کوئٹہ :
حق اور باطل کا یہ معرکہ چلتا رہیگا میں نے اپنی زندگی میں حادثات دیکھے ہیں جس تحریک سے ہم وابسطہ ہے جس جماعت اور اکابرین کیلئے ہم محنت اور جہدوجہد کرر ہے ہیں اسکی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہیں مجھے اپنے ساتھیوں کا بہت دکھ ہے، بہت یاد آتے ہیں ساری لاشیں اپنے سامنے تڑپتی دیکھیں ،صدمہ بہت ہوا مگر یقین اور پختہ ہوگیا کہ مارنے والے سے بچانے والی زات بڑی ہے، ان خیالات کا اظہار جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے اپنی عیادت کیلئے آنے والے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ جب لاشوں کے درمیان انسان زندہ رہ سکتا ہے تو اس پروردگار کے سامنے سب ہیچ ہے اور یہی ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ پاک کی ذات بہت بڑی ہے یہ مقدرات ہے مجھے بار بار اپنے شہید اور زخمی ساتھی یاد آتے ہیں لیکن جس تحریک اور کاز کیلئے ہم جہدوجہد کر رہے ہیں اس طرح کے حربے ہمارا راستہ نہیں روک سکتے، انہوں نے کہا کہ مجھے بہت پہلے تھرٹ تھا کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے لیکن میں ایسی جماعت اور تحریک سے وابسطہ ہوں کہ اپنے مشن اور کاز کیلئے گھر نہیں بیٹھ سکتے میرے حوصلے بلند ہے میں گھر گھر جاکر اسلام کا آفاقی پیغام پہنچاونگا۔ اسلامی لحاظ سے میری طبعی عمر مکمل ہوچکی ہے۔ اللہ پاک کی زات نے مجھے بچایا شاید اور کام لینا چاہتے ہیں ہمارے کارکن اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرے اور کسی تخریب کار کو اپنے صفوں میں گھسنے نہ دیں،ہم سیاست کے اس مقام پہ ہیںکہ ہماری فکری اور نظریاتی سوچ یہی ہے کہ ہم نہیں ہونگے تو ہمارا کارکن تو ہے یہ کتنے کارکنوں کو ماریں گے،آج الحمدللہ طبیعت میں افاقہ ہے آپ حضرات کی زیارت ہوئی دل خوش ہوا ہم نے ہمیشہ امن اور یکجہتی کی بات کی ہے ہم نے جمعیت کا صد سالہ منایا ایک پٹاخہ نہیں پھٹا اس سے ہمارے پرامن اور جماعت کی حقانیت کا اندازہ لگاسکتے ہیں ہم نے دنیا کو امن اور بھائی چارگی کا پیغام دیا ہمارے کارکن اب بھی پرامن رہے کسی بھی قسم کے جلاؤ گھیراؤ سےبچیں
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب