قرضہ معافی ہو آف شور کمپنیاں ہوں قومی دولت کی لوٹ مار اور بیرون ملک منتقلی ہو کہیں دینی جماعتوں کا نام نہیں آتا،کرپشن سے پاک قیادت کو روکا جا رہا ہے، نا دیدہ قوتیں راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں
، ایسے کرپٹ لوگوں کو لایا جاتا ہے جنہیں بلیک میل کیا جاسکاہے اور جب چاہے انہیں نکال دیا جائے، دینی جماعتوں کو صاف ستھری قیادت کےلئے اکثریت حاصل کرناہو گی، تا کہ حکومت بن سکے
) ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کاجمعیت علماءاسلام سعودی عرب کے استقبالیہ سے خطاب
اسلام آباد:
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولاناعبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ اداروں کی مداخلت نے پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام نہیں آنے دیا،دو صوبوں میں ہم نے حکومتیں کیں مگرہر دورمیں دامن بچا کر چلے قرضہ معافی ہو آف شور کمپنیاں ہوں قومی دولت کی لوٹ مار اور بیرون ملک منتقلی ہو کہیں دینی جماعتوں کا نام نہیں آتا کرپشن سے پاک قیادت کو روکا جا رہا ہے، نا دیدہ قوتیں راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں ، ایسے کرپٹ لوگوں کو لایا جاتا ہے جنہیں بلیک میل کیا جاسکاہے اور جب چاہے انہیں نکال دیا جائے، دینی جماعتوں کو صاف ستھری قیادت کےلئے اکثریت حاصل کرناہو گی، تا کہ حکومت بن سکے ان خیالات کا اظہار انھوں نے جمعرات کو یہاں جمعیت علماءاسلام سعودی عرب کے استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولاناعبدالغفور حیدری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئے روز ہمارے وزیراعظم تبدیل اور ایک دوسرے کے کاموں میں ادارے مداخلت کرتے ہیں، اس مداخلت نے ملک کو کمزور کر دیا ہے،آئینی دائرہ کار کے معاملات چل رہے ہیں، مداخلت کے ذریعے قوانین کا بیڑہ غرق کر دیا جاتا ہے، اسی مداخلت نے آج تک ہمارے ملک میں سیاسی معاشی و استحکام پیدا نہیں ہو سکا، دہشت گردی مصنوعی لگتی ہے، جب تک حقیقی معنوں میںعوام کے ہاتھوں میں اقتدار نہیں ہو گا معاملات عوامی ہاتھ میں نہیں ہونگے اصلاحات نہیں ہو سکتیں، دینی جماعتوں کے پاس صاف ستھری قیادت موجود ہے، آف شور کمپنیوں ، قرضوں کی معافی، قومی دولت کی لوٹ مار اور بیرون ملک دولت کی منتقلی ،لوٹ مار ،کرپشن، بددیانتی کے اسی ماحول سے دینی جماعتوں نے ہر دور میں خود کو دور رکھا، پارلیمانی آئینی نظام کا موثر حصہ بنتے رہے دو صوبوں میں ہم نے حکومتیں کیں مگر دامن بچا کر چلے، جمعیت علماءاسلام کے کسی رکن پر کوئی الزام نہیں ہے، قرض نادہندگان میں شامل ہیں نہ کرپشن کا کوئی کیس ہے، ایسی قیادت کو روکا جا رہا ہے، نا دیدہ قوتیں راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں، ایسے کرپٹ لوگوں کو لایا جاتا ہے جنہیں بلیک میل کیا جاتا ہے اور جب چاہے انہیں نکال دیا جاتا ہے، دینی جماعتوں کو صاف ستھری قیادت کےلئے اکثریت حاصل کرناہو گی، تا کہ حکومت بن سکے، اس وقت دفاعی پوزیشن میں ہیں، سیاست میں بدتمیزی بدتہذیبی کے سیلاب سے ملک کا تشخص مجروح ہو رہا ہے، ہمارا فرض ہے کہ دفاع کریں، اس سیلاب کو روکیں،انھوں نے کہا کہ دنیا میں سرحدوں ونظریات کی توسیع کی خواہشات کا رفرما ہے، ایسی صورتحال میں اعتماد کی دوستی کی فضا قائم نہ ہو سکے گی، ہر اسلامی ملک دوسرے اسلامی ملک کےلئے خطرناک تصور کیا جا رہا ہے، کب وہ وقت آئے گا جب اسلامی دنیا متحد نظر آئے گی، سارے اسلامی ممالک کے طاقتور ہونے سے ایک دوسرے کے کام آ سکتے ہیں، یہی سوچ ہونی چاہیے کہ پاکستان طاقتور ہے تو افغانستان اور ایران اور چین کو بھی طاقتور ہونا چاہیے تا کہ باہمی اعتماد کے ساتھ تعاون کر سکیں، بھارت پاکستان کو اور ہم افغانستان کو کمزور کرنے کےلئے توانائیاں صرف کر رہے ہیں، پاکستان میں کرپشن کا ہنگامہ اس نے لوٹا وہ چور وہ چوراس کلچر کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی ۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب