معروف اینکر نادیہ مرزا نے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر کیے گئے تجزیاتی پروگرام ’لائیو ود نادیہ مرزا‘
میں جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن کا خصوصی انٹرویو کیا اور مقبوضہ کشمیر سمیت 2018 کے الیکشن کے حوالے سے گفتگو کی۔
ملک کے سیاسی حالات کی اگر بات کی جائے تو ۔ ملک کو درپیش مسائل کی بات کی جائے چاہے وہ اندرونی ہو ، چاہے بیرونی اور ملک کی سیاست پر بات کی جائے اور کسی ایسی شخصیت سے بات کی جائے جس کی ملک کے سیاسی مستقبل پر اہم نظر ہو تی اور ان کا تجزیہ بہت اہم مانا جاتا ہے بلکہ اکثریت جو ہے ان کی سیاسی بصیرت سے کے اتنے معترف ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی نے سیاست میں پی ایچ ڈی کیا ہوا وا ہے تو وہ نام ہے مولانا فضل الرحمن صاحب ک
خاص طور پر کشمیر کو لیکرکہ جو حالیہ دہشت گردی دیکھی ہے بھارت کی کشمیر میں اس پر کشمیر کمیٹی پر سوال اٹھ رہے ہیں کہ یہ اتنی فعال نہیں ہے جتنی ہونی چاہیے۔ اس پر مولانا صاحب نے پریس کانفرنس کرکے کے کچھ ناقدین کو اس کا جواب بھی دیا ہے۔
سوال : مولانا صاحب جب ہم کشمیر کمیٹی کی بات کرتے ہیں اور کشمیر کی بات کرتے ہیں ، کشمیر میں بھارتی جارحیت کی بات کرتے ہیں ۔
تو آپ کتنا فعال کشمیر کمیٹی کو سمجھتے ہیں اور اس کے رول کی کتنی اہمیت سمجھتے ہیں؟
جواب: پارلیمنٹ کی سطح پر کشمیر کمیٹی ، 1953 میں اس خیال کے ساتھ بنائی گئی کہ پارلیمنٹ میں چوں کہ پوری قوم کی نمائندگی ہوتی ہے ۔ تمام سیاسی جماعتیں پورے پاکستان کے عوام کی نمائندگی کرتے ہیں تو ان پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیٹی ہو گی تو پھر پاکستان کا مسئلہ کشمیر کے اوپر موقف کا تسلسل برقرار رہے گا اور اس میں کسی طرح کی تبدیلی اور تغیر نہیں آسکے گا۔
چنانچہ اس کی ابتدا نواب زادہ نصر اللہ خان مرحوم کی چئیرمین شپ سے ہوا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس زمانے میں ہے کشمیر جو ہے مین ایشو تھا اور ہماری خارجہ پالیسی کے لیے ایک بیک بون کی حیثیت رکھتا تھا ۔ جہاں پوری دنیا کے سیاست میں تغیرات آئے عالمی سطح پر ترجیحات تبدیل ہوگئیں۔ اور ان ترجیحات کی تبدیلی کے نتیجے میں امریکا نے ہمارے ہاتھ اور گردن مروڑ کر ہمیں کہا کہ جو جنگ مجھے شروع کرنی ہے اسلام اور مسلمان کے خلاف بہ نام دہشت گردی کے خلاف جنگ ، اس میں ہمارا ساتھ دو اور مشرف صاحب اس زمانے میں سرینڈر ہوگئے تھے۔ ظاہر ہے کہ جب آپ کی ترجیحات تبدیل ہوجائیں، کشمیر کا مسئلہ تو اپنی جگہ پر ہی رہ گیا۔ ہمارے ملک کے اندر ریاستی سطح پر ایک پالیسی ڈکلیئر کی گئی کہ اب کے بعد ریاست کا دشمن ملک سے باہر کا نہیں ہوگا ملک کے اندر سے ہوگا ۔ اور ریاستی قوت اس کے خلاف استعمال ہوگا ۔ یہ کتنی بڑی تبدیلی تھی یہ کتنا بڑا چینج تھا ۔
میزبان: یہ اس کونسٹ میں کہا تھا کہ ملک کے اندر جو دہشت گردی تھی ۔ ایک دن میں تین ، تین خودکش دھماکے ہوتے تھے ۔
جواب: میں اس تفصیل میں نہیں جا رہا میں آپ کو وہ چیز بتا رہا ہوں جس نے مسئلہ کشمیر کو ایک پس منظر کی طرف دکھیل دیا ۔ مسئلہ کشمیر صرف پس منظر کی طرف نہیں گیا ۔ مسئلہ کشمیر کے بارے میں مشرف صاحب نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کو سائڈ لائن کرسکتے ہیں ۔ یہ چیز تھی جو آپ کے اصولی موقف کو اڑتالیس- انچاس کی قراردادوں پر بیس کرتی ہے اور جس کی بنیاد پر قوم متفق ہے۔ اور جس موقف کو برقرار رکھنے کے لیے کشمیر کمیٹی قائم کی گئی تھی ۔
آپ بتائیں کہ کمیٹی اس کی افادیت کو ان فیصلوں سے ختم نہیں کیا گیا ؟ ۔ اب آئیے کہ 2008 کے بعد اس کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی اور میں نے چینلج سمجھ کر اس کو قبول کیا آج آپ کا وزیر خارجہ ، آپ کا وزیر اعظم دنیا کے ہرفورم پر کشمیر کی بات کرنے کی پوزیشن پر آگیا ۔ کشمیری دوبارہ اٹھے ہیں انہوں نے قربانیاں دیکر ایشو کو دوبارہ زندہ کیا ہے ۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں حکومت میں سیاست دانوں میں ۔ یہ ایک مشترکہ ذمہ داری ہے ۔ اس مشترکہ ذمہ داری میں وزیر اعظم پاکستان پر تنقید نہیں ہے ۔ صدر پاکستان پر تنقید نہیں ہے ۔ فوج کے سپہ سالار سے کوئی نہیں پوچھ رہا ، صرف اور صرف کشمیر کمیٹی اور چئیرمین کشمیر کمیٹی کو ، اس کا معنی یہ ہے کہ امیدیں اب بھی ہم سے وابستہ ہیں ۔اگر میں نے اپنے آپ کو اس مقام پر لاکھڑا کیا کہ اگر کمی کوئی نظر آتی ہے اور کمزوری نظر آتی ہے اور اس کے تیروں کا رخ فضل الرحمن کی طرف کیا جارہا ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ ہم نے خود کو وہاں کھڑا کردیا ہے کہ جس سے امیدیں وابستہ ہوگئی ہیں۔ کشمیر کے اندر سے بھی کمشیر کے باہر سے بھی ۔
سوال: آپ نے پریس کانفرنس کی آپ نے کہاکہ آج تک یہ طے ہی نہیں ہوسکا کہ کشمیر ایشو جو ہے اس کا حل جو ہے ، وہ فوجی ہے یا سیاسی ہے ۔ تو اس کو طے کس کو کرنا تھا ؟ یہ طے پارلیمنٹ کونہیں کرنا تھا ؟
جواب: پاکستان کے اندر کشمیر کے مسئلے پر موقف کہ اوپر اختلاف نہیں ہے ۔ کمی ہے پالیسی پر ، پالیسی نہیں کوئی ہماری، مسئلے کے حل کے لیے کوئی میکینیزم نہیں ہمارا۔ وہ حکومت کو کرنا ہوتا ہے ۔ کمیٹی کو جو دو ، تین اختیارات دیے گئے ہیں اس میں تو پالیسی سازی کا مسئلہ نہیں ہے ۔ اس میں اسی موقف کے اندر رہتے ہوئے پرچار کی بات ہے ۔ میں نے وزیر اعظم کو خط لکھا ہے کہ پارلیمنٹ سپیرئیر ہے اور جب پارلیمنٹ سپریم ہے تو اس کی کمیٹی سپریم ہونی چاہیے ۔ پھر پالیسیوں کو محور پارلیمنٹ ہونی چاہیے اور اسی سال کے دورانیہ میں کشمیر کمیٹی کا اجلاس بلایا جس میں وزارت امور کشمیر اور وزارت خارجہ دونوں موجود تھے اور ہم نےکہا کہ ہر تین ، چار مہینے کے بعد ایک میٹنگ کا انتظام ہو تاکہ ہم تینوں بیٹھ کر حالات کا جائزہ لیں ، ایک دوسرے کو آگاہ کریں اور کشمیر کمیٹی کو آپ بتائیں کہ صورتحال کہا کھڑی ہے ۔ میں نے یہی بات کہی کہ آج تک آپ یہ طے نہیں کرسکے کہ مسئلے کا حل سیاست ، مذاکرات ہیں یا فوجی حل ہے ۔
اگر فوجی حل ہے تو وہاں کردیا جائے تا کہ ہم پھر فوج سے پوچھیں کہ آپ نے کیا کرا ہے ۔ اگر فوجی حل نہیں ہے سیاسی ہے تو ہم سیاست دانوں سے پوچھیں ، گورنمنٹ سے پوچھیں کہ آپ نے اس مسئلے کے لیے کیا کرا ہے۔ میں تو ہندوستان اور وہاں کی عوام کو بھی یہ پیغام دے رہا ہوں ، وہاں کہ سیاست دانوں کو بھی پیغام دے رہاہوں کہ اپنی حکومت پر دبا ڈالو کہ اس کے فوجی حل سے نکلیں اور سیاسی حل کی طرف آئیں۔
سوال: آپ کو لگتا ہے کہ اس وقت پاکستان کی حکومت ، پاکستان کی پارلیمنٹ جو ہے وہ آزاد ہے اپنی خارجہ پالیسی پر ؟
جواب: اگر میں حقیقت بولوں تو پارلیمنٹ آزاد نہیں ہے ۔ پارلیمنٹ کو حکومت کو کشمیر کے حوالے سے پالیسی بنانے میں رکاوٹیں ہیں ۔ اور جو قوتیں ہم سے ہروقت اعتماد چاہتی ہیں ریاست جو ہم سے اعتماد چاہتی ہے اور ہم ہر وقت ان پر اعتماد کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر مضبوط ہاتھوں میں ہے ۔ بے فکر رہیں آپ لوگ تو ہم لوگ بے فکر رہ رہے ہیں تو تنقید بھی پھر آپ لوگوں پر ہونی چاہیے ہم لوگوں کی طرف نہیں ہونی چاہیے لیکن سیاست دان لاتعلق نہں رہ سکتا ۔ عوام کا نمائندہ مسئلے سے لاتعلق نہیں رہ سکتا ۔ ہم تنقید برداشت کرتے ہوئے بھی کہیں گے کہ ہم کشمیریوں کے حق میں اپنا فرض نبھا رہے ہیں ۔ جس حدتک بھی ہے ہم نبھا رہے ہیں لیکن ایک فورم ایسا ہونا چاہیے جہاں ہماری واضح حکمت عملی ہو اور پالیسی ہو کہ ہمیں کرنا کیا ہے۔
میزبان: جہاں آپ نےسیاسی ناقدین اور سیاسی مخالفین کی بھی بات کی تو میں آپ کی سیاست پر کچھ پڑھ رہی ہوتی ہوں کوئی ریسرچ ہوتی ہے ۔ تو ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی مخالفین کی تعداد مولانا فضل الرحمن صاحب کی کوئی وسیع نہیں ہے ۔ چند ایک ہیں اور جو ہیں وہ بہت زیادہ ہیں۔ آپ کی پریس کانفرنس سے پہلے پی ٹی آئی کی ایک پریس کانفرنس ہوئی اس میں کشمیر کمیٹی پر بھی بات ہوئی لیکن کچھ اور بھی آپ پر الزامات لگائے گئے۔
سوال: حال ہی میں جب کشمیر کمیٹی پر تنقید کی جاتی ہے کہ یہ کوئی کام نہیں کر رہی تو دوسری طرف الزام بھی لگادیا گیا ۔ پی ٹی آئی کے شفقت محمود نے کہا کہ 2001 میں جنرل پرویز مشرف نے ڈی آئی خان میں بارہ سو ، تیرہ سو کنال زمین پاک آرمی کے شعبے کو دی اور چھ سو کنال آپ نے اپنے نام کرالی۔ وہ زمین اب بھی آپ کے نام ہے ؟
جواب: یہ کسی زمانے میں میرے غریب کسانوں کا مسئلہ تھا ۔ اور ایک حکومت تھی جس نے یہ زمینیں کچھ بیوروکریٹس کو الاٹ کی تھیں ۔ یا لیز پر دی تھیں تو میں نے مزاحمت کی تھی ۔ کہ عام آدمی اور کسان کی آباد کردہ زمینیں وہ ان سے نہ چھینی جائے۔ ایم ایم اے کی حکومت آئی تو سراج الحق کی سربراہی میں جب وہ وزیر خزانہ تھے کمیٹی گئی اور اس کمیٹی نے سارے معاملات صاف کردیے ۔ جو جس کی زمین ہے ، جو سرکار کی زمین ہے ، جو سول کی زمین ہے جو شہدا کی ہے ختم کردیا معاملے کو ۔ اس کے بعد کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوا ہے اور اگر ان کو بہت شوق ہے تو یہ گھسے پیٹے سوالات میرے خلاف ، اور نہ کوئی کیس بنتا ہے ۔ نہ ایف آئی آر کٹتا ہے ، نہ ادارے کو چیلنج کرتا ہے ۔ انھوں نے وزیر اعظم کو تو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرا دیا ہے ۔
میرے بارے میں کونسی چیز ہے جو رکاوٹ ہے اور یہ نہیں کرسکتے ، میں پاکستانی شہری ہوں ۔ لیکن جس صوبے میں ان کی حکومت ہے اس صوبے کا بھی شہری ہوں ۔ ساڑھے چار سال میں وہ میرے خلاف ایک چیز بھی کیوں نہیں لا سکے ۔ اور ان کو نیب پر اعتماد بھی نہیں ہے ۔ انہوں نے تو اپنا احتساب کمیشن بنایا ہوا ہے۔ اس کے چئیرمین کو انھوں نے ہٹایا جس وقت وہ خود ان کے شکنجے میں آگئے۔ میں یوں تعبیر کرتا ہوں کہ وہ بیچارہ احتساب نہیں کرسکا تو اس سے تگڑے لوگ احتساب کے لیے لائے ۔
ان احتساب گرد قوتوں نے ہمارے خلاف کوئی اب تک ایک ورقہ پیش کیوں نہیں کیا ۔ یہ تو انہوں نے بیہودہ قسم کی گھسی پٹی بات کی ہے ۔ ان کی ایک شناخت بن گئی ہے کہ لوگوں پر کیچڑ اچھالنا ۔ کردار کشی کرنا ، الزام لگانا یہ شاید اس پارٹی کا کل منشور ہے۔ بس اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ مشکل اور ہے کہ متحدہ مجلس عمل وجود میں آگئی ہے ۔ اور اس صوبے میں زبردست ٹاکرا ہوگا ۔ اور ان کی شکست انشاء اللہ یقینی ہے۔ اور ہماری فتح انشاء اللہ یقینی ہے ایسی صورتحال ہے۔ تو پھر یہ بوکھلاہٹ ایسے موقع پر یہ فطری چیز ہے ۔ سو یہ ان کو مبارک۔
سوال : آپ نے ان پر یہودی لابی اور اس کی سپورٹ کا الزام لگایا اور یہ بھی لگایا کہ یہودی سازش کے تحت وہ یہاں پر کام کررہے ہیں ؟
جواب: اس کے ثبوت کے لیے میں یہ چیز پیش کرتا ہوں کہ لندن میں مئیر کا الیکشن ہوا جس یہودی شخصیت کو سپورٹ کرنے کےلیے عمران خان صاحب یہاں سے تشریف لیکر گئے تھے اور اس کیمپئین میں شریک تھے اس کے ڈائس اور دیوار کے پس منظر پر جو لوگو ہے اس لوگو کا مختصر لفظ لکھا ہوا ہے ’سی ایف آئی‘ اور تفصیل سے چھوٹا سا لکھا ہوا ہے ’ کنزرویٹف فین آف اسرائیل‘ اور فرماتے ہیں کہ یہ میرے تجویز پر الیکشن لڑ رہا ہے یہ میرا کینڈیڈیٹ ہے ۔ جو برطانیہ میں امیدوار کھڑا کرے ۔ ایک یہودی لابی کا امیدوار کھڑا کر کے ایک پاکستانی نژاد مسلمان کے مقابلے میں جائے ۔ آپ مجھے بتائیں کہ کنزرویٹف فین آف اسرائیل کہ لوگو کے نیچے تقریر کرنا ، الیکشن کیمپئن میں جانا ۔ اور میں کیا پیش کروں۔
سوال : ایم ایم اے کا ریوائول ہوا ۔ لیکن پہلے جب ایم ایم اے کی حکومت تھی تو اس کی عوام میں وہ پذیرائی نہیں تھی۔ عوام نے اس کو ریجکٹ کیا ۔ اب آپ کس بنیاد پر یہ بات سمجھتے ہیں کہ اب آپ کو اور ایم ایم اے کو عوام میں پذیرائی ملے گی۔
جواب: 2008 میں ایم ایم اے ٹوٹ گئی تھی ۔ یہ نہیں کہا جاسکتا ہے لوگوں نے ریجکٹ کیا یہ لوگوں کا ٹوٹنے کی وجہ سے ردعمل ہوسکتا ہے۔ دوسری بات یہ کے یہ اچھے میں ہی ہوتا ہے ، میں نےحکومت کی ، میں انسان ہو بہت سے کمزوریاں میری حکومت میں ہوں گی اس کا اثر پبلک پر پڑتا ہے ۔ دوسری پارٹی آتی ہے اس کے بعد تیسری پارٹی آتی ہے۔ تولوگوں کو موازنہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ میرے خیال میں یہ بہتر صورت ہے کہ لوگوں نے اے این پی کو بھی دیکھ لیا ، پھر پی ٹی آئی کو بھی دیکھ لیا ۔ پھر ان کے فلسفے ، فلسفے ہی رہ گئے عوام کو کچھ ڈیلیور نہیں ہوا۔ مجھے ایک انتہائی اعلی ذمہ دار وفد ملا اس نے کہا کہ ہم نے یہ صوبہ اس لیے ان لوگوں کے حوالے کیا کہ پشتون بیلٹ میں مذہب کی جڑیں گہری ہیں اور ان گہری جڑوں کو اکھاڑ نے کے لیے عمران خان سے بہتر آدمی ہمیں نہیں مل سکتا ۔
سوال: 2013 میں جس وقت الیکشن ہوئے تو اس وقت خود عمران خان طالبان سے مذاکرات کی بات کرتے تھے۔ وہ ان کے خلاف جنگ کے خلاف تھے۔
جواب: جب آپ طالبان کی بات کر رہی ہیں تو آپ نے اس ایریا کے اندر بھی جانا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ آپ کس تہذیب کے ساتھ اندر داخل ہورہے ہیں۔ فضل الرحمن جب یہ باتیں کرے گا تو وہ بھی نظر آرہا ہوگا کہ وہ کس نظریے کے ساتھ اندر جارہا ہے کس تہذیب کے ساتھ اندر جارہا ہے کس موقف کے ساتھ اندر جارہا ہے ۔ کچھ قوتیں وہ ہوتی ہیں کہ ایک ایریا اس کے حوالے کیا جاتا ہے وہ مذہبی علاقہ ہے اس میں طالبان انقلاب لے آیا ہے۔
اس صوبے میں اندر جانے کے لیے کچھ حالات تو مواقف بنانے ہی پڑتے ہیں ۔ ایجنڈا کیا تھا ؟ مذہب کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے لیے اور اس فضا کو پیدا کرنے کے لیے جو ایک سو بیس دن کے دھرنے میں منظر سامنے آیا جو اخلاقیات کا جنازہ نکالا گیا جو جنسی آلودگی کا تعفن پھیلایا گیا ۔ خدا کا خوف کرو کہ کوئی انسان ہے جو علیحدگی میں بیٹھ کر اپنے آنسو روک سکے ۔ کوئی خدا کا خوف ہے کسی کے پاس کے اس ملک کی تہذیب پر حملہ ہے اور ہم ان چیزوں پر دیکھ رہے ہیں کہ اس نے طالبان کی بات کی۔
سوال: اس ایجنڈے کو دیکر عمران خان صاحب کو اس صوبے میں بھیجا گیا تھا یا ان کے حوالے کیا گیا تھا تو آپ سمجھتے ہیں ان کو کامیابی ملی؟
جواب: ڈیلیور نہیں کرسکا وہاں ہم نے پانچ سال مقابلہ کیا ، میں نے جنگ لڑی ہے اپنی تہذیب کی اپنے ماحول کی ، اپنے دین کی شناخت کی ۔ اپنے تہذیب کی شناخت کی، پشتون تہذیب کی شناخت کی۔ وطنی تہذیب کی شناخت کی اور میں نے ان کو شکست دی ہے۔ وہ ڈیلیور نہیں کرسکے ہیں وہ اپنے آقاؤں کے سامنے شرمندہ ہیں۔ میں اپنے رب کے سامنے سمجھتا ہوں کہ میں کامیاب ہوا۔
سوال: جب ایم ایم اے کی بحالی ہوتی ہے تو وہ چھ جماعتیں جو ایم ایم اے میں شامل تھیں ان میں سے ایک آپ کے ساتھ کھڑی نہیں ہے ۔ جس ایجنڈے کا آپ نے مقابلہ کیا وہ مولانا سمیع الحق کو سمجھ نہیں آیا وہ آج ان کے اتحادی بھی ہیں؟
جواب: مجھے افسوس ہے اس بات پر کے اس ایجنڈے کے لیے وہ کیوں ان کا سہارا بنے ، ان کو وہاں نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ اس کا ادراک ہونا چاہیے تھا۔ پہلے بھی وہ ایم ایم اے میں تھے ۔ اضافی تنظیم کی حیثیت سے تھے اور وہ بھی میرے اصرار پر تھے کہ میں ان کو ذرا الگ نہیں رکھنا چاہتا تھا ۔ ہمارے ہاں اگر ان کو وہ عزت راز نہیں آرہی تو اس کا ہمارے پاس کیا علاج ہے ۔ میں صرف افسوس کا اظہار کر سکتا ہوں۔ مزید اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا ۔
سوال : کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ اس دفعہ ایم ایم اے کا حصہ کیوں نہیں بنے ۔ کیوں کہ جب آپ کے شروع میں اجلاس ہوئے تھے تو وہ آئے تھے۔
جواب: وہ میرے ساتھ بیٹھے تھے میں نے تجویز دی کہ ہم دوبارہ متحدہ مجلس عمل بنائیں ۔ اس تجویز کو انہوں نے قبول کیا اور اپنی دعاؤں سے انہوں نے اگلے اجلاس کی تاریخ بھی رکھی ۔ لاہور میں ہمارا دوبارہ اجلاس ہوا وہاں وہ خود تشریف نہیں لائے لیکن ان کے تین نمائندے اس میں موجود تھے ۔ اور انھوں نے کہا کہ یہ ہماری دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ متحدہ مجلس عمل وجود میں آگیا ہے۔ ہم حرم میں جاکر اللہ سے کہتے ہیں کہ متحدہ مجلس عمل بحال فرما اور آج ہماری دعائیں اللہ نے سن لی ہیں ۔ اس خوبصورتی کے ساتھ انہوں نے اس کو ویلکم کیا۔ تیسرے اجلاس ہوا کراچی میں اس وقت تک ان کی ملاقاتیں ہوگئیں ۔ ان کو فنڈز ریلیز کیے گئے ان کو سینیٹ کے ٹکٹ کا کہہ دیا گیا ۔ اور اس کے بعد یہ غائب اور پھر زبان پر بھی کنٹرول نہیں وہ وہ کچھ کہہ دیا کہ میں نے اس کا جواب نہیں دیا ہے اور نہ ہی ہم اسکا جواب دینا چاہتے ہیں۔
سوال: انھوں نے کہا کہ میں ایم ایم اے کا حصہ بھی نہیں بننا چاہتا اور اس میں حصہ بننے کو گناہ تصور کرتا ہوں۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ اسلام کے نام پر ایک قوم کو ہم دوبارہ دھوکا نہیں دے سکتے ۔ یعنی وہ یہ بتا رہے ہیں کہ ایم ایم اے نے اسلام کے نام پر قوم کو دھوکا دیا تھا اور اب وہ شامل ہونا گناہ سمجھ رہے ہیں۔
جواب: یہ ان کی کمزوری ہے وہ جذباتی ہو کر بہت کچھ کہہ جاتے ہیں ۔ کیوں کہ ہم ان کے مزاج سے واقف ہیں تو ہم ان کا نوٹس نہیں لیتے کہ اللہ تعالی ان پر رحم کرے ۔
سوال: اگر کہیں کوئی منی لانڈرنگ ہوئی ہے تو بہتر ہے اس کا خمیازہ بھگت لیں ۔ نہیں ہوئی تو عدالت سے کلین چٹ مل جائے گی ۔ معاملہ اتنا سادہ ہے آپ کو لگتا ہے؟
جواب: عدالت سے تو کلین چٹ مل گئی ہے ۔ فیصلہ آگیا جس میں ان کی نااہلی ہوگئی ہے اور وہ پاناما کے مسئلے پر نہیں ہوئی وہ امارات کے اندر کوئی اقامہ کا مسئلہ ہے اس پر ہوئی ہے ۔ لہذا پاناما کا مسئلہ تو کلئیر کردیا ہے عدالت نے مسئلہ تو اقامہ کا ہے ۔
سوال: ملک کا وزیر اعظم اقامہ رکھتا ہوا ۔ جاب پرمننٹ رکھتا ہوا اچھا لگتا ہے ؟
جواب: وہ کاروباری لوگ ہیں اگر قانون اجازت دیتا ہے ۔ قانون کے تحت اقامے بنتے ہیں کوئی زبردستی تو بنا نہیں سکتا ۔ یہ اور بات ہے کہ آپ کہیں کہ آپ کا اتنا لیول ہے آپ کو اقامہ نہیں لینا چاہیے تھا۔ لیکن یہ ہے قانون کے خلاف کیا ہوا ہے اور اگر اس نے وہاں پر ایک کمپنی بنانے کے لیے نام بھی لکھ دیا اور اس کے بعد اس نے تنخواہ بھی نہیں لی وہاں سے تو مجھے آپ بتائیں کہ پاکستان کی عدالت کا یہ فیصلہ دنیا کی کسی عدالت میں بطور نظیر پیش کیا جاسکے گا؟
ایسا فیصلہ دو کہ دنیا کا کہنا ہو کہ پاکستان میں یہ فیصلہ آیا ہے ۔ یہ نظیر ہے اس کی ۔ یہ چیزیں تو کلئیر ہے کہ پانامہ کے اوپر کوئی فیصلہ نہیں آیا اور کلئیر کردیا کہ وہ مسئلہ ہی نہیں ۔ اب وہ اقامہ میں تبدیل ہوگیا ۔ اب اقامہ میں دوچیزیں ہیں کہ آپ کا اتنا بڑا لیول آپ نے اقامہ بنایا کیو لیکن بہرحال وہ اس کا اختیار ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کون ایسے ایجنڈے لے آتا ہے؟
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم بری طرح عالمی قوتوں کے نرغے میں ہیں اور ایسے حالات ہمارے لیے پیدا کردیے جاتے ہیں کہ پانامہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ تمام دنیا کے حکمرانوں کے بارے میں یہ رپورٹس چھپ گئیں لیکن کہیں پر یہ مسئلہ اس طرح سیاسی ایشو نہیں بنا جس طرح پاکستان میں بنا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پیچھے اور کوئی عوامل ہوں گے۔
سوال: کیا بین الاقوامی قوتوں کے ہم نرغے میں ہیں تو ہماری ریاستیں قوتیں بھی ان کے ساتھ نیکسس میں ہیں جو ایک ایجنڈا لیکر آئی ہیں ۔ کسی پروگرام کے تحت نواز شریف کو ہٹایا جارہا ہے یا ان کو نرغے میں لیا جارہا ہے؟
جواب: اتنا بھی زیادہ آپ لوگ خود کو بااختیار نہ سمجھیں ۔ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ ہماری معیشت بین الاقوامی دباو میں ہے ، ہماری دفاع بین الاقوامی دباو میں ہے ۔ ہماری سیاست بین الاقوامی دباؤ میں ہے ۔ اس دباؤ سے ہمیں کیسے نکلنا ہے یہ میری پارٹی کا ایجنڈا ہے ۔
سوال: آپ نے کہا کہ ٹھیک ہے عدالت کا ایک کمزور فیصلہ ہوسکتا ہے کہ پاناما پر نہیں اقامہ پر نکالا۔ لیکن پاناما میں جو الزامات لگے ان الزامات کا سامنا نیب ریفرنس کی شکل میں کررہے ہیں۔ احتساب عدالت کی پیشیاں بھی بھگت رہے ہیں۔ منی ٹریل نہیں دی ، ڈوکمنٹس وہاں جمع کرائے ۔ سیمپل سے بات تھی منی ٹریل دے دیتے بات وہی کی وہی ختم ہوجاتی ۔
جواب: جو چیز منظر عام پر آئی ہے میں صرف اس پر تبصرہ کر رہا ہوں ۔ عدالت کے اندر جب معاملات چلتے ہیں اس پر فضل الرحمن نہیں بولتا ہے۔ تو جو چیزیں منظر عام پر فیصلے کی صورت میں آچکی ہیں ۔ اس پر میں ایک رائے قائم کرسکتا ہوں لیکن جو چیزیں انڈر ٹرائل ہیں اس کا انتظار کیا جائے۔
سوال: الیکشن 2018 کچھ لوگ کہہ رہے ہیں جولائی کچھ کہہ رہے اکتوبر ۔ تو آپ ہوتا دیکھ رہے ہیں؟
جواب: میں بروقت انتخابات کا زبردست حامی ہوں۔ مردم شماری کے بارے میں آرڈر یہ ہوئے ہیں کہ مزید جا کر دوبارہ مردم شماری کی جائے اتنے فیصد علاقوں میں اور ان کی رپورٹ آئے ۔ مردم شماری کا کچھ حصہ ابھی تک باقی ہے اس کی رپورٹ ابھی تک نہیں آئی ہے۔ نہ مکمل رپورٹ پر ہم نے حلقہ بندیاں کردیں ۔ اب اس سے ہلچل آگئی ہے۔ الیکشن جو ہے وہ الیکشن کمیشن کے افسروں نے نہیں لڑنا ۔ الیکشن کوئی ججز نے تھوڑی لڑنا ہے ۔ الیکشن تو ہم نے لڑنا ہے پبلک نے لڑنا ہے اب ان لوگوں لے لیے مسائل کسی کے حق میں ہیں کسی کے حق میں نہیں، ہمیں کسی سے اعتراض نہیں ۔ کسی کو اعتراضات تو ہوں گے ۔ اب وہ اعتراضات الیکشن کمیشن میں جمع ہوں گے ۔
ایک ہزار سے زیادہ ہیں ہر اعتراض کو مکمل طور پر سننا اور اعتراض کرنے والے کا وکیل رکھنا یہ اس کا قانونی حق ہے ۔ اتنا وقت رہ گیا ہے اس دوران میں اور جو بقیہ مردم شماری ہے اس کی رپورٹ کا آنا ۔ ایک ہزار درخواستوں کو نپٹانا پھر اس کے بعد بہت سے چیزیں آگئی تو اتنے ٹائم میں کیا یہ سارا کچھ ممکن ہوگا؟ ۔ اب یہ خبریں شروع ہوگئی ہیں کہ واپس وہی پرانی حلقہ بندیوں کی طرف جائیں گے۔ اب اتنی بڑی ایکسرسائز قوم کا پیسہ اس پر لگا ہے ۔ توانائیاں صرف ہوئیں ہیں لوگ جو ہے وہ میدان میں اترے ہیں ۔ خود الیکشن کمیشن کے لوگوں نے دن رات ایک کیا ہے کوئی ایسا آسان کام تو نہیں ہے تو یہ ساری چیزیں گو مگوں میں چل رہی ہیں۔ جب یہ ساری صورتحال گومگوں کی ہوں گی تو پھر آپ خود فیصلہ کرلیں کہ کیا میں کہہ سکتا ہوں کہ الیکشن ٹائم پر ہوں گے؟
سوال: حال ہی میں ہم نے بلاول بھٹو زرداری کا اسٹیٹمنٹ دیکھا وہ کہتے ہیں کہ پتا نہیں مولاناصاحب اور ان کی جماعت کو فاٹا کے اندر کیا مسئلہ ہے کہ وہ کیو اس کے خلاف ہیں کہ فاٹا کا کے پی کے میں مرجر نہ ہو ۔ ہم کرائیں گے یعنی پیپلزپارٹی کی حکومت یہ مرجر کرائی گی۔ آپ کیو اس کے مخالف ہیں؟
جواب: میرے خیال میں اس بچے کو یہ بھی نہیں پتا کہ فاٹا کا مطلب کیا ہوتا ہے ۔ لیکن تقریر کرلی اس نے ۔ اس بات کا نوٹس نہیں لینا چاہیے، بچہ ہے ابھی۔ اس کا باپ کوئی بات کرتا تو میرا دوست بھی ہے برابر کا بھی اس کو جواب دیا جا سکتا ہے ۔
سوال: آپ کو بلاول بھٹو کی سیاسی بصیرت پر کوئی شک ہے لوگ تو تعریف کرتے ہیں؟
جواب: ہمارا تو برخوردار ہے ۔ میں اپنے بچے کے بارے میں کیا کہوں ۔
سوال: آپ فاٹا کے انضمام کے کیوں خلاف ہیں؟
جواب: میں انضمام کے مسئلے کو یا اس کے علاوہ جو بھی فیصلہ ہو چاہے الگ صوبے کی بات ہو چاہے پرانے کو برقرار رکھنے کی بات ہو اس میں اصطلاحات کی بات ہو ۔ وہ فاٹا کے عوام پر چھوڑ دیا جائے ۔ اس حوالے سے ایک لمبی ڈبیٹ چلی ۔ اور حکومت نے اس بات کا اعتراف کرلیا کہ جو موقف ہمارا تھا وہی زمینی حیقیقت تھی ۔ صرف ایک اقدام کیا انہوں نے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اور ہائی کورٹ پشاور کے دائرے کار کو توسیع دے دی فاٹا تک۔ چنانچہ لوگ پشاور ہائی کورٹ میں گئے ، پشاور کے ہائی کورٹ نے بھی کہا کہ فاٹا کی عوام سے پوچھا جائے تو یہ بہتر ہے ۔ تو اس اعتبار سے میرا خیال ہے کہ ہم نے ہر صورت کو دیکھنا چاہیے ۔ ہمیں ملک سے باہر کا ردعمل بھی انڈر مائنڈ رکھنا چاہیے ۔ ہمیں فاٹا کے اندر کے اضطراب اور سورش سے اس کا بھی خیال رکھنا چاہیے ۔ تو ساری چیزیں کو مدنظر رکھنا چاہیے ہرچیز سے غافل ہوکر یہ سمجھنا کہ سب کچھ میرے ہاتھ میں ہے جو چاہوں کروں تو یہ ممکن نہیں ہوتا ۔
ہم نے ایک ہی بات کہی ہے کہ مشاورت سے ہونا چاہیے ۔ ایک رائے مسلط نہیں کی جائے۔ ہم بھی اس علاقے کے لوگوں سے ووٹ لیتے ہیں ہم بھی ۔ اس اعتبار سے میرا خیال ہے کہ اب حکومت تیار ہوگئی ہے اس حوالے سے کہ یہ واقعی اب یہ مشکلات ہیں تو اب دوبارہ یہ ڈبیٹ نہ چھیڑی جائے ۔ تو تمام پارٹیاں اس کا احترام کرلیں اور لوگوں کے سروں کی قیمت پر الیکشن نہیں لڑنا چاہیے ۔ ہمیں جو آج ان کی مشکلات ہیں اس کو سامنے رکھتے ہوئے ۔ جو فاٹا کے لوگوں پر گزشتہ سالوں پر گزری ہے وہ ہم پارلیمنٹ میں کیا نہیں کہہ چکے ۔ کیا کیا مظالم ہورہے ہیں وہاں پر ؟ ۔
میزبان: اسی لیے تو کہا جارہا ہے کہ ان کو مین اسٹریمنگ پر لایا جارہا ہے
جواب: مین اسٹریمنگ پر لایا جائے لیکن طریقے سے لایا جائے ۔