کوئٹہ: جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان نے کہاہے کہ ضمنی انتخاب نے ثابت کردیا کہ عام انتخابات جعلی ،دھاندلی شدہ اور ڈھونگ پر مبنی تھے۔
ساری دنیا کوچور اور ڈاکو کہنے والا خودووٹ پر ڈاکہ ڈال کر وزیراعظم بن گیا۔یہ حکومت نہیں مسخرہ ہے ،عوام پر مہنگائی کا پہاڑ گرادیا ہے جب حکومت کرنی نہیں آتی تو کس پاگل نے کہا تھا کہ اقتدار سنبھالیں۔موجودہ حکومت سی پیک کو سبوتاڑ کرنے کی ڈیل کے تحت حاصل کی گئی۔
ملک کی معیشت ،سی پیک منصوبوں کو تباہ اورچین کو ناراض کرنے ، ختم نبوت اور مدارس سے متعلق متنازعہ فیصلوں نے موجودہ حکومت کا ایجنڈا بے نقاب کردیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ میں جمعیت علماء اسلام کے زیر اہتمام ریلوے ہاکی گراؤنڈ میں علماء کونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک دینی مدارس کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ مدارس کی رجسٹریشن نیکٹا کو دینا ہمیں دہشگرد قرار دیئے جانے کے مترادف ہے۔ دینی جماعتوں کو کمزور کرنے کیلئے فرقہ پرست تنظیمیں بنائی گئیں۔انہوں نے کہا کہ 25 جولائی کے انتخابات کو میوزیم میں رکھنا چاہیے، ضمنی انتخابات نے ثابت کر دیا کہ عام انتخابات فراڈ تھا۔
ایسے شخص کو وزیراعظم بنانا اس عہدے کی توہین ہے۔ یہ حکومت سی پیک کو سپوتاڑ کرنے کی ڈیل کے تحت حاصل کی گئی۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ملکی تاریخ میں کبھی اتنی مہنگائی نہیں کی گئی جتنی موجودہ حکومت نے منی بجٹ میں کر دی۔
سٹاک مارکیٹ گر گئی اور ایک دن میں ڈالر سترہ روپیہ گر گیا۔ انہوں نے کہا کہ آج میری تقریر تمام میڈیا پر سینسر ہو رہی ہے۔ ایسا جمہوریت میں نہیں آمریت میں ہوتا ہے۔اس آمریت کو جمہوریت کے پیچھے چھپایا جارہا ہے یہ جبر کی حکومت ہے اور اس کا مقابلہ کریں گے۔
ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اندرونی نہیں بلکہ بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ ملک سیاسی، معاشی طور پر امریکا اور آئی ایم ایف کا غلام ہے۔کنونشن سے جمعیت علماء اسلام کے رہنماؤں مولانا عبدالغفور حیدری، حافظ حسین احمد، مولانا فیض محمد، ملک سکندر ایڈووکیٹ، حافظ حمداللہ، راشد محمود سومرو،مولانا صلاح الدین ودیگر پارٹی کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور دیگر رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ جمعیت علماء اسلام کے کارکن اسلا ف اور اکابرین کی جدوجہد پر مبنی تاریخ کے حامل ہیں۔
انگریز دور میں علماء کرام اور مذہبی طبقے کے خلاف ایک منفی تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ افسوس ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد بھی انگریز کے خلاف لڑنے والوں کو انگریز ہی کی نظر سے دیکھا گیا۔ مولوی کامنفی تاثر، مدرسے کے طالب علم اور استاد کی حقیرحیثیت بنانے کیلئے انگریزریاست نے پروپیگنڈہ کیااور آج بھی دینی مدارس اور استاد کے خلاف امریکہ، مغرب اور اس کے ادارے دہشتگردی، درندگی اور انتہاء پسندی کا تاثر پیدا کررہے ہیں۔
ہماری بیورو کریسی اور ریاست نے علماء بھی اور مدارس کے خلاف بھی یہی رویہ اپنا رکھا ہے۔مذہبی جماعتوں کی قوت کو کمزور کیا جارہا ہے۔ مولوی ہی کی صورت میں لوگ پیدا کرکے عوام کے ذہنوں میں انتشار پیدا کیارجا رہا ہے اورفرقہ پرست تنظیموں کے ذریعے مذہبی جماعتوں کے خلاف سازش کی جارہی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھیلنے والے جے یو آئی کی قوت کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ علماء اس حصار سے نکلیں کیونکہ جے یو آئی وہ قوت ہے جسے ملکی نظام اور نہ ہی بین قوامی اسٹیبلشمنٹ نظر انداز کرسکتا ہے۔ ہم پارلیمان کی سیاست کرتے آئے ہیں اور ہر زمانے میں انتخاب لڑا ہے۔
مگر ایسے مضحکہ خیز الیکشن کو میوزیم میں رکھنا چاہے۔ حیرت ہے کہ الیکشن کمیشن ڈھٹائی کے ساتھ کہتا ہے کہ الیکشن صاف و شفاف ہوئے ہیں یہ کہتے ہیں ہوئے شاید ان کو اپنا ضمیر بھی ملامت کرتا ہوگا۔ میری تو طبیعت اس بات پر آمادہ نہیں کہ اس حکومت کو حکومت کا نام دوں۔ یہ حکومت نہیں مسخرہ ہے۔ جس قسم کے لوگوں کو مناصب اور عہدوں پر بٹھایا گیا یہ ان مناصب کی توہین اور بے توقیری ہے۔
آجکل جو شخص وزیراعظم کے نام پر پہچانا جاتا ہے یہ وزیراعظم کے منصب کی توہین ہے۔ کہا گیا کہ میں وزیراعظم ہاؤس میں نہیں ملٹری سیکریٹری کے گھر میں رہوں گا۔ میں کہتا ہوں کہ ان کی حیثیت ہی ملٹری سیکریٹری والی ہے اور ان کا اصل کام ہی بیت الخلاء صاف کرنا ہے۔ انہیں غلط جگہ پر بٹھایا گیا ہے۔
ان کے ہاتھ میں جھاڑو ہونا چاہیے تھا اور گلی کوچوں کی صفائی کرتے۔حکمران کا مقام ان کا ہونہیں سکتا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں پاکستان کے ساتھ اس قسم کا مذاق بردشت نہیں۔ مجھ سے زیادہ پاکستان کا وفاداراور حامی کوئی شخص نہیں ہوسکتا۔
کسی کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ آج کے حکمران پاکستانی نہیں بیرونی ایجنڈے کے لوگ ہیں ان کی حکومت آنے پر قادیان سے لیکر تل ابیب تک خوشیاں منائی گئی مگر ان کے حکمران بنتے ہی پورے ملک میں ایک ہفتے کے اندر قادیانی نیٹ ورک جتنا متحرک ہوا۔ 1974ء کے بعد کبھی نہیں ہوا۔ اقتصادی کونسل میں قادیانی کو شامل کیا گیا اورجب دباؤ آیا تو ہٹادیا۔
یہ پوری اقتصادی کونسل ہمیں قبول نہیں۔ یہ لوگ پاکستان کے نہیں مغرب کے نمائندے بن کر معیشت کو مغرب کے تابع بنانا چاہتے ہیں۔ یہ مغرب کے وفادار ہیں۔ جب سی پیک آیا تو امریکہ ناراض ہوگیا اور ملک میں سیاسی بحران پیدا کردیا۔
وزیراعظم کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑآ کرکے نا اہلی کے نام پر ہٹایا گیا اور اس وعدے پر لوگوں کو حکمران میں لایا گیا کہ سی پیک کو سبوتاڑ کیا جائیگا اورموجودہ حکومت نے آتے ہی کہا کہ ایک سال کیلئے سی پیک کے تمام منصوبے مؤخر کرینگے۔مولانا فضل الرحمان نے کہ اکہ موجودہ حکومت نے تاریخی منی بجٹ پیش کیا ہے کیونکہ ملکی تاریخ میں کبھی اتنی مہنگائی نہیں ہوئی جتنی اس کے بجٹ کے نتیجے میں ہوئی۔
عوام پر ٹیکسوں اور مہنگائی کا پہاڑ گرادیا ہے اشیاء کی قیمتوں میں دو سو گنا تک اضافہ کردیا گیا۔ اسٹاک مارکیٹ تیزی سے گر رہی ہے روپیہ کی قدر ایک دن کے اندر سترہ روپے گر گئی۔ جب حکومت کرنا نہیں جانتے تو کس پاگل نے کہا کہ حکومت کرو۔ اقتصادی طور پر پاکستان اور سی پیک کے تمام منصوبوں کو برباد کردیا ہے۔
بجٹ میں ساڑھے چار سو منصوبے نکال دیئے گئے ہیں۔ کیا قوم کو اس طرح ترقی دی جائے گی ؟۔ سادگی کی باتیں کرنے والوں نے پنجاب کے بجٹ میں گورنر،وزیراعلیٰ اور وزراء کی تنخواہوں اور مراعات میں ساٹھ فیصد اضافہ کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مدارس کی رجسٹریشن کی منسوخی اور نئے سرے سے وزارت داخلہ کے ماتحت دہشتگردی سے نمٹنے کے ادارے نیکٹا کے ذریعے رجسٹریشن کرانے کی بات کی گئی۔ مدارس کو اس زمرے میں رکھا جارہا ہے۔
جے یو آئی نے ختم نبوت پر نیا قانون لانے پر بھی بھر پور احتجاج کیا جس کے تحت مدعی کو دعویٰ ثابت نہ کرنے پر سزا ئے موت تجویز کی گئی۔ موجودہ حکومت کے تمام اقدامات سے ان کا ایجنڈا بے نقاب ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جمعیت کے کاکرن مشکلات کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنی صفوں کو متحد رکھیں اور اپنے جھگڑوں کو ختم کرکے جماعتی صفوں میں رخنہ ڈالنے والوں کو ناکام کریں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ملکی اداروں سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ ہمارے ریاست کے ادارے ہیں۔ آپ کا کام ملک اور ریاست کا تحفظ ہے۔ علماء اور سیاسی جماعتوں کو آپس میں لڑانا یہ آپ کی ڈیوٹی نہیں ورنہ آپ پھر ریاستی ادارے کم کہلائیں گے اور سازشی ادارے زیادہ کہلاؤگے۔
ہم آپ سے یہی خیر خواہی کرسکتے ہیں کہ آپ کو نصیحت کریں۔ انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام تیار رہیں اگر کوئی مشکل آتی ہے تو پھر ڈٹ جانا بھی ہمارا وطیرہ ہے۔ بزدلی ہماری شناخت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ علماء کرام ان حکمرانوں کی صفائیاں دے کر اپنی آخرت خراب نہ کریں۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پاکستان اگر آزاد ریاست ہے تو اسے آزاد ریاست کی طرح اپنا تعارف کرانا ہوگا۔ نام آزادی اور عمل میں ہم غلام ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے اس وقت کے آرمی چیف اور چیف ایگزیکٹیو پرویز مشرف نے خود کہا تھا کہ ہم غلام ہیں اور غلامی ایک حقیقت ہے اور ہم تسلیم کرتے ہیں۔ اس سطح پر امریکہ کی غلامی کو تسلیم کرکے مجھے بھی اس پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر ہمارے آباؤ اجداد نے یہ درس نہیں دیا کہ سر جھکائے۔
ہمیں آزادی اور ڈٹ جانے کا درس ملا ہے۔ تمام علماء کرام سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے سروں پر پگڑی سر انچا رکھنے کیلئے ہیں سر جھکانے کیلئے نہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ میں تقریر کررہا ہوں مگر تمام چینلز پر سینسر ہورہی ہے۔
مطلب کے جملے قوم کو سنائے جاتے ہیں اور باقی پوری تقریر غائب کردیتی جاتی ہے۔ میرے پورے کے پورے انٹرویوز غائب کئے گئے۔ یہ تو مارشل لاء میں ہوتا ہے۔ ایسا جمہوریت میں نہیں ہوتا۔
اگر مارشل لاء ہی چاہیے تو پھر جمہوریت کے پیچھے چھپ کر مارشل لاء نہ لگائے پھرکھل کر کہیں کہ یہاں پر جبر کی حکومت ہے۔ ہم نے کبھی جبر کی حکومت تسلیم نہیں کی۔ہم ضیاء اور پرویز مشرف کے دور میں بھی ہم جبر کے خلاف لڑے ہیں۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم سیاسی طور پر بھی آزاد نہیں۔ ہم اقتصادی اور دفاعی طور پر بھی آزاد نہیں۔ ہم اقتصادی لحاظ سے امریکہ ،ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے غلام ہیں۔ ہمارے فیصلے سلامتی کونسل، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق اور جینیوا انسانی حقوق کمیشن میں ہوتے ہیں اور اس سطح پر جب کوئی فیصلہ صادر ہوتا ہے اگرچہ وہ ہمارے آئین اور قانون سے بھی متصادم ہوں تو ہمارے اپنے ملک میں ہمارا پنا قانون غیر مؤثر ہوجاتا ہے۔
جو کچھ آج ہورہا ہے چاہے دہشتگردی کے نام پر ہورہا ہے چاہے مدارس کے خلاف ہورہا ہے یہ بین الاقوامی فورم پرکئے گئے فیصلے ہیں۔ یہ بین الاقوامی ایجنڈے ہیں اور ہم نے بین الاقوامی ایجنڈے کو پاکستان کی سرزمین پر ناکام بنانا ہے۔
یہ پاکستان کا داخلی مسئلہ نہیں۔ ہمیں پاکستان کے اندرونی معاملات میں اس طرح مت الجھاؤ کہ جھگڑا کسی اور کا ہو اور مدعی میرا اپنا بھائی بن جائے۔ میرا بھائی مدعی نہ بنے میرا بھائی اتنا کہے کہ میری مجبوری ہے۔
پھر میں آپ کو سپورٹ دے سکتا ہوں پھر میں آپ کا دست بازو بن سکتا ہوں لیکن اگر چین جیسا ہمارا دوست ستر سال کے بعد ان کی اور ہماری گہری دوستی اقتصادی دوستی میں تبدیل ہوئی تو آج ہم اپنے اس دوست کو ناراض اور مایوس کررہے ہیں اور وہ مغرب جس نے آج تک ہمیں غلام بنائے رکھا آج ہم دوبارہ غلامی طرف جارہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کہا گیا کہ قرضے نہیں لیں گیاور اگر لیے تو خودکشی کرلیں گے۔ تم کون ہوتے ہو ایسی بات کرنے والے۔ حکمران ملک کی زبان بولتا ہے۔ ملک کی کتنی طاقت ہے پہلے یہ تو سمجھو۔ ملک کی معیشت کہاں کھڑی ہے ہم کیا کرسکتے ہیں پہلے اپنے آپ کو سمجھو پھر بھڑکیں مارو جتنے مار سکتے ہو۔
کہتے ہیں کہ ہم ایوان صدر،وزیراعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤس کو یونیورسٹی اور میوزیم بنائیں گے۔ یہ قومی اثاثے ہیں تم چند دن کے غلام بن کر حکمران بن کر آئے ہوں قومی اثاثے کو تم نے کھلونا بنایا جس طرح کہ تم ہر چیز کو کھلواڑ بناتے ہو۔ قومی ا ثاثوں کا مذاق اڑانے نہیں دیا جائیگا۔ یہ کوئی ورثہ یا آثار قدیمہ نہیں۔
اس پر قوم کا پیسہ خرچ ہوا ہے۔ قوم کا پیسہ جس چیز پر خرچ ہوا ہے اسی طرح ہوگا۔ ورنہ میں پھر آپ کو ایوان صدر،وزیراعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤس سے بھی بڑے بڑے محل بتادونگا وہاں پھر کیوں آپ کی ما ں مر جاتی ہے اس کی بات کیوں نہیں کرسکتے۔
حکمران آنکھیں بند کرکے کچھ پتہ نہیں کیا کیا کرنے جارہے ہیں اور نمائشی قسم کے فیصلے کررہے ہیں۔ حکمران پلے ملک کو سمجھیں اور تملک کی ضرورتوں کو توسمجھیں۔ انہوں نے کہا کہ ساری دنیا کو چور اور ڈاکو کہنے والے کی اپنی جو حکومت ہے یہ بھی ڈاکے اور چوری کے ووٹ کی حکومت ہے۔
انہوں نے ووٹ چوری کیا اورووٹ پر ڈاکہ ڈالا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی کے اندر ایک پارلیمانی کمیٹی بنی ہے جو دھاندلی کی تفتیش کرے گی۔ میرے خیال میں اب کمیٹی کی ضرورت نہیں۔ضمنی الیکشن نے بتادیا کہ پچیس جولائی کے عام انتخابات کیا تھے۔
کہاں گئی وہ مقبولیت۔ ہم نے پہلے بھی کہا کہ ان کے پاس مینڈیٹ نہیں اور ہم چوری کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کرتے۔ ضمنی انتخاب نے بتادیا کہ عام انتخابات ایک ڈھونگ، جھرلو اور دھاندلی پر مبنی تھے۔
چوری کا مینڈیٹ لیکر کچھ لوگوں کو کرسی پر بٹادیا گیا۔ میاں نواز شریف کی حکومت میں پی ٹی آئی نے مطالبہ کیا تھا کہ چار قومی اسمبلی کے حلقوں کو کھولا جائے تو پتہ چل جائیگا کہ وہاں دھاندلی ہوئی۔ اب وہی چار حلقے مسلم لیگ ن نے ضمنی الیکشن میں پھر جیت لئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے کہ اکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ حزب اختلاف متحدہ ہوں اور ایک صفے پر آجائے۔ کچھ چیزیں ہوتی ہیں جو ملک کے اندر مسترد ہوتی ہیں۔
ہمارے آپس میں اختلافات ہیں لیکن اگر کوئی ڈاکو ہمارے گھر ، شہر یا ملک پر قبضہ کرلیتا ہے اور میرے گھر کو آگ لگالیتا ہے تو ہم نے ملکراپنے گھر کو آزاد کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ علماء کرام مدارس کے ساتھ ساتھ اسکول اور کالجز کے بچوں اور نوجوانوں کو بھی بے راہ روی سے بچانے کیلئے کوششیں کریں۔

مجھےکسی بھی شخصیت سے حب الوطنی کا سر ٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں،مجھ سے بڑا کوئی بھی حب الوطن نہیں،ملک کیساتھ مذاق برداشت نہیں کرینگے،مولانا فضل الرحمان
Facebook Comments