سفیر کا جانا اب ٹھہر چکا، رسول اللہ کی عزت و ناموس پہلے زندگیاں بعد میں اگر ہمارے پیغمبرﷺ کی عزت و ناموس محفوظ نہیں تو ہمیں دنیا میں رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن

آج پوری قوم انتہائی دکھ اور اضطراب سے دوچار ھے جو کچھ لاہور میں ہوا اور ہو رہا ھے اور جس طریقے سے لاہور میں ایک کربلا برپا کِیا گیا ھے سب سے پہلے میں اِس کو ایک ریاستی دہشتگردی قرار دیتا ہوں اور شدید الفاظ میں ہم اس کی مذمت کرتے ھیں
ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانے والوں کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا ھے زخمی اور شہداء مسجدوں میں پڑے ہوئے ہیں اُن پر ہسپتالوں کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں اُن تک ایمبولینسز کی رسائی روک دی گئی ہے یہ تو کوئی شقی القلب دشمن ہی ایسا کر سکتا ھے جس طرح امریکہ نے افغان طالبان کے ساتھ گوانتاناموبے میں کِیا آج وہی کچھ لاہور میں ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لیے اٹھنے والے جوانوں کے ساتھ کیا جا رہا ھے پی ٹی آئی جس نے خود اِس ملک میں اپنی سیاست کا آغاز دہشتگردانہ اقدامات کے ساتھ کیا ایک سو چھبیس دن کا مظاہرہ، سپریم کورٹ کی توہین اور پی ٹی وی کی بلڈنگ پر قبضہ یہ ساری چیزیں اس پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہیں جو لوگ ملک کی تذلیل کریں جو لوگ پاکستان کے عقیدے اور نظریے کی توہین اور نفی کریں اُن کو تو ریاستی پشت پناہی حاصل ہو لیکن اگر کوئی اس بات پر احتجاج کرتا ھے کہ فرانس میں یا ڈنمارک میں یا یورپ کے کسی ملک میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی گئی ھے اور ہم اُس پر احتجاج کرتے ہیں تو اُس کے لیے یہاں پاکستان مذبح خانہ بن جاتا ھے ایک اسلام کے نام پر بننے والا ملک آج اُس میں نہ اسلام محفوظ ہے نہ ناموسِ رسالت محفوظ ھے نہ عقیدہ ختمِ نبوت محفوظ ھے اور اِسی حکومت نے اُس ملعونہ کو بیرون ملک بھیجا جو توہین رسالت کی مرتکب ہوئی تھی اور بڑے فاخرانہ انداز کے ساتھ کہا کہ ہم نے اُس کو پاکستان سے باہر بھیج دیا ھے اور اُس میں ہم کامیاب ہوئے آج عمران خان فرانس کا ہیرو بنا ہوا ھے شرم آنی چاہیے جس ایجنڈے کے لیے اور جس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اُن کو اقتدار میں لایا گیا آج وہ چہرے بھی بے نقاب ہو گئے ہیں
مسلمان، امتِ مسلمہ پوری دنیا میں اِس وقت مظلوم ہے لیکن برداشت کا دامن تھامے ہوئے ہے مغرب کے رویے کے نتیجے میں اور پاکستان کی ریاستی قوتوں کے رویوں کے پیشِ نظر معاملہ اب ریاستوں کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے کب تک ہم برداشت کرتے رہیں گے کب تک ہم قرآن سوزی کے مناظر دیکھتے رہیں گے کب تک ہم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کو روندھتے ہوئے دیکھیں گے اب مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا اگر مغربی دنیا کو یہی کھیل دیکھنا ہے تو امتِ مسلمہ پھر تیار ہے اِس کے لیے ہم ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں(ان شاءاللہ)
فرانس کے سفیر کے مسئلے کو عزت کا مسئلہ کیوں بنایا گیا؟ ٹھیک ہے ہر چیز کے کوئی نقصان دہ پہلو بھی ہوتے ہیں لیکن اگر وہ پاکستان کے بائیس کروڑ مسلمانوں کے عقیدے کو روندھتا ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا مرتکب ہوتا ہے تو پھر اُن کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے نزدیک ہمارے اپنے رسول اللہ کی عزت و ناموس اول ہماری زندگیاں بعد میں، اگر ہمارے پیغمبر کی ناموس محفوظ نہیں تو ہمیں زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں لہذا میں اعلان کرتا ہوں کہ فرانس کے سفیر کا جانا اب ٹھہر گیا ہے اور اِس میں مصلحتوں کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی
میں پنجاب پولیس سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے بڑوں کے وہ احکامات جو پوری دنیا میں ریاستی دہشتگردی کے زمرے میں آتے ہیں پنجاب پولیس اپنے افسروں کے اُن احکامات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے اور اپنے مسلمان بھائیوں پر گولی چلانے سے باز آ جائے یہ اُن کی نجات کا راستہ ہے جو مناظر ہم دیکھ رہے ہیں وہ مناظر ناقابلِ برداشت ہیں وہ انسانی مناظر نہیں…. یہی مناظر جب کشمیر میں ہوں گے تو آپ کہیں گے ہندوستان کی ریاستی دہشتگردی یہی صورتحال جب فلسطین میں ہو گی تو آپ کہیں گے اسرائیل کی ریاستی دہشتگردی تو پھر اگر پاکستان کی ریاست اور اُس کے ریاستی ادارے اور اُس کی ریاستی قوتیں اپنی قوم کے اوپر اس طرح گولیاں چلاتی ہیں بکتر بند گاڑیاں اُن کے اوپر چڑھاتی ہیں تو کیا ہم اِن کو ریاستی دہشتگردی نہیں کہیں گے؟ حکمران اور اُن کے وزراء سن لیں ہمارے نزدیک پی ٹی آئی اور اُن کے وزراء دہشتگرد ہیں رسول اللہ کی ناموس کے لیے لڑنے والے یہ دہشتگرد نہیں ہو سکتے کیا حالات پیدا کرنے جا رہے ہو؟ کیا ارادے ہیں تمہارے؟ ہم اس ملک میں غیر آئینی حکمرانی تسلیم نہیں کریں گے ہم نے آج تک بھی نہیں کی
لاہور میں یزید کی یزیدیت نے جو کربلا برپا کی ہے آج وہ بے نقاب ہو گئے ہیں ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جو معاہدات اِن کے ساتھ ہوئے ہیں اُن معاہدات کے فریق کون ہیں؟ اُن معاہدات کی عبارت کیا ہے؟ اُن معاہدات کے نکات کیا ہیں؟ اُن معاہدات پر دستخط کرنے والے کون ہیں؟ یہ ساری تفصیل پارلیمنٹ میں لائی جائے عوام کے سامنے لائی جائے دہشتگرد کے ساتھ معاہدہ کرنے والا بھی تو دہشتگرد ہی کے زمرے میں آئے گا نا! ہم اب بھی سمجھتے ہیں کہ صورتحال کو عقلمندی کے ساتھ حل کرنے کی طرف اقدامات کیے جائیں ہرچند کہ مسئلہ جذباتی ہے ہرچند کہ ریاست کی طرف سے ظلم ہوا ہے لیکن ہم پھر بھی سمجھتے ہیں کہ اب بھی وقت ہے مسئلے کو سنبھال لو لیکن ساتھ ساتھ میں یہ واضح اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ٹی ایل پی کے شہداء کے جنازے اور اُن کے زخمی اسلام آباد کی طرف روانہ کیے گئے تو ہم اُن کے ساتھ ہوں گے ان شاءاللہ
بہت سے علماء اس وقت گرفتار کیے جا رہے ہیں چاہے اُن کا تعلق ٹی ایل پی کے ساتھ ہے یا نہیں ہے مفتی کفایت اللہ صاحب گرفتار ہیں. کیوں؟ کس بات پر؟ کسی نے بیان دے دیا اُن کے حق میں ہمارے ہی کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے بابا ہمیں ہاتھ مت ڈالو مشکل ہو جائے گا تمہارے لیے ہم زندہ لوگ ہیں ہم میدان کے لوگ ہیں اور تم جیسے لوگوں کے ساتھ میدان میں جھپٹنا جانتے ہیں ہم نے ہمیشہ امن اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے ہم نے چودہ ملین مارچ کیے آزادی مارچ کیا ہم نے دنیا کو بتا دیا کہ مذہبی لوگ کس قدر منظم ہوتے ہیں اور کس قدر وہ پاکستان کے امن کی حفاظت کرتے ہیں لیکن شاید آپ کو مذہبی لوگوں کی امن پسندی قبول نہیں ہے آپ ہر قیمت پر دنیا کے سامنے مذہبی دنیا کی ایک تصویر پیش کرنا چاہتے ہیں جیسے یہ بڑے دہشتگرد لوگ ہیں آج بھی جو تم نے کیا ہے لاہور میں تم نے امریکہ اور مغربی دنیا کے سامنے مذہبی لوگوں کی ایک تصویر رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن ہم نہ پہلے دن سے مرعوب ہیں اس فلسفے سے نہ آج مرعوب ہیں ہم بڑی خودداری اور خوداعتمادی کے ساتھ اس ملک میں سیاست کر رہے ہیں اور ہم بڑے دو ٹوک الفاظ میں آپ کو کہتے ہیں کہ تم دہشتگرد ہو اور ان شاءاللہ آپ کے خلاف ایک جنگ پہلے دن سے شروع ہوئی ہے اب تک جاری ہے اور ان شاءاللہ تمہارے اقتدار کا دھڑن تختہ ہونے تک یہ جنگ جاری رہے گی ان شاءاللہ
مغربی دنیا سے اختلاف کو ہم جانتے ہیں مغربی دنیا بھی جانتی ہے کہ مسلمان ایک قوم ہے مسلمان ایک امت ہے مسلمان اپنی ترجیحات رکھتے ہیں امت اپنی ترجیحات رکھتی ہے اور جہاں پر بھی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کا تصور ہو گا اور ناموس کا مسئلہ آئے گا مسلمان سب کچھ لٹا دیں گے

صحافی: مولانا ختمِ نبوت کے ساتھ ساتھ جو مذہبی جماعتیں ہیں اُن کو کچلنے لیے جو………….
مولانا فضل الرحمن صاحب: ظاہر ہے یہ تو ایجنڈا ہے پہلے دن سے نائن الیون کے بعد مسلم دنیا کی ریاستوں کی بھی یہی ڈیوٹی لگائی گئی ہے کہ اپنے اپنے ملک کے مذہبی حلقے اور دینی حلقے کو کچل ڈالو لیکن ان شاءاللہ وہ نہیں ہیں مشرف نہیں ہیں اور ہم ہیں
صحافی: مولانا آپ سمجھتے ہیں کہ زرداری صاحب اور نواز شریف صاحب یہ سب بھی انہی نکات پہ آپ کے پیچھے چلیں گے اور کوئی ایسی چیز جو بیرونی دنیا کی ہے وہ اُس سے مرعوب نہیں ہوں گے؟
مولانا فضل الرحمن صاحب: دیکھیں میں اِس وقت متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے گفتگو کر رہا ہوں اور اپنا نقطہ نظر دے رہا ہوں مجھے یقین ہے کہ جو ہماری سوچ ہے وہ ہر مسلمان کی سوچ ہے اس سوچ سے اختلاف اگر کر سکتا ہے یا پی ٹی آئی کر سکتی ہے یا اُس کے سرپرست کر سکتے ہیں
صحافی: مولانا یہ جو کہا جاتا ہے کہ اُن کے بیان نہ چلائیں اور دوسری طرف سعد رضوی صاحب پہ زور دیا جاتا ہے کہ اُن کا بیان چلائیں تو اس پہ کیا کہیں گے آپ؟
مولانا فضل الرحمن صاحب: میرے خیال میں میڈیا کو آزاد ہونا چاہیے اور میڈیا کو یہ ساری خبریں چلانے کی اجازت ہونی چاہیے یہ جو پابندی لگائی گئی ہے اگر اِن کے اقدامات کوئی جائز ہوتے اگر اِن کے اقدامات کی پبلک پہ کوئی مقبولیت ہوتی تو آج وہ میڈیا سے کہتے کہ چلاؤ…. یہ منہ دِکھانے کے قابل نہیں ہیں عوام سے منہ چھپانے کے لیے اُنہوں نے میڈیا پر پابندی لگائی ہوئی ہے کہ آپ نے یہ مناظر نہیں دکھانے
صحافی: مولانا یہ متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے آپ یہ گفتگو کر رہے ہیں تو کیا پی ڈی ایم یا اپوزیشن کی دوسری جماعتیں ہیں اُن سے خاص اِس مسئلے کے اوپر آپ نے رابطہ کیا ہے؟ یہ جو صورتحال ہے
مولانا فضل الرحمن صاحب: دیکھیے میں یہ جو بات اس وقت کر رہا ہوں میں ایک بڑے ذمہ دار پلیٹ فارم سے بات کر رہا ہوں اور ہم رابطہ کریں گے بھی لیکن اس وقت فوری ردِعمل ایک ہم دے رہے ہیں وہ اس وقت متحدہ مجلس عمل کا ہے اور ایک مذہبی جماعت کے ناطے ایک دوسری مذہبی جماعت کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے اُس پر ہم اپنا ردِعمل دے رہے ہیں
صحافی: مولانا یہ جو مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کیا ہے کیا آپ اُن کو سپورٹ کریں گے؟
مولانا فضل الرحمن صاحب: بالکل کریں گے مفتی منیب الرحمن صاحب اور ہماری سوچ ایک ہے
صحافی: مولانا میرا سوال یہ ہے کہ یہ لوگ سیاست میں نہیں تھے اچانک ایک سیاسی جماعت بنی اُس کو الیکشن لڑایا گیا اور اب اُس پہ اچانک سے پابندی لگوا کے……..
مولانا فضل الرحمن صاحب: میں کسی جماعت کے داخلی معاملات، اُس کی تنظیم، اُس کے قیام، اُس کے تسلسل سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن جس کے ساتھ بھی پاکستان کے ایک جمہوری ماحول میں اِس قسم کا واقعہ ہو گا جس طرح لاہور میں کل سے ہو رہا ہے تو پھر اُس پر ہم اپنا ردِعمل دیں گے
صحافی: مولانا ایک سوال یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ خاص کر آج کا یہ جو واقعہ ہے یہ ختمِ نبوت کے ساتھ جوڑا تو جا رہا ہے لیکن بنیادی طور پر تو یہ سعد رضوی صاحب کی گرفتاری کے خلاف ہے……..
مولانا فضل الرحمن صاحب: اب ظاہر ہے کہ جی اس طرح کے اقدامات میں جب آپ لوگوں کو گرفتار کریں گے لوگوں پر گولیاں چلائیں گے تو اُس کا پیچھے کوئی سبب ہو گا کوئی وجہ تو ہو گی اس طرح تو نہیں ہے کہ آپ کسی کو راستے میں جاتے ہوئے قتل بھی کر دیں اور لاش بھی کھینچ لیں ضرور اُس کے پیچھے کچھ مقاصد ہوں گے
صحافی: مولانا آپ جو جمہوریت کی بات کرتے ہیں اور ابھی آپ نے کہا کہ جہاں جمہوری بات کی جائے گی ہم وہاں پر اِن چیزوں کی مذمت کریں گے انہوں نے بھی جمہوری طور پہ ایک جدوجہد کی جمہوری دھارے میں آنے کی کوشش کی ڈھائی سال یا تین سال ہو گئے انہوں نے بھی سیاسی دھڑے میں آ کے کوشش کی تو آپ لوگوں کی جو اپوزیشن جماعتیں تھیں تو انہوں نے بھی اس کو قبول نہیں کیا بطور ایک سیاسی پارٹی کے… اس کی کیا وجہ تھی کہ آپ اب جا کے اُس کو قبول کر رہے ہیں
مولانا فضل الرحمن صاحب: دیکھیے میں ابھی بھی بہت زیادہ آگے نہیں جا رہا ہوں میں ایک خاص موقعے کے اوپر… آپ کو یاد ہونا چاہیے کہ جب دو سال پہلے جب ہم نے سب سے پہلا ملین مارچ کیا غالباً سکھر میں تو اُس وقت مرحوم خادم رضوی صاحب گرفتار ہوئے تھے اور اُس پہلے ملین مارچ میں ہم نے اُن کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا کہ یہ نہیں ہونا چاہیے. اختلاف کیا جا سکتا ہے اُس کے مقاصد کیا ہیں اُس سے آپ کا اتفاق ہے یا نہیں ہے لیکن اگر ایک ملک کے اندر پی ٹی ایم جیسی قوم پرست انتہا پسند دہشتگرد تنظیمیں پنپ سکتی ہیں تو پھر ایک مذہبی جماعت کے لیے گنجائش کیوں نہیں ہے جی؟
صحافی: کیا اِنہیں پی ڈی ایم میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی آپ نے؟
مولانا فضل الرحمن صاحب: نہیں
صحافی: مولانا یہ بتائیں کہ ہم تو متحدہ مجلس عمل کو بھول چکے تھے جماعت اسلامی چھوڑ چکی تھی کوئی بھی نہیں تھا یہ آج متحدہ مجلس عمل کہاں سے نکل آئی ہے؟
مولانا فضل الرحمن صاحب: بہت اچھی بات ہے یہی آپ سے توقع تھی

 

Facebook Comments