متفقہ روزہ وعید کیلئے حکومت سینٹ کی سفارشات کے ساتھ ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل سے بھی اس معاملے میں رائے لے ، پشاور میں رویت کیلئے بیٹھنے والے علماء کرام کا مؤقف بھی سنے اورسب سے پہلے مرکزی کمیٹی کی حیثیت متعین کی جائے۔مولانا فضل الرحمٰن

قائد جمعیت مولانافضل الرحمٰن مدظلہ نے و اضح کیا ہے کہ متفقہ روزہ وعید کیلئے جبر اور زبردستی کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے اس سے حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید اشتعال پھیلے گاا ور اس روش کے مضر اثرات مرتب ہونگے۔
مسئلہ کے حل کیلئے وفاقی حکومت میدان میں آکر تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام اور اسلامی نظریاتی کونسل کو بیچ میں ڈال کر متفقہ لائحہ عمل دے ہر مسئلہ طاقت کے بل پر حل کرنے کی سوچ اب ختم کرنا ہوگی میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ جو طریقہ حکومت یا اداروں کی طرف سے اختیار کیا گیا ہے وہ انتہائی نامناسب تھا اس سے مستقل تقسیم کی بنیاد پڑے گی اس معاملہ میں طاقت کا استعمال بے فائدہ ہے اس کے مستقل حل کیلئے حکومت کو جرات مندانہ اقدامات کرنا ہوں گے۔
اس سلسلہ میں سب سے پہلے مرکزی کمیٹی کی حیثیت متعین کی جائے اس کمیٹی کو قاضی یا جج کی حیثیت دینا ضروری ہے تاکہ ان کے فیصلوں پر اعتراضات کی بنیاد ہی ختم ہو جائے ان کا مزید کہنا یہ تھا کہ ہمیں اعتراض اس بات پر ہے اکثر مذہبی معاملات پر حکومت خود کو لاتعلق کر کے ایسے حالات پیدا کر دیتی ہے کہ علماء کرام آپس میں اختلافات کا شکار رہیں اور انہیں بدنام کیا جاسکے ۔
حکومت سینٹ کی سفارشات کے ساتھ ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل سے بھی اس معاملے میں رائے لے اور پشاور میں رویت کیلئے بیٹھنے والے علماء کرام کا مؤقف بھی سناجائے معاملات افہام وتفہیم سے حل کیےجانے ضروری ہیں زبردستی سے مزید اشتعال پھیلنے کا خدشہ ہے ۔