اسلام آباد : ( رپورٹ : مفتی خالد شریف )
جمعیت علماءاسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے آج اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ
فاٹا انضمام کے حوالے سے آئینی ترمیم ہوچکی ہے لیکن جس ماحول میں جس عجلت کیساتھ جبکہ پارلیمنٹ کی مدت پوری ہورہی ہے
ایسے وقت میں ایک قومی ایشو کو قومی سطح کے مسئلہ پر جو رویہ اختیار کیا گیا اس نے پاکستان کے مستقبل پر انتہائی منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔
اس موقع پر ان کے ہمراہ جے یو آئی کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری،فاٹا کے پارلیمانی رکن مولانا جمال الدین، صوبہ سندھ کے سیکرٹری جنرل مولانا راشد محمود سومرو ودیگر بھی موجود تھے۔
اس موقع پر مولانا نے کہا کہ حکومت اور اسکے وزراء برملا اس بات کو اعتراف کرچکے ہیں کہ فاٹا انضمام کے حوالے سے زمینی حقائق ہماری رائے کے خلاف ہیں۔
اس کا اظہار وفاقی وزراء اور اس مسئلے سے وابسطہ اراکین میڈیا کے سامنے کر چکے ہیںکہ زمینی حقائق وہی ہیں جو فضل الرحمٰن کرتا آرہا ہے۔
ہم نے اس مسئلے پر پیش رفت روکنی ہے۔وزیراعظم شاہد خاقان اور وزیر سیفران عبدالقادر نے یہاں میرے گھر آکر مجھے یقین دلایا اور حکومتی رائے سے آگاہ کیاکہ انضمام نہیں۔۔۔۔فاٹا انضمام نہیں ہوگا۔۔۔جسکا وہ انکار نہیں کرسکتے۔
رواج ایکٹ پر کاروائی روک دی جائے گی۔فاٹا سے کے پی اسمبلی میں نشستیں مختص نہیں کی جائیں گی۔البتہ سپریم کورٹ اور پشاور ہاتی کورٹ کی توسیع تک بات کی تھی۔جو بعد میں انہوں نے کربھی دی جس پر بھی ہمارا ان سے اتفاق نہیں تھا۔
غیر متوقع طور پر ایک ایسا بل جو فاٹا سے متعلق تھا اسمیں پاٹا کو بھی شامل کیا گیااور بلوچستان کے بھی علاقوں کو شامل کیا گیا۔
اور وہاں کی عوام کے تحفظات کو دور کئے بغیر بل پاس کیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ پاٹا سے عوامی نمائندوں کی اس ترمیم کی حمایت کرنے سےوہاں کی عوام اب اپنے نمائندوں کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔وہ بے معنی قراردادوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کررہے ہیں بجائے اس کے کہ وہ اپنے تحفظات کو اس بل میں ترمیم کی صورت میں شامل کرتے،ترمیم کی صورت میں تو شامل نہ کرسکے اب قرارداد کے پیچھے چھپ کر عوام کے سامنے اپنی پوزیشن کلیئر کرنے کی کوشش کیلیکن عوام سادہ نہیں ہیںکہ وہ ان چیزوں کو نہیں سمجھتے۔
مولانا کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت فاٹا سے ایف سی آر کا قانون تو ختم ہوگیا مگر نئے نظام نے اس کی جگہ نہیں لی ایسا خلا پیدا ہو گیا جیسا 1947 میں 1892/93 کے معاہدات ختم ہوگئے اور یہ علاقہ آزاد اور علاقہ غیر کہلانے لگا۔اور قائد اعظم کو دوبارہ قبائلی مشران کے ساتھ معاہدہ کرنا پڑا جس پر انہوں نے پاکستان سے الحاق کیا،اسی پیکج کے ساتھ جو سابقہ انگریز دور سے معاہدات چلے آرہے تھے۔
یعنی ان کی نظر میں ان کو آج یہ اراک ہوگیا کہ قائداعظم کا وژن غلط تھا اور اب یہ لوگ فاٹا کے بارے میں صحیح سوچ رہے ہیں
سیاسی جماعتوں کے تذبذت کا عالم یہ ہے کہ جمرود میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے مشترکہ پریس کانفرنس کی ہے کہ ہمارےقبائلی علاقوں میں پولیس کی عمل دراری نہیں ہونی چاہیئے ایک طرف انضمام کی حمایت اور دوسری طرف پولیس کی عمل داری کو روکنے کیلئے مشترکہ پریس کانفرنس۔۔۔اس سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انکو خود بھی معلوم نہیں کہ جو کچھ کیا اس سے کمایا ہے یا گنوایا ہے۔
میں نے بند کمروں کے اندر بھی اور کھلے عام بھی پارلیمنٹ کے فلور پر بھی اور سیمنارز میں بھی شاید زیادہ وضاحت سے تو نہیں کیونکہ مجھے ملکی سلامتی بھی عزیز ہے،میں ملک کیلئے مشکلات بھی نہیں پیدا کرنا چاہتا تھا۔
لیکن جو خطرات میں دیکھ رہا تھا ان سے بھی چشم پوشی بھی نہیں کرسکتا تھا،جنرل باجوہ سے براہ راست کہا،پرائم منسٹر کی موجودگی میں کہا کہ افغانستان کی طرف سے مشکل آسکتی ہے۔ابھی ہم مشرقی سرحدات کت تنارع سے نکلے نہیں کہ مغربی سرحدات کے تنازع کو دعوت دے دی۔یہ کون سا پاکستان کامفاد ہے یہ کس طرح ہم پاکستان کی خدمت کررہے ہیں؟ اور پاکستان کے مفاد میں یہ فیصلے کررہے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ اور حکومت نے ہماری رائے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
اب جو نئی صورتحال پیدا ہوئی اسمیں خدا نہ کرے آنے والے حالات میں فاٹا کی عوام اسکا ایندھن بنیں گے ،کیا قبائلی عوام اسلیئے پیدا ہوئے ہیں جو کہ ہر دور میں جلتے رہیں۔
ہر نئی آگ بھڑکائی جائے اور اسمیں قبائل کو جلایا جائے آپ نے یہ بھی دیکھا کہ بڑے دعوے کئے جاتے رہے کہ پارلیمنٹ میں قبائلی ممبران ہمارے ساتھ ہیں،قبائل کے براہ راست عوامی نمائندے ہمارے ساتھ ہیں جبکہ قومی اسمبلی میں صرف ایک ووٹ ملا۔
وزیر اعظم صاحب کہتے ہیں کہ رات تک تو ہمارے ساتھ تھے۔
رات تک نہیں میں 10 مئی کی میٹنگ میں موجود تھا اور وہاں پر قومی اسمبلی میں فاٹا اراکین کا پارلیمانی لیڈر موجود تھا اور انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم صاحب ہم آپ کے ساتھ اس مسئلے میں نہیں۔
جسطرح خفیہ ادارے دباؤ میں لاتے رہتے ہیں اس طرح ان کو دباؤ میں لاتے رہے بالآخر انہوں نے ووٹ نہیں دیا اور پھر بعد میں وزیر اعظم صاحب خود وضاحت کرتے ہیں کہا کہ انہیں اپنے علاقوں میں مشکلات پیش آسکتی ہیں یعنی انکو ادراک تھا کہ یہ اتنا غیر مقبول فیصلہ ہے فاٹا عوام کی نظر میں کہ فاٹا ممبران اپنے عام کا سامنا نہیں کرسکیں گے۔
اس اطلاع کے باوجود اتنا بڑا فیصلہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
اب بھی ہم سمجھتے ہیں کہ فاٹا عوام سے رائے لی جائے۔فاٹا جرگہ کے حوالے کریں گے۔
ان فیصلوں کے خلاف احتجاج ہمارا آئینی حق ہے اسلام آباد میں 120 دن دھر نا دیا گیا اور اسے پوری قوم نے برداشت کیالیکن اگر فاٹا کے لوگ جمعیت علماءاسلام کے لوگ اپنی رائے کا اظہارکرنے کیلئے آئے تو وہ آپ سے ایک منٹ کیلئے بھی برداشت نہ ہوئے اور روزے کی حالت میں ان پر شیلنگ کی گئی دھویں پھینکے گئے لاٹھی چارج کیا گیا۔ظاہر کہ پھر میدان جنگ تو گرم ہونا ہے آنے والے حالات میں کیا بنے گا۔میں اب بھی معاملہ فاٹا جرگہ کے سپرد کرتا ہوںوہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے ہم پہلے بھی فاٹا کے عوام کے ساتھ تھے اب بھی فاٹا عوام کے ساتھ ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں مولانا کا کہنا تھا میں قانون و آئین کو ظاہری طور پر نہیں دیکھتا پس منظر میں یہ جو کچھ ہوا ہے بھیانک ہے اس پر زیادہ تبصرہ بھی شاہد مشکل ہو۔جو لوگ اس اسمبلی کو لعنتی اسمبلی کہتے تھے جعلی اسمبلی کہتے تھے پورا سال اسمبلی نہیں آئے آج کے دن انہوں نے بھی حاضری دی۔خیبر پختوخوا اسمبلی میں جس ممبر کو جوتے مارے گئے حلف نہیں اٹھا نے دیا اور وہاں سے جیل بھیج دیا گیا۔اسمبلی کی طلبی کے باوجود اسمبلی نہیں لایا جارہا تھا آج کے دن اس کا بھی بلاوا آگیا تمام ممبران کی موجودگی میں باوقار انداز میں حلف بھی لیا گیا اور انگوٹھا بھی لگوایا گیا۔۔۔یہ ہوتی ہے جمہوریت ؟ کون کرارہا ہے کس نے ہاتھ مروڑا ہوا ہے کس نے گردن پہ ہاتھ رکھا ہوا ہے۔
میں سمجھتا ہوں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی یہ باتیں پاکستان کی تاریخ کے اوراق پر رقم ہوں گی۔
میں سمجھتا ہوں کہ آخری دنوں میں پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں نے بدنیتی کا مظاہرہ کیا ہے اور اجتماعی خود کشی کا فیصلہ کیا ہے۔
غلط فیصلے غلط ہوتے ہیں۔۔۔کم از کم کل اس کے ہونے والے نقصانات سے ہم بری الذمہ ہوںگے۔
ایک سوال کے جواب میں مولانا کا کہنا تھا کہ ہم ملکی معمول کی سیاست کا حصہ تو ہیں اور اسمیں حکومتیں بنتیں ہیں اور اسمیں حکومت کی مخال حمایتی دونوں ہوتے ہیں ،
حمایت میں معاملات طے کئے جاتے ہیں ہمارا ضمیرمطمئن ہے کہ ہم نے ن لیگ حکومت سے ذاتی مفاد کے حوالے سے کوئی معاملات طے نہیں کئے ہم نے ان کے ساتھ نظریاتی حوالے سے معاملات طے کئے میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ہم اتنے سادہ نہیں کہ ن لیگ سے اسلامی نظام اور سود کے خاتمے کی توقع رکھیں اتمام حجت ہم نے کی لیکن یہ چیزیں ہم خود پوری کریں گے جب ہم خود اقتدار میں آئیں گے کسی اور کے سہارے پر حجت تو تمام کرسکتے ہیں لیکن اتنی بڑی توقعات وابسطہ کرلینا میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں بجا طور میاں محمد نواز شریف صاحب سے اور انکی مسلم لیگ ن سے گلہ کرنے کا حق ہے کہ نہ تو انہوں نے ان معاہدات پر عمل کیا اور پانچ سالہ وفاداری کا جو صلہ دیا کوئی اخلاقی دنیا اس کی اجازت نہیں دیتی۔
رضا ربانی نے اپنی پارٹی ڈسپلن کی پابندی کے باوجود اپنے ضمیر کی آواز کا ساتھ دیاہے آج اگر وہ سینیٹ کا چیئرمین نہیں بن سکا ہے تو اسی بنیاد پر کہ اس نے اپنے ضمیر کا ساتھ دینا تھا۔
صدر پاکستان کو تمام حقائق کا ادراک ہونا چاہیئے ،فاٹا کے عوام کے ردعمل کے بعد ان کو اپنے دستخط روک دینے چاہیئیں، پبلک کا رد عمل آچکا ہے۔درہ آدم خیل میں عوام نے اپنے نمائندے کے ساتھ جو کیا وہ جمعیت کے کارکن نے نہیں عوام نے کیا ہے۔
اسکا رد عمل بڑھتا ہی جائے گا تو ایسی صورتحال میں صدر مملکت اس بل پر دستخط نہ کریں۔
چار آئینی دفعات کو پہلے ختم کرنا ہوگا اور تمام آئینی قوانین لاگو کرنے سے پہلے کیا ضروری نہیں تھا کہ ہم اتنا بڑا آئینی سٹیٹس تبدیل کررہے ہیں کہ آپ اس پر راضی بھی ہیں یا نہیں
125 سال سے زیادہ عرصہ کا سٹیٹس جسمیں انکی چھٹی نسل جارہی ہے تو کم سے کم ان سے پوچھ لی جائے۔
ہم عالمی عدالت میں بھی اس مسئلے پر سٹینڈ لے سکتے تھے ہمارے پاس دلیل ہوتی کے عوام کی مرضی کے مطابق فیصلہ کیا گیا۔
عجیب بات یہ ہے کہ پنجاب کے جنوبی اضلاع کی پسماندگی کا علاج صوبے سے علیحدگی ہے اور الگ صوبہ دینا ہے اور فاٹا کی عام پسماندہ ہیں اور ان کی پسماندگی کو دور کرنے کیلئے کے پی میں ضم کرنا ضروری ہے۔
ایک ہی پسماندگی ہے اور پنجاب میں سیٹیں بڑھائی جائیں گی اور یہاں سیٹیں کم کی جائیں گی۔
اسطرح کے فیصلے قبائل کو غلام رکھنے کیلئے کئے گئے ہیں ہم ان کی آزادی کی جنگ لڑیں گے، اور پاکستان کی آزادی کیلئے بھی آواز بلند کرتے رہیں گے ان حقائق کیخاطر اگر جان کی قربانی بھی دینا پڑی دے جائیں گے لیکن تاریخ میں ہماری سچائی کو ضرور یاد رکھا جائے گا۔
نگران وزیر اعظم کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جسٹس ناصر الملک کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جسٹس صاحب نیک نام شخصیت ہیں اور جب تمام جماعتوں نے ان پر اتفاق کرلیا ہے تو ہمیں پہلے بھی کسی قسم کا اعتراض نہیں تھا۔
حکومت ایک بار پھر اینٹی ٹیررزم ایکٹ 1997 میں ترمیم کرنے جا رہی ہے جس سے دفاعی اداروں کو بے پناہ اختیارات ملیں گے جو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر ہیں۔ پہلے نیب کے اختیارات پر اعتراض تھا اور ان میں کمی کی گئی تھی، لیکن اب دفاعی ادارے کو کسی کو شک کی بنیاد پر 90 دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار دیا جا رہا ہے جو سراسر غیر جمہوری عمل ہے،ملک میں سول مارشل لاء کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ، جو جمہوریت اور “ووٹ کو عزت دو” کی بات کرتے ہیں، آج اپنے ہی ہاتھوں جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ 26ویں ترمیم میں کچھ شقیں واپس لینے پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی، لیکن یہ نیا ایکٹ اسی ترمیم کی روح کے خلاف ہے۔ یہ آئین اور پارلیمنٹ کی توہین ہے کہ ایک دن آپ ایک فیصلہ کریں اور اگلے دن اسے نظر انداز کر دیں۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان
فیصلے اجلاس مرکزی مجلس شوری جے یو آئی پاکستان
میں اداروں کا احترام کرتا ہوں لیکن میری نظرمیں بھی ان کی پالیسیاں سیدھی نظرآئیں، میں نے بھی چالیس سال صحراؤں میں گذارے ہیں، آنکھیں بند کر کے بات نہیں کر رہا بلکہ مشاہدات کے ساتھ بات کرتا ہوں،اگر ہم یہ بات نہیں کریں گے تو قوم کے ساتھ خیانت ہوگی،آپ اپنا قبلہ درست کریں ہم آپ کو سر کا تاج بنا لیں گے۔قوم کی قدر کریں، آپ کے کرنل اور میرے عام کارکن کے پاس ایک ہی شناخت ہے، دونوں کے لئے ایک ہی آئین ہے۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا ڈی آئی خان میں ورکرز کنونشن سے خطاب
43ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر سے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا خطاب
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا چھبیسویں آئینی ترمیم پر قومی اسمبلی میں تاریخی خطاب