کراچی:
مرکزی سیکرٹری جنرل ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے ،اور اسی نام پر اس کی بقا ء ہے اسلام ہی وہ واحد نعرہ اور مقصد ہے جو ہمیں ایک قوم کے طور پر جوڑ کے رکھےہوا ہے،اگر نعرے اور مقصد سے ہٹ جائیں تو پھر مختلف جغرافیائی ،لسانی، گروہ اپنے اپنے نعرے بلند کریں گے جو ملکی سالمیت کے لئے خوفناک ہے۔یوم آزادی کے موقع پر ہمیں قیام پاکستان کے مقصد اور جدو جہد آزادی میں قربانی دینے والے علماء اور مذہبی طبقے کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔اس وقت پاکستان کافی مشکل حالات سے گزر رہا ہے ہمارے دشمن ہم پر نظریں جمائے ہوئے ہیں اور وہ موقع کی تلاش میں ہیں اور بدقسمتی سے ہم انتشار اور ذاتی مفادات میں الجھے ہوئے ہیں ، تمام اداروں کو آئین کے اندر رہتے ہوئے اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہونگی، جو ہم سب کے حقوق کی ضامن ہیں ۔ان خیالات کا اظہا ر انہوں نے گزشتہ شب کلفٹن کے مقامی ہال میں جمعیت علماء اسلام سندھ بزنس فورم کے زیراہتمام یوم آزادی کی مناسبت سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔تقریب میں تاجر برادری سے تعلق رکھنے والے مختلف نمائندوں نے جمعیت علماء اسلام میں شمولیت کا اعلان بھی کیا۔ جبکہ تقریب سے جمعیت علماء اسلام کےمرکزی رہنما محمداسلم غوری ،صوبائی رہنماء مولانا راشد خالدمحمود سومرو، قاری محمد عثمان ، مولانا عبدالکریم عابد ، بابر قمر عالم اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ پاکستان کی جدو جہد آزادی چند سال پر مشتمل نہیں اس کے لئے 2 سو سال تک اس خطے کے مسلمانوں نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان کے لئے ہزاروں والدین نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی اولاد کو کٹتے ہوئے دیکھا ہے۔سولیوں پر لٹک گئے ،ہزاروں ماؤں بہنوں کی دشمن نے عصمت دری کی ،لاکھوں لوگوں نے جان اور مال کی قربانی دی۔ پاکستان ایک طویل جدوجہد اور بے پناہ قربانیوں کا نتیجہ ہے ان قربانیوں کو اہل کراچی سے بہتر کون جان سکتا ہے جن کے آباؤ اجداد براہ راست ان قربانیوں میں شامل تھے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قیام کا بنیادی مقصد اسلامی اور فلاحی ریاست کا قیام تھا ہم نے آزادی تو حاصل کر لی لیکن جس ریاست کے لئے قربانی دی تھی۔ اب اس حقیقی ریاست کے لئے جدو جہد کرناہے اسلام اور پاکستان جڑے ہوئے ہیں۔دنیا کی کوئی قوت ان کو جدا نہیں کرسکتی ہے۔ اسلامی ورثہ ہی وہ واحد مقصد اور نظریہ ہے جس نےہم سب کو جوڑ کے رکھا ہواہے ورنہ ہم مختلف قومیتوں میں تقسیم ہوجاتے۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ اسلام کے علاوہ کوئی ایسا نظریہ اور مقصد نہیں جو ہمیں جوڑے رکھے ،اس لئے ہم کہتے ہیں کہ اس ملک کے قیام کا مقصد اسلامی فلاحی ریاست اور اسی میں اس کی بقاء ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے اس وقت افسوس ہوتا ہے جب ہم یوم آ زادی یا دیگر مواقع پر اصل قربانی دینے والوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور ہمارا ذکر چند شخصیات تک محدود رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت
پاکستان کافی مشکل حالات سے گزر رہا ہے ہمارے دشمن ہم پر نظریں جمائے ہوئے ہیں اور وہ موقع کی تلاش میں ہیں بدقسمتی سے ہم انتشار اور ذاتی مفادات میں الجھے ہوئے ہیں یہ وقت ذاتی سیاست اور مفادات سے اوپر اٹھ کر ملک کی سلامتی اور بقاء اس کی معاشی ترقی ،امن و امان ،عوامی مسائل کے حل اور نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت پر توجہ مرکوز کرنے کا ہے۔ڈپٹی چیئرمین سینٹ نے کہا کہ تمام اداروں کو آئین کے اندر رہتے ہوئے اپنی اپنی زمہ داریاں پوری کرناہونگی آئین پاکستان بنیادی طور پر اس ملک میں بسنے والی مختلف قومیتیوں اداروں اور طبقوں کے درمیان ایک ایسا معاہدہ ہے جو ہم سب کے حقوق کا ضامن ہے ، ہم سب کو اسی کے مطابق اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے جمعیت علماء اسلام سندھ بزنس فورم کے بابر قمر عالم اور نئے شامل ہونے والے تاجروں کو مبارک باد بھی پیش کی۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب