خضدار : جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل وڈپٹی چیئر مین سینٹ مولانا عبد الغفو ر حیدری نے کہا ہے کہ جمعیت علماء اسلام کے قائدین و کارکنوں کو موت سے ڈرا دہمکا کر ان کے نظریہ و جد وجہد سے باز نہیں رکھا جاسا سکتا ۔جمعیت علماء اسلام کی بنیاد یں پاکستان سمیت دنیابھر کے کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں رچ بس گئی ہے کہ ان کو نکالنا کسی طاغوت کے بس میں نہیں جو لوگ جمعیت علماء اسلام کے کارکنوں کو خوف زدہ کرکے اپنے کاز سے دور رکھنا چاہتے ہیں ۔ان کو برطانیہ و سویت یونین کے سامراجوں کی شکست و ریخت کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیئے، جمعیت علماء اسلام کا ہر کارکن اپنی نظریہ پر جان فدا کرنے کو دنیاء و آخرت کی سعادت سمجھتاہے۔میرے قافلہ پر حملہ ایک بزدلانہ فعل تھا ایسے بزدلانہ کاروائیوں سے ہمیں مرعوب نہیں کیا جا سکتا ہے جمعیت علماء اسلام ملک میں اسلام کے عادلانہ نظام کے لئے سیاسی و پارلیمانی جد و جہد جاری رکھے گی۔ ملک کو غیر مستحکم کرنے والے ملکی و بیرونی قوتوں کو یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ پاکستان کی بنیادوں میں بر صغیر کے ہزاروں مسلمانوں کا خون شامل ہے اس خون کو ہم رائیگاں نہیں جانے دیں گے ۔ملک کے جغرفیائی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لئے جمعیت علماء اسلام کا ہر کارکن سد سکندری بن جائیگا ۔ان خیالات کا اظہا ر مولانا عبد الغفور حیدری جمعیت علماء اسلام پاکستان کے مرکزی مجلس عمومی کے رکن میر یونس عزیز زہری سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔میر یونس عزیز زہری ، جمعیت علماء اسلام بلوچستان کے مجلس عمومی کے ممبر مولانا محمد صدیق مینگل ، جمعیت علماء اسلام کے راہنما محمد اکبر گنگو نے سی ایم ایچ کوئٹہ میں مولانا عبد الغفور حیدری کی عیادت کی ۔اس موقع پر مولانا عبد الغفور حیدری نے کہا کہ گرچہ مستونگ کا واقعہ انتہائی دل خراش ہے جس واقعہ میں ہمارے درجنوں کارکنوں نے جام شہادت نوش کیا درجنوں زخمی ہوئے ہمیں ان کا رکنوں کے خاندانوں کے ساتھ ہمدردی ہے ۔جمعیت علماء اسلام کا ہر کارکن ان شہدا ء کو اپنی فیملی کا ممبر سمجھتا ہے کیونکہ جمعیت علماء اسلام کے نظریہ سے وابسطہ افراد جہاں کے بھی ہوں وہ ایک بھائی کے مانند ہوتے ہیں ۔لیکن میں بستر علالت سے ان قوتوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں جن کا خیال ہے کہ وہ اس طرح کی کاروائیوں سے ہمیں خوف زدہ کرکے اپنے کاز سے دور رکھیں گے ان بزدلوں کے لئے میرا پیغام ہے کہ اس جیسی نیچ حرکتوں سے ہمارے حوصلے کمزور نہیں ہونگیں بلکہ مزید بلند ہونگیں ۔مولانا عبد الغفور حیدری نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام ایک حقیقت ہے جمعیت علماء کا نظریہ اور سرمایہ ہے جمعیت علماء اسلام کی جدو جہدکے ایک سو سال قربانیوں و شہادتو ں سے بھرے پڑے ہیں ۔اس تاریخ کو پڑھنے کی ضرورت ہے،جمعیت علماء اسلام کے بوریا نشین اپنے وقت کے سامراجوں سے ٹکرائے اور ان کے غرور کوخاک میں ملایاتھا آج وہ سامراج دنیاء سے مٹ گئیں ۔لیکن جمعیت علماء اسلام باقی ہے اللہ رب العالمین سے امید ہے کہ جمعیت علماء اسلام تا قیامت باقی رہیگی کیونکہ ہم اسلام کے اصولوں کی سیاست کرتے ہیں ۔ہماری طرز جد و جہد میں انتہاء پسندی قتل و غارت گری شامل نہیں ہے جمعیت علماء اسلام پاکستان کے تمام دینی و سیاسی قوتوں کے اتحادکی خواہا ں ہے ہم نے ہمیشہ قوم پر ستی و فرقہ پر ستی کے نام ،قتل وغا رت گری کی مذمت کی ہے اور آئندہ بھی اسی نظریہ پر کاربند رہیں گے ۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب