اسلام آباد: جمعیت علماءاسلام پاکستان کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں مجلس عاملہ اور دیگر اراکین شریک تھے۔
پارٹی اجلاس میں نئی سیاسی صورت حال پر تفصیلی بات چیت کی گئی،
انہوں نے کہا کہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کو ووٹ دیں گے اور کامیاب بنائیں گے۔
مشکل وقت میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ رہیں گے،انہوں نے کہا کہ آج پاکستان میں جو جنگ لڑی جارہی ہےاس کی بنیاد کرپشن پررکھی گئی ہے،کرپشن کیخلاف جنگ تو صرف عنوان ہے ،کرپشن کی آڑ میں سیاسی جنگ لڑی جارہی ہے،اس غلاف کے نیچے اصل عزائم کیا ہیں اس کا پتا نہیں۔کرپشن کے عنوان سے اب دنیا بھر میں سیاست ہوگی ،انہوں نے مزید کہاکہ نظریاتی سیاست کا خاتمہ ہوچکا ہے
انہوں نے کہا کہ ہم مردانہ وار مقابلہ کررہے ہیں،ہمیں نہ چھیڑا جائے
62 اور63 مسئلہ نہیں،مسئلہ نیب ہےجو آمر کا لایاہوا قانون ہے،دفعہ6 پرکوئی بات نہیں ہورہی
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک موقف دے رہے ہیں اسکے بدلے ہمیں دھمکیاں دی جارہی ہیں جائے بھاڑ میں تمہاری دھمکیاں،تمہاری دھمکیوں کی کیا حیثیت ہے؟ ہمیں گیدڑ بھبکیوں سے ڈرانے کی کوشش نہ کی جائے۔
اپوزیشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ نہ پہلے اپوزیشن میں اتحاد تھا نہ اب ہے۔
ملک تب چلے گاجب سب ایک پیج پر ہونگے،انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر گریٹ گیم ہورہی ہے،عالمی سطح پر گریٹ گیم کا ایجنڈا ترقی پذیر اور مسلم دنیا کو غیرمستحکم کرنا ہے ۔ مولانافضل الرحمان نے کہا ہےکہ ہمیں تدبر سے کام لینا ہے ، ملک کو بحران کی طرف جانے نہیں دینا ہے
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب