مانسہرہ :
سود کے خاتمے کا کہتے ہیں توکہا جاتا ہے کہ سود کے بغیر ہماری معیشت چل نہیں سکتی ،اس سوچ کے لوگوں سے ہر زمانے میں مقابلہ رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق جمعیت علماءاسلام ضلع مانسہرہ کے زیراہتمام علماء کنونشن منعقد ہوئی جس سےمولانا فضل الرحمان نے خطاب
کیا خطاب کے دوران انہوں نے سوال کیا کہ کیاسمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی آڑ میں کسی لابی کا راستہ تو نہیں کھولا جا رہا؟
ملک کے اندر الیکشن پر درپیش مسائل کو چھوڑ کر بیرون ملک الیکشن پر اصرار تمام باتوں کو واضح کررہا ہے بتایا جائے کہ سمندر پار الیکشن کمپیئن کیسے چلائی جائے گی
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا پاکستان اسلام ہی کے نظام کے زریعے پرامن ریاست بنے گا.
آج دنیا کی معیشت یہودیوں کے زیراثر ہے سود کے خاتمے کا کہتے ہیں توکہا جاتا ہے کہ سود کے بغیر ہماری معیشت چل نہیں سکتی
آج روشن خیال کہتے ہیں کہ شراب اور سود کے بغیر زندگی نہیں گزر سکتی
جب مکہ فتح ہوا تو اس وقت بھی طائف سے ایک وفد مشروط پیشکش لیکر آیا تھا جسے پیغمبر خدا نے یکسر مسترد کردیا تھا
جو باتیں کسی زمانے میں جاہلیت کی علامت تھیں آج انکو روشن خیالی کہا جارہا ہے
ان کا کہنا تھا کہاس فکر اور نظریئے کے خلاف ہماری جنگ جاری رہے گی
عالمی قوتیں جنسی بے راہ روی کو فروغ دیکر ملک میں داخل ہونا چاہتے ہیں،ہمارے ملک کے میڈیا کو بھی اب ان کی نشاندہی کرنا ہوگی
ہم نے سیاست نظریات اور سوچ کے ساتھ کی ہے کسی بیرونی اشارے پر نہیں،ہم نے اصول کی بنیاد پر اس سیاست کی پیروی کرنا ہے جسکی تعلیمات انبیاء نے دی
مغربی دنیا کی تو خواہش تھی کہ ہمارے نوجوان اسلحہ اٹھائیں اور ریاست کو انتشار سے دو چار کریں
جمعیت علماء اسلام نے ان سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا
آج سمندر پار پاکستانیوں کی ووٹ کے معاملے کو بڑھ چڑھ کر پیش کیا جارہا ہے،جن قوتوں کا ہم نے مقابلہ کیا تھا وہی لابی اپنے مقاصد کیلئے سمندر پار ووٹ کو زیادہ اچھال رہی ہے، خیبرپختونخوا کو معاشی طور پر مکمل تباہ کردیا گیا ہے اور قرضوں کے بوجھ میں جھکڑ دیا گیا ہے
جب ان سے کارگردگی کا پوچھا گیا تو ان کے اپنے الفاظ تھے کہ شکر ہے ہمیں مرکز میں حکومت نہیں دی گئی وگرنا وہاں بھی یہی حشر کرتے
مولانا کا کہنا تھا کہ ملک کی معیشت اسلام کے زریں اصولوں پر لاکر ہی کامیاب کی جاسکتی ہے، آج ہماری معیشت مٍغربی طرز پر رواں دواں ہے بانی پاکستان نے تو سٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب میں مغربی فلسفہ معیشت کو مسترد کیا تھا آج ستر سال گزر گئے مگر ان کے فرمان پر بھی عمل نہیں کیا گیا.
اب تو مسیحیوں کے پوپ نے بھی دنیا کی معیشت کی کامیابی کیلئے اسلام کے نظام کو ہی بطور کامیاب نظام پیش کیا ہے تو رکاوٹ کیا ہے جو ہم مسلمان ہوکر بھی اس نظام معیشت کو اپنا نہیں سکتے
گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کے بیان پر مولانا کا کہنا تھا کہ جھوٹ کا سہارا مت لیا جائے کسی بھی ملک میں داخلے پر پابندی نہیں ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہم ان کے اشاروں پر نہیں چلتے
آج لسانی اور قومی امتیازات میں ملک کو تقسیم کیا جارہا ہے جمعیت علماءاسلام نے ان مسائل سے ملک نکالنے میں اہم کردار ادا کیا ہے
حکومت ایک بار پھر اینٹی ٹیررزم ایکٹ 1997 میں ترمیم کرنے جا رہی ہے جس سے دفاعی اداروں کو بے پناہ اختیارات ملیں گے جو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر ہیں۔ پہلے نیب کے اختیارات پر اعتراض تھا اور ان میں کمی کی گئی تھی، لیکن اب دفاعی ادارے کو کسی کو شک کی بنیاد پر 90 دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار دیا جا رہا ہے جو سراسر غیر جمہوری عمل ہے،ملک میں سول مارشل لاء کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ، جو جمہوریت اور “ووٹ کو عزت دو” کی بات کرتے ہیں، آج اپنے ہی ہاتھوں جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ 26ویں ترمیم میں کچھ شقیں واپس لینے پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی، لیکن یہ نیا ایکٹ اسی ترمیم کی روح کے خلاف ہے۔ یہ آئین اور پارلیمنٹ کی توہین ہے کہ ایک دن آپ ایک فیصلہ کریں اور اگلے دن اسے نظر انداز کر دیں۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان
فیصلے اجلاس مرکزی مجلس شوری جے یو آئی پاکستان
میں اداروں کا احترام کرتا ہوں لیکن میری نظرمیں بھی ان کی پالیسیاں سیدھی نظرآئیں، میں نے بھی چالیس سال صحراؤں میں گذارے ہیں، آنکھیں بند کر کے بات نہیں کر رہا بلکہ مشاہدات کے ساتھ بات کرتا ہوں،اگر ہم یہ بات نہیں کریں گے تو قوم کے ساتھ خیانت ہوگی،آپ اپنا قبلہ درست کریں ہم آپ کو سر کا تاج بنا لیں گے۔قوم کی قدر کریں، آپ کے کرنل اور میرے عام کارکن کے پاس ایک ہی شناخت ہے، دونوں کے لئے ایک ہی آئین ہے۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا ڈی آئی خان میں ورکرز کنونشن سے خطاب
43ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر سے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا خطاب
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا چھبیسویں آئینی ترمیم پر قومی اسمبلی میں تاریخی خطاب