امریکہ نے معیشت کی بنیاد پر دنیا کو یرغمال بنایا ہے، میں تنقید کو اصلاح کی تناظر میں لیتا ہوں، ہم تنقید تو کیا بہتان بھی برداشت کر رہے ہیں، صحافت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے آزادیِ صحافت کے قائل ہیں . مولانا فضل الرحمٰن

اسلام آباد ( خالد شریف )
امریکہ نے معیشت کی بنیاد پر دنیا کو یرغمال بنایا ہے، میں تنقید کو اصلاح کی تناظر میں لیتا ہوں، ہم تنقید تو کیا بہتان بھی برداشت کر رہے ہیں، صحافت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے آزادیِ صحافت کے قائل ہیں . مولانا فضل الرحمٰن
اسلام آباد پریس کلب میں صحافی تنظیم کی جانب سے اظہار رائے کی آزادی پر منعقدہ سیمینار میں مولانا فضل الرحمن نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے، سیاست،صحافت اور جمہوریت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، بادشاہت میں بادشاہ کی مرضی کے بغیر ایک لفظ بولنا بھی مشکل ہے، پاکستان میں خرابیوں کی وجوہات بہت ہیں، پاکستان میں بظاہر وزیر خزانہ ایک سیاست دان ہوتا ہے جس کو ساری خامیوں کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے، مگر کوئی نہیں جانتا کہ پیچھے معاملات کون چلاتا ہے، دنیا کی سیاست بدل گئی ہے، ایک زمانہ تھا دنیا میں نظریاتی جنگ ہوا کرتی تھی، ایم آر ڈی کے دور میں میں خود جیل میں تھا، سرمایہ دارانہ نظام میں اب سیاستدانوں کو کرپٹ قرار دیا جاتا ہے، مذہبی آدمی کو گرفتار کیا جاتا ہے تو دہشتگرد قرار دیا جاتا ہے، پگڑی داڑھی والوں کو دہشتگرد یا سہولت کار کا لقب دیا جاتا ہے، امریکہ نے معیشت کی بنیاد پر دنیا کو یرغمال بنایا ہے، میں تنقید کو اصلاح کی تناظر میں لیتا ہوں، ہم تنقید تو کیا بہتان بھی برداشت کر رہے ہیں، ہم پر کرپشن یا عدالت میں کیس نہیں ہیں پھر کردار کشی کے علاوہ کیا رہ جاتا ہے،
مولانا کا کہنا تھا کہ میڈیا کی آزادی کا مطلب آوارگی نہیں ہونا چاہیے ہمیں اعتدال کی طرف جانا چاہیے، عوام اور قوم کے سامنے جوابدہ ہونے کے علاوہ اللہ کے سامنے بھی جواب دینا ہے، ہماری آواز ماضی میں بھی صحافت کے ساتھ تھی آئندہ بھی ساتھ ہوگی، ایسی کوئی بات یا کام نہ کیا جائے جس سے ریاست کو نقصان ہو اس پر کوئی اختلاف نہیں، یہ کیسا انصاف ہے کہ ریاست محترم ہے اور رہنے والا باشندہ محترم نہیں، نیب نے سب سے زیادہ ریکوری فوجیوں، دوسرے نمبر پر بیورو کریسی اور تیسرے نمبر پرسیاستدانوں سے کیں،
فوج قابل احترام ادارہ ہے مگر جب فوجی سیاست میں آئے گی تو مسائل بنیں گے، پھر فوج کہتی ہیں کہ ہم پر تنقید بھی نہ کریں _ انہوں نے کہا کہ عدالت میں بیٹھے جج کا کیا کام ہے کہ کسی کی کردار کشی کرے، اگر کوئی اعلی جج کرسی پر بیٹھ کر تنقید کریں گے تو تنقید برداشت بھی کریں، آپ ہماری کردار کشی کریں تو درست ہم تنقید کریں تو توہین عدالت لگ جاتی ہے ایسے نہیں چلے گا، آئین پر عملدرآمد ہونے نہیں دیا جاتے، جس کی وجہ سے پس پشت قوتیں ملک چلانے کے لیے کوشاں ہیں، ہم نے دنیا میں نظریاتی سیاست کا بھرم رکھا ہوا، اس ملک کو بنانا ہے تو آئین پر عمل کرنا ہوگا، فاٹا کے معاملہ پر میرے دلائل کا آج بھی ان کے پاس جواب نہیں ہے

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ وانا میں ایک بڑی تحریک نکل چکی ہے آپ وہاں نہیں جا سکتے، نیشنل ایکشن پلان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم والوں نے بنایا اور سب سے پہلے انہیں پر لاگو ہوا، ملکی مفاد کے خلاف نہیں جانا چاہیے، فیصلہ جو بھی کرے اختلاف رائے کے باوجود ملکی مفاد میں ساتھ کھڑے ہیں _

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ 73 کے آئین میں اسلامی دفعات ہیں مگر اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک سفارش پر بھی عمل نہیں ہوا۔ کیا پس پردہ قوتیں ملک کو چلاتی رہیں گی، صحافت حقائق کو پیش نظر رکھ کر ہم پر تنقید کرے، ملک کو بنانا ہے تو آئین پر عمل درآمد کرنا ہوگا.