ڈی اٸی خان: سابقہ ایم پی اے سمیع اللّٰہ علیزٸی کی شمولیت کے موقع پر قاٸد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن کی پریس کانفرنس تحریری صورت میں 16 دسمبر 2022
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
آج کا دن اِس لحاظ سے بڑا اہم ہے اور ان شاء اللّٰہ تاریخ کے صفحات پر خوبصورت الفاظ کے ساتھ لکھا جاٸے گا، علیزٸی خاندان کے نوابزادگان ہمارے لیے ہمیشہ معزز رہے ہیں، قابل احترام رہے ہیں اور احترام کا رشتہ ابتدا دن سے اُن کے ساتھ قاٸم ہے اور آج یہ باضابطہ طور پر جمعیت علماٸے اسلام میں شمولیت کا اعلان کررہے ہیں، میں دل کی گہرائیوں سے انہیں خوش آمدید کہتا ہوں، اُن کے اِس فیصلے پر اُن کو مبارکباد بھی دیتا ہوں، اپنی جماعت میں اُن کو خیر مقدم کہتا ہوں، اور آپ جانتے ہیں کہ جمعیت علماٸے اسلام نے اپنے سیاست کو کسی مسلکی داٸرے میں محصور نہیں رکھا ہے بلکہ شریعت اسلاميہ کی انسانی خدمات کی پہلوو اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ترقی کے مراحل کو اپنایا بھی ہے، بڑھایا بھی ہے اور آج پورے ملک میں جمعیت علماٸے اسلام کو ایک بڑی عوامی قوت کی طور پر تسليم کیا جاتا ہے ۔
پاکستان ہمارا وطن ہے اِس وطن کی سالمیت، بقا، استحکام، سیاسی استحکام، معاشی استحکام، دفاعی استحکام یہ ہمیشہ ہماری منزل رہی ہے اور اِس حوالے سے دینی اسلام کا جو ایک امیج ہے خدمت انسانيت کا، خوشحال معشیت کا، انسانی حقوق کے تحفظ کا، امن کو یقینی بنانے کا، اِس راہ پر جو ہمارا سفر چل رہا ہے اور پاکستان کی اِس وقت بڑی شخصيات اِس جماعت کی طرف رجوع کررہے ہیں اِس سے ان شاء اللہ جمعیت کا مستقبل روشن ہوگا اور ہم عوام کے اُس اعتماد میں اور اضافہ کریں گے اور ان شاء اللہ العزیز یہ کامیابی کا سفر اگے بڑھے گا ۔
جہاں تک ڈیرہ اسماعیل خان کا تعلق ہے ظاہر ہے یہ ہماری دھرتی ہے، ہمارے رگ و ریشے میں اِس مٹی کا خمیر موجود ہے، اِس سے محبت اپنی ماں سے محبت کے برابر ہے، اور اِس کی ترقی کے لیے ہم نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے حضرت مفتی صاحب رحمہ اللّٰہ نے یہی تعلیمات ہمیں دی کہ غریب کو غریب رکھ کر اپنے دروازے کا بھکاری بنانا اِس نظریے کو ختم کرنا ہے اور خطے کو اتنی ترقی دینی ہے کہ عام ادمی اپنے پاوں پہ کھڑا ہوسکے، یقیناً ہم ایک پسماندہ علاقہ ہے، ایک ایسا پسماندہ علاقہ جو بنیادی انسانی ضرورتوں سے بھی محروم ہے، ہمارے دامان کے بہت سے دیہات آج بھی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، بجلی کی سہولت سے محروم ہیں، سڑک اور امدورفت کی سہولتيں اُن کو نہیں ہے، ہر چند کے ہم بہت اگے بڑھے ہیں تاہم ابھی بھی انسانيت کو خدمت کی ضرورت ہے ۔
تو اِس حوالے سے سی پیک کا جو نواب صاحب نے ذکر کیا ان شاء اللّٰہ جو اعلان میاں نواز شریف صاحب کے زمانے میں ہوا تھا ابھی ان شاء اللہ 26 دسمبر کو پراٸم منسٹر شہباز شریف صاحب اُس کے اگلے مرحلے کا افتتاح کریں گے اور یہ منصوبہ اِس وقت ایک نیشنل ہاٸی وے کی صورت میں ژوب تک جاٸے گا، جب کہ سگھو تک تو ہم فی الحال موٹروے یا سی پیک کی صورت میں اگے بڑھیں گے، اور اِس طریقے سے ہماری جو دامان کی زمین ہے ہمارے پاس اِس وقت بارہ لاکھ ایکڑ اراضی بیک وقت ایک ہی جگہ میں اپنے وسائل کے ساتھ، پانی کے وسائل کے ساتھ نہری زمینیں بننے کی صلاحيت رکھتا ہے، تو اُس حوالے سے بھی فرسٹ لیفٹ کینال اور ٹانک زام کی بحالی کے منصوبے ہمارے نظر میں ہے، گومل زام پہلے سے بن چکا ہے اور اُس کو مذید چینلاٸز کرنے کی ضرورت ہے ۔
تو یہ تمام چیزیں وہ ہیں جس میں ہم اگے بڑھنا چاہتے ہیں ان شاء اللّٰہ یہ پورا خطہ جس کو دنیا پسماندہ علاقہ کہتی ہے لیکن ہمارا وہ خواب شرمندہ تعبير ہوگا جب میں کسی زمانے میں اپنے لوگوں سے کہا کرتا تھا کہ ان شاء اللّٰہ ڈیرہ اسماعیل خان پاکستان کی ایک تجارتی جنکشن بنے گا، ایک تجارتی مرکز بنے گا، آج ہم اُس کی طرف بڑھ رہے ہیں، ہم اب اِس کے قریب پہنچ چکے ہیں کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک بہت بڑا بیس ہزار کنال سے زیادہ کی زمین پر ایک صنعتی علاقہ قاٸم کیا جاٸے، ہمارا جو علاقہ ہے وہ ایگرکلچر کے لیے انتہائی مفید ہے، ہم ایگرکلچر کے حوالے سے بھی یہاں پر ایک ایگرکلچر انڈسٹری کو ڈویلپ کرسکتے ہیں، اُس کی طرف بھی لوگ انوسٹمنٹ کے لیے تیار ہیں، اور پھر جو ہمارا سدرن زون ہے بنوں سے لیکر وزیرستان تک، ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، لکی مروت ایک بڑا کارگو اٸیرپورٹ کہ جو یہاں کی پیداوار کو وسطی ایشیا اور مشرقی وسطی تک فروغ دے سکے، اُس حوالے سے بھی حکومت راضی ہوچکی ہے، بلکہ سیول ایوی ایشن کے منسٹر نے تو اسمبلی میں کہہ بھی دیا ہے کہ مفتی محمود اٸیرپورٹ بنے گا، اب لوکیشن کیا ہوگی اُس کے لیے ماہرین جو مناسب جگہ سمجھے گے، بہت بڑا اٸیرپورٹ ہے ۔
تو یہ ساری چیزیں ان شاء اللّٰہ انے والے مستقبل میں ہماری نظر میں ہے اور اِس پر کافی ہوم ورک ہوچکا ہے اور اِس پوزیشن میں ہم اگٸے ہیں کہ پراٸم منسٹر اکر اعلان کرے ۔
🍀سوال و جواب کا سلسلہ🍀
👈صحافی کا سوال: مولانا صاحب یقیناً سیاسی طور پر آپ ڈی اٸی خان میں کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں، انتخابات کی بھی شاٸد آپ کو امد امد محسوس ہورہی ہے، پاکستانی سطح پے اِس وقت کیا منظر نامہ ہے کہ انے والے دنوں میں کیا ہورہا ہے، کیا اسمبلیاں تحلیل ہورہی ہے، آپ ہونے دیں گے نہیں ہونے دیں گے، آپ کیا منظر نامہ دیکھ رہے ہیں ؟
👈قاٸد جمعیت کا جواب: میں حضرت چونکہ اسی میدان کا ایک مسافر ہوں یہ جو استعفے استعفے یہ محض بلیک میلنگ کا ایک حصہ ہے، اور ملک میں سیاسی عدم استحکام ایک اضطراب کا ماحول، انریسٹ ملک میں پیدا کرنا یہ اُس کا ایجنڈہ ہے، یہ کوٸی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے، اُس میں تعمير کی کوٸی اہلیت نہیں ہے اور حماقت کے نتيجے میں تخریب اسان ہو جاتا ہے، تو اُس تخریب کی طرف اُن کی توجہ ہے، اُس میں اسی کی دلچسپی ہے، کوٸی ترقی کوٸی ملک، میں اُن کو یہ کہتا ہوں کہ خان صاحب آپ ہم پر تنقيد بعد میں کرے لیکن اپنی ساڑھے تین سالہ کارکردگی پہلے لوگوں کو بتائيں، تمہاری کارکردگی کیا ہے، میں نے پچھلی پریس کانفرنس میں بھی آپ کو یہ جواب دیا تھا کہ مجھے بھی یہ خیال نہیں تھا کہ ہم اِس قدر دلدل میں جاچکے ہیں کہ جتنا ہم نکلنے کی کوشش کررہے ہیں اتنا ہی وہ ہمیں ڈبونے کے لیے کھینچ رہا ہے، تو یہ ساری صورتحال ایک چیلنج کی طور پر قبول کی گٸی ہے اور اُس میں بھی وہ مذید حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی سوچ رہا ہے، لیکن ان شاء اللّٰہ العزیز ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کا مستقبل روشن ہے، محنت کرنی پڑے گی، چیلنجز کا مقابلہ کرنا پڑے گا، بہتری کی طرف ہمیں اگے بڑھنا پڑے گا اور اِس ذہنیت کو ہمیں شکست دینی ہوگی جس ذہنیت نے پاکستان کو یہاں تک پہنچایا ہے ۔
👈صحافی کا سوال: توشہ خانہ کی بات کی جاتی ہے مگر وہی الزامات پہلے عمران خان صاحب لگایا کرتے تھے اب آپ کی طرف سے یا پی ڈی ایم کی طرف سے عمران خان پر الزامات لگاٸے جارہے ہیں مگر نہ تو اُن پر مقدمات بناٸے جارہے ہیں، نہ ہی اُن کو عدالت میں لایا جارہا ہے اور نہ ہی عملی اقدامات محض پریس کانفرنسز ہورہی ہیں، مولانا صاحب اسی کے ساتھ ریلیٹڈ ساٸفر والی کہانی اور اُس سے اگے توشہ خانہ، روزانہ کی بنیاد پر نیا ایشو اُن کے ساتھ جوڑا جاتا ہے جو خان صاحب کی شخصيت کے ساتھ چپکتا نہیں ہے کچھ دن رہتا ہے پھر ختم ہو جاتا ہے ۔
👈قاٸد جمعیت کا جواب: حضرت ڈیڑھ کروڑ فیک اٸی ڈیز ہیں جسے آپ جیسے نوجوان چلا رہے ہوتے ہیں اور ایک لمحے میں ڈیڑھ کروڑ جھوٹ پبلک کے پاس پہنچ جاتا ہے، تو ہمارا تو ایک سچ ہے اور ایک ہی دفعہ پہنچ جاتا ہے، تو اِس میں ایک بات ذہن میں رکھے کہ جو مقدمات انہوں نے بناٸے تھے آپ نے خود اُن کی زبانی سنا کہ مجھے تو پتہ نہیں تھا مجھے تو اٸی ایس اٸی کہتی تھی اور میں پھر اُس پر کارروائی کرتا تھا، اٸی ایس اٸی نے جس وقت گوگی اور پنکی کے بارے میں اُن کو بتایا اُس وقت اُن کی بات پر عمل کیوں نہیں کیا، نواز شریف اور زرداری کے حوالے سے کیوں عمل کیا، اور مقدمات بناٸے، جیلوں میں رکھا، عدالتوں سے اُن کو گزارا، ہم اگر انتقام لیتے یا انتقامی سیاست کرتے تو ہم نیب کو جوں کا توں رکھتے، اُس کے قوانين کو جوں کا توں رکھتے، تاکہ اُسی شکنجے میں ہم اُن کو پھنساتے اور نوے دن اُن کا کوٸی پوچھنے والا بھی نہ ہوتا، لیکن ہم نے جس طرح نظریہ دیا تھا کہ نیب کا قانون غلط ہے، جابرانہ ہے، امریت کی علامت ہے اور اُس کی شناخت ہے ہم نے فورا وہی کیا کہ اُس کی اصلاح کی اور اُس جابرانہ پہلو کو ہم نے ختم کردیا، اب ظاہر ہے کہ روز روز تھوڑا ایکسپوز ہونے دو، ساٸفر لوگوں کو سمجھ میں نہیں اتا کہ ساٸفر کیا ہے، خط ہے کیا خط ہے، اب کہتا ہے کہ خط کی بات نہ کیا کرو، بس اسے بھول جاو، بھٸی اتنی بڑی سازش کیسے بھول جاٸے، امریکہ میں ہوٸی، پھر امریکہ کے خلاف جیسے ہم اینٹی امریکن تصور کیے جاتے ہیں ہماری نقالی کرتے ہوٸے امریکہ کے خلاف اور حقیقی آزادی کی باتیں کرنے لگا اور پھر کہا میں امریکہ سے دوستی چاہتا ہوں، پھر امریکہ کے اندر انہوں نے جو لابیز فورم ہاٸر کیا ہے وہ کیا ہے وہی ہے کہ جس نے جوباٸیڈن اور عمران خان کے ایجنڈے کو ایک کردیا ہے، وہ بھی سی پیک کا مخالف تھا اور ہے، اِس نے بھی سی پیک کو فریز کیا اور اُس کو ناکام کیا، وہ بھی اسرا ٸیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے اِس نے بھی زمین ہموار کی، ہر چینل پر اِس قسم کے لوگ انے لگے یہاں تک کہ ہمیں میدان میں نکلنا پڑا، ہمیں کراچی میں ملین مارچ کرنا پڑا اور اُس میں ہم نے فلسطین کے علماء کو، مسجد اقصٰی کے خطیب کو، لبنان کے علماء کو سکرین پر لاکر قوم سے مخاطب کرایا، میں نے اُس کا جواب عربی تقریر میں دیا اور تب جاکر یہ گرد بیٹھی ہے، اِس قسم کی سازشیں اور ایجنڈہ ملک میں لانا اور ہم نے جس طرح اُس کا مقابلہ کیا، تو عالمی استعمار کا مقابلہ کرنا اور ہمیں اُس نے پابند کردیا تھا کہ صرف ایک ہی دنیا کے مفادات کا ہم نے اماجگاہ بننا ہے، ہم نے خدا کے فضل سے اُس میں توسیع دی کہ نہیں کہ ہم ایک عالمی قوت تک اپنے مفادات کو محصور نہیں کریں گے، اور آج آپ ہمارےاِس حکومت کے وزیر خزانہ کی بھی پراٸم منسٹر کی بھی اور ہماری بھی گفتگو سن رہے ہیں، ہم روس سے بھی بات کرنے کو تیار ہیں، ہم چاٸنہ سے بھی بات کرنے کو تیار ہیں، سعودی عرب کا اعتماد بحال کرنے بھی جارہے ہیں اور ان شاء اللہ العزیز پاکستان کے مفاد کے گرد ہماری خارجہ پاليسی گھومے گی، ایک بڑی طاقت کے مفادات کے لیے اب ہماری خارجہ پاليسی نہیں بنے گی ۔
👈صحافی کا سوال: مولانا صاحب پاکستان کی سیاست کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جاٸے تو ہر جو اپوزیشن جماعت ہے وہ اسٹبلشمنٹ سمیت مخصوص ادارے پر سیاست میں مداخلت کا الزام عاٸد کرتی چلی ارہی ہے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اب وہ مخصوص ادارہ سیاست میں ملوث نہیں ہوگا ۔
👈قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے میں اِس معاملے پر احتیاط سے بات کروں گا کیوں کہ ہمارے ہاں ہمیشہ سے ایک تاثر تو ہے اب اُس تاثر کو زاٸل کرنے کی ابتدا یقیناً گفتگو سے ہوگی لیکن اطمینان عمل سے ہوگا، اب تک عملی طور پر اُن کی پاليسياں ایسی نظر اجاٸے گی اور جیسے رفتہ رفتہ نظر بھی ارہی ہے اور ہر چیز تدریجی طور پر ہی ہوتی ہے، تو اگر انہوں نے ایک اٸیڈیا دے دیا ہے اور اُس کے تحت وہ تدریجی طور پر اپنے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں تک خود کو محدود کرتے ہیں تو ہم اُن کو ویلکم کہیں گے، جمہوریت تدریجی اصلاحات کا نام ہے، انقلابی اصلاح جمہوریت کے اندر مناسبت نہیں رکھتی ۔
👈صحافی کا سوال: اچھا مولانا صاحب پی ڈی ایم اِس وقت وفاق میں ہے اور صوبائی حکومت کہہ رہی ہے کہ وفاق اُن کے بقایا جات ادا نہیں کررہی ہے، صوبہ ڈیفالٹر ہورہا ہے تو کیا واقعی ایسا ہے ؟
👈قاٸد جمعیت کا جواب: اپنی ناکامیوں کو ہمارے سر نہ تھوپے، وفاق جب آپ کے پاس تھا تو ہمارے پاس سٹیٹ بینک میں چوبیس ارب ڈالر کے ذخائر تھے، انہوں نے جاتے ہوٸے ڈھاٸی ارب ڈالر چھوڑ گٸے، تنخواہوں کے پیسے ہمارے پاس نہیں تھے، اب دوبارہ سات اٹھ ارب تک ہم پہنچ گٸے ہیں اور انہوں نے قرضوں پہ قرضے لیکر پہلے وفاق کی سطح پر ملک کو تباہ و برباد کیا اور پوری تاریخ میں پاکستان نے اتنے قرضے نہیں لیے تھے جتنا انہوں نے ساڑھے تین سال میں لیے، اب ایم ایم اے کے زمانے کے قرضے آپ دیکھ لے، اُس کے بعد اے این پی کی حکومت اٸی اُس کے قرضے دیکھ لے اور اب اِن کی حکومت میں جو قرضے لیے گٸے ہیں وہ آپ دیکھ لے اسمان زمین کا فرق ہے، تو اِسطرح ملک کو کنگال کرنا اور دوسروں کے اوپر تھوپنا وہ سمجھے بات کہ آج بھی تمام ترقیاتی منصوبے میں جارہے ہیں اور میگا پراجیکٹ جارہے ہیں وہ آج بھی آپ کے وفاقی اخراجات سے ہورہے ہیں صوبائی اخراجات سے نہیں ہورہے ہیں ۔
👈صحافی کا سوال: مولانا صاحب یہ سیم صورتحال جو صوبے میں ہے وفاق میں بھی وہی ہے تو اِس حوالے سے میگا پراجیکٹس کے اعلانات ہورہے ہیں اور خزانہ خالی ہے تو اِس کو کس طرح مینٹین کیا جاٸے گا ؟
👈قاٸد جمعیت کا جواب: میرے خیال میں کچھ چیزیں حکومت پر چھوڑ دے، اُس نے راستے نکالنے ہوتے ہیں، ہم ایک دفعہ فورم پر اُس کی منظوری دے دیں ، حکومت اُس کو ایک منصوبہ تسلیم کرکے اُس کے اخراجات کے ساتھ اُس کا اعلان کردے تو یہ ایک آن گوینگ سکیم بن جاتی ہے رکتی نہیں ہے اُس کو اگے بڑھنا ہوتا ہے، تو مشکلات ہر زمانے میں ہوتی ہیں، امریکہ جیسا ملک بھی بیرونی سرمایہ کاری سے بے نیاز نہیں ہوا کرتا، ہمارے لیے مشکلات بھی ہوں گی لیکن ہم نے ہمت کی ہے ، پبلک کو ایک اعتماد دلانے کی کوشش کی ہے اور ان شاء اللّٰہ اِس پر عمل ہوگا ایسا نہیں کہ زبانی بات ہے ۔
👈صحافی کا سوال: مولانا صاحب اگر آپ ریکور نہ کرسکے تو اِس کے اٸندہ الیکشن پر برے اثرات مرتب نہیں ہوں گے ؟
👈قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھے ہمارے پاس چھ مہینے ہیں چھ مہینے میں تو آپ نے دیکھا، مفتی صاحب کے پاس صرف نو مہینے تھے اور نو مہینوں میں مفتی صاحب نے منصوبوں کا اغاز کیا سڑکوں کی بھراٸی کی اور حکومت ختم ہوگٸی، کنواں کھودا پانی نکالنے سے پہلے حکومت ختم ہوگٸی، لیکن قوم کے ساتھ ہمدردی کے جو عزائم تھے وہ جب سامنے اٸے تو آپ نے دیکھا کہ قوم نے اُن کو قبول کیا، تو لوگ اپنی ہمدردی چاہتے ہیں کہ ہم سے کوٸی صحیح معنوں میں سچ بولے اور دل سے وہ ہماری خدمت کے لیے اگے بڑھے ، تو ہماری تاریخ بھی معلوم ہے ، ہمارا آج بھی قوم کو معلوم ہے، ان شاء اللّٰہ مستقبل میں بھی ہم اپنے تاریخ کو دہراٸیں گے ان شاء اللّٰہ اُس کو جھٹلاٸیں گے نہیں ۔
👈صحافی کا سوال: اچھا مولانا صاحب پبلک اکاونٹس کمیٹی کے جو چیٸرمین ہے نور عالم خان صاحب، انہوں نے آج بیان دیا ہے کہ چھ مہینے ہوگٸے ہم نے نیب کو ود پروف کیسز بھیجے ہیں چاہے بی ار ٹی ہو یا دوسرے معاملات، لیکن اُس پر نیب کوٸی ایکشن نہیں لیتا ، تو اِس سے پہلے آپ نے جو پریس کانفرنس کیا تھا اُس میں آپ نے اسٹبلشمنٹ کے حوالے سے اظہار کیا تھا، اُس وقت عمران خان کا لانگ مارچ جاری تھا در پردہ کچھ ایسی قوتیں ہیں جو آپ لوگوں کو یا عمران خان کو کوٸی میسج دے رہی ہے، نور عالم خان نے پروف بھی دیے ہیں نیب حرکت میں نہیں ارہی تو آپ کیا سمجھتے ہیں ابھی بھی اسٹبلشمنٹ کا کردار ہے ؟
👈قاٸد جمعیت کا جواب: وہ بھی ایک سیاسی ادمی ہے میں بھی ایک سیاسی ادمی ہوں دونوں جانتے ہیں کہ نیب اُس پر ہم تنقيد بھی کرسکتے ہیں، اُس سے ہم شکایت بھی کرسکتے ہیں لیکن اُس ادارے کے عمل میں مداخلت تو نہیں کرسکتے، یہ اب اُس کی مرضی ہے ہم نے تو اُس کو کیس دے دیے کہ بھٸی یہ دیکھو یہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ اگیا ہے یہ توشہ خانہ کا فیصلہ اگیا ہے، یہ بی ار ٹی کا اگیا، یہ ملم جبہ کا اگیا، بہت سی چیزیں ہیں اور آپ کے اپنے پشاور میوزیم کے نوادرات کا مسٸلہ اٸے گا، ابھی تو بہت سی چیزیں ارہی ہیں ۔
👈صحافی کا سوال: مولانا صاحب یہ جو افغا نستا ن کے حوالے سے ہم صورتحال دیکھ رہے ہیں پہلے بلااشتعال میڈیا کے حوالے سے ہم پر فاٸرنگ ہوتی تھی ، ابھی کچھ عرصے سے ہماری حدود میں فاٸرنگ اور ایک طرح سے حملے ہورہے ہیں، یہ کیا ہم ناکام ہوٸے وہ حکومت لانے میں جو افغا نستا ن میں پاکستان کے مفادات کی تحفظ کرسکے، اگر وہاں سے اِس طرح ہورہا ہے ۔
👈قاٸد جمعیت کا جواب: جی اِس میں کچھ ناخوشگوار واقعات سامنے ضرور اٸے ہیں لیکن ایک ذمہ دار مملکت کے طور پر پاکستان اگلی اقدامات میں جہاں دو یونین اپنے تعلقات بہتر بناسکے، کیوں کہ افغا نستا ن سے ہمارا بڑا ایک طویل رشتہ ہے انگریزوں کے زمانے سے، اور پاکستان بننے کے بعد افغا نستا ن میں جو طا لبا ن کی تنظیم تھی واحد تنظيم تھی جس کو پرو پاکستانی کہا جاتا تھا، آج وہاں اما رت اسلا میہ کی حکومت قاٸم ہوگٸی ہے تو کچھ ناخوشگوار چیزیں یقینا سامنے اٸی ہیں جس کو ہمیں سنجيدگی سے لینا ہوگا، بیٹھ کر اُس کے لیے حکمت عملی طے کرنی ہوگی اور ہمیں وہ دو چار چیزیں جو پاکستان کی ضرورت ہے اُس کو لسٹ کرنا ہوگا، اُن سے رابطہ کرکے معلوم کرنا ہوگا کہ وہ پاکستان سے کیا ڈیمانڈ کرتے ہیں دو تین چار اُن کی بھی ہوگی، اُن کو ہم مربوط نظام کے ساتھ حل کرنے کی طرف جاٸیں گے، لہذا نہ ہم فوری طور پر کوٸی جذباتی رد عمل دینا چاہتے ہیں، ایک ذمہ دار مملکت کی حیثیت سے اِس میں ہمارا کردار ہوگا اور ہونا چاہیے اور یقیناً ہمارے ادارے اِس حوالے سے رابطے میں ہیں، اور اِس حوالے سے حساس بھی ہیں، ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان کے مفاد کو سامنے رکھ کر پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات کی طرف اگے بڑھنا ہوگا ۔
👈صحافی کا سوال: سر میرا یہ سوال ہے کہ آپ کے اِس حلقے کے ووٹرز بارہ بارہ پندرہ پندرہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کررہے ہیں، گیس کی پوری پاکستان میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی اگر ہوتی ہے تو اُس کا باقاعدہ آپ کو بھی علم ہے اور جتنے بھی حضرات یہاں ہیں اُن کو بھی پتہ ہے کہ ایک شیڈول ہوتا ہے، لیکن ہمارے ڈیرہ اسماعیل خان میں شیڈول تو درکنار الٹا لوگوں کے اوپر جرمانے لگ رہے ہیں، تو سر آپ نے اسی حلقے سے انے والے الیکشن میں حصہ بھی لینا ہے تو لوگوں کو کس طرح پیس کریں گے ؟
👈قاٸد جمعیت کا جواب: حضرت گیس بھی ہم نے دیا ہے اور اِس کو باقاعدہ بھی ہم کریں گے ان شاء اللّٰہ، اور ماضی کی حکومتوں کی جو غیر متوازن پاليسياں اور حکمت عملی رہی ہے ان شاء اللّٰہ اُس میں توازن بھی لاٸیں گے، یہ میرا گھر ہے یہاں کہ عوام ہمارے لوگ ہیں وہ ہمارے خدمات کو بھی جانتے ہیں اور ان شاء اللّٰہ اٸندہ بھی اِس کا مشاہدہ کریں گے ۔
بہت بہت شکریہ
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب