سیکولر قوتوں کا مقابلہ کرنے اور پاکستان کے نظریاتی تشخص کو بچانے کے لئے دینی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر متحد، مذہبی اتحادکو مضبوط بنانے پر اتفاق،
ایم ایم اے بحالی جیسے اہم امور زیرغور
لاہور : جمعیت علماءاسلام پاکستان کی قائم کردہ مرکزی مذاکراتی کمیٹی کا سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کی سربراہی میں دینی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں
قیام پاکستان کے بنیادی مقاصد کو ہدف بناکر مشترکہ جہدوجہد کرنے اور پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست کی شکل دینے کی خاطر جمعیت علماءاسلام پاکستان کے وفد کی ملک پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں ،تمام اسلامی جماعتیں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق قانون سازی پرمتفق،آئندہ الیکشن میں متفقہ امیدوار لانے کا امکان
تفصیلات کے مطابق جمعیت علماءاسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری حفظہ اللہ کی قیادت میں جمعیت علماءاسلام کے وفدکا تین روزہ دورہ، مذہبی سیاسی جماعتوں سے ملاقاتیں اس سلسلہ میں پہلے روزجمعیت علماءاسلام (س) کے امیر مولانا سمیع الحق سے انکی رہائش گاہ اکوڑہ خٹک ،علامہ ساجد نقوی سے راولپنڈی،علامہ ابتسام الہی ظہیر سے اسلام آباد میں ملاقات ہوئی،
دوسرے روز مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر پروفیسر ساجد میر اور جمعیت علماءپاکستان نورانی کے پیر اعجاز ہاشمی سے لاہور میں ملاقاتیں ہوئیں۔
تیسرے روز جماعۃ الدعوۃ کے نائب امیر پروفیسر عبدالرحمٰن مکی ،امیرحمزہ،قاری یعقوب ، حافظ خالدبن ولیدسے مرکز القادسیہ لاہور میں ملاقات ہوئی اسکے بعد جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ سے ملاقات ہوئی اس موقع پرڈاکٹر فرید احمد پراچہ، اسداللہ بھٹو، میاں محمد اسلم، میاں مقصود احمد، مشتاق احمد خان اور محمد اصغر اور اقبال بٹ بھی ان کے ہمراہ تھےاسکے بعد جمعیت علماءپاکستان نورانی کے پیر محفوظ مشہدی،سردار محمد خان لغاری سے ملاقات ہوئی اور ابوالخیر زبیر سے ٹیلیفونک گفتگو بھی ہوئی۔
ان ملاقاتوں میں تمام رہنماؤں کااس بات پر اتفاق پایا گیا کہ موجودہ حالات میں دینی جماعتوں کا اکٹھا ہونا بے حد ضروری ہے اور اس کو ایم ایم اے کی بحالی کی صورت میں مضبوط کیا جاسکتا ہے۔
اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا عبدالغفور حیدری حفظہ اللہ نے ان ملاقاتوں کو تسلی بخش قرار دیا اور کہا کہ میں جو مشن لے کر آیا ہوں مجھے خوشی ہوئی کے تمام جماعتیں اس مشن پر متفق ہیں اب وہ یہ رپورٹ قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن دامت برکاتہم کو بھی پیش کریں گئے مولانا فضل الرحمن دامت برکاتہم اس کے بعد تمام جماعتوں کا اجلاس بلائیں گئے اور اس میں پھر آئندہ کی حکمت عملی طے کی جائے گی، اور یہ بھی آج کی ملاقاتوں میں طے ہوا کہ آئندہ 2018 کے انتخابات میں تمام مذہبی جماعتوں کو مل کر الیکشن لڑنا چاہئے اور مشترکہ امیدوار لائے جائیں ۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ الحمد للہ پاکستان کی سیاست میں مذہبی جماعتیں بھی موجود ہیں لیکن کسی مذہبی سیاسی جماعت پر کرپشن کا، بدعنوانی کا یا قرضہ معاف کرانے کا دھبہ نہیں ہے ، ہم احتساب چاہتے ہیں لیکن سب کا احتساب ہونا چاہئے۔
اس موقع پر وفد کے ہمراہ مولانا محمد امجد خان،ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد اسلم غوری،الحاج شمس الرحمٰن شمسی،مولانا صلاح الدین،سیکرٹری جنرل
صوبہ بلوچستان ملک سکندر خان ایڈوکیٹ،سیکرٹری جنرل صوبہ خیبر پختون خوا مولانا شجاع الملک،سیکرٹری جنرل صوبہ سندھ مولانا راشد خالد محمود سومرو،سیکرٹری جنرل صوبہ پنجاب مفتی مظہر اسعدی ودیگر شامل تھے
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب