میرے لیے اس اجتماع سے کہنامشکل ہوگاکچھ عرصہ قبل پیرذوالفقارصاحب دہلی تشریف لائے تھے۔ دعوت دینامیرے سپردتھی،برصغیرکے سب سے بڑے شیخ خطاب کرے ،وہ توچھوٹی بات تھی، وہ عالم اسلام کے شیخ ہے۔پھراس عظیم اجتماع میں خطاب۔۔۔ ۔۔۔یہ کوئی عام اجلاس نہیں،عام کانفرنس نہیں ،بلکہ انسانوں کاٹھاٹھے مارتاسمندرہے۔انہوں نے کہاکہ اس نازک وقت میں جہاں انسان لہولہوہے ایساخطہ نہیں جہاں لوگ مشکل میں نہ ہو۔ مشکلات دوطرح کے ہیںایک داخلی ہیں اوردوسری خارجی۔۔۔۔داخلی توسب کومعلوم ہے۔خارجی بحران کوہم پر مسلط کیاگیاہے۔بڑے سے بڑابحران داخلی بحران ہے۔ وہ دین بیزاری ہے،ذات پات ،انانیت ،انتشار،اسلام سے دوری یہ سارے اسباب ہیں جمعیت کے سوسالہ جمعیت کے اجتماع کے موقع پر یہ کہناچاہتاہوں کہ برصغیرکی آزادی کاسہراعلماء دیوبندکے نام ہے لیکن بدقسمتی سے آزادی کے بعد ہم جداہوگئے۔اورسرحدیں ہمیں جدانہیں کرسکتی اوراب بھی ہماری سوچ اورنظریہ ایک ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہمارے کارکن کے اندازسیاست اورجماعت کو اہمیت دی گئی توپورے دیناپر ہماراراج ہوگا۔انہوں نے کہاکہ اللہ نے آپ کوایسامدبر،زیرک، سمجھ دار،جذبابیت سے دور،اشتعال سے دوررہنے والا،جودشمن کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کردلیل کی بات کرنے والالیڈرمولانافضل الرحمن امیرعطافرمایاہے۔ جنھوں نے اپنے عمل وکردارسے اپنے اکابرکاحق اداکیاہے۔ انہون نے کہاکہ آپ لوگوں اشتعال سے ہٹ کر،استقلال کے ساتھ ،حوصلے سے ،اپنے کازکوآگے بڑھائیں۔اورمولانافضل الرحمن کے کندھوں کومنظوط کریں۔ انہوں نے کہاکہ میں اس مبارک خطے کے مسلمانوں کواس عظیم اجتماع کی کامیابی پر مبارکباد دیتاہوں۔
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب