اسلام آباد:
قائد جمعیت مولانافضل الرحمن مدظلہ نے کہاہے کہ بلوچستان سیاسی لحاظ سے جمعیت کاگھرہے،مسلمانوں کوطاغوتی اوراستعماری قوتوں کی سازشوں سے بچاناہوگا۔سردار نجیب سنجرانی اوران کے ساتھیوں کی شمولیت سے جمعیت کی قوت میں اضافہ ہوگا۔ان خیالات کااظہارانہوں نے اپنی رہائش گاہ پرمسلم لیگ (ن) کے سابقہ رہنماؤں اورچاغی کی قبائلی وسیاسی شخصیت سردارنجیب سنجرانی،داؤدخان کھرل،میراویس ہجوانی،نثارخان کاکڑ،امیرمحمددرانی،صلاح الدین سنجرانی،فضل کریم رخشانی اورٹکری نوراحمدساسولی کی سینکڑوں ساتھیوں سمیت مولاناعبدالغفورحیدری،ملک سکندرخان ایڈوکیٹ،مولاناامیرزمان،مولاناعبداللہ جتک ، حاجی محمدحسن شیرانی،سیدجانان آغا،مفتی گلاب کاکڑ،مولاناعبدالباری آغا،حاجی محمدعثمان بادینی،حاجی منظوراحمدمینگل،حافظ عبداللہ گورگیج، ناصرمسیح، مولانانجیب اللہ اورمولانایارمحمدکی موجودگی میں جمعیت علماء اسلام میں شمولیت کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا،شمولیتی تقریب سے مولاناعبدالغفورحیدری،ملک سکندرخان ایڈوکیٹ،مولاناامیرزمان،مولاناعبداللہ جتک اورسردارنجیب سنجرانی نے بھی خطاب کیا،مولانافضل الرحمن نے خطاب کرتے ہوئےکہاکہ ہماری سیاست اصول پرمبنی ہے ہم نے اپوزیشن میں رہ کرحکومت کے اچھے کاموں کی تعریف کی اورحکومت کے اتحادی ہونے کے باوجودحکومت کے غلط کاموں کی مذمت کی اورمستردکیاہم نے یہ روایات ختم کردی کہ حکومت میں شامل ہوتوسب کچھ اچھااوراپوزیشن میں ہوتوسب کچھ براہے انہوں نے کہاکہ بلوچستان اورخیبرپشتونخواکے بعداب سندھ اورپنجاب میں بھی جمعیت کی پوزیشن مستحکم ہورہی ہے انہوں نے کہاکہ جمعیت علماءاسلام اوردیگرپارٹیوں کی سیاست میںبہت بڑافرق ہے عوام جمعیت علماءاسلام کی سیاست کودیگرپارٹیوں کی نگاہ سے نہ دیکھے انہوں نے کہاکہ ماضی میں مسلمانوں اورکفارکے درمیان تلوارکے ذریعے جنگیں ہوتی تھیں دونوں جانب تلوارکااستعمال ہوتاتھامیدان میں حق اورباطل مدمقابل تھے پھربندوق ،ٹینک اورجہازکے ذریعے جنگیں لڑی جاتی تھیں اورآج عوامی قوت کے حصول سے یہ جنگ لڑی جاتی ہے جمعیت باطل قوتوں کے خلاف میدان میں برسرپیکارہے جمعیت کی سیاست کودیگرپارٹیوں کی سیاست پرقیاس نہ کیاجائے انہوں نے کہاکہ جمعیت کے تمام رہنماؤں کے دامن کرپشن،بدعنوانی ،آف شورکمپنیوں سمیت ہرقسم سکینڈلزسے صاف ہیں جمعیت کی سیاست اسلام کی سربلندی اورملک کی ترقی کے لئے ہے آج دنیابھرمیں مسلمانوں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پرقتل کیاجارہاہے اوراستعماری قوتوں کی سازشوں سے مسلمان آپس میں دست وگریبان ہیں جس کافائدہ دشمن کواورنقصان ہماراہوگاانہوں نے کہاکہ جولوگ مسلح جہادکرتے ہیں ان سے کوئی اس جہادکے نتائج کی گارنٹی نہیں لیتاہے توسیاسی جدوجہدکے نتائج کی گارنٹی کیوںلی جاتی ہے ،تقریب سے مولاناعبدالغفورحیدری،ملک سکندرخان ایڈوکیٹ،مولاناعبداللہ جتک نے خطاب کرتے ہوئے سردارنجیب سنجرانی اوران کے ساتھیوں کوجمعیت علماء اسلام میں شمولیت پرمبارکباددیتے ہوئے کہاکہ انہوںنے بروقت اوراچھافیصلہ کیاجمعیت تمام مایوس طبقات کے لئے امیدکی کرن ہے ان کی شمولیت سے چاغی سمیت مختلف اضلاع میں جمعیت کی قوت میںاضافہ ہوگااورضمنی الیکشن میں جمعیت کوفائدہ ہوگاانہوں نے کہاکہ عام طورپرلوگ حکومتی پارٹیوں میں شمولیت اختیارکرتے ہیں لیکن بلوچستان میں لوگ حکومتی پارٹیوں سے مستعفی ہوکرجمعیت میں شمولیت اختیارکررہے ہیں جو کےحکومت کی کارکردگی پرعدم اعتمادہے۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب