اسلام آباد:
جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے جامعہ محمدیہ اسلام آباد میں یوم آزادی کی مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے کہا کہ قیام پاکستان میں علماء کاکردار روز روشن کی طرح واضح ہے
دینی مدارس کے علماء وطلباء ملک کی نظریاتی وجغرافیائی سرحدات کے محافظ ہیں۔
بھارت نے اگر غلطی کی تو یہ جنگ ہندوستان کی سرزمین پہ لڑی جائیگی اور دینی مدارس کے علماء وطلباء اپنے فوج کے شانہ بشانہ ہونگے ، ملک پہ برسر اقتدار قوتیں اپنے آپ کو محب وطن بھی کہتی ہیں اور ملک کو لوٹتے بھی ہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ ہم سب سے زیادہ محب وطن ہیں
آئین اس لیئے نہیں بنا کہ اسے غلاف میں چھپادیا جائے بلکہ ہمارے بزرگوں نے ہمیں آئین اس لیئے دیا کہ اس پہ عمل کرکے ملک وقوم کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنائیں ، سیکولر قوتیں 62 اور 63 کی اس لیئے مخالفت کررہی ہیں
تاکہ اس کو آئین سے نکال دیا جائے 73 کا آئین ہی اس قوم وملک کی بقاء ہے
دینی مدارس کے حب الوطنی پرشک کیا جارہا ہے حالانکہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک علماء وطلباء کی قربانیاں سب سے زیادہ ہیں ،نئی نسل کو پاکستان کے قیام اور اس نتیجے میں ہونے والی قربانیوں کی حقیقی تاریخ بتائی جائے تاکہ ہمارے آج کا نوجوان ستر سال کی عمر میں پہنچ کر کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان کے بارے میں کچھ نہ جانتا ہو ۔
اس موقع پہ ایم این اے اعجاز الحق ، مولانا تنویر علوی ودیگر علماء خطباء اسلامی سکالرز موجود تھے ۔ انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان میں علماء کی قربانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا علماء آئین کے محافظ ہیںورگرنہ سیکولر قوتیں آئین کو ختم کرنا چاہتی ہیں ، آزادی کا اصل مقصد یہی ہے کہ ہم اپنے مساجد اور مدارس میں اس دن کو منائیں اپنے بہترین مستقبل کے بارے میں سوچیں کہ کیسے اس ملک کو ہم نے ترقی کی شاہراہ پہ گامزن کرنا ہے ، انہوں نے کہا کہ ملک ایک نظریہ کی بنیاد پہ حاصل کیا گیاتھا مگر آج کہاں ہے وہ نظریہ؟
ہم کلمہ طیبہ کے نام پہ بننے والے ملک میں اسلامی دفعات کی حفاظت کررہے ہیں کیا یہ اس قوم کے ساتھ مذاق نہیں؟
انہوں نے کہا کہ ملک کو ترقی کے راہ پہ گامزن کرنے کی ضرورت ہے۔
سی پیک منصوبہ سے ملک ترقی کی نئی شاہراہ پہ کھڑاہوگا۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب