جمعیت علماء اسلام صوبہ خیبر پختونخوا کے زیر اہتمام عالمی اجتماع میں نمایاں کارکردگی دکھانے پر تقریب ایوارڈ
جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان مدظلہ نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی اجتماع کے اعلامیہ نے عالمی دنیا کو یکجا کرنے اور مظلوم طبقات کی حقیقی نمائندگی کا تصور اجاگر کیا ہے انھوں نے کہا کہ نہ صرف پوری قوم بلکہ دنیاعالم کی نظر یں جمعیت علماء اسلام پر لگی ہوئی ہیں اس وقت سیاسی جماعتیں اور لیڈر ایک دوسرے پر الزامات کی سیاست کررہے ہیں، ملک کے عوام کیلئے جمعیت علماء اسلام متبادل کے طور پر ابھر کر سامنے آگئی ہے، اور عالمی اجتماع میں لاکھوں کی تعداد میں عوام کی شرکت نے جمعیت علماء اسلام کی پالسیوں پر اعتماد کا اظہار کیا ہے، انھوں نے مختلف کمیٹیوں کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ جمعیت علماء اسلام کے عہدیداروں نے عالمی اجتماع میں شبانہ روز محنت کرکے اسکی کامیابی میں اہم رول ادا کیا ہے انھوں نے الیکٹرانک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے مسلسل کوریج کرکے اپنا صحافتی حق ادا کیا ہے، انھوں نے کہا کہ طویل جدوجہد کے 100سال پورے ہونے پرعالمی اجتماع کا انعقاد اکابرین کی جدوجہد کو خراج عقیدت اور انکے مشن کی تکمیل کا حلف تھا، انھوں نے کہا کہ بیرون ممالک کے وفود بالخصوص سعودی عرب، قطر، بحرین، ہندوستان، بنگلہ دیش کی شخصیات کی عالمی اجتماع میں شرکت کا شکریہ ادا کیا ہے، انھوں نے کہا کہ آزادی انسان کا بنیادی حق ہے، بنیادی انسانی حقوق کا پامال کرتے آج پورے دنیامیں انسانیت کو غلام بنادیا گیا ہے، تمام انبیاء کرام اور حضور ﷺ کا پیغام پوری انسانیت کیلئے ہے، انھوں نے کہا کہ سیاستدان حادثاتی سیاست کرکے دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں۔ اپنا منشور پیش کرنے کے بجائے دوسروں پر انگلیاں اٹھا نے والے سیاست میں تعصب اور منافرت پھیلا رہے ہیں، انھوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام قوم کے سامنے ایک نعم البدل کے طور پرسامنے آگئی ہے ہم نے طویل جدوجہد ایک سخت محنت کرکے منزل تک پہچنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے، جسمیں ہم کامیاب ہوئے، انھو ں نے کہا کہ حادثات کا سہار لیکر توہین رسالت ﷺ یا اسلام کے کسی بھی قانون کو جسکا تعلق شریعت کے ساتھ ہو ہم واضح کرنا چاہتے ہیں ان حادثات کی آڑ میں قانون تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دینگے، اس موقع پر مولانا گل نصیب خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی اجتماع میں مرکزی جماعت بالخصوص مولانا فضل الرحمان مدظلہ کی سرپرستی سے ہمیں حوصلہ ملا ہے اور آج ہم مولانا فضل الرحمان مدظلہ کو اس اجتماع کی وساطت سے مفکر اسلام کا خطاب دینے کا اعلان کرتے ہیں اس موقع پر شرکاء نے ہاتھ اٹھا کر مولانا گل نصیب کی تائید کی، مولانا فضل الرحمان نے اس موقع پر بہترین انتظامات اور عالمی اجتماع میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے جمعیت علماء اسلام کی قائم کردہ کمیٹیوں کے سربراہوں کو شیلڈ اور اسناد بھی دی۔
شعبہ وکلاء میں مولانا عطاء الحق درویش، شعبہ طب ڈاکڑز میں مفتی کفایت اللہ، الیکٹرانک ،پرنت وسوشل میڈیا کا ایوارڈ عبدالجلیل جان،تاجر اور ڈونرز کانفرنس کا ایواڈ حاجی اسحاق زاہد، بہترین انتظامات اور پنڈال کی نگرانی کا ایواڈ مولانا رفیع اللہ قاسمی ، فوادخان، حبیب الرحمان، حاجی غلام علی، مولانا عین الدین شاکر، مولانا راحت حسین، مولانا عطاء الرحمان، شمس الرحمان شمسی ، مولانا عزیز احمد کوخصوصی شیلڈ دی گئی، جبکہ دیگر شعبہ جات میں نمایاں کارکردگی دکھانے والوں میں مولانا امان اللہ حقانی ،مفتی شوکت اللہ، مفتی غلام الرحمان، قاری عمر علی۔محمدرحیم حقانی، ، ارباب فاروق جان، پیر اکبر، محمد بلال، مدثر حسین، انجینئرنعمان خان، مولانا عبیدا للہ انور ایڈوکیٹ، ناظم ضلع ہنگو، قاری عبداللہ بنوں، مولانا ظہور احمد کو شیلڈ اور اسناد دی گئی.
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب