جمہوریت کمزور کرنے، پارٹیاں توڑنے کی روایت ختم ہونی چاہیے، کرپشن میں ملوث عناصر کا احتساب بلاامتیاز ہونا چاہیے
عدلیہ کو ایک جماعت ، ایک خاندان کے احتساب کا تاثر ختم کرنا چاہئے، قوم پیسہ بنانے والوںکے احتساب کی منتظر ہے۔
لاہور:
مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری مدظلہ کی سربراہی میں جمعیت علما اسلام کے اعلیٰ سطحی وفد کی مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر پروفیسر ساجد میر اور جمعیت علماء پاکستان نورانی کے مرکزی صدر پیر اعجاز احمد ہاشمی سے ملاقات
ملاقات میں موجودہ ملکی سیاسی صورت حال،اور مذہبی جماعتوں کے اتحاد ،متحدہ مجلس عمل کی بحالی جیسے امور پرتبادلہ خیال کیا گیا۔
ملاقاتوں میں دوطرفہ طور پر اس بات پر اتفاق کیاگیا کہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لئےقرآن وسنت کا نفاذ ضروری ہے۔
مذہبی سیاسی قوتیں جمہوریت اور جمہوری اداروں پر یقین رکھتی ہیں۔جس کے لئے انتخابی عمل ہی آئین پاکستان کی روح اور موجودہ چیلنجز کا سامنا کرنے کا واحد راستہ ہے۔
ملاقات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ جمہوریت کو کمزور کرنے اور پارٹیاں توڑنے کی روایات ختم ہونی چاہیں۔
پانامہ کیس اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والا ہے۔ اس پر عدالت میں بحث مکمل ہوچکی ہے۔ مگر افسوس کہ حکمران جماعت اور اپوزیشن کی طرف سے غیر ذمہ دارانہ بیان بازی نے قو م میں ہیجانی کیفیت پیدا کی ہوئی ہے۔ رہنماؤں نے کہا کہ کرپشن میں ملوث عناصر کا احتساب بلاامتیاز اوربغیر کسی رعایت کے ہونا چاہیے۔
اس حوالے سے سپریم کورٹ کو ان مزید خاندانوں کا احتساب بھی کرنا چاہیے اور عدالتی کٹہرے میں لانا چاہیے، جنہوںنے آف شور کمپنیا ں بنا کر لوٹی دولت بیرون ملک بھجوائی۔ عدلیہ کو یہ تاثر دور کرنا چاہیے کہ احتساب صرف ایک جماعت اور ایک خاندان کا ہورہا ہے۔
عمران خان بھی اپنی منی ٹریل عدالت میں پیش نہیں کرسکے۔
قوم فیصلے کی منتظر ہے کہ ایسے تمام سیاستدان ، جج، جرنیل اور صحافی جنہوںنے مال بنایا، سب کو منظر عام پر لایا جائے اور ان کا احتساب کرنا چاہیے۔انہوں نے زوردیا کہ کہ پیسہ باہر رکھنے والوں کی پاکستان میں سیاست پر پابندی ہونی چاہیے۔صاف شفاف ا نتخابات کے لئے الیکشن کمیشن کو بااختیار بنایا جائے۔ بے اختیار الیکشن کمیشن حکومتوں کی کٹھ پتلی کا کام کرتانظر آتا ہے۔ملاقات کے بعد میڈیا بریفنگ میں پیر اعجاز ہاشمی نے وفد کی آمد کو خوش آئند قراردیتے ہوئے کہا کہ ایم ایم اے کی بحالی سے مذہبی قوتوں کا ووٹ بینک یکجا ہوگا، اس کے لئے متحدہ مجلس عمل کی تمام رکن جماعتوں کو خلوص نیت کے ساتھ کوشش کرنی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ ایم ایم اے ہمارے قائدین کی نشانی ہے، جس کی تشکیل میں علامہ شاہ احمد نورانی ، قاضی حسین احمد، مولانا فضل الرحمان اور علامہ ساجد علی نقوی کا کردار فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ایم ایم اے نے سیاسی قوت ہونے کے ساتھ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں بھی اہم کردار اد اکیا۔ آج پھر قوم ایم ایم اے کی طرف دیکھ رہی ہے۔مولا نا عبدالغفور حیدر ی نے علامہ ساجد علی نقوی،مولانا سمیع الحق اور پروفیسر ساجد میر سے ہونے والی ملاقاتوں کو مثبت قراردیتے ہوئے کہا کہ وہ کل (بروز سوموار) امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے ملاقات کرکے مذہبی جماعتوں کے اتحاد پر بات چیت کریں گے۔ جس کے بعد بہت جلد سربراہی اجلاس طلب کیا جائے گا۔
وفد میں مولانا محمدامجد خان، ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد اسلم غوری، مرکزی خازن الحاج شمس الرحمٰن شمسی ،معاون سیکرٹری اطلاعات مولانا صلاح الدین ایوبی،سیکرٹری جنرل بلوچستان ملک سکندرخان ایڈوکیٹ،سیکرٹری جنرل سندھ مولانا راشد محمود سومرو،امیر جمعیت علماءاسلام فاٹا مفتی عبدالشکور،مفتی سید مظہر اسعدی ودیگر شامل
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب