خطبہ مسنونہ کے بعد
گرامی قدر امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، اکابرین علمائے کرام، مشائخ عظام، بزرگان ملت، میرے دوستو اور بھائیو! ہر سال کی طرح اس سال بھی یہاں چناب نگر میں اس عظیم الشان ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد ہوا ہے۔ میں اس کی کامیابی پر آپ تمام حضرات کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ایسے کانفرنسوں میں آپ کی شرکت، آپ کی دلچسپی دنیا کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ پاکستان میں قادیانیت کا عنصر دوبارہ سر نہیں اٹھا سکے گا ( ان شاء اللہ کے نعرے).
یہ برصغیر کا سب سے بڑا فتنہ ہے اور اس فتنے کی سرکوبی اگر دنیا میں کہی ہوئی ہے تو یہ شرف پاکستان کے پارلیمنٹ کو حاصل ہے اور ان شاء اللہ العزیز یہ تاریخ کے اوراق پر ایک ایسا نقش ہے کہ جسے آنے والا مستقبل کبھی بھی محون نہیں کرسکے گا. اللہ تعالی اپنے دین کا محافظ ہے اور ختم نبوت کے عقیدے کی حفاظت اللہ نے ہی کرنی ہے ہم تو ایک سب کے طور پر استعمال ہوتے ہیں. اگر اللّٰہ نے ہمیں اس مقصد کے لیے چنا ہے تو ہمارے لیے اس سے بڑی خوش بختی اور نہیں ہو سکتی. ہمیں اس پر اللّٰہ کا شکر ادا کرنا چاہیے. اللّٰہ اس پر قادر تھا اور ہے کہ ہمیں فاجر، فاسق کے گروہوں میں جاکر بٹھا دے، ہمیں ڈاکوؤں اور غنڈوں کے گروہوں میں جاکر بٹھا دے، لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں علماء کا ماحول دیا ہے، دین داروں کا ماحول دیا ہے، اہل علم کا ماحول دیا ہے اور روحانی طور پر ایک خوشبودار اور خوشگوار ماحول دیا ہے۔ اللّٰہ تعالی زندگی کے آخری سانس تک ہمیں اسی ماحول سے وابستہ رکھے۔
میرے محترم دوستو! جس وطن عزیز کو ہم نے لاالہ الا اللہ کے نعرے سے حاصل کیا تھا اور جس نعرے کے اساس پر پورے برصغیر کے مسلمانوں نے قربانیاں دی تھی. سات دہائیاں اس ملک کی گزر چکی ہے. پون صدی کے قریب ہیں. لیکن کیا وجہ ہے کہ آج بھی اسلام کے نام لیوا مظطرب ہیں. ہمیں اس وقت بھی اسلام کے بارے میں تشویش ہیں. یہ ملک اگر اسلام کے نام پر بنا تھا پھر یہاں پر اسلام کو محفوظ ہونا چاہیے تھا۔ پھر اس کی ضرورت نہیں تھی کہ ہم اسلام کی حفاظت کی جنگ لڑے. یہ ریاست کی ذمہ داری تھی کہ وہ اسلام کی حفاظت کرے. لیکن یہاں تو ریاست اسلام کے پیچھے پڑا ہوا ہے. وہ تو مغرب کی غلامی میں ڈوبا ہوا ہے. مغربی تہذیب، مغربی فکر، مغربی سوچ ان کے اوپر مسلط ہے. اور اپنے مشوروں میں ایک بات پر ان کی ساری سوچ مرکوز ہوتی ہے، کہ ہم کون سی ایسی بات کرے کون سا ایسا کام کرے کہ جس سے مغرب ہم سے راضی ہوجائے. اللّٰہ کو راضی کرنے کی کوئی سوچ نہیں۔ کب ہمیں وہ منظر ملے گی؟ کب ہمیں وہ اطمینان ملے گا؟ یہاں تو اگر علماء سیاست سے وابستہ رہتے ہیں تو بار بار انہیں احساس دلایا جاتا ہے، کہ آپ تو شریف لوگ ہیں آپ کیوں سیاست کررہے ہیں. مولوی صاحب یہ سیاست تو آپ کا کام نہیں ہے. تو پھر جو لوگ سیاست کرتے ہیں وہ کم از کم اپنے بارے میں گواہی دے رہے ہیں کہ وہ بدمعاش ہیں. ان کے ہاں شرافت نام کی کوئی چیز نہیں، اس لیے سیاست کرتے ہیں.
لیکن میرا عقیدہ اور ایمان ہے کہ جو شخص اسلام کے نظام سیاست کا انکار کرتا ہے وہ الیوم اکملت لکم دینکم کا انکار کررہا ہے۔
دین اسلام انبیاء کرام سے ہوتا ہوا جناب رسول اللہﷺ پر آکر مکمل ہوا اور اللّٰہ تعالی نے اس نظام کو نعمت سے تعبیر کیا. اور اس طرح ہمارے اوپر نعمت تمام کردی. تو پھر کیا سیاست انبیاء کا وظیفہ نہیں رہا ہے؟ جناب رسول اللّٰہﷺ کا ارشاد ہے بنی اسرائیل کے انبیاء سیاست کیا کرتے تھے. یعنی اُن کی مملکتی اور اجتماعی نظام کی تدبیر اور اس کا انتظام و انصرام کیا کرتے تھے. ایک جاتا تھا دوسرا اس کی ذمہ داری کو سنبھالتا تھا. اور اب یہ ذمہ داری میری ہے. اور رسول اللّٰہﷺ نے اِس کے ذیل میں فرمایا ولا نبی بعدی، اب میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا. تو ختم نبوت کو سیاست کی ذیل میں ذکر کیا ہے. اور آپ علماء کرام ہمیں کہتے ہیں یہ غیر سیاسی موضوع ہے. یہ سیاست سے بالاتر عنوان ہے.
میں کہتا ہوں ختم نبوت ہی ہمارے سیاست کی اساس ہے (نعرہ تکبیر اللہ اکبر).
اگر علماء کرام سیاست سے لاتعلق ہو جائے، کمروں اور حجروں میں گوشہ نشینی اختیار کرے تو پھر دین ایک نامکمل صورت میں اُمت سے اُمت کی طرف منتقل ہوگا. ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف منتقل ہوگا. اس کو مکمل بنائے. اور علمائے کرام ذرا اپنے اندر ہمت پیدا کریں۔
میں ایک دفعہ، ہمارے ڈیرہ اسماعیل خان میں ہمارے مخدوم حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت براتہم تشریف لائے تھے. وہاں شیخ الہندؒ سیمینار تھا اور اس سے انہوں نے خطاب کیا اور اس اجتماع میں انہوں نے حضرت شیخ الہندؒ کی یہ بات نقل کی کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ جو علماء محراب میں بیٹھ کر اور حجروں میں بیٹھ کر دین کی اِس خدمت کو اپنے لیے کافی سمجھتے ہیں وہ دین کے خادم نہیں. وہ دین کے دامن پر بدنما داغ ہیں. حضرت شیخ الہندؒ کے نام لیواؤں میں نہیں کہہ رہا تھا، ان کے گھر کا بندہ کہہ رہا ہے. کیا وجہ ہے کہ ختم نبوت کا انکار تو ق ا د ی ان ی کر رہا ہے، اسلام سے بغاوت تو ق ا د ی ا ن ی کر رہا ہے. اگر یہ خالصتاً مذہبی مسئلہ ہے تو پھر امریکہ اس کو کیوں سپورٹ کر رہا ہے؟ پھر یورپ اس کو کیوں سپورٹ کر رہا ہے؟ ہمارے حکمران کیوں سپورٹ کر رہے ہیں؟ ق ا د ی ان ی ت کو سپورٹ کرنا اگر اس سے امریکہ کے سیاست کا کوئی تعلق نہیں ہے، یورپ کی سیاست کا تعلق نہیں ہے، تو پھر ہم بھی کہے کہ ہاں واقعی ہمارا تو اس سے زیادہ کوئی تعلق نہیں ہے، اور وہ اس کو اپنے سیاسی مقاصد اور مغرب کے مفادات، انگریز کے مفادات، اور اس کے لیے استعمال ہوتا رہا، تو پھر حکمرانوں کے مفادات کے لیے کئے ایسے فرقوں کا استعمال ہونا اور ظالم قوتوں کے لیے اور مستعمر قوتوں کے لیے جو قوت استعمال ہوتی ہے پھر اس کا مقابلہ کرنا اس کو بھی پھر اس طرح کی سیاست نہ کہا جائے۔
تم تو امریکہ کے لیے استعمال ہو. تم تو انگریز کا خود کاشتہ پودا ہو. اسلام کو کمزور کرنے کے لیے پورا یورپ تمہیں سپورٹ کرے. اور ہم کہے کہ اس کا تعلق سیاست سے نہیں ہے، بڑا ظلم ہے. علمائے کرام ذرا میری باتوں کو تھوڑا سائڈ پہ بیٹھ کر اس پر نظر ثانی کرے. اس بات پر غور کریں. میں جلسوں میں ایک روایتی تقریر کرنے کے لیے نہیں آیا کرتا. میں نہ مقرر ہوں نہ میں خطیب ہوں نہ مجھے وہ طریقے آتے ہیں. مقررین اور خطیبوں کے جو روایتی طریقے ہیں. میں ایک مشن رکھتا ہوں، ایک نصب العین رکھتا ہوں. میں اپنے نصب العین کی طرف آپ کو بلاتا ہوں. میں اسلام کی جامعیت اور اس کی ہمہ گیریت اور اس کی آفاقیت کی طرف آپ کو بلاتا ہوں. آئے اس مقصد کے لیے ایک ہوجائے۔
آج کے حکمرانوں کو جس راستے سے ایوان کے اقتداروں تک پہنچایا گیا، یہ مفت میں نہیں تھا. یہ ایک ایجنڈے کے ساتھ تھا. اس ایجنڈے میں ق ا د ی ا ن ی و ں کو دوبارہ مسلمان قرار دینا، اس ایجنڈے میں انسداد توہین رسالت کے قانون کو ختم کرنا، توہین رسالت کے مرتکب لوگوں کو جیلوں سے نکال کر رہا کرنا، اور آج بھی تحریری طور پر مغرب کے طرف سے جو خطوط آتے ہیں، ان کی رپورٹس آتی ہیں وہ سب یہ باتیں کہہ رہے ہیں۔
تو پھر ایسا کیوں نہیں ہورہا، اب تک حکمران ایسا کیوں نہیں کرپائے. میں اللّٰہ کا شکر ادا کرتے ہوئے آپ کے ساتھ یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ یہ نہیں کہ وہ نہیں کرنا چاہتے. الحَمْدُ ِلله ہم نے کرنے نہیں دیا، ہم نے ان کو اس میدان میں شکست دی ہے (نعرہ تکبیر الله أكبر، تاجدار ختم نبوت زندہ باد). اور میں آج بھی اپنے حکمرانوں کو اس اجتماع سے پیغام بھیجنا چاہتا ہوں کہ جو عزائم تمہارے اندر موجود ہیں، واپس ہوجاؤ ورنہ پھر انتہائی ذلیل اور ناکام انجام کا انتظار کرو ( ان شاء اللہ).
یہ باتیں کرچکے ہیں، جتنا ان کے بس میں تھا وہ کرچکے ہیں. ہم تمھارے عزائم جانتے ہیں شاید کسی مدرسے کے حجرے میں پڑھانے والا مدرس نہ جانتا ہو. شاید کسی محراب میں محصور ایک مولوی صاحب نہ جانتا ہو. لیکن ہم میدان کے لوگ ہیں اور سیاست کے غلام گردشوں میں چالیس سال اوارہ گردی کرتے کرتے گزرگئی ہے. ہم جانتے ہیں تمھارے عزائم کیا ہیں، تم کیا سوچتے ہو. لیکن ہم پرعزم ہیں اور ان شاء اللہ دین اسلام اور پاکستان کے آئین کے اسلامی دفعات اور ختم نبوت کے عقیدے اور ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے آج کا یہ جلسہ عزم کرتا ہے کہ ہم ہر قیمت پر اس کی حفاظت کریں گے. اور اس کے لیے جان دینا پڑے تو اس سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ (قائد جمعیتہ قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں).
میرے محترم دوستو! پاکستان میں آپ کو دو طرح کے لوگ نظر آئیں گے. کچھ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو لبرل کہتے ہیں، سیکولر کہتے ہیں. اور ہم اپنے الفاظ میں ان کو مذہب بیزار کہتے ہیں. یہ طبقہ پاکستان کے خلاف بولے، پاک فوج کے خلاف بولے، یہ طبقہ پاکستان کے جرنیلوں کو گالیاں دے، تب بھی وہ محفوظ ہیں. اور اگر کوئی مذہبی تنظیم اس ملک میں اللہ کی دین کی بات کرتا ہے اسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے. اسے دہشت گرد کہہ دیا جاتا ہے. آج بھی آپ مناظر دیکھ رہے ہیں، یہ امتیاز کیوں ہے؟ مطالبہ جائز بھی ہوسکتا ہے غلط بھی ہوسکتا ہے. اس سے آپ اختلاف بھی کرسکتے ہیں. لیکن اپنے مطالبے کے لیے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے مظاہرہ کرنا یہ کون سا جرم ہے کہ آپ ان کو غدار بھی کہے، دہشت گرد بھی کہے، ان پر گولیاں بھی چلائے۔
یہ کون سا انصاف کا راستہ ہے. تو انصاف والوں پھر یہ انصاف کی تحریک نہیں ہے. آپ کے رویوں سے انصاف تاریک نظر آتا ہے.
مجلس تحفظ ختم نبوت اس محاذ پر جو کام کررہی ہے ہم ان شاء اللہ اس محاذ پر ہم ان کے سپاہی کی طرح کام کریں گے. اور اس ملک کو ایک مظبوط اور مستحکم اسلامی مملکت بنانے کی تحریک کو آگے بڑھائینگے.
اللہ وسایا صاحب آپ اس میں ساتھ ہے. یہ نہ کرو کہ ختم نبوت میں ہم آپ کے ساتھ ہیں اور اسلام کے لیے پھر آپ ساتھ نہ ہو (قہقہہ). ان شاء اللہ ہم سب ایک صف ہے اور ایک محاذ پر ہم نے لڑنا ہے. اور حکمرانوں کو اتنا بتادے کہ ہماری ایک تاریخ ہے. اور جب ہم اپنی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو الحَمْدُ ِلله ثم الحَمْدُ ِلله آج اپنے تک بھی میں کہہ سکتا ہوں کہ ہماری تاریخ پر اور ہمارے اکابر و اسلاف کے قریب سے بھی خوف نہیں گزرا. اور ہم بھی الحَمْدُ ِلله اپنے اندر کوئی خوف محسوس نہیں کرتے (نعرہ تکبیر الله أكبر).
اور پھر حکمران بھی آج جیسے ہو. ایسے حکمرانوں سے بھی آدمی ڈرتا ہے. ان کی شکلیں ذرا دیکھو یہ ڈرنے والی ہے. ہمیں تو یہ مکھی کے پر کے برابر بھی نظر نہیں آتے.
تو میرے محترم دوستو! اس محاذ پر آگے بڑھیں گے اور اپنے عقائد کا تحفظ کرنا، آپ کو سمجھانے کی ضرورت نہیں. اس کے لیے آپ اپنی تاریخ پڑھ لے. آپ کی تاریخ خود آپ کے لیے ایک سبق ہے. آپ کی ماضی کی تاریخ وہ آپ کے مستقبل کی روشنی ہے. اس میں ہم نے اپنے مستقبل کو طے کرنا ہے.
اللّٰہ تعالی ہمارے دین کا حافظ اور محافظ ہو. اور رب العزت اس راستے میں ہمیں خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب