جب ہم ترقی کے نئے سفر پر چل پڑے ہیں تو آج ہمیں ان بحرانوں کا شکار بنایا جارہا ہے ایسے حالات سے باہر نکلنا ہوگا.مولانا فضل الرحمان

اسلام آباد:
قائد جمعیت مولانافضل الرحمان دامت برکاتہم نے کہا ہے کہ ہمارا ماحول جس اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے ہم ایک دوسرے کو ننگا کرنے پر آگئے ہیں ، ہمارا کردار ایک گری ہوئی قوم کا ہے،پاناما براعظم امریکہ کا مسئلہ تھا لیکن پاکستان اور اس کی پوری سیاست پاناما کی نذر ہوگئی،کوئی سیاست دان اس وقت تک ملکی خزانہ نہیں لوٹ سکتا جب تک اس کو ملکی اسٹیبلشمنٹ اور بیورکریسی کی حمایت حاصل نہ ہو ، جب ہم سی پیک کی صورت میں چین کی اقتصادی پالیسی کے فروغ کیلئے پہلا زینہ بنیں گے تو نشانے پر ضرور آئیں گے ، جن سیاستدانوں سے آج آپ نالاں ہیں اور سوچتے ہیں کہ ان کوسیاست کا حصہ نہیں ہونا چاہیے تو ان کو تو آپ ہی لائے اور آپ ہی نے ان کو متعارف کرایا، بھارت چین اور پاکستان کے ساتھ جنگ کرکے عدم استحکام اور ترقی کے منصوبوں کو ناکام بنانا چاہتا ہے،کشمیریوں کی تحریک ضرور کامیاب ہو گی، ایک مدرسے پر دبائو اور تالہ لگانے سے دہشتگردی ختم نہیں ہوتی، یہ سیاست نہیں چلے گی ہمیں اپنی پالیسیوں کو درست سمت دینا ہوگی،سعودی عرب ہر مسلمان کیلئے گھر محسوس ہوتا ہے سعودی عرب دیار غیر نہیں دیار حبیب ہے ۔ان خیالات کا اظہارمولانافضل الرحمان نے جمعیت علماء اسلام سعودی عرب کے زیر اہتمام جے یو آئی کے 100سال مکمل ہونے پر ہونے والے کامیاب اجتماع کے حوالے سے استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ استقبالیہ سے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولاناعبدالغفور حیدری نے بھی خطاب کیا ۔ مولانافضل الرحمان نے کہا کہ اس وقت اسلامی دنیا میں ایک دوسرے کو فتح کرنے کیلئے توانائیاں صرف کی جارہی ہیں ۔ اسلامی دنیا کی سرحدات ایک دوسرے کیلئے کب ختم ہوں گی ۔ ہماری اخوت کہاں چلی گئی ہے آج بھارت اپنی ساری توانائیاں پاکستان کو کمزور کرنے پر صرف کررہا ہے اور پاکستان افغانستان کو کنٹرول کرنے کیلئے توانائیاں لگا رہا ہے اور دوسری طرف ہمارے ملک میں میڈیا کے ذریعے ایسا ماحول بنا لیا جاتا ہے کہ اصل بات فضاء میں اڑ جاتی ہے آج ہمارے ملک میں کرپشن کا ہنگامہ ہے اس نے لوٹا اس نے لوٹا چور چور کی آوازیں ہیں ۔ عوام منتخب نمائندے ایک دوسرے کو کرپٹ کہہ رہے ہیں اس سے کونسا سیاسی کلچر تخلیق ہورہا ہے اب دو چار روز سے ہمارا ماحول جس اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے اور ایک دوسرے کو ننگا کرنے پر آگئے ہیں کہیں مالیاتی اور کہیں اخلاقی کرپشن کی بات ہورہی ہے اس وقت ہمارا کردار ایک گری ہوئی قوم کا کردار ہے ۔ یہ سب کچھ ایک دم نہیں ہوا بلکہ اسکی آبیاری بین الاقوامی سطح پر ہورہی ہے ۔ پاناما براعظم امریکہ کا مسئلہ تھا اس نے کس طرح ہمیں دبوچ لیا کہ پاکستان اور اس کی پوری سیاست پاناما کی نذر ہوگئی ۔ انہوںنے کہا کہ مجھے کیا ضرورت ہے کہ کرپشن کی حمایت کروں میرا معاملہ تو صاف ہے لیکن کوئی سیاست دان اس وقت تک ملکی خزانہ نہیں لوٹ سکتا جب تک اس کو ملکی اسٹیبلشمنٹ اور بیورکریسی کی حمایت حاصل نہ ہو ۔ جیسے شکار کیلئے خود ہی جال لگایا جاتا ہے اور شکار پھنسنے کے بعد خود ہی اسے کھول دیا جاتا ہے یہ ساری چیزیں ہمارے ملک میں ہورہی ہیں پرویز مشرف کے زمانے میں پارلیمنٹ میں یہ سوال آیا تھا کہ بتایا جائے نیب کے تحت کس کس سے کتنے پیسے واپس لیئے گئے توسب سے زیادہ فوجیوں پھر بیوروکریٹس اور آخر میں سیاستدانوں کا نام آیا کچھ بیماریوں تو ہمارے اندربھی ہیں ایک ادارہ دوسرے ادارے کو کمزور کرنے کیلئے کام کرتا ہے اگر ہم مضبوط نہیںہوں گے تو ایک دوسرے کو سہارا کس طرح دیں گے ۔ جب عالمی ایجنڈے کے تحت دنیا میں توڑ پھوڑ کی جاتی ہے تو سب سے پہلے اندرونی عدم استحکام پیدا کیا جاتا ہے اور پھر ایسے عنوانات سامنے لائے جاتے ہیں کہ عوام اس میں گم ہوجائے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ درخواست عدالت میں گئی اور فیصلہ ہوگیا حالانکہ ایسا نہیںہوتا ۔ انہوںنے کہا کہ عدم استحکام کا آغاز افغانستان میں غیر ملکی فوجیوں کی موجودگی سے ہوا ۔ دوسری قسط میں عراق اور مشرق وسطی پر حملہ کردیا گیا ۔ اب عرب دنیا کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اسرائیل کی بالا دستی کو تسلیم کرے ۔ جب پاکستان ایک نئی دنیا میں جانا چاہتا ہے ہم سی پیک کی صورت میں چین کی اقتصادی پالیسی کے فروغ کیلئے پہلا زینہ بنیں گے تو نشانے پر ضرور آئیں گے ۔ حکومت کے مسئلے کو صرف ایک کیس کی شکل میں نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ یہ تو 2+2=4کی طرح واضح نظر آرہا ہے کہ ملک میں شوروغول بظاہر داخلی ہے لیکن اصل مسئلہ باہر سے ہے جو پاکستان کو خلفشار کا شکار کرکے اس کے ساتھ عراق و افغانستان کا سلوک کرنا چاہتے ہیں ۔ قوم اس مسئلے کو سمجھے میں قوم کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں ،مقننہ ،عدلیہ ،ایگزیکٹیو اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ کوئی ادارہ یہ مت سوچے کہ طاقت کی بنیاد پر اپنا فیصلہ ماننے پر مجبور کردوں گاملک ایسے نہیں چلتے ۔ کمزور سمجھنے کی بجائے اعتماد دلانے کی ضرورت ہے ۔ انہوںنے کہا کہ جس نئے سفر کا آغاز کررہے ہیں اگلے 10-15سال تک ناخن برابر بھی غلطی کی گنجائش نہیں ہے لیکن ہم نے غلطیوں کا آغاز کردیا ہے ۔ ملک کے اندر وحدت اور باہمی اعتماد کی ضرورت ہے ۔ مولانانے کہا کہ جن سیاستدانوں سے آج آپ نالاں ہیں اور سوچتے ہیں کہ ان کو ملک کی سیاست کا حصہ نہیں ہونا چاہیے تو ان کو تو آپ ہی لائے اور آپ ہی نے ان کو متعارف کرایا ۔ یہ کھیل ختم ہونا چاہیے صاف ستھری سنجیدہ سیاست ہونی چاہیے جب ہم ترقی کے نئے سفر پر چل پڑے ہیں تو آج ہمیں ان بحرانوں کا شکار بنایا جارہا ہے ایسے حالات سے باہر نکلنا ہوگا۔ انہوںنے کہا کہ جمعیت علماءاسلام ملک کے آئین ،پارلیمنٹ اور جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہے چند روز سے میڈیا پر جس قسم کے مباحث چل رہے ہیں شرافت اس کی اجازت نہیں دیتی اب ایک نئی فضاء شروع کی جارہی ہے کہ ڈکٹیٹر شپ جمہوریت سے بہتر ہے اور بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر ہمارے بعض مولوی حضرات بھی اس قسم کی پوسٹیں چڑھا رہے ہیں ۔ مشرف نے آج ایک نئی جنگ شروع کردی ہے کہ ڈکٹیٹر نے ملک کو بچایا اور سیاستدانوں نے اس کو بگاڑا۔ میں کہتا ہوں کہ آپ وہ لوگ ہیں جنہوںنے سیاستدانوں اور ملٹری کے درمیان جھگڑے کو ختم نہیں ہونے دیا ۔ سب نے آئین کی پاسداری کی قسم کھائی ہے اگر پاسداری کرنی ہے تو آئین ک مطابق چلو۔اسی وزیراعظم کو پہلے صدر نے پھر آرمی چیف نے اور پھر سپریم کورٹ نے چلتا کردیا ۔ جتنے طاقتور دفتر تھے سب نے ایک ہی شخص پر تجربے کئے اب سب تجربے مکمل ہوچکے ہیں ۔ ہمیں اسے بھونچال سے نکل کر ملک کو درست سمت دینی ہوگی لیکن ہم تو ایک دوسرے کی حیاء اور ناموس چھین رہے ہیں ۔ یہاں پر فحاشی بھی کی جاتی ہے اور مزے لے کر اس کو میڈیا پر چڑھایا جاتا ہے ہمیںیہ سب کچھ نہیں چاہیے ۔ کسی کی عزت و ناموس سے سرعام کھیلنا اب عیب کی بات ہی نہیں رہی ہم نے اس کو کتنا آسان سمجھ لیا ہے میڈیا اس بات میں مصروف ہے کہ ان کیلئے خبر ہے اور جب خبر ہے تو پھر خبر ہے ۔ انہوںنے کہا کہ آج کشمیری آزادی کیلئے لڑ رہے ہیں ان کی جدوجہد اس حق کیلئے ہے جو ان کو اقوام عالم ،اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل نے دیا ہے ۔ آج ان کی قربانیوں کے ساتھ مذاق کیا جارہا ہے کشمیر میں بھارت کی اشتعال انگیزی خطے میں اشتعال پھیلانے کیلئے ہے ۔ بھارت جنگیں چھیڑنا چاہتا ہے وہ چاہتا ہے کہ چین اور پاکستان کے ساتھ جنگ کرکے عدم استحکام اور ترقی کے منصوبوں کو ناکام بنایا جاسکے ۔ کشمیریوں کی جدوجہد ایک تحریک ہے تحریکیں رکتی نہیں ہیں ان میں اتار چڑھائوآتا رہتا ہے کشمیریوں کی تحریک آگے بڑھتی رہے گی ۔ دنیا بھارت و اسرائیل کی بالا دستی کو قبول نہیں کرے گی ۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردتنظیمیں اب بھی دنیا میںموجود ہیں ان کو منظم کیا جارہا ہے قوم کو اس سے آگاہ کیا جائے کیوں چھپا رہے ہو ۔ ایک مدرسے پر دبائو اور تالہ لگانے سے دہشتگردی ختم نہیں ہوتی ۔ جہاں دہشتگردی کے اڈے اور مراکز بنے ہیں وہاں جائو۔امن کی درسگاہوں کو امت کے سامنے خطرناک بنا کر کیوں پیش کیا جارہا ہے یہ سیاست نہیں چلے گی ہمیں اپنی پالیسیوں کو درست سمت دینا ہوگی ۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولاناعبدالغفور حیدری نے کہا کہ ملک کے حالات سب کے سامنے ہیں آئے روز وزیراعظم تبدیل ہورہے ہیں ادارے ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کررہے ہیں اس مداخلت نے ملک کو عدم استحکام کا شکار کردیا ہے پارلیمنٹ کا کام قانون سازی کرنا عدلیہ کا کام اس قانون کی روشنی میں فیصلے کرنا اور انتظامیہ کا کام فیصلوں پر عملدرآمد کرنا ہوتا ہے لیکن معاملہ یہاں بالکل الٹ ہے ادارے ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت اور اپنی اپنی تشریح کرکے ان قوانین کا بیڑہ غرق کردیتے ہیں اسی مداخلت کی وجہ سے آج تک ملک نے سیاسی و معاشی استحکام پیدا نہیں ہوسکا ۔ دہشتگردی بھی ایک طرح سے مصنوعی لگتی ہے یہ ساری چیزیں قابل غور ہیں لوگوں نے قرضے معاف کرائے آف شور کمپنیاں سامنے آئیں لیکن ہم نے بھی حکومتیں کی ہیں اسی ماحول میں رہتے ہیں ہمارے کسی فرد پر اس طرح کا کوئی الزام نہیں ہے ۔ دیانتدار قیادت کو روکا جارہا ہے اور ایسے بدیانت لوگ سامنے لائے جاتے ہیں جن کو بلیک میل کیا جاسکے ۔