اسلام آباد:
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری خودکش حملے میں زخمی ہونے کے بعد صحت یاب ہونے پر گزشتہ روز پہلی بار ایوان بالا کے اجلاس میں پہنچے تو ارکان نے پرجوش انداز میں ڈیسک بجا کر ان کا خیر مقدم کیا۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ سانحہ مستونگ کے حوالے سے ان سے یکجہتی پر ارکان سینیٹ سمیت پوری قوم کے شکرگزار ہیں۔قبل ازیں چیئرمین سینیٹ کی اجازت سے ایوان میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مستونگ خودکش حملہ میں معجزاتی طور پر محفوظ رہا۔ ڈپٹی چیئرمین نے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان اور وزیراعظم سے میں نے درخواست کی کہ شہداءاور زخمیوں کے لئے پیکج کا اعلان کیا جائے لیکن ابھی تک یہ اعلان نہیں کیا گیا۔ پیکج کے اعلان سے ورثاءکی دلجوئی ہوگی۔ ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کیوں کیا جارہا ہے۔ کیا ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں؟ ہندو رکن ہیمن داس کے بیٹے کو اغواءکیا گیا ابھی تک اس کا کچھ نہیں ہو سکا۔ مولانا فضل الرحمن پر بھی خودکش حملہ ہوا تھا۔ آج تک اس بارے کچھ نہیں بتایا گیا۔ وفاق سے کہیں تو کہتا ہے صوبے سے بات کریں‘ صوبے سے بات کریں تو کہتے ہیں وفاق کی ذمہ داری ہے‘ کوئی ذمہ داری نہیں لینا چاہتا‘ ہم نے ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف اسلحہ اٹھانے کو ناجائز قرار دیا جس کی پاداش میں ہمارے علماءکرام مولانا حسن جان ، مولانا معراج الدین‘ مولانا نور محمد‘ ڈاکٹر خالد محمود سومرو، محسن شاہ‘ مفتی سرفرازنعیمی‘ مفتی نظام الدین شامزئی‘ مفتی یوسف لدھیانوی سمیت کئی علماءکو شہید کیا گیا۔ ہم دہشتگردوں کے نشانے پر ہیں‘ ریاست کی طرف سے ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ بھی افسوسناک ہے۔ ہم ریاست کے ساتھ کھڑے تھے اس لئے خدشہ تھا کہ حملہ ہوگا۔ وزیراعلیٰ میرے ذاتی دوست ہیں لیکن اس واقعہ کے حوالے سے صوبائی حکومت غفلت اور لاپرواہی برت رہی ہے۔ اس طرح کی بزدلانہ حرکتوں سے ہمارے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔ ریاست کے ساتھ بھی کھڑے ہیں اور اپنے عقائد و نظریہ کے ساتھ بھی کھڑے ہیں اور اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ دہشتگردوں سے مرعوب نہیں ہوں گے۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ آپ خودکش حملے میں بچ گئے اور آج ہمارے سامنے موجود ہیں۔ شہداءاور زخمیوں کے لئے معاوضوں کے حوالے سے مل کر کام کریں گے۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب