کراچی:
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن مدظلہ نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے معاملے میں ہمیں عدالت سے انصاف کی توقع ہے تحریک انصاف کی نہیں، پاکستان کی سیاست تقسیم ہورہی ہے ایک جانب سی پیک کے حامی جماعتیں ہیں اور دوسری جانب سی پیک مخالف جماعتیں
پاناما کیس کو پاکستان کی اقتصادی و معاشی ترقی روکنے کے لئے استعمال کیاجارہاہے اس معاملہ کا کرپشن سے کوئی تعلق نہیں ہے
قائد جمعیت نے آج جمعیت علماءپاکستان کے جنرل سیکرٹری شاہ اویس احمد نورانی کی رہائش گاہ پر دینی جماعتوں کے اتحاد کے سلسلے میں مشاورتی اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر جمعیت علماء اسلام سندھ کے جنرل سیکرٹری راشد محمد سومرو نائب امیر سندھ قاری محمد عثمان ،جے یو پی کراچی کے صدر مفتی غوث ہزاروی جنرل سیکرٹری مستقیم نورانی جمعیت علماءاسلام کے سلیم ترکئی ، مولاناعبدالکریم عابد ، مفتی غیاث اور دیگر بھی موجود تھے ۔ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن مدظلہ نے کہا کہ ہم دینی جماعتوں کے ووٹ بینک کو مستقبل میں تقسیم ہونے سے بچانے کیلئے دینی جماعتوں کا اتحاد چاہتے ہے جس کا مقصد مستقبل کے عالمی تناظر میں پاکستان کا استحکام اور پاکستان کو معاشی اور اقتصادی طور پر مضبوط کرنا ہے اس کے لئے ہم سابقہ ایم ایم اے کی جماعتوں سے رابطے میں ہے جس کا ہمیں مثبت جواب ملا ہے اس سے اتحاد کو ہم مزید وسعت دیں گے جس کے لئے سینٹ کے ڈپٹی چیئرمین جمعیت علماء اسلام کےجنرل سیکرٹری عبدالغفور حیدری کی سربراہی میں جو سیاسی جماعتوں سے رابطے کررہی ہے ہم نے باوجود اس کے کہ جماعت اسلامی نےساڑھے چار سال تک پی ٹی آئی جیسی جماعت کے ساتھ اتحاد رکھا اور حکومت میں رہی رابطہ نہیں توڑا اور تمام تر شکایات اور تحفظات کے باوجود ہم نے وسیع وقلبی سے جماعت اسلامی سے رابطے رکھے
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کو فریق نہیں سمجھتا وہ ریاستی ادارہ ہے ہم اس بات کی کوششیں کررہے ہیں کہ ادارے غیر جانبدار رہیں اور انہیں فریق نہ بناتے ہوئے سی پیک کو کامیاب بنایا جائے سی پیک کو کامیاب بنانے کیلئے فوج کی طرف سے ضمانت بڑے حوصلے کی بات ہے اور یہ ضمانت اور اس وقت کامیاب رہے گی کہ جب قوم فوج کی پشت پر ہو،افواج قوم کے تعاون اور پشت پناہی سے لڑ اکرتی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کرپشن کی کہانیاں اور خبریں میڈیا پر ہمیشہ اقدار میں رہنے والی جماعت کے خلاف آتی ہیں جب پی پی پی کی حکومت تھی آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کو خبر بنایا گیا کہ اور جب وہ اقتدار میں نہیں تو ان کے کیس بھی میڈیا پر نہیں ہے
ایک اور سوال کےجواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ایک سیاسی کارکن ہوں اور مجھے تجربہ بھی ہے اور میں ملکی حالات کو عالمی تناظر میں دیکھتا ہو اور اسی تناظر میں سیاسی فیصلے کرتا ہوں اور یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ میں کسی کو بچارہا ہوں یایہاں ملک کو بچا رہا ہوں ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ آئینی ماہرین سے رابطہ ہوا ہے ان کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کی تشکیل ا نتظامی معاملہ تھا یہ فیصلہ آئینی ماہرین کریں گے، عدلیہ نے انتظامی معاملات استعمال کئے یا نہیں ۔ انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ نیب کے بارے میں ہمارے تحفظات ہیں اٹھارویں ترمیم منظور ہونے کے وقت مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں جماعتوں سے کہا تھا کہ احتساب کے معاملے کو بھی اس میں شامل کیاجائے لیکن میری بات نہیں مانی گئی انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ سید خورشید شاہ کاتعلق سادات خاندان سے ہے انہیں حقائق تسلیم کرنے چاہیے ۔ یہ کیسے ممکن ہے جمہوریت کو ڈوبونے والے جمہوریت کو بچائے وہ ان جماعتوں کے ساتھ کھڑے رہے وہ کس طرح جمہوریت کو بچائیں گے میں شاہ صاحب کیلئے یہ کہوں گا کہ ہم مدینہ مزاج لوگوں کی۔ زندگی کٹ رہی ہے کوفے میں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دنیا تقسیم کی طرف جارہی ہیں اس کو گریٹ گیم کے نام سے جانا جارہا ہے پاکستان نے اپنے مستقبل کا اشارہ دیدیا ہے
چین اور پاکستان کی ستر سالہ دوستی اقتصادی دوستی میں تبدیل ہوگئی پاکستان نے نئے مستقبل کا تعین کیا ہے جس میں پاکستان ، چین ، روس اور ترقی ایک دوسرے کے قریب آچکے ہیں دنیا میں امریکا اور مغرب کے مقابلے میں چین متبادل معاشی قوت کے طور پر ابھرا ہے آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ امریکی سربراہ نے چین کو براہ راست دھمکیاں دیں کہ وہ اپنی حدود میں رہے نتائج کے خود ذمہ دار ہوں گے چین کا اقتصادی طور پرپہلا پڑاؤ پاکستان ہے،
بھارت اور امریکا ایک دوسرے کے قریب ہوگئے ہیں ایک دوسرے کو دوست کہہ رہے ہیں ان کی کوشش ہے کہ چین کی اس پرواز کو روکا جائے پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہورہا ہے پہلے پاکستان دیوالیہ ہورہا تھا عالمی طور پر کہا جارہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ معاشی اقتصادی تعاون نہ کیا جائے پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمودریکارڈ سطح پر آگئی ہے اس اقتصادی ترقی کو سبوتاژ کرنے کیلئے ملک میں عدم استحکام پیدا کیا جارہا ہے کبھی دہشت گردی کے ذریعے کبھی معاشی ،سیاسی بحران کے ذریعے عدم استحکام پید ا کیا جا تا ہے ۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے جے یو پی کے سیکریٹر ی جنرل شاہ اویس احمد نورانی نے کہا کہ آج مولانافضل الرحمن سے ملاقات کا مقصد دینی جماعتوں کو ایک پلٹ فارم پر جمع کرنا ہے ملک میں جو حالات پیدا ہوچکے ہیں اس میں دینی جماعتوں کا مضبوط اور مستحکم ہونا ضروری ہے ہم آنے والے دنوں میں میزبانی کرتے ہوئے دینی جماعتوں کے اجلاس منعقد کریں گے اس تحاد کا مقصد عالمی سازشوں کو ناکام بنانا ہے اور دینی جماعتوں کے ووٹ کو تقسیم سے بچانا ہے ہمارا دیگر دینی جماعتوں سے رابطہ ہے جس کے بعد کراچی ،اسلام آباد اور لاہور میں اجلاس منعقد کیےجائیں گے ۔
حکومت ایک بار پھر اینٹی ٹیررزم ایکٹ 1997 میں ترمیم کرنے جا رہی ہے جس سے دفاعی اداروں کو بے پناہ اختیارات ملیں گے جو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر ہیں۔ پہلے نیب کے اختیارات پر اعتراض تھا اور ان میں کمی کی گئی تھی، لیکن اب دفاعی ادارے کو کسی کو شک کی بنیاد پر 90 دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار دیا جا رہا ہے جو سراسر غیر جمہوری عمل ہے،ملک میں سول مارشل لاء کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ، جو جمہوریت اور “ووٹ کو عزت دو” کی بات کرتے ہیں، آج اپنے ہی ہاتھوں جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ 26ویں ترمیم میں کچھ شقیں واپس لینے پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی، لیکن یہ نیا ایکٹ اسی ترمیم کی روح کے خلاف ہے۔ یہ آئین اور پارلیمنٹ کی توہین ہے کہ ایک دن آپ ایک فیصلہ کریں اور اگلے دن اسے نظر انداز کر دیں۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان
فیصلے اجلاس مرکزی مجلس شوری جے یو آئی پاکستان
میں اداروں کا احترام کرتا ہوں لیکن میری نظرمیں بھی ان کی پالیسیاں سیدھی نظرآئیں، میں نے بھی چالیس سال صحراؤں میں گذارے ہیں، آنکھیں بند کر کے بات نہیں کر رہا بلکہ مشاہدات کے ساتھ بات کرتا ہوں،اگر ہم یہ بات نہیں کریں گے تو قوم کے ساتھ خیانت ہوگی،آپ اپنا قبلہ درست کریں ہم آپ کو سر کا تاج بنا لیں گے۔قوم کی قدر کریں، آپ کے کرنل اور میرے عام کارکن کے پاس ایک ہی شناخت ہے، دونوں کے لئے ایک ہی آئین ہے۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا ڈی آئی خان میں ورکرز کنونشن سے خطاب
43ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر سے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا خطاب
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا چھبیسویں آئینی ترمیم پر قومی اسمبلی میں تاریخی خطاب