اسلام آباد:
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نےکہا کہ علماء کرام کی پہچان ہے جمعیت علماء اسلام ،علماء کو اسلامی معاشرے میں ممتاز اور قابل قدر مقام حاصل ہے ۔صد سالہ عالمی اجتماع کی تاریخ ساز کامیابی کے بعد علماء کرام نے ملک بھر میں پھیل کر اسکے ثمرات سمیٹنے ہوں گے وہ اپنی رہائش گاہ پر جے یو آئی سندھ کے نائب امیر قاری محمد عثمان اور پنڈی کے مولانا عبدالمجید ہزاروی کی قیادت میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے علماء کرام کے وفد سے گفتگو کررہے تھے انہوں نے کہا کہ علماء کرام جمعیت علماء اسلام کی دعوت کو عام انسانوں تک آسانی سے پہچا سکتے ہیں صد سالہ عالمی اجتماع کے بعد علماء کرام کی ذمہ داریاں اور زیادہ بڑھ گئی ہیں 2018 کا الیکشن ایک چیلنج ہے، علماء کرام نے زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد تک حق کی دعوت پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی ہوگی علماء کرام نے صد سالہ عالمی اجتماع کی کامیابی پر مبارکباد پیش کی اور سانحہ مستونگ پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یہ عہد کیا کہ وہ ملک میں نفاذ شریعت اور اسلاف کے مشن کی تکمیل کیلئےجمعیت علماء اسلام کے سپاہی بن کرعالیشان جدوجہد کو جاری رکھیں گے علماء کرام نےکہا کہ وہ عید کے بعد اسلام آباد اور راولپنڈی کے علماء کا نمائندہ کنونشن منعقد کریں گے جسمیںقائد جمعیت کو خصوصی طور پر شرکت کی دعوت دی گئی
علاوہ ازیں ممتاز سیاسی و سماجی رہنما اور گجر قومی تحریک مالاکنڈ ڈویژن کے صدر الحاج سردار شہزاد گجر نے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن سے انکی رہائش پر جمعیت علماء اسلام صوبہ سندھ کے نائب امیر قاری محمد عثمان اور ضلع سوات کے امیر قاری محمود کے ہمراہ ملاقات کی اور عظیم الشان صد سالہ عالمی اجتماع کی کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے سانحہ مستونگ پر دلی دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اس موقع پر جمعیت علماء اسلام کے رہنماؤں مولانا عبدالمجید ہزاروی ،قاری عبدالکریم قاری ،ہارون الرشید ،مولانا عزیز الرحمن چوہدری ،مولانا شاہ جھان ،قاری ارشاد،مولانا رشید احمد، مولانا بخت زمان، حافظ بشارت عثمانی، مفتی محمد زبیر عزیز اور دیگر علماء بھی موجود تھے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے سردار شہزاد گجر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ صد سالہ عالمی اجتماع کی کامیابی محض اللہ تعالی کی غیبی مدد اور دنیا بھر کے صلحائے امت علماء کرام اور جماعتی احباب کی شب روز کے اعمال صالحہ اور انتھک محنتوں کا نتیجہ ہے انہوں نےکہا کہ عالمی اجتماع کی کامیابی سے آج کے پر فتن دور اور دنیا ئے کفر کے اسلام دشمن عزائم کے مقابلے میں امت مسلمہ کو نیا حوصلہ ملا ہے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ صد سالہ عالمی اجتماع نے پاکستان میں مغربی کلچر کو مسلط کرنے والے غیر کے نمائندوں کو شکست دیدی ہے شکست خوردہ مغرب کے آلہ کاروں کی نفاذ اسلام کی جدوجہد میں رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی ۔نفاذ اسلام کی جدوجہد اب نئی حکمت عملی کے ساتھ جاری رکھی جائے گی قائد جمعیت نے سردار شہزاد گجر کو حکما کہا کہ صد سالہ عالمی اجتماع کے بعد جماعت کے اسلامی انقلابی پروگرام کو گھر گھر پہنچانے کیلئے میدان میں نکلنا ہوگا الیکشن کیلئے جو محنت کررہے تھے اس سے کہیں زیادہ جماعت کی دعوت کو اب منظم طریقہ پر عام کرنا ہوگا سردار شہزاد گجر نے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کو یقین دلایا کہ میں اورمیرا خاندان آپ اور جمعیت علماء اسلام کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھتے ہوئے ہر قربانی دینے کیلئے ہر وقت تیار ہیں جمعیت علماء اسلام ہماری خاندانی جماعت ہے سردار شہزاد گجر نے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کو سوات آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہاکہ آپ کی توجہ سے ہم آپ کو 100 فیصدنتائج کا یقین دلاتے ہیں قائد جمعیت نے سردار شہزاد گجر کی دعوت قبول کرتے ہوئے کہاکہ جلد انشااللہ سوات کا دورہ کریں گے۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب