مینار پاکستان گراؤنڈ میں جلسہ عام سے خطاب میں جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر وصدر متحدہ مجلس عمل مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ہمارا بہت خون بہہ چکا ہے، دینی رہنما تعاون نہ کرتے تو فوج اکیلی امن قائم نہیں کرسکتی تھی، ملک میں رہنا ہے تو ایک دوسرے پر اعتماد کرنا ہوگا، آج ہمارے ہزاروں نوجوان لاپتہ ہیں، سول عدالتوں پر عدم اعتماد کرکے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں، ہم نے کہا یہ فیصلہ آپ پر بھاری ثابت ہوگا، بتایا جائے وہ فوجی عدالتیں اب کہاں ہیں !
تفصیلات کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے مینار پاکستان گراؤنڈ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج عہد کریں ملک سیکولر قوتوں کو نہیں دینا، یہاں کچھ لوگ 10 ہزار کے جلسے کو ایک لاکھ کہہ رہے تھے، آج آئیں اور دیکھیں جلسہ یہ ہوتا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ یہاں قیام پاکستان کی قرارداد پاس ہوئی تھی، آج پاکستان کو فلاحی اسلامی ریاست بنانے کا عہد کرتے ہیں، مینار پاکستان آپ کے جھوٹ کی گواہی دے رہا ہے، مستقبل میں مینار پاکستان ہماری سچائی کی گواہی دے گا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں امن و امان آج بڑا مسئلہ ہے، امت مسلمہ کو جنگوں کا ایندھن بنایا جا رہا ہے، افغانستان، شام، یمن سمیت ہر جگہ جنگ جاری ہے، ایران اور سعودی عرب کو لڑانے کی باتیں ہو رہی ہیں، یہ جنگیں کون کروا رہا ہے، امریکہ کروا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جب تک اتحاد نہیں ہوگا، دنیا میں امن نہیں ہوسکتا، تہذیب ہر قوم کی پہچان ہوا کرتی ہے، آج ہماری تہذیب پر مغرب نے یلغار کر دی ہے، ہماری سیاست کو اقوام متحدہ کنٹرول کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری معیشت پر آئی ایم ایف کا قبضہ ہوتا جا رہا ہے، ہمارا بجٹ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بناتا ہے، ہمارا دفاع بین الاقوامی معاہدوں میں جکڑا ہوا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ ایٹم بم ہمارا ہے، لیکن ہم عالمی اداروں کے محتاج ہیں، ہماری اسمبلیوں میں قانون سازی کیلئے کورم ہی پورا نہیں ہوتا، یورپی قوانین ہمارے ملک پر مسلط کئے جا رہے ہیں، اقوام متحدہ کسی فرد کو دہشتگرد کہہ دے، ہمارا ملک اسے تسلیم کرنے کا پابند ہوگا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے یہ نیا قانون پاکستان میں آرہا ہے، یہ کیسی آزاد ریاست ہے، جہاں قرآن کا قانون نہیں، مغربی قانون ہے، موجودہ حکمرانوں کی موجودگی میں پاکستان آزاد ریاست نہیں کہلا سکتا، قائداعظم نے مغربی نظام معیشت کو مسترد کر دیا تھا، کامیاب معیشت چاہتے ہو تو قرآن کے اصول اپنانا ہوں گے، ہم قرآن کی بات کریں تو کہتے ہیں، دقیانوسی باتیں کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ شراب پر پابندی کی بات کریں تو کہتے ہیں، ہماری محفلیں ادھوری رہتی ہیں، عریانی روکنے کا کہیں تو کہتے ہیں نوجوانوں کے تقاضے ہیں، پہلے یہ سوچ جاہلیت کہلاتی تھی، آج روشن خیالی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کو اکثریت کے برابرحقوق دیتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جنس تبدیل کرنے کے قانون کو ہم تسلیم نہیں کرتے، ہمارے دینی مدارس ہماری تہذیب کے محافظ ہیں، ہمارے مدارس آج مغرب کا نشانہ ہیں، سرکاری تعلیمی اداروں کو سیکولرائز کیا جا رہا ہے، مخلوط نظام تعلیم ہمارے معاشرے کیلئے ناقابل قبول ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ خواتین کیلئے الگ تعلیمی ادارے اور الگ کھیل کے میدان بنانا ہوں گے، ملک میں مخلوط ماحول کو پنپنے نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہمارا بہت خون بہہ چکا ہے، دینی رہنما تعاون نہ کرتے تو فوج اکیلی امن قائم نہیں کرسکتی تھی، ملک میں رہنا ہے تو ایک دوسرے پر اعتماد کرنا ہوگا، آج ہمارے ہزاروں نوجوان لاپتہ ہیں، سول عدالتوں پر عدم اعتماد کرکے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں، ہم نے کہا یہ فیصلہ آپ پر بھاری ثابت ہوگا، بتایا جائے وہ فوجی عدالت اب کہاں ہیں۔ سربراہ ایم ایم اے نے کہا کہ آج امن کے تصور کو خراب کیا جا رہا ہے، ہم قبائلی علاقوں میں گئے اور امن کا ماحول پیدا کیا، عوام کو ان کی برتری کا احساس دلانا ہوگا، آنے والے الیکشن میں متحدہ مجلس عمل ایک سیاسی جماعت کے طور پر میدان میں اترے گی، اب ہم نے 2018ء کے الیکشن کو چیلنج کے طور پر لینا ہے، پاکستان کو ہم نے آزاد ریاست بنانا ہے، پاکستان کے نوجوانوں کا مستقبل تعلیم سے وابستہ ہے، اللہ پر بھروسہ ہے، اپنے نعروں پر نہیں، ان شاء اللہ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرکے رہیں گے
اس موقع پر جمعیت علماءاسلام پاکستان اور متحدہ مجلس عمل کے مرکزی و صوبائی قائدین نے بھی خطاب کئے
ملک بھر سے کثیر تعداد میں کارکنان نے جلسہ میں شرکت کی اور فضائیں تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھیں