ڈیرہ اسماعیل خان: قاٸد جمعیت و سربراہ پی ڈی ایم حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کی اہم پریس کانفرنس تحریری صورت میں 20 اپریل 2023
مسلم لیگ کی قیادت اور اُس کے وزراء نے فون پر بات کی اور اُن کا خیال تھا کہ عدالت نے بلایا ہے اور عدالت ہمیں کہہ رہی ہے کہ آپ عمران خان سے بات کرے اور الیکشن کی کسی ایک تاریخ پر اتفاق راٸے کرے، ہم نے اِس پر اپنا موقف دیا ہے کہ عدالت اپنی پوزیشن واضح کرے کیا وہ عدالت ہے یا وہ پنچاٸیت، جس طرح وہ انصاف کے مندر سے ہتھوڑا بجا رہے ہیں آٸین کی رو سے نوے دن کے اندر الیکشن کرانا ناگزیر ہے لیکن عمران خان اگر ایک تاریخ پر آپ سے اتفاق کرلے تو پھر قبول ہے یہ کون سا آٸین ہے یہ کس آٸین کا تقاضا ہے کہ وہ چاہے تو پھر نوے دن آٸین کے تحت ناگزیر ہیں اور اگر عمران خان کسی اور تاریخ پر راضی ہو جاٸے تو پھر وہ تاریخ ہمیں قبول ہوگی، جس شخص کو اب تک نااہل ہو جانا چاہیے تھا، جس کو پاکستان کی سیاست کے داٸرے سے باہر رکھا جانا چاہیے تھا ہماری سپریم کورٹ اُس کو پاکستانی سیاست کا محور بنارہی ہے، اسمبلی قانون پاس کرچکی ہے عدالت جس اختیار کے تحت ہمیں دھونس دکھا رہی ہے شاٸد اب اُس کا وہ اختیار نہیں رہا ہے، اُسے پارليمنٹ کے ایکٹ کا احترام کرنا ہوگا اور اُس کی پیروی کرنی ہوگی ۔
ہمیں عدالت میں بلایا گیا لیکن ہم نے کہا اور اپنے دوستوں سے بھی کہا، حکمران اتحادیوں سے بھی ہم نے یہ بات کی کہ اِس بینچ کے اُوپر پارليمنٹ عدم اعتماد کرچکی ہے، ایک سے زیادہ قراردادیں پاس ہوچکی ہیں، ہمارا وزیر قانون اور ہمارا اٹارنی جنرل جاکر اُن کو یہ بتاچکا ہے کہ ہم آپ پر عدم اعتماد کررہے ہیں، جس بینچ کے اُوپر پارليمنٹ نے عدم اعتماد کیا ہے اور پارليمنٹ کے فیصلے سے اُس کو آگاہ کیا گیا ہے آج اُس بینچ کے سامنے میں پیش ہو جاوں، آج میں اُس کو یقین دہانیاں کراوں، لہذا نہ بینچ کے سامنے پیش ہونا یہ پارليمنٹ کے قرارداد کا تقاضا ہے نہ اُن کے سامنے اُن کو اطمینان دلانا کہ جی ہم تو مذاکرات کے لیے تیار ہیں، مذاکرات کی کوٸی گنجائش ہے، کس شخص سے ہم مذاکرات کریں اگر وہ واقعی الیکشن چاہتا تو اُس وقت قومی اسمبلی کیوں نہیں توڑ رہا تھا، اُس وقت پنجاب اور کے پی اسمبلی کیوں نہیں توڑ رہا تھا، اُس نے ملک کی سیاست میں ایک مشکل پیدا کرنے کی غرض سے یہ حرکتیں کی ہیں عمداً کی ہے ورنہ پھر حماقت ہے، یہ لوگ ملک کے اندر ایسے اقدامات کرے جو سراسر احمقانہ ہو، اُن کو یہ پتہ ہی نہیں کہ ملک کی مفاد کس میں ہے، اُن کو یہ علم ہی نہیں ادراک ہی نہیں کہ ملک کی سلامتی کے تقاضے کیا ہے، ایسے ایسے احمقانہ فیصلے کرتے ہیں اور عدالت ہمیں کہتی ہے کہ آپ اِس ٹرک کے پیچھے چلے، تو ہم عدالت کے اِس جبر کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں، ہم اِس پورے عمل کو غیر سیاسی عمل کہتے ہیں، کب تک ہمیں اِن باتوں سے گمراہ کیا جاتا رہے گا اور کب تک ہمیں ایسی باتوں سے بلیک میل کیا جاتا رہے گا ۔
ایک زمانہ تھا کہ بندوق کے ساٸے میں ہمیں کہا جاتا تھا کہ بات چیت کرو اور آج ہمیں ہتھوڑے کے سامنے کہا جارہا ہے کہ آو بات چیت کرے، تو کس شخص سے ہم بات کرے وہ شخص جو کہتا ہے الیکشن انے کے نتائج کے بعد کوٸی فیصلہ کروں گا کہ مجھے نتائج تسلیم ہے یا نہیں، یعنی ہم مذاکرات اِس بات پر کرے کہ اُس کو یقین دلاٸے کہ آپ کی اکثریت اٸے گی، جس شخص نے کہا ہے کہ اگر دو تہائی اکثریت میری نہ اٸی میں الیکشن کو نہیں مانو گا، جو شخص یہاں تک کہتا ہے کہ اگر میری سادہ اکثریت اٸی تب بھی میں اسمبلی توڑوں گا دوبارہ الیکشن کرواو گا، اقتدار کی حرص میں اِس طرح کی باتیں کرنا اور پھر ہمیں کہنا کہ آپ اُن سے بات کرے یہ تو پوری سیاست کی توہین ہے، پارليمنٹ کی توہین ہے، جناب چیف جسٹس صاحب اور آپ کے دو رفقاء یا تین رفقاء میں براہ راست آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ انتہائی معزز کرسی پر بیٹھ کر ہماری توہین کررہے ہیں ہم بھی پاکستان کے معزز شہری ہے، ایک شخص کی خوشنودی اور اُس کو پروٹکٹ کرنے کے لیے، اُس کو تحفظ دینے کے لیے آپ پوری قوم کو ذلیل کررہے ہیں، وزارت دفاع کے درخواست کو مسترد کررہے ہیں اور ایک ایسا شہری کہ جس کا ایک پتہ اسلام اباد کا اور دوسرا پتہ ایبٹ اباد کا ہے اُس کو پنجاب کی الیکشن سے کیا دلچسپی ہے اُس کا کوٸی فاٸدہ نقصان اُن کے وابستہ نہیں ہے اُس کی درخواست پر آپ کارواٸیاں کررہے ہیں ۔
تو یہ ساری چیزیں ہمیں مدنظر رکھنی چاہیے اور ہم نہ عمران خان کو اِس کا اہل سمجھتے ہے کہ اُن سے مذاکرات یا بات چیت ہو جاٸے، ہم اُن کو نااہل سمجھتے ہے اُن کی جرائم کی بنیاد پر، کورٹ پہلے اُس کی بنیاد پر فیصلہ دے یہ شخص فلاں فلاں جرائم میں ملوث ہے اور اُس کی بنیاد پر وہ نااہل ہے جس کو ہم ملکی سیاست کے داٸرے سے باہر نکالنا چاہتے ہیں آج سپریم کورٹ اُس کو سیاسی محور بنانے کی کوشش کررہی ہے یہ نہیں چلے گا، میں جج صاحبان سے کھل کر کہنا چاہتا ہوں جو شناختی کارڈ آپ کے پاس ہے وہی شناختی کارڈ میرے پاس ہے، جس شناختی کارڈ کے بنیاد پر آپ پاکستانی شہری ہے اُسی شناختی کارڈ کے بنیاد پر میں بھی پاکستان کا شہری ہوں، میں آپ کی انصاف کو تسلیم کرتا ہوں میں آپ کے ہتھوڑے کو تسلیم نہیں کرتا، ہتھوڑا نہیں چلے گا، جبر نہیں چلے گا، اگر آپ نے جبر کی بنیاد پر ہم پر فیصلے مسلط کیے تو پھر ہم بھی آپ کے عدالت میں جانے کی بجائے عوام کے عدالت میں جاٸیں گے اور پھر فیصلہ عوام کی عدالت میں ہوگا ۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو اور اللّٰہ تعالیٰ اِس پاکستان کی حفاظت فرماٸے، اِس وطن کی حفاظت فرمائے اور ایسی قوتوں اور عناصر سے اللّٰہ اِس ملک کو محفوظ کرے جو اِس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردینا چاہتے ہیں بلکہ کرچکے ہیں ۔
👈 سوال و جواب
👈صحافی کا سوال: مولانا صاحب یہ ساری صورتحال جو اِس وقت ہمیں نظر ارہی ہے پی ڈی ایم کے آپ سربراہ ہے، اِس وقت حکومت پی ڈی ایم کی ہے مگر یہ کہ آپ پوری حکومت کے ساتھ اختلاف رکھتے ہیں تو جس طرح سے آپ ابھی بتارہے ہیں تو یہ بیانیہ حکومت کا کیوں نہیں ہے یا وزیراعظم کا، کیوں اتنا فرق ہے اور کیا کل اسی حوالے سے ہی آپ کی بات ہورہی تھی ۔
👈قاٸد جمعیت کا جواب: جی اُن کا خیال یہ ہے کہ عدالت جو ہے وہ چودہ مٸی میں پھنسی ہوٸی ہے تو وہ شاٸد عدالت کو کوٸی راستہ دینا چاہتی ہے، عدالت ہم سے کیوں راستہ لے رہی ہے عدالت نے خود جبر کا فیصلہ کیا ہے خود ہی واپس لے، جبر کے فیصلے کو ہم تسلیم نہیں کرتے ۔
👈صحافی کا سوال: آپ کی گفتگو سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پارليمنٹ چیف جسٹس کو برطرف بھی کرسکتی ہے اور ایگزیکیوٹ بھی کرسکتی ہے ۔
👈قاٸد جمعیت کا جواب: میرے خیال میں ہمیں پارليمنٹ کے فلور پر اِس رویے پر غور کرنا چاہیے کہ جب پارليمنٹ سپریم ہے تو پھر اگر وہ ہمیں بلا سکتے ہیں تو پھر پارليمنٹ اُن کو کیوں نہیں بلا سکتی ۔
👈صحافی کا سوال: مولانا صاحب یہ جو مذاکرات میں ڈیڈلاک برقرار رہتی ہے تو پی ڈی ایم کا مستقبل کیا ہوگا یہ ٹوٹ جاٸے گا تھوڑا اِس کی وضاحت کردے ۔
👈قاٸد جمعیت کا جواب: ہم تو بچانے کی کوشش کریں گے، حکومت بھی چلے گی پر بہرحال اپنا موقف تو ہے ۔
👈صحافی کا سوال: اچھا یہ جو ساری صورتحال آپ بتارہے ہیں ابھی چیف جسٹس صاحب نے واضح طور پر آپ کو یہ کہا ہے کہ آپ لچک پیدا کرے عمران خان صاحب کو یہ نہیں کہا کہ لچک پیدا کرے اور ساتھ یہ بھی ہے کہ وہ جو چودہ مٸی کا فیصلہ ہے وہ وہی برقرار ہے ۔
👈قاٸد جمعیت کا جواب: میں کہتا ہوں سپریم کورٹ اپنے رویے میں لچک پیدا کرے میں اُن سے توقع رکھتا ہوں وہ جس کرسی پر بیٹھے ہوٸے ہے اگر وہ عمران خان کے لیے لچک پیدا کرسکتے ہیں تو ہمارے لیے کیوں نہیں، اگر وہ اتفاق کرے کسی اور تاریخ پر تو پھر چودہ مٸی کی کوٸی حیثیت نہیں ہے لیکن اگر ہم اپنا موقف دے رہے ہیں تو پھر ہمارے لیے چودہ مٸی ضروری ہے کیوں ہمارے لیے ایک فریق کا کردار ادا کررہے ہیں وہ بھی واضح فریق بن کر، تو پھر استعفے دے کر سیاست میں اجاٸے پتہ چل جاٸے گا کہ آپ کتنے پانی میں ہے ۔
👈صحافی کا سوال: تو کیا آپ اپنی حکومت جو اِس وقت پی ڈی ایم کی ہے اُس کی قیادت کو آپ پابند کرسکیں گے کہ اِس شخص کے ساتھ جس طرح آپ کا موقف ہے کہ مذاکرات ہونے ہی نہیں چاہیے اور وہ مذاکرات کے پیچھے یہاں بھی آپ کے پاس ارہے ہیں اور آپ کو منا بھی رہے ہے ۔
👈قاٸد جمعیت کا جواب: ان شاء اللہ مذاکرات کی نوبت نہیں اٸے گی ۔
👈صحافی کا سوال: مولانا صاحب مفتی صاحب کی شہادت کے حوالے سے تحقیقات کہا تک پہنچی ہے اور کیا سامنے ایا ہے ؟
👈قاٸد جمعیت کا جواب: مفتی صاحب کے شہادت کے بعد ابھی تک کوٸی ایسے شواہد بظاہر نظر نہیں ارہے ہیں کہ یہ کوٸی سازش تھی ہاں حادثہ ہے اور حادثے میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ کیوں ٹریفک کے قانون کی خلاف ورزی کی گٸی ہے تو اُس حوالے سے چونکہ ابھی تک سب کچھ قانون کے ہاتھ میں ہے گاڑی بھی وہ ڈرائيور بھی دوسرے جو لوگ سوار تھے وہ بھی، اُن کی شناخت بھی تقریباً ہوگٸی ہے، تو ابھی رمضان شریف ہے اُن کے خاندان میں تعزیتیں ہورہی ہے اُن کو بھی ہم نے آن بورڈ رکھنا ہے تو شاٸد اِس سوال کا جواب میں ابھی آپ کو فوری نہ دے سکوں اِس کے لیے کچھ وقت چاہیے ۔
👈صحافی کا سوال: مولانا صاحب مطلب جس طرح سے عمران خان کی حکومت تھی تو قیادت پکڑی جاتی تھی ابھی جو ہے کارکن اور رفقاء پکڑے جاتے ہیں، اُن کے بال کٹا لیے جاتے ہیں تو یہ آپ اِس حوالے سے نہیں سمجھتے ہیں کہ جو نیریٹیو ہے وہ عمران خان کو بناکے دیا جارہا ہے کہ اُن کی عید بھی انشور کرچکے ہیں کہ وہ عید گھر پر گزاریں گے اور اِس دوران پولیس اُن کو کچھ نہیں کہے گی عدالت اُں کو تحفظ دے رہی ہے جبکہ باقی لوگوں کو پکڑا جارہا ہے ۔
👈قاٸد جمعیت کا جواب: بنیادی بات یہ ہے ہم نے یہ بات یہاں پر پہلے بھی پریس کانفرنس میں عرض کی ہے کہ اگر ہم انتقامی سیاست کرتے تو ہم نیب کے قوانين کو بدستور برقرار رکھتے ہم نے اُس میں نرمی دکھاٸی ہے، اب اُس میں جہاں پر بھی قانون کسی کو پکڑنا چاہتی ہے تو قانون کا راستہ واضح ہو جاتا ہے ہم یہ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ ہم کوٸی انتقامی سیاست کررہے ہیں وہ بھی گرفت میں اجاٸیں گے، چار پانچ مقدمات کا اُن کو سامنا ہے اِس میں کسی بھی طریقے سے وہ نااہل ہوسکتے ہے اور ہم قانون اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں ۔
👈صحافی کا سوال: اچھا مولانا صاحب اگر الیکشن کی طرف بڑھا جاتا ہے معاملات طے ہوتے ہے تو مہنگائی بہت زیادہ ہے تھوڑا سا بتائے مہنگائی کی پسی عوام کو آپ کا کیا پیغام ہے اور الیکشن میں آپ کا بیانیہ کیا ہوگا ۔
👈قاٸد جمعیت کا جواب: ایک بات یہ ہے کہ عمران خان ہمیں اپنی ساڑھے تین سالہ کارکردگی تو بتائے ملکی معشیت کو تباہ کرکے ہمیں دلدل میں بٹھا دیا اور آپ جانتے ہیں کہ جب حکومت ہمارے ہاتھ میں نہیں تھی تو میں جلسوں میں بھی یہی کہا کرتا تھا کہ اِس شخص نے ملک کو اتنا ڈبو دیا ہے کہ ہمیں دوبارہ اٹھانا دشوار ہو جاٸے گا، یقیناً قوم دلدل میں پھنسی ہوٸی ہے اِس وقت آپ کے قیمتوں کے اتار چڑھاو کا اختیار آپ کے پاس نہیں ہے وہ آٸی ایم ایف کے پاس ہے، سٹیٹ بینک اُن کے ہاتھ میں چلا گیا ہے روپے کی قیمت بڑھانا اور کم کرنا یہ اب آپ کے اختیار میں نہیں رہا ہے، اب لوگوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ عمران کے دور میں اتنی تبدیلیاں اُس نے ایسی کردی ہے کہ جس سے ملک کو گروی رکھ دیا ہے اور بہت سی چیزیں حکومت کی اختیار سے نکال دی ہے جس کے منفی نتائج اِس وقت عوام کے اُوپر پڑرہے ہیں اور حکومت کو وہ چیزیں سنبهالنے میں دقت محسوس ہورہی ہے، لیکن ہم قانون سازی کی طرف جاٸیں گے اور ملک کو اُس حالت پر لاٸیں گے کہ جہاں عوام کو سہولت ہو، اب مثال کے طور پر آپ کو کہنا چاہتا ہوں اِس وقت حج کا موسم ہے مفتی عبدالشکور صاحب رمضان شریف سے پہلے گٸے اور حج پیکج کے اوپر سعودی گورنمنٹ کے ساتھ بات چیت کی جو پچھلے سال کی قیمت تھی کرایوں کی اسی پر فیصلہ ہوا بلکہ کچھ کم پر بھی، اور ڈالر میں دیکھے تو وہی فیصلہ ریال میں دیکھے تو وہی فیصلہ، لیکن ہمارے ملک میں چونکہ روپیہ کی قدر گرچکی ہے اُس کی قیمت کم ہوگٸی ہے اُس حوالے سے دقت محسوس ہورہی ہے کہ اب آپ کا ایک لاکھ کا دو لاکھ میں چلا جاٸے گا، پاکستان کا عام آدمی جب اپنے روپے میں اداٸیگی کرے گا تو اب اُس کو مہنگا لگے گا لیکن اِس کے باوجود ہم کوشش کریں گے کہ جو حجاج کرام ہیں اُن کی سہولتيں چاہے وہ عام کیٹیگری کی کیوں نہ ہو لیکن وی اٸی پی کیٹیگری کے خدمات اُن کو وہاں مہیا کی جاسکے اور کچھ پیسے بچاکر واپس حجاج کو دیے جاسکیں وہ پیسے کسی کو کمیشن میں نہیں ملیں گے وہ واپس حاجی کو ملیں گے ۔
👈صحافی کا سوال: مولانا صاحب اگر حکومت مذاکرات کی طرف چلی جاتی ہے مطلب وزیراعظم صاحب اور اُن کی کابينہ تو کیا پھر آپ مذاہمت کریں گے یا مذاکرات پر مجبور ہوں گے یا پھر آپ اُن کو روک پاٸیں گے ؟
👈قاٸد جمعیت کا جواب: میرے خیال میں اِس اگر مگر کا موقع نہیں اٸے گا ۔
بہت بہت شکریہ جی
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو اٸی سوات
#teamjuiswat