہم اپنی تدبیر کے تحت یہ ساری چیزیں کررہے ہیں لیکن جو اِن چیزوں کو ٹھیک کرنے کا اصل اور اول اور اساس ہے جب تک ہم اُس کی طرف رجوع نہیں کریں گے شاٸد ہماری تدبیریں ناکام ہوتی رہیں گی ۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں صحیح راستے پر چلنے کی توفیق عطاء فرماٸے، میں ایک بار پھر شکریہ ادا کرتا ہوں ۔
وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
تحریر: سہیل سہراب