اسلام آباد :
متحدہ مجلس میں شامل تمام جماعتوں کے کارکنان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں قومی ورکرز کنونشن کے کامیاب انعقاد پر۔ نئے جوش، نئے ولولے کے ساتھ ہم اک نیا سفر شروع کررہے ہیں ۔
13مئی کو ان شاء اللہ پاکستان کا سب سے بڑا اجتماع مینار پاکستان پر ہوگا.مولانا فضل الرحمان
تفصیلات کیمطابق متحدہ مجلس عمل کے زیر اہتمام قومی ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد ملت اسلامیہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ 10لاکھ کا مجمع کہنے والوں کو بتائیں گے کہ ناچ گانوں اور فحاشی والوں کو واضح بتائیں گے کہ اصل طاقت مذہب پسندوں کی ہے۔ آج تک برسراقتدار طبقہ غریب کو انکا حق فراہم نہیں کرسکا اب ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا۔پاکستان نام کی حد تک ضرور اسلامی لیکن دنیا میں لبرل ملک کے طور پر متعارف ہواہے۔تحریک پاکستان نے ابھی تک فقط ایک ہی منزل حاصل کی ہے وہ پاکستان کا حصول ہے ستر سال سے ملک پر غالمانہ ذہنیت کے حامل افراد کا قبضہ ہے ۔ایم ایم اے نے 2002 میں وزیر اعظم کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو مشرف نے مجھے الیکشن نہ لڑنے کا کہا۔میں نے کہا کیا رکاوٹ ہے …صاف الفاظ میں کہا کہ آپ کو امریکہ اور مغرب قبول نہیں کرتا۔جب اداروں کی سوچ ہو کہ عوام کا نمائندہ امریکہ کی مرضی کی بغیر وزیر اعظم نہیں بن سکتا۔مشرف نے کہا اس حقیقت کو تسلیم کر لیں کہ ہم غلام ہیں۔تومیں نے کہا ہاں ہم غلام ہیں لیکن رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں۔
لیکن آزادی کے لئے میدان میں نکلنا میرے آباؤ اجداد کا طریقہ ہے۔مجھے میرے اسلام نے ڈٹ جانا سیکھایا ہے جھکنا ہمیں نہیں آتا۔ستر سالوں میں ملک کو مسلسل بحرانوں کا شکار کیا گیا اب اس ملک کو ایک مسیحا کی ضرورت ہے۔پرانے حکمرانوں کو بھول جاؤسب کو دعوت ھے۔سب کو دعوت ہے آؤ ہمارے ساتھ چلومتحدہ مجلس عمل تمام شعبہ ہائے ذندگی سے وابستہ لوگوں کو ملکی ترقی کیلئے ساتھ چلنے کی دعوت دیتے ہیں وہ قوتیں ہیں جو آج بھی مصروف ہیں کہ وہ دینی قوتوں کو منتشر کر رہے ہیں دینی جماعتوں کو کہتا ہوں ایجنسیوں کی بات مت مانو ایک ہو جاؤ ہم پھر دعوت دے رہے ہیں تنقید نہیں کرتے نفرتوں کا خاتمہ چاہتے ہیں متفرق ہوکر کسی اشارے کے منتظر آئیں اسلام کیلئے ملکی سلامتی کی خاطر مل کر ساتھ چلیں ملک کس نے توڑا الزام کس پر لگا ؟قوم پرست صوبہ پرست سیکولر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوسکتے ہیں تو دینی جماعتیں کیوں متحد نہیں ہوسکتی،اگر اسلام دشمن متحد ہوکر انتشار پھیلا سکتے ہیں تو مذہبی طبقہ اسلام کیلئے متحد کیوں نہیں ۔متحدہ مجلس عمل کو نہ دیکھے ۔۔اسلامی نظریاتی کونسل کو ھی دیکھ لے۔۔اس میں تمام مکاتب فکر کےلوگ ھے پر اسکو تو کسی کو اختلاف رائے نہین۔قوم کو جن قوانین کی ضرورت ہے تمام مکاتب فکر نے ان پر اتفاق رائے سے قانون سازی کر دی ہے۔ یہ قانون سازی کون نہیں کرنے دیتا۔ یہ قانون سازی کون نہیں کرنے دیتا اور رہنماء اصول طے کئے لیکن ان نکات سے رہنمائی لینے میں کون رکاوٹ ہے قوم کو سمجھا نا ہوگا کہ بیدار کرنا ہوگا کہ کون رکاوٹ ہیں’
مولانا کا کہنا تھا کہ خارجہ پالیسی کےماہر کچھ اور ہیں لیکن اس پالیسی کے نتیجے میں ناہل کسی اور کو کیا جاتا یے
ذاتی تجربہ ہے ایک مدت خارجہ پالیسی سے وابسطہ رہا ایک اجلاس میں ہی مدمقابل کو ڈھیر کیا تھا ۔
2005 میں چائنہ میں اقتصادی وژن کا تعارف کرایا ون ون بیلٹ ہمارا وژن تھا.
ایک ہفتے میں چائنہ کو سمجھا یا کہ آپ کا وژن تب مکمل ہوگا جب تجارت پاکستان کے راستے سے ہوگی.
چائنہ نے ہمارے 7 دلائل کو تسلیم کیا.
سی۔پیک کی بنیاد بھی میری ھی موجودگی میں ۲۰۰۵ میں رکھی گئی.
چائینہ کو کنونس کرنا بھی ھماری کوششوں سے ھے.
میں چائنا گیا ان کو فری زون کاروبار کے لیے پاکستان کے راستہ پر آمادہ کیا ہے اور انہوں نے کہا کہ آپ کی بات میں وزن ہے اور آج الحمد للہ ہم اس منصوبہ پر عمل پیرا ہوں.واضح نظریاتی فرق ہے سیاست پر سیکولر طبقے کا قبضہ ہے پاکستان اپنے نظریے سے دور ھوچکا ھے متحدہ مجلس عمل کا روشن ماضی آج بھی بطور مثال پیش کیا جاتا ہے سراج الحق ابھی کی حکومت میں وزیر خزانہ تھے لیکن اس کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتے اور 2002 کی حکومت کا تذکرہ کر رہے ہیں ظاہر ہے دور حکومت میں فرق ہے محترم خاں نے بھی اعتراف کیا ھے کہ شکر ھے ھمیں مرکز میں حکومت نہیں ملی ورنہ اسکا بھی ستیا ناس کردیتے س کے اشارے پر خان صاحب جلسہ کر کے حکومت ملنے کے انتظار میں ہے
ہمیں اپنی تعلیمی پالیسی ٹھیک کرنی ہوگی تعلیمی اصلاحات کے دعویداروں نے ناظرہ قرآن پڑھانے کا اہتمام کیا اگر یہ اتنا بڑا کام ہے تو دینی مدارس پر الزام کیوں انکا دعوہ تھا کہ ھم ناظرہ قرآن رائج کیا۔۔۔بھائی یہ تو ھمارے محلوں کے وہ بوڑھی نانیاں وغیرہ بھی کرتی ھیں آج لاکھوں کروڑوں روپے تعلیم پر خرچ ہو رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اس نظام تعلیم سے نظریاتی مسلمان پیدا نہیں رہے ہیں اگر پاکستان کے عوام میں دینی شعور ہے وہ دینی مدارس، علماء کرام اور دینی قیادت کے مرہون منت ہے عالم اسلام میں تو دینی و عصری علوم میں کوئی فرق نہیں تھا یہ دین سے الگ کرنے کی کوشش تھی اس تقسیم کا ذمہ دار کون ہے آج دینی و عصری علوم کو قریب کرنے میں رکاوٹ کون ہیں انکو پہچاننا ہوگا۔ دینی مدارس میں پرائمری ، مڈل اور میٹرک کی تعلیم دی جاتی ہے ہم علم کو علم سمجھتے ہیں قرآن کریم میں تمام علوم کا ذکر ہے جن علوم کو آج دنیاوی کہا جارہا ہے یہ تو قرآن میں موجود ہیں تو بتایا جائے یہ کیسے دنیاوی ہوئے سلمان علیہ السلام امور حکومت کے ماہر تھے ہم دلائل اور صلاحیت کے اعتبار سے تو اہل ہیں مگر ہمارا راستہ روکا جاتا ہے۔یہ تقسیم کون لایا ؟ اس تقسیم کو تقویت آج حکومت کے رویوں سے مل رہی ہے۔
ایک طرف انڈیا اور امریکا دوسری طرف امریکا انڈیا اور افغان حکومت خلاف ہے
افغانستان جل چکا ھے۔شام جل رھا ھے۔۔بچے بھیلک بھیلک کے مر رھے ھے
قوم کی وحدت ھی اسکا علاج ھے
مغرب دنیا کو نئی جعرافیہ خطوط میں تقسم کرنا چاھتا ھے سی پیک دشمن کو قابل قبول نہیں اسلیئے وہ اس کو ناکام کرنے کیلئے اپنی حربے آزما رہا ہے
خود اعتمادی سے کہتے ہیں دینی قوتیں ملکی بقا و سلامتی کیلئے متحد ہیں
ھم اس بات کی کیوں فکر کرے کہ ھم ایجنسیوں کو قابل قبول نہیں ۔۔ھم ملک کی بہتری کیلئے سوچنا ھوگا۔۔ سنجیدہ سیاست ملک میں متعارف کرانا ہوگی اب بہت ہوگیا
نعروں اور نمائش کی سیاست بہت دیکھ لی اب ہم سنجیدہ سیاست کو فروغ دینگے
اب ملک کو صحیح رخ پر لانے کیلئے فیصلے کرنا ہوں گے
اپنی قوم کو جان مال عزت آبرو کے حفاظت کی ضمانت دینا ہوگی
اقلیتوں کے حقوق کی جنگ لڑنا اسلامی تعلیمات ہیں، کوئی انکا حق غصب کریگا گویا ہمارے حق پر ڈاکہ ڈال رہا ہے.اقلیت کے حقوق کی جنگ ہم لڑیں گے
اسلام کی تعلیمات یہی ہیں ان حالات میں ہمارے سامنے کشمیر کی مظلوم قوم بھی ہے ۷۰سال سے کشمیریوں کو حق آزادی نہیں دلاسکے بحیثیت قوم سوچنا ہوگا
قندوز میں معصوم حفاظ کو بے دردی کا نشانہ بنانا افغانستان میں جاری مزاحمت کو جواز فراہم کررہا ہے
آج فلسطین کا کیا حشر کیا گیا ہے متنازع علاقے میں سفارت خانہ کیسے کھولا گیا
بیت المقدس کو مقبوضہ علاقہ کہہ کر اس میں اپنا مرکز بنانا کس قانون سے جائز ہے
کشمیریوں اور فلسطینیوں کو آزادی کا حق نہیں مل رہا اور انہیں ہم جنس پرستی کو آزادی کی فکر لاحق ہوگئی ہے
آج خیبر پختونخوا میں ہم جنس پرستی کے نشان لگا کیا ثابت کیا جارہا ہے
کب تک ہمارا امتحان لیا جائے گا بتانا چاہتا ہوں کہ جتنا فراخ دل مذہبی طبقہ ہے اتنا ہی تنگ نظر لبرل طبقہ ہے جس معاشرے میں حیا ہی نہ ہو حیا کا مطلب کیا جانیں
اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ہم مغرب کیلئے نہیں اللہ اور اس کے رسول کیلئے قابل قبول بننا چاہتے ہوں ۔
ہم نے متحد ہوکر تمام سازشوں کو ناکام بنانا ہے
متحدہ مجلس عمل مینار پاکستان پر اجتماع کرکے تمام قوتوں کو اپنی طاقت بھی دکھائے گی.
کنونشن سے متحدہ مجلس عمل کے دیگر مرکزی و صوبائی رہنماؤں کی بھی خطاب کیا
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں مسائل پر بات چیت کے لئے پارلیمانی وفود بھیجنے کا مطالبہ کردیا،سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کو ملک کے لیے غیر ضروری سمجھنے سے زیادہ بڑی حماقت کوئی نہیں ہوسکتی ، لاپتہ افراد کے معاملے کی وجہ سے ملک میں عوامی نفرت بڑھ رہی ہے، اداروں پر اعتمادختم ہورہا ہے ، صوبوں کے وسائل پر قابض ہونے کی بجائے ان کے حقوق کوتسلیم کریں قبائلی اضلاع میں قیمتی معدنیات اور وسائل پر قبضہ کے لئے قبائل پر جنگ مسلط کی گئی ہے پارلیمینٹ میں تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت ہونی چاہئے،سیاستدانوں کوسائیڈ لائن کرنا ترک کردیں، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے معاملات ان کے حوالے کردیں حل نکل آئے گا تمام معاملات میں خود کو فیصل آباد کا گھنٹہ گھر یا امرت دھار سمجھ لینا خواہش ہوسکتی ہے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ۔
قا د یانی مبارک ثانی مقدمے کے حتمی فیصلے کو اناؤنس کیا ہے اور انہوں نے گزشتہ فیصلے جو چھ فروری کو اور پھر چوبیس جولائی کو ہوئے تھے ان کے تمام قابل اعتراض حصوں کو حذف کر دیا ہے میں اس بہت بڑی کامیابی پر پوری قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں امت مسلمہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں تمام دینی جماعتوں کو ان کے کارکنوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں
72 سال کا ہوگیا ہوں پہلی بار کسی عدالت میں پیش ہورہا ہوں،عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے آئے ہیں،مولانا فضل الرحمان
قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کا لکی مروت میں امن عوامی اسمبلی سے خطاب
قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پشاور میں تاجرکنونشن سے خطاب