قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن کا کراچی میں حرمت سود سیمینار سے خطاب تحریری صورت میں 30 نومبر 2022
خطبہ مسنونہ کے بعد
امیر مجلس جناب مفتی تقی عثمانی صاحب دامت براتہم العالیہ، ہمارے نہایت قابل احترام جناب اسحاق ڈار صاحب وفاقی وزیر خزانہ پاکستان، سٹیج پر موجود اکابرین امت اور پاکستان کے بزنس کمیونٹی کے انتہائی محترم اور ذمہ دار شرکاء! آج کا یہ سیمینار جس موضوع پر منعقد کیا گیا ہے اِس ضرورت کے تحت کے جب وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خاتمے اور سود سے پاک معشیت وہ ملک میں نافذ العمل کرنے کا فیصلہ صادر کیا، میں نے وزیراعظم پاکستان سے اِس حوالے سے گفتگو کی، اور سٹیٹ بینک اف پاکستان اور نیشنل بینک اف پاکستان جو حکومت کے زیر انتظام ہوتی ہے اُن کی طرف سے داٸر کردہ اپیلوں کو واپس لینے کے لیے مطالبہ کیا، میں حکومت کے اِس فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں اور جناب اسحاق ڈار صاحب نے پریس کانفرنس میں اپیلیں واپس لینے کا اعلان کیا تو مجھے اِس بات پر خوشی بھی ہے اور شکر گزار بھی ہوں وہ پریس کانفرنس سے سیدھے میرے غریب خانے پر تشریف لے اٸے بمعہ گلدستے کے اور بجاٸے اِس کے کہ میں اسے مبارک باد دیتا اُس نے مجھے مبارک باد دی، اور پھر اپنے الفاظ میں میڈیا سے بات کی کہ ہم اللّٰہ اور اُس کے رسول کے ساتھ جنگ کے متحمل نہیں ہے آج ہم اِس جنگ کا خاتمہ کرتے ہیں اور اللّٰہ اور رسول کے سامنے سرنِگوں ہونے کا اعلان کرتے ہیں ۔
میں سمجھتا ہوں کہ اِس اعلان سے ایک حوصلہ افزاٸی ہوٸی اور ایک امید بھر اٸی اور بقول مولانا ذاھد الرضوی صاحب کے کہ حکومت ٹریک پہ اگٸی ہے، اب ٹریک پے انے کے بعد اُس کو چلانا بھی تو ہے ، یہ جو آج کا سیمنار ہے یہ در حقیقت حکومت کو اب اگے چلانے کے لیے قومی و اجتماعی طور پر ہم نے اُس کے لیے ایک محنت کرنی ہے، اسی لیے ایک تجویز تو یہ کہ صرف علماء کرام ہو تمام مکاتب فکر کے ہو، تو علماٸے کرام تو اول دن سے قرآن و سنت کے حوالے سے جو راٸے رکھتے ہیں اُس میں نہ کوٸی تردد ہے نہ کوٸی ابہام ہے کہ پاکستان کی بزنس کمیونٹی، کاروباری طبقہ، تاجر برادری وہ بھی اِس سیمنار کا بنیادی حصہ بنے اور اُن کی طرف سے بھی ایک میسج جاٸے کہ یہ مسٸلہ صرف مذہبی لوگوں کا نہیں بلکہ بحیثیت مسلمان پوری قوم کا مسٸلہ ہے پاکستان کا مسٸلہ ہے اور ایک اسلامی ریاست کا مسٸلہ ہے ۔
الحَمْدُ ِلله آج کی یہ تقریبا اِس حوالے سے ایک کاوش ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو شکرگزار ہونا چاہیے، اسحاق ڈار صاحب کو شکرگزار ہونا چاہیے کہ قوم ایسے اقدامات میں حکومت کو کس طرح سپورٹ دینے اور اُن کو طاقتور بنانے اور اُن کو ہمت دلانے میں دلچسپی رکھتی ہے ۔
تو میرے محترم دوستو! بہر حال یہاں ذکر کیا گیا اور جب سٹیٹ بینک کے قیام کا افتتاحی جلسہ تھا اور جس میں قاٸداعظم محمد علی جناح کے تقریر کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ انہوں نے ملکی معشیت کو اسلامی تعلیمات پر مبنی رکھنے کی بات کی اور مغرب کے طرز معشیت کو انسانيت کے مشکلات کا سبب قرار دیا، سو آج ہم سمجھتے ہیں تاخير سے سہی لیکن پاکستان کی بنیاد اور اساس سٹیٹ بینک کی بنیاد اور اساس میں اِن اکابرین کی جو ارا ہے ہمیں قرآن و سنت کے روشنی میں بھی اور بانی پاکستان کے فکر کی روشنی میں بھی اِس طرف موثر اقدامات کے لیے ہمیں اگے بڑھنا ہوگا ۔
تواِس حوالے سے ہمارے ملک میں مشکل یہ ہے کہ جب ہم حکومت میں اتے ہیں تو حکومت میں انے کا مطلب جیسے ہم نے منزل حاصل کرلی، میں اپنی سیاسی زندگی کی تجربات کے بنیاد پر بڑے شرح صدر کے ساتھ یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ پارلیمانی سیاست میں اقتدار میں انا منزل نہیں ہے یہ بھی منزل کی طرف اگے بڑھنے کا ایک حصہ ہوا کرتا ہے، حکومت میں آپ اٸے، اب اِس وقت کا آپ کا جو حکومتی اثر رسوخ ہے اور وہ وسائل ہیں آپ کس قدر اپنے مقصد کی طرف اگے بڑھنے کے لیے اُس کو استعمال کرسکتے ہیں، پھر ظاہر ہے کچھ پتہ نہیں اگلی حکومت کس کی اتی ہے وہ کیا تبدیلیاں لاتی ہے، لیکن کچھ پالیسیاں جب آپ موثر انداز کے ساتھ نافذ کرتے ہیں وہ جگہ پکڑتی ہیں اور اٸندہ حکومتيں بھی اُن کو تسلسل دینے پر مجبور ہوجاتی ہیں حالانکہ ہم نے دیکھا ہے اتنے بڑے بڑے پراجیکٹس، اتنے اہم قوانین لیکن ایک ایسی گورنمنٹ اتی ہے کہ جس کے نزدیک اُن پالیسیوں کا اُن قانون سازیوں کی کوٸی اہمیت نہیں ہوتی یا فکری طور پر اُس کی مخالف ہوتی ہے اُن کو خاموش کردیتے ہیں، منجمد کردیتی ہیں ۔
ہم آج اِس لیے بیٹھے ہیں کہ کوٸی فیصلہ اگر اتا ہے اور وہ اٸین، قانون اور شریعت کا تقاضا ہے ایک مسلمان قوم کی حیثیت سے ہمارے اعتقادات کا تقاضا ہے کہ وہ جمود اور انجماد کا شکار نہ ہو، اسے ہم نے تسلسل دینا ہے، اسے ہم نے اگے بڑھانا ہے، میں تو سمجھتا ہوں کہ ہمارا اٸین اِس حوالے سے بڑا واضح ہے ایک پارٹی ایک فرد ہوسکتا ہے اگر وہ کہے کہ عوام کی حاکمیت وہ بھلا اپنی بات کرے، لیکن میری ریاست کیا کہتی ہے، ریاست کی زبان میرا اٸین ہے، اٸین کہتا ہے اللّٰہ رب العالمین کی حاکمیت ہوگی، لہذا ہم ریاست کی زبان میں بات کریں گے، ہم کسی پارٹی یا گروہ کی زبان میں بات کریں گے، ہمارے لیے ریاست کی زبان حجت ہے، ہمارے لیے اٸین کی زبان کی حجت ہے اور جب میرا اٸین کہتا ہے کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا تو پھر یہ پاکستان کے اٸین کی بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے اور پاکستان کے اٸین کا جو بنیادی سٹرکچر ہے اگر اُس کا ایک فیلر بھی گرتا ہے تو اٸین گر جاتا ہے اور آپ از سر نو ایک اٸین ساز اسمبلی بنانے پر مجبور ہوں گے، ہم اِس حد تک اِس کو اہمیت دیتے ہیں پھر ہمارا اٸین کہتا ہے کہ قرآن و سنت کے منافی کوٸی قانون نہیں بنے گا اور یہ کہ تمام قوانين قرآن و سنت کے تابع ہوں گے، سو فنانشل بل جو ہر سال ہم پاس کرتے ہیں سن ترہتر کے اٸین بن جانے کے بعد سارے بجٹ سود پہ مبنی ہوتے ہیں، ہمارے سارے فنانشل بل سود پہ مبنی ہوتے ہیں، اور یہ ملک کی اٸین کی، اُس کے نظریے کی اور اُس کے عقیدے کی بہت بڑی واٸولیشن ہے، اب ہم ٹریک پہ اٸے ہیں، ہماری کوشش ہوگی کہ اب ہم موثر اقدامات کے ساتھ اگے بڑھیں، آپ کا یہ اجتماع اُن موثر اقدامات کے لیے رہنمائی کرنے کو ہے، اُس کے لیے تجاویز دینے کو ہے اور جہاں اِس سٹیج پر قراردادیں پیش ہوٸی ہیں اور جو گفتگو ہوٸی ہے وہ ان شاء اللّٰہ حکومت کے لیے رہنمائی کا کام دیں گی، مجھے بار بار اشارہ کیا جاتا ہے آپ حکومت میں ہے،ہے اِن سب کو تجربہ ہے اور میری بھی جو پینتیس چالیس سالہ تجربہ ہے حکومت میں ہونے کا معنی یہ نہیں ہے کہ میری پارٹی نے یا میں نے اپنے نظریے کو تحلیل کردیا ہے، ہم حکومت میں رہتے ہوٸے اگر کوٸی نظریاتی مسٸلہ اتا ہے اپنے حکومت کے ساتھ بگڑ جاتے ہیں اور اُن کو مجبور کرتے ہیں کہ نہیں آپ کا یہ اقدام اگر غلط ہے تو اصلاح کی طرف انا چاہیے ۔
تو میں سوچتا ہوں کہ ہمارے وزیر خزانہ ایک طویل عرصہ ملک سے باہر رہے ہیں، جلا وطنی کی زندگی گزاری ہے اور آپ یقین جانیے کہ جب ہمارے ملک کی معشیت زمین بوس ہوگٸی تھی اور ہم بلیک لسٹ ہونے کے کنارے کھڑے تھے ، دیوالیہ ہونے کے کنارے کھڑے تھے تو یہ وہ پہلا شخص ہے جس کے بارے میں میری یہ سوچ ہوگٸی کہ پہلی بار ریاست کو ایک بندے کی ضرورت پڑگٸی ہے، اور ریاست کو انتظامات کرنے پڑے، اسحاق ڈار صاحب اٸے اور ملک کی معشیت کو سنبھالے، اور جونہی وہ اٸیرپورٹ پر اترے ایک دم سے ڈالر بارہ پندرہ روپے گرگیا، ہمارا سٹاک ایکسچینج اوپر کو اٹھا، لیکن بہرحال ایک ایسی دلدل میں ہم پھنسے ہوٸے ہیں کہ اُس دلدل سے نکلنا کوٸی اسان کام نہیں، جہاں باٸیس پچیس ارب ڈالر کا ہمارا ریزرو تھا، آج ہم سوچتے ہیں کہ اگلے ایک دو مہینے ہم تنخواہیں کیسے دیں گے، اِس ساری مشکل میں کچھ مثبت اقدامات جس کا یقیناً ذکر وزیر خزانہ کریں گے کہ ہم گرین لسٹ کے اخری کنارے پر تھے اور بلیک لسٹ کے کنارے پہنچ گٸے تھے اُن سے واپس ہم واٸٹ لسٹ پر انے میں کامیاب ہوگٸے اور پاکستان اِس وقت واٸٹ لسٹ کے سٹیٹس میں شمار ہونے لگا ہے ۔
تو اِس اعتبار سے یہ ساری چیزیں ہمارے لیے مثبت اشارات ہیں میں معشیت کا ماہر تو نہیں ہوں اور نہ ہی اِس حوالے سے میں کوٸی دعویٰ رکھتا ہوں لیکن اتنا ضرور ہے کہ متمدن دنیا میں ریاستوں کے بقا کا مدار معشیت پر ہوتا ہے، دفاعی قوت ثانوی حیثیت رکھتی ہے، ہاں جب قباٸلی زمانے تھے تو دفاعی قوت پہلی حیثیت رکھتی تھی معاشی قوت ثانوی حیثیت رکھتی تھی، امن ہو اور معشیت ہو یہ دو بنیادی چیزیں ریاست کی ذمہ داریوں میں سے ہیں، قرآن کریم نے مملکتی اور ریاستی زندگی میں دو ہی باتوں کا ذکر کیا ہے ایک امن اور ایک معشیت، قرآن کریم کے ایات کا ترجمہ ”جب ابادیوں نے اللّٰہ کے نعمتوں کا کفران کیا تو پھر اللّٰہ نے اُن کو دو مصیبتوں میں مبتلا کردیا خوف اور بدامنی اور بھوک و افلاس“ آج ہم اِن دو ہی چیزوں سے گزر رہے ہیں، ہم نے اپنے مستقبل کو سنوارنا ہے انسانی حقوق کا تحفظ، امن و اشتی اور خوشحال معشیت یہ دو ہمارے گولز ہیں، اسے ہم نے حاصل کرنا ہے اور اِس کے لیے ہم نے اگے بڑھنا ہے ۔
میں مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ اِس حوالے سے انہوں نے قاٸدانہ کردار ادا کیا اور میں ایک طویل زمانے سے اِن کے ساتھ وابستہ ہوں جب سرکار کے ماحول ہمیں سود سے پاک معشیت نہیں مل رہی تھی اور ہمارے بینکوں کا نظام سود سے اٹا ہوا تھا تو آپ ہی نے پراٸیوٹ سیکٹر میں اسلامی بینکاری کا اغاز کیا تھا اور یہ کہ ہم سرکار پر کیوں انحصار کریں ہم پراٸیویٹ سیکٹر میں بھی ایک ایسا نظام پبلک کو دے سکتے ہیں کہ جہاں لوگ پیسہ رکھے لوگ قرضیں لیں اور واپس کریں اور بغیر سود کے کریں اور بغیر سود کے لوگوں کے ساتھ کاروبار کرے، تو یہ اچھی کاوش تھی جو آج ایک نٸے سٹیج پہ پہنچی ہے اِس کو اگے ابھی ہم نے بڑھانا ہے، اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اِس کی توفیق عطا فرماٸے اور اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اِس میں کامیابی عطا فرماٸے ۔
وٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو اٸی سوات