الیکشن کیلئے امیدواروں کا چناوٗ عیدالفطر کے بعد اہم مشاورت سے ہو گا مرکزی اور صوبائی جماعت لائحہ عمل سے طے کرینگے، مختلف شعبہ جات کو منظم کرنے کے لئے یونین کونسل کی سطح تک مہم چلائی جائیگی، شعبہ خواتین، وکلاء ،طلباء، ڈاکٹرز، اقلیتی اور تاجروں کو منظم کرنے کیلئے اضلاع کی سطح پر کنونشن منعقد کرنے کا فیصلہ صوبائی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں مولانا فضل الرحمان صاحب کی شرکت، کارکنوں اور عہدیداروں نے اخلاص کے ساتھ جدوجہد کرکے اجتماع کو کامیاب کیا تمام کارکن مبارکباد کے مستحق ہیں،
جمعیت علماء اسلام صوبہ خیبر پختونخوا کی مجلس شوریٰ ، ضلی امراء ونظما کا اہم اجلاس صوبائی امیر مولانا گل نصیب خان کے زیر صدارت منعقد ہوا جسمیں ارکان عاملہ مولانا شجاع الملک،مفتی کفایت اللہ ، مولانا راحت حسین، مولانا عزیز احمد، عبدالجلیل جان، حاجی اسحاق زاہد، عبدالوحید مروت، مفتی عبدالشکور، مفتی سید جانان، سید ہدایت اللہ شاہ، مولانا امان اللہ حقانی، نیاز محمد قریشی، قاری محمد عبداللہ ، قاری سمیع اللہ جان، مولانا خیرالبشر، استقبال خان، قاری محبوب الرحمان عبیدا للہ انور ایڈوکیٹ، خالد وقار ایڈوکیٹ، سپین خان ایڈوکیٹ، مفتی شوکت اللہ، مولانا عبدالحیٰ ، مولانا عبدالرشید، صدر عبدالرحمان، مولانا شکیل اختر جدون ، مولانا ابراہیم ہزاروی اور دیگر ارکان نے شرکت کی، اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان مدظلہ نے بھی شرکت کی، ، اجلاس میں ضلعی اور قبائلی ایجنسیوں کے امراء ونظمانے عالمی اجتماع کی کامیابی پر صوبائی اور مرکزی قائدین کو مبارکباد پیش کی، اجلاس میں عالمی اجتماع ،آئندہ عام انتخابات اور مختلف شعبہ جات کو منظم کرنے اور دیگر اہم امور سے متعلق غور و خوض کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ عیدالفطر کے بعد عام انتخابات کی تیاریوں اور اجلاس کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے امیدواروں کا چناوٗ مرکزی جماعت سے باہمی مشاورت کے بعد طے کیا جائیگا، اجلاس میں شعبہ خواتین ، جمعیت وکلاء فورم اقلیتی ونگ، اسلامک ڈاکٹرز فورم ،مدرسین اور تاجر فورم کو منظم کرنے کیلئے اضلاع کی سطح پر کنونشن منعقد کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا، تمام اضلاع کو ہدایات کی گئی کہ وہ اضلاع میں تحصیل اور یونین سطح پر تشکر مہم چلائیں اور آئندہ ماہ 25مئی تک اس مہم کو جاری رکھیں، جبکہ عیدالفطر کے بعد تمام تر اجتماعات کا عنوان انتخابات کی تیاریوں کے سلسلے میں ہونگے،اور صوبہ میں جمعیت علماء اسلام کی سو فیصد کامیابی کیلئے عنقریب حکمت عملی طے کرتے ہوئے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائیگا، اجلاس میں صوبائی سطح اور ضلعی سطح پر بہترین کارکردگی دکھانے والوں کو سند اور شیلڈ دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ، ضلعی تنظیموں کو بھی ہدایات کی گی کہ وہ ضلع کی سطح پر تقاریب منعقد کرکے کارکنوں کی حوصلہ افزائی کریں ، مولانا فضل الرحمان صاحب مدظلہ نے شوریٰ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی اجتماع پوری دنیا کیلئے امن خوشحالی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی نوید ثابت ہو گا، جمعیت علماء اسلام نے عالمی اجتماع میں امن ، انسانی حقوق کے تحفظ، اقتصادی خوشحالی اور پسماندہ طبقوں کی محرومیت کو ختم کرنے کا اعلان کرکے پوری دنیا کے مظلوم قوتوں کی نمائندگی کا حق ادا کردیا ہے، انہوں نے کہا کہ ہماری رائے واضح طور پر عالمی قوتوں تک پہنچ گئی ہیں اور ہم ان ہی زاویے پر جدوجہد کرکے ظلم اور جبر کے نظام کو روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کرتے رہنگے، انھوں نے کہا کہ طویل عرصہ سے سیاستدانوں کی کردار کشی کا سلسلہ جاری ہے ، لیکن اس کے باوجود قوم ان ہی لوگوں کو ووٹ دیکر دوبارہ مسلط کردیتی ہے، انھوں نے کہا کہ الحمداللہ جمعیت علماء اسلام کے کسی بھی رہنما اور کارکن کے خلاف کوئی کرپشن یا بدعنوانی کا کیس نہیں اور اہم قوم کو دعوت فکر دیتے ہیں کہ وہ الزامات کی سیاست سے نکل کر صحیح قیادت کو منتخب کریں اور جمعیت علماء اسلام کے پلٹ فارم پر اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے کی جانیوالی جدوجہد میں حصہ لیں، انھوں نے کہا کہ اجتماع میں لاکھوں لوگوں کی شرکت نے واضح کردیا کہ عوامی قوت اور سٹریٹ پاور جمعیت علماء اسلام کے ساتھ ہے انھوں نے کہا کہ عوامی رائے کو پامال کرکے دوسروں کو قوم پر مسلط کرنے کی روش چھوڑنی ہوگی جمعیت علماء اسلام کی مقبولیت روز بروز بڑہ رہی ہے عالمی اجتماع نے اسلام دشمن قوتوں کے حوصلے پست کردئیے ہیں ، انھوں نے کہا کہ پورے ملک سے عوامی شخصیات نے جمعیت علماء اسلام میں شمولیت کیلئے رابطہ کیا ہے، اور جمعیت علماء اسلام پاکستان میں اس وقت ایک بڑی مذہبی اور سیاسی جماعت بن چکی ہے، جمعیت علماء اسلام آئندہ ملکی حالات کے حوالہ سے اہم فیصلے کریگی اور قوم کی حقیقی نمائندگی کا حق ادا کرتی رہیگی، انھوں نے اجتماع کی کامیابی پر کارکنوں ،ارکان شوریٰ اور عہدیداروں کو مبارک باد دی۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب