ڈیرہ اسماعیل خان :
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان دامت برکاتہم نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کامیابی کے دعوئے حقیقت کے برعکس ہیں ان اداروں کو ملنے والی 5فیصد کامیابی مذہبی جماعتوں اور دینی مدارس کی جانب سے امن کی کوششوں میں بھر پور تعاون کا نتیجہ ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامعہ عید گاہ کلاں میں مولاناحماد اللہ کے بیٹے حافظ عباد اللہ فاروق کی وفات پر فاتحہ خوانی کر نے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کر تے ہوئے کیا واضح رہے کہ حافظ عباد اللہ فاروق ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہوئے تھے اس موقع پر سابق ایم پی اے عبدالحلیم خان قصوریہ ڈسٹرکٹ ممبر ملک مشتاق احمد ڈار حافظ عبدالمجید گوگا خیل سمیت دیگر علماء اکابرین و جماعتی عہدیداران موجود تھے ۔مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کا عفریت معاشرے میں اہم شخصیات اور محب وطن بے زرر شہریوں کو نگل رہا ہے اور اس سلسلے میں قانون نافذکرنے والے اداروں کی کارکردگی مایوس کن ہے ۔دہشتگردوں کے خلاف جنگ قومی چیلنج بن چکی ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان گزشتہ چند دنوں سے ایک بار پھر دہشتگردوں کے نشانے پر شہریوں کا تحفظ بنیادی مسئلہ ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشتگردوں کے خلاف ٹاسک لینے کے باوجود کامیابی حاصل نہیں کرسکے ہیں شہر میں امن ہماری صلح کی کوششوں کی بدولت جسکی وجہ سے انتظامیہ کو پانچ فیصد کامیابی ملی ہوئی ہے ہم اپنے طور پر فرقہ واریت کے خاتمے امن اور بھائی چارے کی فضاء کو بحال رکھے ہوئے ہیں۔مولانا عطاء اللہ شاہ شہیدؒ جو بے ضرر انسان تھے اور مدرسے میں قرآن و حدیث کا درس دیتے تھےان کی شہادت بڑا سانحہ ہے جسے ڈی آئی خان کے ہرمکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے عوام نے درد شدت سے محسوس کیا ہے ۔اور یہ واقعات ڈیر ہ کے تمام شہر یو ں کو چیک پوسٹو ں پر تلاشی دینے کے باوجود ایسے واقعات کا ہونا سیکورٹی اداروں کی واضح ناکامی ہے مولانا کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ ظلم اور دہشتگردی کا نشانہ علماء اکابرین اور مذہبی افراد بن رہے ہیں اور حکومت کی جانب سے کسی قسم کا تحفظ اور امداد تک میسر نہیں۔
مستونگ میں دہشتگردی کا نشانہ بننے والوں کو حکومتی امدادتک نہیں ملی اس کے باوجود پر امن مذہبی افراد کے ساتھ حکومت اور بیروکریسی کا رویہ قابل افسوس ہے ملک میں دہشتگردی کے خلاف اور قیام امن کی جدوجہد میں مذہبی طبقہ اور دینی مدارس کا اہم کردار حکومت کو اس کا اعتراف کرنا ہوگا ۔بین الاقوامی حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکہ کی جانب سے نئی پالیسی کی بدولت پاکستان دورائے پر آن کھڑا ہے اس پر آرمی چیف کا بیان حوصلہ افزا ہے ۔اب 2001کے حالات نہیں ہیں مشرف کی طرح امریکہ کے آگے دوزانوں ہوجانا قوم کو دلدل میں دھکیلنے کے مترادف ہوگا۔امریکہ افغانستان میں شکست تسلیم کرنے کے بجائے افغانستان میں مذید فوج بھیج کر اپنی کامیابی کا زریعہ نہیں بنا سکتا۔مولانا نے ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس کی جانب سے معززین کو اپنی حفاظت کیلئے اسلحہ اور سیکورٹی گارڈ رکھنے کی ہدایت پر تبصرہ کرتےہوئے کہا کہ پولیس اپنی زمہ داریوں سے پیچھے ہٹ رہی ہے اگرشہریوں کا تحفظ پولیس اور انتظامیہ جو ان کی ز مہ داری بنتی ہے نہیں کرسکتی اور تھانوں کے گیٹ بند کرکے بیٹھی رہے گی تو کہیں ان کی حفاظت کی ذمہ داری بھی عوام کو انجام نہ دینی پڑے اس لئےانتظامیہ اور پولیس عوام کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانے میں اپنے فرائض کو سمجھیں اور عوام کا اعتماد بحال کریں۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب