کوئٹہ :
سانحہ مستونگ کےذمہ داروں کو بے نقاب کیاجائے ، پرامن سیاسی جہدوجہد پہ یقین رکھتے ہیں ہماری امن دوستی کو کمزوری نہ سمجھا جائے ، اگر جمعیت کے کارکن سڑکوں پہ آئے تو ملک کا پہیہ جام ہوجائے گا لیکن ہم امن کے داعی ہیں ، شہداء اور زخمیوں کے لیئے صوبائی اور وفاقی حکومت کی طرف سے صرف یقین دہانیاں کرائی گئیں عملا کچھ بھی نہیں کیاجارہا، ان خیالات کا اظہار جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبد الغفورحیدری مدظلہ نے سرینا ہوٹل کوئٹہ میں جمعیت علماء اسلام کے راہنما حافظ خلیل احمد سارنگزئی کی طرف سے دی گئی افطار پارٹی کے بعد پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ، اس موقع پر صوبائی سیکرٹری جنرل ملک سکندر خان ایڈووکیٹ ، ایم پی اے مفتی گلاب کاکڑ ، حاجی بہرام خان اچکزئی ، سردار نور احمد بنگلزئی ودیگر احباب موجود تھے ، انہوں نے کہا کہ شہداء اور زخمیوں کی امداد کے حوالے سے وزیر اعلیٰ بلوچستان ، وزیر اعلیٰ پنجاب ، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار ودیگر حکومت کے زمہ داران نے یقین دہانی کرائی تھی مگر عملاً کچھ نہیں کیا جارہا ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے دہشتگردوں کے نظریہ کو مسترد کیا اور ریاست کیساتھ کھڑے ہوئے لیکن ریاست کا ہمارے ساتھ رویہ بھی قابل افسوس ہے انہوں نے کہا کہ سانحہ مستونگ کو بھلایا نہیں جاسکتا ، زمہ داروں اور سہولت کاروں کو بے نقاب کیا جائے ، انہوں نے کہا کہ ہم پرامن سیاسی جہدوجہد کے قائل ہیں ہماری امن دوستی کو کمزوری نہ سمجھا جائے اس سے پہلے بھی جمعیت کی قیادت اور کارکنان پر حملے ہوئے مگر آج تک ان کا پتہ نہیں چلا کہ تفتیش کہاں تک پہنچی ،کتنے زمہ دار اور سہولت کار گرفتار ہوئے ، انہوں نے کہا کہ اگر جمعیت کے کارکن سڑکوں پر نکل آئے تو ملک کا پہیہ جام ہوجائے گا لیکن ہم کسی بھی طبقے کا نقصان نہیں چاہتے ،تاجر برادری اور ٹرانسپورٹ برادری سب ہمارے اپنے ہیں لیکن حکومت کا رویہ افسوسناک ہے ، انہوں نے صوبائی حکومت سے کہا کہ وہ خاموشی کی چادر پھینک کر حقائق کو دیکھیں اور ملزمان کو گرفتار کریں
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب